دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Leukorrhea Ka Sharai Hukum | لیکوریا کا شرعی حکم

Likoria Ka Shari Hukm Aur Is Mutaliq Fatwa

book_icon
لیکوریا کا شرعی حکم
            

لیکوریا کا شرعی حکم

بسمِ اللہ الرَّحمنِ ا لرَّ حِیم الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ وعلی آلک واصحبک یا حبیب اللہ دارالافتاء اہلسنت مکتبۃ المدینہ،گنج بخش مارکیٹ،مرکز الاولیاء،داتادربارلاہورپاکستان کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عورتوں کو لیکوریا کے مرض میں شرمگاہ سے جو رطوبت خارج ہوتی ہے ، کیا یہ ناپاک ہوتی ہے اور کیا اس کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب لیکوریا کا حکم تین شقوں کی صورت میں درج ذیل ہے: ( پہلی شق سب سے زیادہ پیش آنے والی صورت ہے اور دوسری اس سے کم پیش آتی ہے اور تیسری اس سے بھی کم بلکہ شاذ و نادر ہے۔ ) ( 1 ) لیکوریا میں جو رطوبت عورت کی شرمگاہ سے خارج ہوتی ہے،یہ پانی کی طرح شفاف ہویا سفید رنگ کی ہو،گاڑھی ہو یا رقیق ( پتلی ) ، بووالی ہویا بغیر بو، یہ پاک ہے، نہ اس سے کپڑے ناپاک ہوں گے اور نہ اس سے وضوٹوٹے گا، اگرچہ یہ رطوبت زیادہ خارج ہو،بلکہ اگرچہ اس زیادہ خارج ہونے کو بیماری یا Abnormal شمار کیا جاتا ہو ( جس طرح نزلے کی صورت میں زیادہ رطوبت آنا بیماری شمار ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ رطوبت ناپاک نہیں ہوتی۔ ) امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مذہب کے مطابق عورت کی شرمگاہ سے جو رطوبت خارج ہوتی ہے، یہ جسم کی دیگر رطوبتوں کی طرح مطلقاً پاک ہے،اگرچہ یہ شرمگاہ کے اندرونی حصے یا رحم سے آئے ۔ یہی بات مذہب حنفی میں معتمد ہے۔ جس کے دلائل درج ذیل ہیں : درمختار و رد المحتار میں ہے:’’وما بین الھلالین من رد المحتار: ” أما عنده ( عند الإمام ) فهي طاهرة كسائر رطوبات البدن جوهرة ( وظاهر كلامه في آخر الفصل الآتي أنه المعتمد ) “ترجمہ: بہر حال امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک عورت کی شرمگاہ کی رطوبت پاک ہے،جس طرح بدن کی دیگر رطوبتیں پاک ہیں، جوہرہ۔ ( علامہ شامی اس پر فرماتے ہیں: ) اور اگلی فصل کے آخر میں جو شارح کا کلام ہے ،اس سے ظاہر یہی ہے کہ یہی قول معتمد ہے۔ رد المحتار میں اسی مقام پر ہے:” وأما رطوبة الفرج الخارج فطاهرة اتفاقا “ترجمہ: بہر حال فرج خارج کی رطوبت تو بالاتفاق پاک ہے۔ ( درمختاروردالمحتار، جلد1، صفحہ313، دار الفکر، بیروت ) علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:” ولذا نقل في التتارخانية أن رطوبة الولد عند الولادة طاهرة، وكذا السخلة إذا خرجت من أمها، وكذا البيضة فلا يتنجس بها الثوب ولا الماء إذا وقعت فيه“ترجمہ: ( کیونکہ شرمگاہ کی رطوبت پاک ہے ) اسی لیے صاحب تتارخانیہ نے نقل فرمایا کہ ولادت کے وقت بچے پر جو رطوبت ہوتی ہے، وہ پاک ہے ۔ اسی طرح بھیڑ/ بکری کا بچہ جب اپنی ماں سے خارج ہو ( تو وہ پاک ہے ) ، یونہی انڈے کا حکم ہے، لہذا اس کی وجہ سے کپڑا ناپاک نہیں ہوگا اور اگر یہ پانی میں گر گیا، تو پانی بھی ناپاک نہیں ہوگا۔ ( درمختاروردالمحتار،جلد1، صفحہ349، دار الفکر، بیروت ) امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن رد المحتار کی عبارت:” رطوبة الولد عند الولادة طاهرة “کے تحت لکھتے ہیں:”أقول:هذا نصّ صريح في المذهب في طهارة رطوبة الرّحم.....الخ“ترجمہ:اقول ( میں کہتا ہوں ) :رحم کی رطوبت کے پاک ہونے پر یہ مذہب میں صریح نص ہے۔ ( جد الممتار، جلد2، صفحہ402، مکتبۃ المدینہ،کراچی ) امام اہلسنت علیہ الرحمۃ مزید ایک مقام پر لکھتے ہیں :”وقد تحقّق عندي بتوفيق اللہ تعالى: أنّ رطوبة الرحم أيضاً طاهرةٌ عند الإمام، وإنّ الفرْج في قولهم: ’’رطوبة الفرج طاهرة ‘‘عنده بالمعنى الشامل للفرْج الخارج والفرْج الداخل والرحم، وإن ما يُرى من بعض الفروع القاضية بنجاسة رطوبة الرحم فإنّها تَتَفَرّعُ على قولهما بنجاسة رطوبة الفرْج، والفروع القاضية بطهارة رطوبة الرحم ماشيةٌ على قوله “ترجمہ: اللہ تعالی ٰ کی توفیق سے میرے نزدیک یہ بات محقق ( ثابت ) ہو چکی ہے کہ امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک رحم کی رطوبت بھی پاک ہے اور فقہاء جو یہ فرماتے ہیں کہ ”فرج کی رطوبت امام اعظم کے نزدیک پاک ہے۔“ تو فرج کا لفظ ایسے عمومی معنی کے لیے ہے جو فرج خارج ،فرج داخل اوررحم سب کو شامل ہےاور بعض فروع ( مسائل ) جن سے رحم کی رطوبت کا ناپاک ہونا معلوم ہوتا ہے۔یہ صاحبین کے قول پر متفرع ہیں جس کے مطابق فرج کی رطوبت ناپاک ہے اور وہ فروع ( مسائل ) جن سے رحم کی رطوبت کے پاک ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے وہ امام اعظم رضی اللہ عنہ کے قول پر جاری ہیں۔ ( جد الممتار،جلد1، صفحہ407، مکتبۃ المدینہ،کراچی ) حضور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں :” عورت کے آگے سے جو خالص رطوبت بے آمیزشِ خون نکلتی ہے ناقضِ وُضو نہیں ، اگر کپڑے میں لگ جائے تو کپڑا پاک ہے۔“ ( بھار شریعت، جلد1، صفحہ304، مکتبۃ المدینہ، کراچی ) ( نوٹ: ان عبارات سے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف بالکل واضح ہوگیا اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ جو لوگ لیکوریا کی رطوبت کوحنفی مذہب کے مطابق فقط اس وجہ سے ناپاک کہتے ہیں کہ یہ رطوبت رحم یا شرمگاہ سے خارج ہوتی ہے ، ان کی یہ بات حنفی مذہب کے رو سے بالکل غلط ہے۔ ) ( 2 ) اگریہ رطوبت ایسی شکل و کیفیت کی ہے کہ جس سے اس میں خون شامل ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ مثلا: یہ رطوبت سرخ رنگ کی یا سرخی لیے ہوئے نکل رہی ہے یا پیلے رنگ کی ہے، تو اب اس کے بہنے سے وضو ٹوٹ جائے گا اور یہ ناپاک شمار ہوگی، کیونکہ رنگ میں ایسی تبدیلی، اس رطوبت میں خون کی آمیزش کا شبہ ڈالتی ہے، لہذا اسے احتیاطاً ناپاک شمار کیا جائے گااور اس سے وضو ٹوٹنے کا حکم ہوگا۔ ( جیسا کہ ناف سے بلا مرض پیلا پانی بہے، تو اسے فقہائے کرام نے ناپاک اور ناقض وضو شمار فرمایا۔ ) ( 3 ) اس کے علاوہ ایک اور ممکنہ صورت ہو سکتی ہے،اگرچہ وہ بہت کم اور شاذ و نادر ہی پیش آئےگی ۔ وہ یہ کہ اگر جسم کے اندر کوئی مرض ہے جس کی وجہ سے یہ رطوبت نکل رہی ہے، تو پھر اس رطوبت کو ناپاک کہیں گے ۔ واضح رہے کہ یہاں مرض سے لیکوریا کا مرض مراد نہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ جسم کے اندرکوئی زخم بنا ہے یا آبلے ، ناسور اور پھنسیاں وغیرہ ہیں یا اس طرح کا کوئی مرض ہے جس سے یہ رطوبت نکل رہی ہے ،تو اب بھی اسے ناپاک کہیں گے۔ اور ظاہر ہے کہ اس طرح کے اندرونی مرض کا علم میڈیکل ٹیسٹ او رماہر مستند باعتماد ڈاکٹر کے بتانے سے یا اندرونی معائنہ وغیرہ سے ہی ہو سکتا ہے، ورنہ اس کا علم نہیں ہوگا اور جب تک اس طرح کے مرض کا علم و ثبوت حاصل نہ ہو اس وقت تک وہی دو صورتیں رہیں گے ،جو اوپر بیان ہوئیں کہ اگر خالص رطوبت آئے جس میں خون کی آمیزش کا کوئی اثر نہ ہو تو وہ پاک شمار ہوگی اور اگر خون کی آمیزش کا اثر ہے ،تو پھر ناپاک شمار ہوگی۔ ہاں مرض معلوم ہونے کی ایک اور صورت بھی ہو سکتی ہے،وہ یہ کہ رطوبت درد کے ساتھ خارج ہو ر ہی ہو، تو یہ بھی مرض معلوم ہونے کے حکم میں ہے ( لہذا اس رطوبت کو بھی ناپاک شمار کیا جائےگا چاہے وہ کسی بھی کیفیت میں ہو ) کیونکہ رطوبت نکلتے وقت درد ہونا ہی زخم کی دلیل ہوا کرتا ہے۔ ”درد کے ساتھ خارج“ ہونے کا مفہوم سمجھنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ درد رطوبت نکلنے کے وقت ہو اور جس مقام سے رطوبت خارج ہورہی ہے اسی مقام پر درد ہو۔ جس طرح آنکھ میں درد ہے اور رطوبت بہہ رہی ہے یا کان کے اندر درد ہے اور وہیں سے رطوبت نکل رہی ہے،تو اب درد کے ساتھ رطوبت کا نکلنا ہی وہاں زخم ہونے کی دلیل ہے، یونہی شرمگاہ سے جب ر طوبت نکل رہی ہے ، تو اس رطوبت کے نکلنے کے مقام پر نکلتے وقت درد بھی ہو رہا ہے، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہاں کوئی زخم ہے جس سے یہ رطوبت نکل رہی ہے۔ ( درد کس مقام پر ہو رہا ہے اس کا اندازہ مبتلا شخص کو خود ہو جاتا ہےاور اس کا اپنا ظن غالب اس بارے میں معتبر ہے۔ ) لہذا اگر رطوبت تو نکل رہی ہے، لیکن ویسے کمزوری وغیرہ کی وجہ سےپورے جسم میں درد ہو رہا ہے ، یا ٹانگوں میں درد ہے، تواس قسم کا درد زخم ہونے کی دلیل نہیں،لہذا اس صورت میں جب تک خون کی آمیزش کا اثر نہ ہو تب تک اس رطوبت کو ناپاک نہیں قرار دیا جائے گا۔ جو رطوبت درد یا مرض کی وجہ سے یا خون کی آمیزش کا اثر لیے ہوئے بہے اس کو مذہب حنفی میں احتیاطا ناپاک قرار دیا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے وضو بھی ٹوٹنے کا حکم ہوتا ہے ۔ اس کے کچھ دلائل درج ذیل ہیں: رد المحتار میں ہے :” الدم والقيح والصديد وماء الجرح والنفطة وماء البثرة والثدي والعين والأذن لعلة سواء على الأصح ....... وظاهره أن المدار على الخروج لعلة وإن لم يكن معه وجع، تأمل.“ترجمہ: خون ، پیپ، صدید ( کچ لہو ) اور زخم، پھڑیا ، پھنسی، پستان ، آنکھ یا کان سے بیماری کی وجہ سے نکلنے والا پانی ایک حکم میں ہے ،اصح قول کے مطابق ۔اس کا ظاہر یہ ہے کہ دار ومدار اس بات پر ہے کہ یہ نکلنا بیماری کی وجہ سے ہو اگرچہ اس کے ساتھ تکلیف نہ ہو۔ غور کر لیں۔ ( رد المحتار، کتاب الطھارۃ، جلد1، صفحہ48، دار الفکر، بیروت ) غنیہ میں ہے: ” کل ما یخرج من علۃ من ای موضع کان کالاذن والثدی والسرۃ ونحوھا فانہ ناقض علی الاصح لانہ صدید “ترجمہ: ہر وہ رطوبت جو بیماری کی وجہ سے خارج ہو، چاہے کسی بھی مقام سے نکلے، جیسے کان ، پستان یا ناف وغیرہ ، وہ ناقض وضو ہے،اصح قول کے مطابق، کیونکہ یہ صدید ( کچ لہو ) ہے۔ ( غنیہ شرح منیہ،نواقض وضو، صفحہ 116، مطبوعہ کوئٹہ ) امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :”اقول: حقیقتِ امر یہ ہے کہ درد و مرض سے جو کچھ بہے اسے ناقض ماننا اس بناء پر ہے کہ اس میں آمیزشِ خون وغیرہ نجاسات کا ظن ہے۔ “ ( فتاوی رضویہ،جلد1 ( الف ) ، صفحہ356، رضافاؤنڈیشن، لاھور ) پھر کچھ آگے جا کر مزیدفرمایا: ” اقول: اور تحقیق وہی ہے کہ وجود مرض مظنہ دم ہے اس کے ساتھ شہادت صورت کی حاجت نہیں ..... ولہذا امام برہان الدین صاحبِ ہدایہ نے کتاب التجنیس والمزید میں ناف سے جو پانی نکلے اس کے زرد رنگ ہونے کی شرط لگائی کہ احتمال دمویت ظاہر ہو کما قدمنا نقلہ اقول: اور یہ منافی تحقیق نہیں کہ امام ممدوح کا یہاں کلام صورت وجودِ مرض میں نہیں اور بلا مرض بلاشبہ حکمِ دمویت کے لیے شہادت صورت کی حاجت۔ “ ( فتاوی رضویہ، جلد1 ( الف ) ، صفحہ362،363، رضافاؤنڈیشن، لاھور ) درمختار میں ہے :”وإن خرج ( به ) أي بوجع ( نقض ) لأنه دليل الجرح“ترجمہ:اگر رطوبت درد کے ساتھ خارج ہو، تو وضو ٹوٹ جائے گا، کیونکہ یہ زخم کی دلیل ہے۔ رد المحتار میں ہے : ” لا يعلم كون الماء الخارج من الأذن أو العين أو نحوها دما متغيرا إلا بالعلة والألم دليلها “ترجمہ: جو پانی کان ، آنکھ یا اس طرح کی کسی جگہ سے خارج ہو، اس کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ یہ خون کی بدلی ہوئی صورت ہے،اِلّایہ کہ بیماری ہو اور درد ہونا یہ بیماری کی دلیل ہے ۔ ( درمختار، جلد1، صفحہ147،148، دار الفکر، بیروت ) سوال: کیا رطوبت کا گاڑھا ہونا یا سفید ہونا یا اس میں کچھ بدبو کا آنا اس بات کی دلیل نہیں کہ اس میں خون یا پیپ کی آمیزش ہے ؟ جواب:اس رطوبت کا رنگ سفید ہونا یا رطوبت کا گاڑھا ہونا خون یاپیپ شامل ہونے کی دلیل نہیں ، کیونکہ طبعاً بھی یہ رطوبت سفید اور گاڑھی ہو سکتی ہےاور ہر عورت کی جسمانی کیفیت وعوارض وغیرہ سے بھی ان صفات میں تبدیلی آسکتی ہے۔ لیکوریا کی طبی طور پر ڈاکٹرز وغیرہ نے جو وضاحت کی ہے،اس میں یہ باتیں لکھی ہیں ۔ ( اور ہم نے اپنے تفصیلی فتوے میں اس کے اقتباسات نقل کیے ہیں۔ ) یونہی رطوبت میں بدبو ہونا زخم یا بیماری ہونے کی دلیل نہیں ہو تا،بدبو کسی اور وجہ سے بھی پیدا ہو سکتی ہے۔مثلا: کسی مقام پرزیادہ دیر ٹھہرے رہنے سے،چنانچہ بحر الرائق میں ہے:”رحم العجوز يكون منتنا فيتغير الماء فيه لطول المكث“ترجمہ: بوڑھی عورت کا رحم بدبو دار ہوتا ہے ،لہذا پانی اس میں زیادہ دیر رکنے کی وجہ سے متغیر ہو جاتا ہے۔ ( بحر الرائق، دار الکتاب الاسلامی،جلد 1، صفحہ 202، دار الکتاب الاسلامی ) سونے والے کے منہ سے نکلنے والی رطوبت میں اگرچہ قدرے بو ہوتی ہے،مگر اس کے باوجود اسے پاک ہی شمار کیا جاتا ہے،کیونکہ بو بیماری کی دلیل نہیں ہوتی۔فتاوی رضویہ میں ہے:” ان النوم یرخی والمکث ینتن فلم یلزم کونہ من علۃ وانما الناقض مامنھا فافھم نیند کی وجہ سے اعضاء ڈھیلے ہو جاتے ہیں ( اس لیے منہ کا پانی باہر آ جاتا ہے ) اور دیر تک ٹھہرنے سے بدبو پیدا ہو جاتی ہے،تو یہ لازم نہ آیا کہ وہ پانی کسی بیماری کی وجہ سے نکلا ہے اور ناقض وہی ہے ،جو کسی بیماری سے ہو۔“ ( فتاوی رضویہ، جلد1 ( الف ) ، صفحہ366، رضا فاؤنڈیشن، لاھور ) اشکال: جو رطوبت بے بو اور خارش و جلن کے بغیر ہوتی ہے اور کبھی کبھار نکلتی ہے اسے ڈاکٹر نارمل شمار کرتے ہیں ۔ لیکن اگر رطوبت قدرے بو والی ہواور ساتھ خارش یا جلن ہو تو اسے ڈاکٹر معمول کی رطوبت شمار نہیں کرتے، بلکہ انفیکشن اورقابل علاج شمار کرتے ہیں، تو ایسی صورت میں یہ رطوبت مطلقا ناپاک ہونی چاہیے۔ جواب: اس کا جواب سمجھنے کے لیے ایک اور بات کا جاننا ضروری ہے ۔ وہ یہ کہ جو رطوبت معمول کے مطابق تھوڑی بہت جسم میں پیدا ہوتی ہے اور اس کا نکل کر بہناناقض وضو شمار نہیں ہوتا، اگر کسی وجہ سے وہی رطوبت زیادہ پیدا ہونا شروع ہو جائے،تو محض اس زیادتی کی وجہ سے اسے ناپاک قرار نہیں دیں گے ، اگرچہ رطوبت کے زیادہ پیدا ہونے کو بیماری یا Abnormalشمار کیا جائے،جیسے ناک کی رطوبت کہ عام روٹین میں خارج نہیں ہوتی یا معمولی سی کبھی کبھار نکلتی ہے، لیکن جس کو نزلہ ہو، اس کی رطوبت بکثرت نکلنا شروع ہو جاتی ہے اور ڈاکٹرز اس کو بھی قابل علاج بیماری شمار کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس رطوبت کو ناپاک قرار نہیں دیا جاتا کیونکہ انفیکشن وغیرہ کسی عارضے کی وجہ سے اگرچہ یہ رطوبت زیادہ آرہی ہےلیکن اس میں خون کی آمیزش کا کوئی اثر یا شبہ نہیں ہوتا۔ امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس بات کی طرف اپنے کلام میں واضح رہنمائی فرمائی ہےچنانچہ لکھتے ہیں :”والذی یظنہ العبد الضعیف ان ماکان خروجہ معتادا ولا ینقض لاینقض ایضا اذا فحش وان عد حینئذ علۃ فیما یعد الاتری ان العرق لاینقض فاذا فحش جداکما فی بحران المحموم اوبعض الامراض لم ینقض ایضا وکذلک الدمع واللبن والریق فکذا المخاط..... اور بندہ ضعیف کا خیال یہ ہے کہ جو چیز عادۃً نکلتی ہے اور ناقض نہیں ہوتی وہ بہت زیادہ نکلے تو بھی ناقض نہ ہو گی اگرچہ ایسی صورت میں اسے کسی بیماری کے دائرے میں شمار کیا جائے ۔ دیکھیے پسینہ ناقضِ وضو نہیں، اگر یہ بہت زیادہ آئے جیسے بخار کے بحران یا بعض امراض میں ہوتا ہے تو بھی ناقض نہیں۔ اسی طرح آنسو ، دودھ ، تھوک ہے، تو یہی حکم ناک کی ریزش کا بھی ہوگا... الخ “ ( فتاوی رضویہ، جلد1 ( الف ) ، صفحہ367، رضافاؤنڈیشن، لاھور ) لہذا شرمگاہ سے نکلنے والی رطوبت اگر انفیکشن وغیرہ کی وجہ سے معمول سے زیادہ آ رہی ہے اور ڈاکٹرز اس زیادہ آنے کو بیماری شمار کرتے ہیں، تب بھی فقط اتنی بات اس کے ناپاک و ناقض وضو ہونے کے لیے کافی نہیں ہے۔ نیز یہ بات واضح رہے کہ ڈاکٹرز جب انفیکشن کہتے ہیں، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا ، کہ جسم میں کوئی زخم یا آبلے وغیرہ بن گئے ہیں، بلکہ یہ ان کی اصطلاح ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ جسم میں جراثیم ( بیکٹیریاز ، وائرس یا پیراسائٹس ) کا حملہ ہوا ہے اور انفیکشن کی خطرناک صورتحال تو زخم وغیرہ ہوتی ہے، لیکن ہر صورت ایسی نہیں ہوتی بلکہ کبھی تو وہاں انفلامیشن ( ورم ) تک نہیں ہوتا اور رطوبت نکل رہی ہوتی ہے، جیسا کہ کتاب”معالجات امراض نسواں“ میں اس رطوبت کا علاج بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ” ۔۔۔۔۔۔ اگر یہ تدابیر عمدہ طور پر عمل میں لائی جائیں تو امید ہے کہ بہت جلد شفا حاصل ہوگی اور ورم کے پیدا ہونے اور اس کی زیادتی یا اس کے پکنے اور پھوٹنے تک نوبت نہ پہنچے گی۔“ ( معالجات امراض نسواں، صفحہ69،70 ) نوٹ: یہ فتوی دار الافتاء اہلسنت کے تفصیلی فتوے سے مختصر کیا گیا ہے۔تفصیلی فتوے میں لیکوریا کے متعلق قدیم و جدید طبی ماہرین کی آراء اورکچھ فقہی ابحاث وحوالہ جات کا اضافہ موجود ہے ، جو اختصار کی خاطر یہاں نقل نہیں کیا گیا۔ جو شخص تفصیلی فتوی دیکھنا چاہے ،وہ دار الافتاء اہلسنت کی کسی شاخ سے رابطہ کر سکتا ہے۔ و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کتبــــــــــــــــــــــــــہ المتخصص فی الفقہ الاسلامی محمد ساجد عطاری 05 شعبان المعظم 1442 ھ/20 مارچ 2120 ء

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن