ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم منبرِ اقدس پر جلوہ فرما تھے کہ ایک صَحابی رضی اللہُ عنہ نے عرض کی:’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم لوگوں میں سب سے ا چّھا کون ہے؟“ ” فرمایا : لوگوں میں سے وہ شخص سب سے اچھّا ہے جو کثرت سے قراٰنِ کریم کی تِلاوت کرے،زیادہ مُتقی ہو،سب سے زیادہ نیکی کا حکم دینے اور بُرائی سے مَنع کرنے والا ہو اور سب سے زیادہ صِلَۂ رِحمی(یعنی رشتے داروں کے ساتھ اچّھا برتاؤ)کرنے والا ہو۔“ (مسندامام احمد،10/402، حدیث: 27504 )
6 فرامِینِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم: ( 1 ) عمامے کے ساتھ دو رَکعت نَمازبِغیر عمامے کی ستّر (70) رَکعتوں سے اَفضل ہیں (الفردوس بمأثور الخطاب ،2/265، حدیث: 3233)
( 2 ) ٹوپی پر عمامہ ہمارے اور مُشْرِکین کے درمیان فرق ہے ہر پیچ پرکہ مسلمان اپنے سر پر دے گا اس پر روزِ قیامت ایک نور عطا کیا جائے گا۔(جامع صغیر ،ص353 ، حدیث:5725) ( 3 ) بے شک اللہ پاک اور اس کے فرِشتے دُرُود بھیجتے ہیں جمعے کے روز عمامے والوں پر(الفردوس بمأثور الخطاب،1/147، حدیث:529) ( 4 ) عمامے کے ساتھ نَماز دس ہزار نیکیوں کے برابر ہے(الفردوس بمأثور الخطاب 2/406، حدیث:3805 ۔ فتاوٰی رضویہ 6/220) ( 5 ) عمامے کے ساتھ ایک جُمُعہ بغیر عمامے کے ستّر (70) جمعوں کے برابرہے(تاریخ ابن عساکر ،37/355) ( 6 ) عمامے عرب کے تاج ہیں تو عمامہ باندھو تمہارا وقار بڑھے گا اور جو عمامہ باندھے اُس کے لئے ہر پیچ پر ایک نیکی ہے۔ (جمع الجوامع ،5/202، حدیث:14536) ( 7 ) دعوتِ اسلامی کے مکتبۃُ المدینہ کی کتاب بہارِ شریعت حصّہ:16 ( 312 صَفحات) ، صفحہ 303پر ہے: عمامہ کھڑے ہوکر باندھے اور پاجامہ بیٹھ کر پہنے، جس نے اس کا الٹا کیا (یعنی عمامہ بیٹھ کر باندھا اور پاجامہ کھڑے ہو کرپہنا)وہ ایسے مرض میں مبُتَلا ہو گا جس کی دوا نہیں ( 8 ) مناسِب یہ ہے کہ عمامے کا پہلا پیچ سر کی سیدھی جانب جائے۔(فتاوٰی رضویہ،22/199 ) ( 9 ) خاتَمُ المرسلین، رَحمۃٌ للعالمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مبارَک عِمامے کا شِملہ عموماً پُشت (یعنی پیٹھ مبارک) کے پیچھے ہوتا تھا اور کبھی کبھی سیدھی جانب ، کبھی دونوں کندھوں کے درمِیان دو شملے ہوتے ، اُلٹی جانب شملے کا لٹکاناخلافِ سنّت ہے۔ (اشعۃ اللمعات ،3/582) ( 10 ) عمامے
کے شملے کی مقدارکم از کم چار اُنگل اور زیادہ سے زیادہ(آدھی پیٹھ تک یعنی تقریباً) ایک ہاتھ(فتاوٰی رضویہ،22/182) ( 11 ) عمامہ قبلہ رُو کھڑے کھڑے باندھئے ۔ (کشف الالتباس فی استحباب اللباس، ص38) ( 13-12 ) عمامہ میں سنّت یہ ہے کہ ڈھائی گز سے کم نہ ہو، نہ چھ گز سے زیادہ اور اس کی بندِش گنبد نُما ہو ۔ (فتاوٰی رضویہ ،22/186) ( 15-14 ) رومال اگربڑا ہو کہ اتنے پیچ آسکیں جوسرکوچھپالیں تووہ عمامہ ہی ہوگیا اور چھوٹا رومال جس سے صرف دوایک پیچ آسکیں لپیٹنا مکروہ ہے(فتاوٰی رضویہ 7/299) ( 16 ) عمامہ اُتارتے وَقت(بندھا بندھایا رکھ دینے کے بجائے ) ایک ایک کر کے پیچ کھولاجائے۔ (فتاوٰی عالمگیری، 5/330) ( 17 ) حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلَوی رحمۃُ اللہِ علیہ فر ما تے ہیں: ”دَسْتار مُبارَک آنْحَضرَت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم دَر اَکْثَر سَفَیْد بُوْد وَگاہے سِیاہ اَحیاناً سَبْز۔ (نبیِّ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا عمامہ شریف اکثر سفید ،کبھی سیاہ اور کبھی سبز ہوتا تھا۔ ) (کشف الالتباس فی استحباب اللباس، ص38)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے عمامہ شریف کا بھی نام رکھا ہوا تھا چنانچہ فَنا فِی الرَّسول حضرت علامہ یوسف بن اسماعیل نَبہَانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے عمامے شریف کا نام ”سَحاب “ تھا جو آپ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ کو عطا فرما دیا تھا۔ (وسائل الوصول الی شمائل الرسول ، ص 119)
شان کیا پیارے عمامے کی بیاں ہو یانبی
تیری نعلِ پاک کا ہر ذرَّہ رشکِ طور ہے
اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری نبی، مکی مَدَنی، محمد ِ عربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے:”تم میں سے اچھے لوگ اذان کہیں اور قُرّاء اِمامت کریں ۔ “ (ابوداود ، 1/242، حدیث:590) ارشادِ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ : اسلام میں نمازبہت اہم عبادت ہے اور اس کی ادائیگی کیلئے بہت احتیاط درکار ہے یہاں تک کہ ہمارے علمائے کرام نے صراحت فرمائی ہے، ”اگر نماز چند وجہ سے صحیح ہوتی ہے اورایک وجہ سے فاسد،تواسے فاسد ہی قرار دیں گے۔“ (فتاوٰی رضویہ،6/555 تسہیلاً )مزید فرماتے ہیں: ’’امام ایساشخص (مقرر) کیا جائے جس کی طہارت صحیح ہو ،قراء ت صحیح ہو ،سُنّی صحیحُ العقیدہ ہو، فاسق نہ ہو، اس میں کوئی بات نفرتِ مُقْتَدِیان (مقتدیوں کو نفرت دِلانے )کی نہ ہو،مسائلِ نماز و طہارت سے آگاہ ہو۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ، 6/619)
*اسلام کی بہترین خدمت اور رزقِ حلال کے حصول کا ایک عمدہ ذریعہ مسجد کی ”ا مامت “ بھی ہے، مگر خبردار! بے پروائی کے باعث مقتدیوں کی نمازوں کابوجھ جہنّم میں پہنچاسکتا ہے، لہٰذا طہارت و نماز وغیرہ کے ضروری مسائل سے آگاہی ہونا اور ان کے مطابق عمل کرنا لازِم ہے۔ممکن ہو تو ” دعوتِ اسلامی“ کے عالمی مَدَنی مرکزفیضانِ مدینہ، محلہ سوداگران، پرانی سبزی منڈی، کراچی میں (یاجہاں میسرآئے وہاں) امامت کورس ضرور ضرور ضرور کیجیے۔ (اَلحمدُ لِلّٰہ ”شعبہ امامت کورس“ کے تحت5ماہ کا ”امامت کورس “ اور 10ماہ کا ”قرآن لَرنِنگ کو رس“ شروع کیا گیا ہے۔ )
( 1 ) ”بہارِشریعت “کے ابتدائی چارحصے پڑھ کرسمجھ لیجیے،ضرورتاًعلمائے اہلِ سُنّت سے بھی رہنمائی حاصل کیجئے ( 2 ) نمازمیں جوسورتیں اور اَذکار پڑھتے ہیں وہ لازماً کسی سُنّی قاری صاحب کو سنا دیجئے (دعوتِ اسلامی کی ” ٹیسٹ مجلس“ کو بھی سنا سکتے ہیں) ( 3 ) اگر مَعاشی پریشانی نہ ہو تو بلااُجرت امامت اِن شاءَ اللہ آپ کیلئے دونوں جہاں میں باعث ِ سعادت ہے ۔
بِلا اُجرت اذان وامامت کی فضیلت: حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: ’’امام و مُؤَذِّن کو ان سب کے برابر ثواب ہے جنہوں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ہے۔‘‘ (کنز العمال ، 4 / 239 ، حدیث: 20370، بہارِ شریعت،1/558) ( 4 ) بلاسخت مجبوری تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ مناسب نہیں ( 5 ) زیادہ مُشاہرے کی لالچ میں دوسری مسجدمیں چلے جاناایک امام کوکسی طرح زیب نہیں دیتا ( 6 ) ہو سکے تو پیشگی تنخواہ نہ لیجئے بلکہ پہلی تاریخ سے قبل بھی تنخواہ قبول نہ کیجئے کہ زندگی کا کیا بھروسا! ( 7 ) سوال کرنے، بلکہ قرض مانگنے سے بھی بچئے ( 8 ) آج کل بعض امام و خطیب اپنے آ پ کو صرف ”خطیب “اور بعض مُؤَذِّن صاحِبان خودکو” نائب ا مام“ کہناکہلواناپسند کرنے لگے ہیں، امامُ الانبیا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے غلام کو ”امام“ اور سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مُؤَذِّن حضرتِ بلال رضی اللہُ عنہ کے دیوانے کو ’’مُؤَذِّن‘‘ کہلوانے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے ( 9 ) لباسِ تقویٰ اختیار کیجئے۔ جھوٹ، غیبت، چغلی، وعدہ خلافی وغیرہ گناہوں سے پرہیزکرتے رہئے، ورنہ آخرت کے نقصان کے ساتھ ساتھ دنیامیں بھی لوگ آپ سے بدظن ہوں گے ( 10 ) زیادہ بولنے، خوب قہقہے لگانے اور مذاق مسخری کرنے سے عزت و وقار میں کمی آتی ہے، مقتدیوں سے زیادہ بے تکلف بھی مت ہوں ورنہ آپس کا لحاظ جاتا رہے گا ( 11 ) حُبِّ جاہ سے بچئے، شہرت و عزت بنانے کی خواہش و کوشش میں ہلاکت ہی ہلاکت ہے ( 12 ) امام کا مِلَنْسار ہونا لوگوں کو دین کے قریب کرنے کیلئے نہایت مفید ہے لہٰذانمازوں کے بعدلوگوں سے ملاقات فرمایئے پھر تھوڑی دیر کیلئے وہیں تشریف بھی رکھئے مگر دنیاکی باتیں ہرگز مت کیجئے، صرف دینی گفتگو وہ بھی آہستگی کے ساتھ کیجئے، کہ نمازیوں وغیرہ کو تشویش (یعنی پریشانی) نہ ہو ( 13 ) جو امام ملنسارنہ ہو، لوگوں سے دُور دُوررہے یا صرف اپنے جیسے داڑھی عمامے والوں ہی سے میل جول رکھے توہو سکتا ہے عام لوگ اُس امام سے دُور بھاگیں، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امامت وغیرہ میں آڑا (یعنی مشکل) وقت آنے کی صورت میں لوگوں کے تعاون سے محرومی رہے اور پھر…… ( 14 ) مُؤَذِّن و خُدّامِ مسجد وغیرہ سے محبت بھرا رویہ رکھئے، ا ن پرحکم چلانے کے بجائے سعادت سمجھتے ہوئے موقع بہ موقع اپنے ہاتھوں سے مسجدکی صفائی وغیرہ کرتے رہئے، دریاں بھی خودبچھالیجئے، غیر ضروری بتی پنکھے وغیرہ بھی خود ہی بند کردیجئے ( 15 ) وضو خانے وغیرہ کی صفائی میں بھی خُدّامِ مسجد کا ہاتھ بٹایئے۔ اِن شاءَ اللہ خوب ثواب بھی ملے گا اور محبت بھری فضا بھی قائم ہوگی ( 16 ) مسجد کی انتظامیہ کے ساتھ ہرگز اُلجھاؤ پیدا نہ کیجئے، ان کے سا تھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آیئے اور کوشش کرکے انہیں ہر ماہ تین دن کیلئے دعوتِ اسلامی کے سنتیں سیکھنے سکھانے کے مَدَنی قافلوں میں سفر کروایئے ( 17 ) کسی بھی سُنّی امام و انتظامیہ سے ہرگز مت بگاڑیئے، ان پر تنقید کرکے انہیں اپنا مخالف نہ بنایئے، بالفرض کبھی آپ سے کوتاہی ہو بھی جائے توفوراً معافی مانگ لیجئے۔ ہاں اگر کسی کی شرعی غلطی ہو تو نہایت نرمی کے ساتھ براہِ راست اس کی ا صلاح کیجئے ( 18 ) اَطراف کی مساجد کے ائمۂ اہلِ سنّت اور مساجد کی کمیٹیوں سے اچھے تعلقات قائم کیجئے اورانہیں دعوتِ اسلامی سے خوب قریب کیجئے اور سنتیں سیکھنے سکھانے کے مَدَنی قافلوں میں ہر ماہ تین دن کیلئے سفر کروایئے ( 19 ) جمعہ و عیدین میں اعلیٰ حضرت کے ”خطباتِ رضویہ“ ہی پڑھئے۔ (”اسلامک ریسرچ سینٹر“ (دعوتِ اسلامی) نے ان خطبوں کو مختصر کر کے”فیضانِ خطباتِ رضویہ“ کے نام سے جاری کیا ہے) ( 20 ) جمعہ کوعموماً نمازیوں کی اکثریت خطبے کے وقت پہنچتی ہے، ایسے میں لوگوں کی نفسیات کاخیال رکھنا بہت ضروری ہے، مثلاً مقررہ وقت پرجماعت قائم ہونا، بیان میں مناسب دلچسپی کاسامان مہیا کرنا وغیرہ۔ بیان آسان اور سادہ الفاظ پرمشتمل ہونا چاہئے ، عوا م میں اَدَق (یعنی بہت مشکل) مضامین نہ چھیڑیئے، اِس روایت: کَلِّمِ النَّاسَ عَلٰی قَدْرِعُقُوْلِھِمْ (یعنی ” لوگوں کی عقلوں کے مطابق کلام کرو۔“ (مرقات ،9/373) ) کو مدِّنظر رکھئے، عموماً لوگ اولیائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کے واقعات و کرامات دلچسپی سے سنتے ہیں اور اگر اُن کو سنتیں بھی سکھائی جائیں تو ایک دَم قریب آجاتے ہیں۔ قبر و آخرت کی تیاری کا ذہن بھی دیجئے، ہر بیان کا اختتام دعوتِ اسلامی کے سنتیں سیکھنے سکھانے کے مَدَنی قافلوں میں سفر کی ترغیب پر ہو تو مدینہ مدینہ۔ (بالخصوص دعوتِ اسلامی کے ” شعبہ ائمۂ مساجد“ سے تعلق رکھنے والے ائمہ و خطبا ”ہفتہ وار رسالہ مطالعہ“ سے ہی جمعہ کا بیان فرمائیں) ( 21 ) بیان، خطبہ ،دعاوصلوٰۃ وسلام وغیرہ کیلئے اسپیکر آف (OFF) ہونے کی حالت میں منہ کی سیدھ میں پہلے ہی سے جما لیجئے پھراس کو آن(ON) کیجئے ورنہ ” کھڑ کھڑ “ کاانتہائی ناپسندیدہ شورمسجدمیں گونجے گا ﴿22﴾ علمائے ا ہلِ سنّت کے مابین جن مسائل میں اختلاف پایا جاتا ہے اُن کے بیان سے اِجتناب فرمایئے ( 23 ) اگر آپ باصلاحیت عالم ِ دِین ہیں تو روزانہ درسِ قرآن (کنزالایمان شریف ، تفسیرِ صِراطُ الجِنان سے) اور اِسی طرح اہل ہونے کی صورت میں درسِ حدیث دینے کا شرف حاصل کیجئے ( 24 ) بیان وغیرہ میں اپنے لیے عاجِزی کے الفاظ کہتے وقت دل پر غور کرلیجئے اگر اُس وقت قلب عاجزی سے خالی ہو تو اِنکِساری کے الفاظ سے آپ خودکوجھوٹ اور ریاکاری کے گناہ سے کس طرح بچاسکیں گے؟ ( 25 ) درس وبیان سے قبل تیاری کی عادت بنایئے ( 26 ) دیگر کتب ِ دینیہ کے ساتھ ساتھ حُسّامُ الحَرَمَین، اِحیاءُ العُلوم،مِنْہَاجُ العابدین وغیرہ بھی مطالعے میں رکھئے ( 27 ) روزانہ فیضانِ سنت کا درس دینے یا سننے کی سعادت حاصِل کیجئے ( 28 ) آپ کی مسجدمیں ہفتہ وار علاقائی دورہ ضرور ہونا چاہیے اس میں آپ خودبھی شریک ہوں، پھر دیکھئے آپ کی مسجد میں سنتوں کی کیسی بہاریں آتی ہیں ( 29 ) ہرماہ کم ازکم تین دن سنتیں سیکھنے سکھانے کیلئے مَدَنی قافلے میں سفرکواپنا معمول بنایئے،اِن شاءَ اللہ اس کی برکتیں خود ہی دیکھ لیں گے ( 30 ) روزانہ اپنے اعمال کا جائزہ لے کر ”نیک اعمال“ کا رسالہ پُر کیجئے اور ہر ماہ کی پہلی تاریخ اپنے یہاں کے ”شعبۂ اصلاحِ اعمال“ کے ذمّے داراسلامی بھائی کوجمع کرواتے رہئے۔ اِن شاءَ اللہ تقویٰ کا انمول خزانہ ہاتھ آئے گا اور عشقِ رسول کے چھلکتے جام نصیب ہوں گے۔