30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
ہمارے پیارے نبی محمدِمصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شریعت ، قرآن وسنت اور اس کے اَوامرونواہی (یعنی شریعت نے جن باتوں کا حکم دیا اورجن سے منع فرمایا)کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے۔ رسولِ اَکرم،نورِ مجسَّم،شاہِ بنی آدمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ان کا تعلق اسی طرح ہوگا جس طرح ساری اُمت کاہے ،حالانکہ آپعَلَیْہِ السَّلاممکرّم نبی ہی ہوں گے اس سے آپعَلَیْہِ السَّلامکے کمالِ نبوت میں کوئی نَقص نہیں آئے گا۔
یوں ہی اگرسرکارِمدینہ ،قرارِقلب وسینہ ،فیض گنجینہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حضرت سیدناعیسیٰعَلَیْہِ السَّلام، حضرت سیدناموسیٰ ،حضرت سیدنا ابراہیم ،حضرت سیدنانوح یاحضرت سیدناآدم علیٰ نبیناو عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام میں سے کسی کے زمانہ میں مبعوث فرمایا جاتا تو پھر بھی وہ سب کے سب اپنی اُمتوں کے لئے نبی اور رسول ہی ہوتے جبکہ حضور نبی ٔکریم ، رء وف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سب کے لئے نبی اور رسول ہوتے ۔
معلوم ہواکہ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت ورسالت سب کو عام اور شامل ہے اور آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شریعت اُصول میں تمام انبیاء کرام عَلَیْہِمُ السَّلام کی شریعتوں سے متفق ہے کیونکہ اصول میں اختلاف نہیں ہوتا۔ماقبل شریعتوں کے وہ فروعی مسائل کہ جن میں اختلاف ہوان میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شریعت کوتقدم حاصل ہےاور اس کا مقدم ہونایاتوتخصیص کی صورت میں ہوگایانسخ کی صورت میں یابغیر تخصیص ونسخ کےکہ ماقبل انبیائےکرام عَلَیْہِمُ السَّلام جوشریعت لائے ان اوقات میں وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کی شریعت تھی جبکہ اس وقت اس امت کے لئے یہی شریعت ہے جوآپ لائےکہ اشخاص اوراوقات بدلنےسےاحکام بدل جاتے ہیں۔
اس طرح دونوں حدیثوں کا مفہوم ظاہرہوگیا جو کہ پہلے مخفی تھا پہلی حدیثِ پاک میں یہ ارشاد فرمایا کہ’’مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث فرمایا گیاہے۔‘‘(صحیح البخاری،کتاب الصلوٰۃ،باب قول النبی صَلّی اللّہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم جعلت لی الارض …الخ، الحدیث:۴۳۷،ج۱،ص۱۶۸)
ہم سمجھے تھے کہ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے زمانہ سے لے کر قیامت تک کے لئے مبعوث فرمائے گئے ہیں جبکہ اس کا مفہوم یہ ظاہرہوا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے اولین وآخرین سب کے لئے مبعوث فرمائے گئے ۔
دو سری حدیثِ پاک میں حضورنبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مَیں اس وقت بھی نبی تھا جبکہ حضرت آدمعَلَیْہِ السَّلامروح اور جسم کے درمیان تھے ۔‘‘(سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب ماجاء فی فضل النبی صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم، الحدیث:۳۶۲۹، ج ۵ ، ص۳۵۱،بدون ’’ کنت نبیاً‘‘ )
اس حدیثِ پاک سے ہم نے گمان کیا کہ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صرف علمِ الہی عَزَّ وَجَلَّ میں نبی تھے جبکہ ظاہر ہوگیا کہ ایسا مفہوم لینا اس حدیثِ پاک میں زیادتی اور تحریف ہے جیسا کہ ہم نے اس کی شرح بیان کردی ہے۔(یہ علامہ سبکی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوی کا کلام ہے ۔)
سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار باذنِ پروردگارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرمان عالیشان میں غور کرنے سے معلو م ہوتا ہے کہ اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس زمانے میں مبعوث فرمایاجاتاتو ان اوقات میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شریعت و ہی ہوتی جو تمام انبیاء کرامعَلَیْہِمُ السَّلام ساتھ لائے تھے اور اسی شریعت کے مطابق وہ اُمتیں عمل پیرا ہوتیں ۔ اس اُصول کے مطابق اگر آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت سیدنا موسیٰ اور حضرت سیدنا خضر علیہماالسلام کے زمانے میں مبعوث فرمائے جاتے تو حضرت سیدناموسیٰعَلَیْہِ السَّلامکی لائی ہو ئی شریعت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کی شریعت ہوتی اور حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ظاہر اور شریعت کے مطابق فیصلہ فرمایاکرتے تھے اور حضرت سیدنا خضرعَلَیْہِ السَّلام کی اُمت کے لئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شریعت وہی ہوتی جس میں حضرت سیدنا خضرعَلَیْہِ السَّلامباطن اور حقیقت کے مطابق فیصلہ فرمایا کرتے تھے ۔
جب معاملہ اس طر ح ہے تو پھر سرکارِ دوعالم،نورِ مجسَّم،شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وجودِ مسعود اوراعلانِ نبوت کے بعد آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے یہ دونوں اُمور(یعنی ظاہرو باطن کے مطابق فیصلہ فرمانا)کیونکر بعید ہوسکتے ہیں ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بذاتِ خود ان دونوں کو سر انجام دیتے اسے کوئی بھی بعید از قیاس قرارنہیں دے گا ، علامہ سبکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی طرح صاحب ([1])’’ قصیدہ بُر دَہ ([2]) ‘‘ نے فرمایا:
[1] ۔۔۔ الصوفی ، الشاعر شرف الدین ابو عبداللہ محمد بن سعید بن حماد بن محسن بن عبداللہ الصنھاجی،البوصیری (694-608ھ) مقام بھشیم میں پیداہوئے ، دلاص میں پرورش پائی اور اسکندریہ میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا وصال ہوا ۔(معجم المؤ لفین،ج۳،ص۳۱۷،الاعلام للزرکلی،ج۶،ص۱۳۹)
[2] ۔۔۔ قصیدۃ الکواکب الدریہ فی مدح خیر البریہ المعروف قصیدہ ٔبردہ شریف للشیخ شرف الدین ابی عبداللہ محمد بن سعید الدولاصی ثم البوصیری۔(کشف الظنون،ج۲،ص۱۳۳۱)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع