سلسلہ: ایمانیات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ سے پیوستہ:سابقہ اقساط میں آخرت پر ایمان سے متعلق باتیں بیان ہوئیں اور قیامت کے دن کی مقدار کا تذکرہ ہوا، اب زمین کی کیفیت سے متعلق کچھ باتیں پیش ہیں۔ چنانچہ،
یاد رکھئے! زمین کے متعلق قرآنِ کریم میں جو کچھ مذکور ہے اس پر ایمان لانا ضروری ہے کہ وہ سب حق ہے۔ چنانچہ قرآن و حدیث میں زمین کی مختلف کیفیات و احوال کو بیان کیا گیا ہے، مثلاً قرآنِ پاک میں ایک مقام پر ہے: وَ الْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ (پ24، الزمر:67) ترجمۂ کنز العرفان:اور قیامت کے دن ساری زمین اس کے قبضے میں ہوگی ۔یعنی اس دن کوئی بھی زمین کے کسی بھی حصے پر اس کی ظاہری ملکیت کا دعوی نہ کر سکے گا۔( ) یہی مفہوم بخاری شریف کی ایک روایت میں کچھ یوں بیان ہوا ہے کہ قیامت کے دن زمینوں کو لپیٹ کر اللہ پاک اپنے دستِ قدرت میں لے گا اور فرمائے گا: میں ہوں بادشاہ کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟(2) یہاں لپیٹنے سے مراد چلے جانا اور ختم ہوجانا ہے۔ (3) جبکہ ایک مقام پر یہ ارشاد ہوا ہے: اِذَا دُكَّتِ الْاَرْضُ دَكًّا دَكًّاۙ (۲۱) (پ30، الفجر:21) ترجمہ کنز العرفان: جب زمین ٹکرا کر ریزہ ریزہ کردی جائے گی۔ایسا پہلے نفخہ کے وقت ہو گا۔ (4) مگر دوسرے نفخہ کے بعد زمین کی کیفیت و حالت کیا ہو گی، اس کے متعلق ایک مقام پر ہے: وَ اِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْۙ(۳) (پ30، الانشقاق: 3) ترجمہ کنز العرفان: اور جب زمین کو دراز کر دیا جائے گا۔یعنی زمین کی وسعت میں روزِ قیامت اضافہ کردیا جائے گا، خواہ زمین کو پھیلا کر اضافہ کیا جائے یا اس کی لمبائی چوڑائی کو بڑھا دیا جائے۔ اضافہ اس لئے کیا جائے گا کیونکہ اس دن اس زمین میں ساری مخلوق حساب کے لئے کھڑی کی جائے گی۔(5) ایک روایت میں بھی ہے: روزِ قیامت زمین کو خوب پھیلا دیا جائے گا اور ہر فرد کے لئے اتنی ہی جگہ ہو گی جس پر وہ اپنے قدم رکھ سکے۔(6) ایک روایت میں ہے کہ زمین کو اس طرح بچھا دیا جائے گا جیسے کھال کو بچھاتے ہیں اور اس کی وسعت میں خوب اضافہ کر دیا جائے گا۔ (7) یہ وسعت کیسی ہو گی اسکے متعلق کچھ یوں وضاحت ملتی ہے: فَیَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًاۙ(۱۰۶) (پ16، طٰہ: 106-107) ترجمہ کنز العرفان: تو زمین کو ہموار چٹیل میدان بنا چھوڑے گا، تو اس میں کوئی ناہمواری دیکھے گا اور نہ اونچائی۔یعنی قیامت کے دن زمین ایسی ہموار ہوگی کہ اس میں پستی اور اونچائی بالکل نہ ہو گی۔(8) جیسا کہ ایک روایت میں بھی ہے کہ قیامت کے دن لوگ ایک چٹیل میدان میں کھڑے کئے جائیں گے جو ہر قسم کے درختوں، اونچے نیچے ٹیلوں اور عمارتوں سے پاک ہو گا۔(9) بہارِ شریعت میں ہے کہ قیامت کے دِن زمین ایسی ہموار ہو گی کہ اِس کنارہ پر رائی کا دانہ گر جائے تو دوسرے کنارے سے دکھائی دے گا۔(10)
اس دن زمین دنیا کی زمین جیسی نہیں ہو گی جیسا کہ منقول ہے: یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ (پ13، ابراہیم:48) ترجمہ کنز العرفان: جس دن زمین کو دوسری زمین سے بدل دیا جائے گا۔
زمین کی اس تبدیلی کے متعلق مختلف روایات و اقوال مروی ہیں: مثلاً * اس زمین کو لپیٹ دیا جائے گا اور اس کے پہلو میں دوسری زمین بچھا دی جائے گی۔ * بہارِ شریعت میں ہے اُس دن زمین تانبے کی ہوگی۔(11) * زمین کو آگ سے بدل دیا جائے گا۔(12) * زمین کو ایسی زمین سے بدلا جائے گا جو چاندی کی طرح سفید ہو گی، اس میں نہ تو حرام خون بہایا گیا ہوگا اور نہ اس زمین پر کوئی گناہ ہوا ہوگا۔(13) * وہ زمین چاندی کی ہو گی۔(14) * بروز ِ قیامت لوگوں کا حشر سرخی مائل سفید چٹیل زمین پر ہو گا جو آٹے کی صاف روٹی کے مانند ہو گی۔(15) * لوگ قیامت کے دن اس سفیدزمین میں جمع کئے جائیں گے جو میدے کی روٹی کی طرح ہے جس میں كسی کے لئے کوئی آڑ نہ ہوگی۔ (16) * زمین ایک روٹی کی طرح ہوگی، جنتیوں کی مہمانی کے لیے اللہ پاک اسے اپنے دستِ قدرت سے پلٹے گا۔(17) یہا ں مہمانی سے وہ اشیا مراد ہیں جو کھانا شروع کرنے سے قبل مہمانوں کو پیش کی جاتی ہیں۔(18) مذکورہ احادیث اور آثار وغیرہ کی وجہ سے بزرگانِ دین میں یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا اس زمین کی حقیقت ہی بدل جائے گی یا پھر اس کی صفات تبدیل ہوں گی؟ چنانچہ تفسیر ِ خازن میں ہے کہ ایک قول کے مطابق زمین کے اوصاف بدل دیئے جائیں گے، مثلاً زمین ایک سطح ہو جائے گی ،نہ اس پر پہاڑ باقی رہیں گے نہ بلند ٹیلے نہ گہرے غار، نہ درخت نہ عمارت نہ کسی بستی اور اقلیم کا نشان۔یہ تبدیلی اوصاف کی ہے ذات کی نہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ زمین کی ذات ہی بدل دی جائے گی، اس زمین کی جگہ ایک دوسری چاندی کی زمین ہوگی ،سفید و صاف ہو گی جس پر نہ کبھی خون بہایا گیا ہو گا نہ گناہ کیا گیا ہو گا۔ یہ دونوں اقوال اگرچہ بظاہر ایک دوسرے کے مخالف لگ رہے ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ صحیح ہے وہ اس طرح کہ پہلی مرتبہ زمین کی صفات تبدیل ہوں گی اور دوسری مرتبہ حساب کے بعد دوسری تبدیلی ہوگی۔ اس میں زمین کی ذات ہی بدل جائے گی۔(19)لیکن امام سیوطی نے البدور السافرہ میں نقل فرمایا ہے کہ حضرت ابن ابوحمزہ نے زمین کی حقیقت بدلنے کے قول کو ترجیح دیتے ہوئے اشارہ فرمایا ہے کہ دنیاوی زمین تھرتھرائےگی اور ختم ہو جائے گی اور حشر کے لیے نئی زمین بنائی جائے گی کیونکہ وہ دن عدل اور حق کے ظہور کا ہو گا تو حکمت بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ یہ عدل و انصاف ایسی سرزمین میں ہو جو گناہوں اور ظلم سے پاک صاف ہو اور اس لیے بھی کہ اللہ پاک کی اپنے ایمان دار بندوں پر تجلی ایسی زمین پر ہو جو اس کی عظمت کے لائق ہو۔ جبکہ امام ابن حجر رحمۃُ اللہِ علیہ بیان کرتے ہیں: مذکورہ روایات و آثار میں کوئی تضاد نہیں، کیونکہ دنیاوی زمین کے بیان کردہ اوصاف کی تبدیلی کے بعد لوگوں کو جھڑکتے ہوئے محشر کی زمین کی طرف جمع کیا جائے گا۔ مزید یہ کہ وہ احادیث جن میں سے بعض میں زمین کا روٹی بننا، بعض میں غبار بن جانا اور بعض میں آگ بن جانا آیا ہے ان میں بھی باہم منافات نہیں ہے کیونکہ ان تمام ہی احادیث کے درمیان تطبیق کرنا ممکن ہے، وہ یوں کہ زمین کا بعض حصّہ روٹی، بعض غبار اور بعض حصّہ آگ ہوجائے گا اور جو حصّہ آگ بنے گا حضرت اُبی بن کعب رضی اللہُ عنہ کی روایت کےمطابق وہ سمندر کی زمین ہو گی۔(20)
امام طبری رحمۃُ اللہِ علیہ اپنی کتاب التذکرہ میں مذکورہ اقوال و آثار وغیرہ ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:بظاہر یوں لگتا ہے کہ قیامت کے دن زمین کی کیفیت اور حالتوں میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے،حالانکہ ایسا نہیں،کیونکہ زمین میں دومرتبہ تغیر وتبدل واقع ہو گا۔ پہلی مرتبہ اللہ پاک زمین کی صفات کو بدل دے گا اور یہ بے ہوشی کے لیے صور پھونکنے سے قبل ہو گا۔ اس تبدیلی میں آسمان کے ستارے جھڑ کر گر جائیں گے،چاند سورج بے نور ہو جائیں گے،سمندر آتش کدے بن جائیں گے، زمین ایک کنارے سے دوسرے تک پھٹ جائے گی۔ پھر جب بے ہوشی کا صور پھونکا جائے گا تو زمین کو دباغت شدہ کھال کی طرح پھیلا کر پہلی حالت پر لوٹا دیا جائے گا، اس پر قبریں ہوں گی زمین کی پشت پر اور اس کے پیٹ میں انسان ہوں گے۔ دوسری تبدیلی اس وقت ہو گی جب لوگ محشر میں کھڑے ہوں گے، اس بدلی ہوئی زمین کا نام الساھرہ ہو گا، اس پر لوگ بیٹھ جائیں گے اور وہ زمین سفید چاندی کی ہو گی جس پر کبھی کوئی حرام خون ریزی کی گئی ہوگی نہ اس پر کوئی ظلم ہوا ہو گا۔ (21) زمین کی اسی تبدیلی کے متعلق نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا نے عرض کی تھی کہ اس وقت لوگ کہاں ہوں گے؟ تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس وقت لوگ پل صراط پر کھڑے ہوں گے۔(22)
امام طبری رحمۃُ اللہِ علیہ مزید فرماتے ہیں: زمین کی تبدیلی کے وقت جب لوگ پل صراط پر کھڑے ہوں گے تو اس وقت پل صراط پر تل دھرنے کو جگہ نہ ہو گی، اگر چہ پل صراط بہت بڑا ہے کیونکہ ایک روایت میں ہے کہ پل صراط کے اوپر تک چڑھنے اور پھر نیچے اترنے کے لیے ایک ایک ہزار سال کی مسافت طے کرنی پڑے گی اور اسی طرح اس کی سطح پر ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک اگر کوئی جانا چاہے تو اسے بھی ہزار برس لگ جائیں مگر مخلوق اس سے بہت زیادہ ہوگی اور وہ اتنے بڑی جگہ پر بھی نہ آ سکے گی چنانچہ جو لوگ پل صراط پر کھڑے ہونے سے بچ جائیں گے وہ جہنم کی پشت پر قیام کریں گے۔ نیز وہ زمین جس کو ساھرہ کہا جا تا ہے پگھل کر جمی ہوئی چربی یا کسی دھات کی مانند ہو جائے گی۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ یہ ز مین آگ کی ہو گی، اس پر کھڑے ہونے سے انسان پسینہ پسینہ ہو جائیں گے، پھر جب ساھرہ نامی زمین پر لوگوں کا حساب کتاب ہو چکے گا اور وہ پل صراط پر آئیں گے تو جنتی لوگ پل صراط کے پار دوسری طرف چلے جائیں گے جبکہ دوزخی آگ میں جا پڑیں گے۔ جب جنتی لوگ انبیائے کرام علیہمُ السّلام کے حوضوں پر پانی پی رہے ہوں گے تو اس وقت زمین کو سفید میدے کی روٹی بنا دیا جائے گا اور وہ اپنے پیروں کے نیچے سے روٹی کھائیں گے۔ (23)حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مسلمانوں کو قیامت کے طویل ترین دن بھوک کا عذاب نہیں دیا جائے گا، بلکہ اللہ پاک زمین کی فطرت کو بدل دے گا، یہاں تک کہ جب تک اللہ پاک چاہے گا مسلمان اس میں سے اپنے قدموں کے نیچے سے کھاتا رہے گا۔(24) اس کے بعد جب جنت میں داخل ہوں گے تو اس وقت بھی ایک ہی روٹی ہوگی جس سے سارے جنتی کھائیں گے اور ساتھ سالن بیل اور مچھلی کی کلیجی کا تیار کیا ہو گا۔(25)
روزِ قیامت زمین اپنے خزانے اُگل دے گی:ارشادِ الٰہی ہے: وَ اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَاۙ(۲) (پ 30، الزلزال: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور زمین اپنے بوجھ باہر پھینک دے گی۔یہی مفہوم سورۃ الانشقاق میں یوں مذکور ہے: وَ اَلْقَتْ مَا فِیْهَا وَ تَخَلَّتْۙ(۴) (پ30، الانشقاق: 4) ترجمہ کنز العرفان: اور جو کچھ اس میں ہے زمین اسے (باہر) ڈال دے گی اور خالی ہوجائے گی۔ یعنی زمین اپنے پیٹ سے تمام مُردوں اور خزانوں کو باہر نکال دے گی اور یوں زمین خالی ہوجائے گی یعنی اس کے پیٹ میں کچھ باقی نہ بچے گا۔(26)
روزِ قیامت زمین گواہی دے گی:ارشادِ خداوندی ہے: یَوْمَىٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَاۙ(۴) (پ30، الزلزال: 4) ترجمہ کنز العرفان: اس دن وہ اپنی خبریں بتائے گی۔یعنی قیامت کے دن زمین لوگوں کے اعمال کی گواہ ہوگی جس نے اچھے کام کئے یا جس نے برے کام کئے سب کے بارے میں زمین بتادے گی اس لئے زمین سے ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے۔ ایک روایت میں ہے: زمین سے محتاط رہو کہ یہ تمہاری اصل ہے اور جو کوئی اس پر اچھا یا برا عمل کرے گا یہ اس کی خبر دے گی۔(27)
سلسلہ: فیضان سیرتِ نبوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسری کے محل کے برجوں کا گرنا اور آتش کدہ سرد ہونا:جس رات حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پیدا ہوئے کسری کا محل لرز اٹھا اور اس کے 14برج (مینارے) گر گئے۔ ایران کا وہ آتش کده سرد ہو گیا جو ایک ہزار سال سے مسلسل دہک رہا تھا، دریائے ساوہ خشک ہو گیا اور مجوسی عالم موبذان نے خواب میں دیکھا کہ طاقت ور اونٹ عربی گھوڑوں کو ہانکتے ہوئے لائے اور دریائے دجلہ عبور کرتے ہوئے انہیں ایران میں پھیلا دیا۔ صبح ہونے پر کسریٰ شاہِ ایران بڑا پریشان تھا مگر اس نے صبر کیا اور سوچا کہ اس بارے میں وزیروں وغیرہ سے مشورہ کرنا چاہئے۔ چنانچہ اس نے تاج پہنا اور اپنے تخت پر بیٹھتے ہی موبذان کو بلا کر کہا: موبذان ! آج رات میرے محل کے 14 برج گر گئے ہیں اور ہزار سال سے مسلسل دہکنے والا آتش کدہ بھی بجھ گیا ہے! اس پر موبذان بولا: اے بادشاہ ! میں نے بھی آج ایک عجیب خواب دیکھا ہے کہ کچھ طاقتور اونٹ عربی گھوڑوں کو ہانکتے ہوئے لائے اور دجلہ عبور کروا کر انہیں ہمارے ملک میں پھیلا دیا۔ شاہ نے کہا: موبذان! اب بتاؤ کیا کیا جائے؟ موبذان علم میں ان سب کا امام تھا، کہنے لگا: عرب میں کوئی حادثہ ہوا ہے۔ کسریٰ نے اسی وقت (یمن کے فرماں روا) نعمان کو حکم بھیجا کہ اس کے پاس ایک ایسے شخص کو بھیجا جائے جو اس کے سوالات کا جواب دے سکے ۔چنانچہ نعمان نے فوراً عبد المسيح نامی ایک شخص کو بھیج دیا۔ جس سے شاہ ایران نے جب یہ پوچھا کہ کیا تمہارے پاس میرے سوالات کا جواب ہے تو وہ بولا: اگر مجھے علم ہوا تو جواب دوں گا ورنہ کسی علم والے کا راستہ بتاؤں گا جو جواب دے سکے۔ بادشاہ نے اسے سارا ماجرا سنایا تو وہ بولا: اس کا علم تو میرے ماموں سطیح کے پاس ہے جو شام کے ایک پہاڑ میں رہتا ہے ۔لہٰذا بادشاہ نے اسے وہاں بھیج دیا۔ جب وہ سطیح کے پاس پہنچا تو وہ آخری سانسیں لے رہا تھا۔ عبد المسیح کی پکار پر سطیح نے سر اٹھایا اور یہ بتایا کہ ان ساسانیوں ( شاہانِ فارس ) سے اتنے ہی افراد بادشاہ بنیں گے جتنے برج گرے ہیں اور جو کچھ ہونے والا ہے وہ ہو کر رہے گا۔ یہ کہہ کر سطیح مر گیا۔ پھر عبد المسیح نے واپس آکر کسریٰ کو سارا ماجرا سنایا تو وہ بولا: ہم میں سے 14 بادشاہوں کے گزرنے تک کچھ کا کچھ ہو چکا ہو گا (اس لئے کوئی فکر والی بات نہیں)۔مگر کہتے ہیں کہ صرف 4برس میں ان کے 10 بادشاہ گزر گئے اور باقی بھی یونہی جلد ختم ہو گئے ۔( )
حضور کی پیدائش کے وقت کی کہانی سیدہ آمنہ کی زبانی: جب حضور کی پیدائش کا وقت ہوا تو بی بی آمنہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں میں گھر میں تنہا تھی، اس وقت میں نے ایک عظیم آواز سنی جس سے میں خوفزدہ ہو گئی ۔ پھر میں نے دیکھا کہ ایک سفید مرغ کا بازو میرے سینے کو مل رہا ہے تو میرا خوف وغیرہ جاتا رہا۔ پھر میں نے دیکھا کہ میرے پاس ایک سفید شر بت کا پیالہ لا یا گیا، میں نے اسے پیا اور سکون و قرار حاصل ہوا۔ پھر میں نے نور کا ایک بلند مینار دیکھا، اس کے بعد اپنے پاس بلند قامت والی عورتیں دیکھیں جن کا قد عبد مناف کی لڑکیوں کی مانند کھجور کے درختوں کی طرح تھا۔ میں حیران ہوئی، یہ کہاں سے آ گئیں، اس پر ان میں سے ایک بولی: میں آسیہ فرعون کی بیوی ہوں ۔ دوسری نے بتایا کہ میں مریم بنت عمران ہوں اور یہ عورتیں حورِ عین ہیں۔ میرا حال بہت سخت ہو گیا اور ہر گھڑی عظیم سے عظیم تر آوازیں سنتی جس سے خوف معلوم ہوتا تھا۔ اسی حالت کے دوران میں نے دیکھا کہ زمین و آسمان کے درمیان ایک پردہ سا کھینچ دیا گیا، پھر میں نے دیکھا کہ پرندوں کی ایک ڈار میرے سامنے آئی یہاں تک کہ میرا کمرہ ان سے بھر گیا۔ ان کی چونچیں زمرد کی اور بازو یا قوت کے تھے۔ اللہ پاک نے میری آنکھوں سے پردہ اٹھا دیا اور میں نے مشارق و مغارب کو دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ تین جھنڈے ہیں: ایک مشرق میں، ایک مغرب میں اور ایک خانہ کعبہ کے اوپر نصب ہے۔ آپ مزید حضور کی پیدائش کے متعلق فرماتی ہیں کہ جب وہ پیدا ہوئے تو اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ سجدے میں ہیں اور دونوں ہاتھوں کی شہادت کی انگلیاں آسمان کی جانب اٹھائے ہوئے بڑی ہی عاجزی کے ساتھ رو رہے ہیں۔ پھر میں نے ایک سفید بادل د یکھا جس نے انہیں میری نظروں سے چھپا دیا اور یہ آواز آئی کہ انہیں زمین کے مشارق و مغارب میں موجود تمام شہروں کی سیر کراؤ تا کہ وہاں کے رہنے والے ان کے اسم مبارک اور صورت کو پہچان لیں اور جان لیں کہ یہ شرک کے آثار کو ختم کرنے والے ہیں۔ (2)
ایک اور روایت میں ہے کہ سیدہ آمنہ رضی اللہُ عنہا ان کی نظروں سے غائب ہو گئے، اس وقت انہوں نے کسی کو یہ کہتے سنا: حضور کوز مین کے جملہ گوشوں کی سیر کرواؤ اور جن و انس کی روحوں، فرشتوں، پرندوں اور چرندوں کو زیارت کراؤ۔ نیز ان کو حضرت آدم کے اخلاق، حضرت شیث کی معرفت، حضرت نوح کی شجاعت، حضرت ابراہیم کی خلت ، حضرت اسمعیل کی زبان، حضرت اسحاق کی رضا، حضرت صالح کی فصاحت، حضرت لوط کی حکمت، حضرت یعقوب کی بشارت، حضرت موسیٰ کی شدت، حضرت ایوب کا صبر، حضرت یونس کی طاعت، حضرت یوشع کا جہاد، حضرت داود کا لحن اور آواز، حضرت دانیال کی محبت، حضرت الیاس کا وقار، حضرت یحییٰ کی عصمت اور حضرت عیسیٰ علیہمُ السّلام کے زہد کا پیکر، بلکہ تمام نبیوں کے دریائے اخلاق میں غوطہ دو۔ اس کے بعد وہ بادل ہٹ گیا تو انہوں نے دیکھا کہ سبز ریشمی کپڑے میں حضور خوب لپٹے ہوئے ہیں اور چشمہ کی مانند اس حریر سے پانی ٹپک رہا ہے ۔ کوئی کہنے والا کہتا ہے: ماشاء اللہ ماشاء اللہ !حضور کو تمام دنیا پر کس شان سے بھیجا گیا۔ دنیا کی کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے جو آپ کی تابع فرمان نہ ہو ۔ سب ہی کو آپ کے قبضہ قدرت میں دیا گیا ہے، اس کے بعد جب سیدہ آمنہ نے حضور کو دیکھا تو گویا آپ چودھویں رات کے چاند کی مانند چمک رہے تھے اور آپ کے جسم اطہر سے مشک و عنبر کی لپٹیں آ رہی تھیں۔ تین شخص کھڑے تھے، ایک کے ہاتھ میں چاندی کا آفتابہ، دوسرے کے ہاتھ میں سبز زمرد کا طشت اور تیسرے کے ہاتھ میں سفید حریر تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک انگشتری نکالی جس سے دیکھنے والوں کی نظریں جھپک گئیں، پھر اسے 7مرتبہ دھویا اور اس سے آپ کے شانوں کے درمیان مہر لگائی اور حریر میں لپیٹ کر اٹھا لیا اور کچھ دیر اپنی آغوش میں لے کر ان کے سپرد کر دیا۔(3)
کعبہ جھومنے لگا:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیدائش کی خوشی میں کعبہ جھومنے لگا، وہ لگاتار تین دن رات تک پرسکون نہ ہوا۔ یہ وہ پہلی علامت تھی جسے قریش نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادت کے وقت دیکھا تھا۔ (4)
سلسلہ: معجزاتِ انبیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
12 ہزار کا لشکر تین دن تک بے ہوش رہا: شہر قدس سے مالک بن زعر حضرت یوسف علیہ السلام کو لے کر جب عسقلان شہر کی طرف روانہ ہوا اور ان کی روانگی کی خبر وہاں کے حاکم کو پہنچی تو وہ اسی وقت 12 ہزار کا لشکر لے کر اس ارادے سے نکلا کہ حضرت یوسف کو مالک سے چھین لے، مگر جب ان کی نگاہ آپ علیہ السلام پر پڑی تو وہ سب آپ کے حسن و جمال کی تاب نہ لا سکے اور گھوڑوں سے گر گئے اور اسی حالت میں لگاتار تین دن تک بے ہوش پڑے رہے۔( )
شہر کا ہر شخص گویا کہ یوسف ہی تھا: جب حضرت یوسف علیہ السلام عریس نامی شہر کے قریب پہنچے تو آپ کے دل میں یہ خیال آیا کہ اللہ پاک نے مجھ سے زیادہ خوبصورت کسی کو نہیں بنایا اور میری مثل کوئی نہیں، جب میں اس شہر میں جاؤں گا تو لوگ مجھے دیکھ کر حیران ہوجائیں گے۔ چنانچہ جب آپ اس شہر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ہر شخص کی صورت آپ جیسی، بلکہ آپ سے زیادہ حسین ہے اور کوئی بھی آپ کی طرف متوجہ نہیں ہو رہا، ابھی حضرت یوسف علیہ السلام یہ سب دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ آپ نے یہ آواز سنی: اے یوسف! تم نے یہ کیسے خیال کرلیا کہ ہم نے تمہاری مثل کسی کو پیدا نہیں کیا، حالانکہ تمہاری مثل کونین میں بہت زیادہ مخلوق ہے۔ یہ سن کر آپ فوراً سجدہ ریز ہو گئے اور دل میں جو خیال آیا تھا اس سے معافی مانگی، اتنے میں آپ کو آواز آئی: اے یوسف! اب سر اٹھا کر دیکھو! اب پہلے جیسی حالت نہیں رہی۔ لہٰذا جب آپ علیہ السلام نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتے ہیں کہ لوگ شوق سے آپ کی طرف دوڑے چلے آرہے ہیں گویا کہ آپ ان کی نظر میں مقرب فرشتہ ہوں۔(2)
سفر آخر ختم ہوا: مالک بن زعر دورانِ سفر حضرت یوسف علیہ السلام کے معجزات و عجائبات دیکھ کر حد درجہ حیران تھا، چونکہ وہ آپ کی حقیقت سے بخوبی آگاہ نہ تھا، لہٰذا ابھی تک آپ کو ایک ایسا غلام ہی سمجھ رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی تقدیر بدلنے والی تھی۔ البتہ! وہ یہ بات سمجھ چکا تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام اللہ پاک کے خاص بندے ہیں۔چنانچہ،
جب قافلہ مصر کی حدود میں داخل ہوا تو وہ سوچنے لگا اب تو سفر ختم ہونے کو آیا ہے، راستے بھر میں نے جس بھی جگہ پڑاؤ کیا یا کوچ کیا، برابر حضرت یوسف علیہ السلام کی برکتیں ظاہر ہوتی رہیں، صبح و شام فرشتے انہیں سلام کرتے ہیں، یہی نہیں بلکہ ان کے سر پر ہر وقت ایک سفید بادل سایہ کئے رہتا ہے، جس وقت یہ رکتے ہیں وہ بھی رک جاتا ہے۔ یہ سب یاد آیا تو اس نے حضرت یوسف علیہ السلام سے عرض کی: آپ بظاہر تو غلام ہیں مگر آپ کی عظمت و شان دیکھ کر میں حیران ہوں، میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے لئے اللہ پاک سے اولادِ نرینہ کی دعا کریں ، کیونکہ میں ابھی تک اس دولت سے محروم ہوں۔ چنانچہ آپ کی دعا کی برکت سے بعد میں اللہ پاک نے اسے 12 مرتبہ لگاتار جڑواں بیٹوں کی دولت سے مالا مال فرمایا۔(3)
(یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ چنانچہ مصر پہنچ کر حضرت یوسف علیہ السلام کے جو عجائبات و معجزات رونما ہوئے وہ اگلی اقساط میں ملاحظہ فرمائیے۔)
سلسلہ: فیضانِ اعلیٰ حضرت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(41)
جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا
اس جبینِ سعادت پہ لاکھوں سلام
مشکل الفاظ کے معانی:شفاعت:سفارش۔جبین:پیشانی۔ سعادت: نیک بختی۔
مفہومِ شعر: وہ مبارک ماتھا جس پہ شفاعتِ کبری کا تاج سجایا گیااس مبارک پیشانی پہ لاکھوں سلام۔
شرح: شفاعت کا سہرا رہا: میدانِ محشر میں نفسا نفسی کے عالَم میں کوئی کسی کا پُرسانِ حال نہ ہو گا، لوگ مارے مارے پھر رہے ہوں گے کہ بارگاہِ خداوندی میں کوئی ان کی سفارش کر دے اور آخر کار شفاعت کا سہرا نبیوں کے تاجور اور ہمارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سر پہ سجایا جائے گا اور یوں انہیں محشر کی گرمی و سختی اور ہولناکی سے نجات و راحت ملے گی۔ گویا کہ اعلیٰ حضرت نے یہاں اس مصرعہ میں حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی یہ شان بیان فرمائی ہے کہ قیامت کے دن حضور ہی کی شفاعت چلے گی۔
جبینِ سعادت:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیشانی مبارک کا حسن بھی کیا حسن تھا، حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کشادہ پیشانی والے تھے۔( )جبکہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مَتٰی یَبْدُ فِی اللَّیْلِ الْبَھِیْمِ جَبِیْنُہٗ بَلَجَ مِثْلَ مِصْبَاحِ الدُّجَی الْـمُتَوَ قِّدٖ یعنی جب اندھیری رات میں آپ کی پیشانی ظاہر ہوتی توتاریکی کے روشن چراغ کی مانند چمکتی۔(2)
(42)
جن کے سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی
ان بَھووں کی لطافت پہ لاکھوں سلام
مشکل الفاظ کے معانی: بھنویں: ابرو۔لطافت: نزاکت۔
مفہومِ شعر:حضور نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شبِ ولادت محرابِ کعبہ نے بھی جھک کر نذرانہ عقیدت پیش کیا، آپ کے حسن وجمال کی پاکیزگی و نزاکت پہ لاکھوں سلام۔
شرح: سجدے کو محرابِ کعبہ جھکی: حضرت عبد المطلب سے منقول ہے کہ وہ شب ولادت کعبہ کے پاس تھے، آدھی رات کو دیکھتے ہیں کہ کعبہ مقامِ ابراہیم کی طرف جھکا اور سجدہ کیا اور اس سے آواز آئی: اللہ اکبر، اللہ اکبر! یعنی اللہ بلند و بالا ہے وہ رب ہے محمد مصطفےٰ کا۔ اب مجھے میرا رب بتوں کی پلیدی اور مشرکوں کی نجاست سے پاک فرمائے گا۔(3) اس مصرعہ میں گویا اسی واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
بَھووں کی لطافت:حضور نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محرابی شکل کی بھنویں بہت ہی خوبصورت تھیں۔سیرت حلبیہ میں ہے کہ یہ خم دار، بار یک، گھنی اور ایک دوسرے سے جدا تھیں، آپس میں ملی ہوئی نہ تھیں۔مگر ایک روایت میں ہے کہ یہ آپس میں ملی ہوئی تھیں، ان کے درمیان فاصلہ نہ تھا۔ چنانچہ ان دونوں روایتوں میں تضاد نہیں،کیونکہ ممکن ہے جس نے جیسا دیکھا بیان کیا، اس لئے کہ دونوں بھنووں کے درمیان جو فاصلہ تھاوہ بہت معمولی سا تھا اس کو گہری نظر سے دیکھ کر ہی محسوس کیا جا سکتا تھا۔ (4)
(43)
ان کی آنکھوں پہ وہ سایہ افگن مِژہ
ظُلَّہ قصرِ رحمت پہ لاکھوں سلام
مشکل الفاظ کے معانی:سایہ افگن: سایہ کیے ہوئے۔مژہ: پلکیں۔ظلہ: چھتری۔قصر: محل۔
مفہومِ شعر:حضور نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک آنکھوں پہ چھتری کی طرح سایہ کرنے والی پلکوں پہ لاکھوں سلام گویا کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک پلکیں رحمت کے محل پہ ایک نورانی چھتری ہیں۔
شرح:حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آپ کی چشمانِ مقدسہ سیاہ اور پلکیں دراز تھیں۔ (5) حضرت اُم معبد رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں،حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پلکیں دراز تھیں۔(6) پیر مہر علی شاہ رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:
دو ابرو قوس مثال دسن
جیں تو نوک مژہ دے تیر چھٹن
یعنی نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ابرو مبارک قوس کی مانند دکھائی دیتے ہیں جن میں سے پلکیں یوں نظر آتی ہیں جیسے کمان کے اندر سے تیر نکلتا ہے۔
(44)
اشکباریِ مِژگاں پہ برسے درود
سِلکِ دُرِّ شفاعت پہ لاکھوں سلام
مشکل الفاظ کے معانی: مژگاں: پلکیں۔سلک: لڑی۔در: موتی۔
مفہومِ شعر:نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک پلکوں سے نکلنے والے آنسوؤں پر درود وہ آنسو جو شفاعت کے موتیوں کی لڑی ہیں ان پہ لاکھوں سلام۔
شرح: کئی روایات سے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کاخوفِ خدا اور غمِ اُمت میں رونا ثابت ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی: ترجمۂ کنز الایمان: تو کیا اس بات سے تم تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور روتے نہیں۔ تو اصحابِ صُفّہ رضی اللہُ عنہم اس قدر روئے کہ ان کے رخسار آنسوؤں سے تر ہو گئے،انہیں روتا سن کر رحمتِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی ان کے ساتھ رونے لگے اور آپ کے رونے کے باعث ہم بھی رونے لگے،پھر آپ نے ارشاد فرمایا:وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہوگا جو اللہ پاک کے ڈر سے رویا ہو۔(7)
حضرت عبد اللہ بن عَمْرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے سورہ ابراہیم کی 36 ویں اور سورہ مائدہ کی 118 ویں آیت مبارکہ تلاوت فرمائیں کہ جن میں سے ایک میں حضرت ابراہیم کی دعا ہے: اے میرے رب بے شک بُتوں نے بہت لوگ بہکا دئیےتو جس نے میرا ساتھ دیا وہ تو میرا ہے اور جس نے میرا کہا نہ مانا تو بے شک تو بخشنے والا مہربان ہے۔ جبکہ دوسری میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا کچھ یوں ہے: اگر تُو انہیں عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں۔ پھر حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نےاپنے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: اُمّتی اُمّتی۔یہ فرمانا تھا کہ آپ کی مبارک آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ہو گیا۔ربِّ کریم نے حضرتِ جبریل سےفرمایا:اے جبریل!میرے محبوب کے پاس جاؤ اور معلوم کرو کہ انہیں کس چیز نےرلایا ہے؟وہ حاضِرِ خدمت ہوئے اور سبب پوچھا تو آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میں اپنی اُمّت کے غم میں رو رہا ہوں۔ حالانکہ اللہ پاک خوب جانتا ہے۔اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: اے جبریل! میرے محبوب سے عرض کر دو کہ عنقریب ہم آپ کو آپ کی اُمّت کے بارے میں راضی کریں گے اور اس معاملے میں ناراض نہ کریں گے۔(8)
تفسیر صراط الجنان،8/502 2بخاری، 4/533، حدیث: 7382 3البدور السافرۃ،ص53 4تفسیر صراط الجنان،10/671 5تفسیر رازی، 11/97 6مستدرک، 5/788، حدیث: 8742 7الزہد لابن مبارک ، الجزء الثانی، ص 101،حدیث:353 8تفسیر جلالین، ص 267 ملخصا 9مسلم، ص1149، حدیث: 7055 0بہار شریعت، 1/132 Aبہار شریعت، 1/132 Bالتذکرہ للقرطبی، ص 185 Cتفسیر طبری، 7/ 480، حدیث: 20946 Dتفسیر طبری، 7/ 480، حدیث: 20948 E البدور السافرۃ،ص49Fبخاری،4/ 252، حدیث:6521 G بخاری،4/ 252، حدیث:6520 Hالبدور السافرۃ،ص50Iتفسیرخازن، 3 / 92 ملخصاً J البدور السافرۃ،ص53Kالتذکرہ للقرطبی، ص 185 Lمسلم،ص 1150، حدیث: 7056 Mالتذکرہ للقرطبی، ص 186 Nالبدور السافرۃ،ص50 Oالتذکرہ للقرطبی، ص 186 Pتفسیر رازی، 11/97 Qمعجم کبیر، 5/65، حدیث: 4596
دلائل النبوۃ لابی نعیم، ص 78، حدیث: 82 2 مدارج النبوت مترجم، 2/ 30
3 مدارج النبوت مترجم، 2/ 31 4 السیرۃ النبویۃ، 1/ 50
بحر المحبۃ، ص 49 2 بحر المحبۃ، ص 49 3 بحر المحبۃ، ص 50
شرح الزرقانی علی المواہب،5/278 2شرح الزرقانی علی المواہب، 5/278 3 مدارج النبوت مترجم، 2/ 32 4سیرت حلبیہ، 4 / 467 5دلائل النبوۃ، 1/213 6سبل الہدیٰ و الرشاد، 2/23 7شعب الایمان، 1/489، حدیث: 798 8مسلم،ص109، حدیث:499