30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
علم میراث کے بنیادی قواعد ومسائل پر مشتمل آسان ابتدائی کتاب
خُلاصَةُ الفَرائِض
مؤلف: ابن داود عبد الواحدعطاری مدنی
پیش کش:
مجلس المدينة العلمية (دعوتِ اسلامی)
(شعبہ درسی کتب)
ناشر
مکتبۃ المدینہ کراچی
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْم
تقریظ
حضرت علامہ مفتی محمد اسماعیل ضیائی دامت برکاتہم العالیۃ
(شیخ الحدیث ورئیس دار الافتاء دار العلوم امجدیہ کراچی)
نحمده ونصلي على رسوله الكريم
حمد وثنا کے بعد زیر نظر کتاب "خلاصۃ الفرائض" جس کے مؤلف عبد الواحد صاحب ہیں۔
وراثت کے موضوع پر آپ نے اردو دانوں کے لئے ایک انمول تحفہ تیار کیا ہے۔ اہل زبان زیادہ سے زیادہ اس سے فائدہ حاصل کریں ۔
میں دعا گو ہوں کہ اللهان کی کتاب کو مقبول بنائے اور اسی طرح مزید دینی خدمت کی توفیق عطاء فرمائے۔
فقط: محمد اسماعیل غُفر له
خادم دار العلوم امجدیہ، کراچی
6 اکتوبر 2020
کچھ کتاب کے بارے میں
کتابِ ہذا ”خلاصۃ الفرائض“فن میراث کے بنیادی اصول پر مشتمل ابتدائی کتاب ہے جس میں اختصار کے ساتھ بنیادی اصطلاحات اورمسائل وقوانینِ فن حتی الامکان جامعیت اور مانعیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے آسان انداز میں بیان کیے گئے ہیں مگر چونکہ یہ کتاب مدارسِ دینیہ کے طلبہ کے لیے اور ”سراجی“ کی تمہید کے طورپرپڑھانے کے لیے مرتب کی گئی ہےاس لیے اس کا انداز محض عامیانہ نہیں بلکہ اصطلاحی ہے۔
کتابِ ہذا کی تالیف میں”سراجی“ (از: علامہ سراج الدین والملۃ محمد بن عبد الرشید سجاوندی)،
”شریفیہ“(از: علامہ سیدشریف جرجانی)،”علم المیراث“(از: مفتی احمد یار خان نعیمی)، ”قواعدِ میراث“(از: الاستاذ نصر اللہ رضوی مصباحی) اور ”عمدۃ الفرائض“(از: بحر العلوم مفتی محمد افضل حسین مونگیری) وغیرہ معتبر کتب سے مدد لی گئی ہے ، اس کتاب میں اگر کوئی خوبی ہے تو وہ ان ہی کتب کی مرہونِ منت ہے اور جو نقائص ہیںفهي بالنسبة إليّ وذيل هؤلاء الأعلام بريء منها.
طلبہ کی سہولت کے لیے ذوی الفروض کے احوال اور مخارج الفروض کو جداول کی صورت میں بھی بیان کیا گیا ہے جو”عمدۃ الفرائض“ سے ماخوذ ہیں۔
مسائل اوراصول کواچھی طرح طلبہ کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے احوالِ ذوی الفروض، مخارج الفروض، عول، تصحیح، ردّ اور مناسخہ کے تمرینی سوالات اور مسائل بھی دیے گئے ہیں ، لہذا اساتذہ کو چاہیے کہ یہ مسائل لازمی طور پرطلبہ سے حل کروائیں، ان کو چیک بھی کریں اور اگر خطا پائیں تووجہِ خطا پر تنبیہ کرتے ہوئے احسن انداز میں طلبہ کی اصلاح بھی کریں وباللہ التوفیق.
عام طور پر کتبِ میراث میں بشمول موصی لہ بجمیع المال اور بیت المال وارثین کی دس قسمیں بیان کی جاتی ہیں، کتابِ ہذا میں نظر برحقیقت وارثوں کی آٹھ قسمیں بیان کی گئی ہیں اورموصی لہ اور بیت المال کو الگ سے بیان کیا گیا ہےتاکہ اس بات پر تنبیہ ہوجائے کہ دیگر کتب میں ان دونوں کو وارثوں میں شمار کرنا تغلیباً ہے۔
کتابِ ہذا میں ذوی الارحام کے مسائل کی تقریر امام محمد رحمه اللہ تعالی کے مذہب کے مطابق کی گئی ہے؛ کیونکہ اصل فتوی اسی پر ہے اگرچہ بعض مشائخ نے امام ابو یوسف رحمه اللہ تعالی کے قول پر بھی فتوی دیا ہے جیساکہ مجددِ اعظم امام احمدرضا خان علیه رحمة الرحمن
”فتاوی رضویہ“ میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اصل فتوی قول امام محمد علیه الرحمة پر ہے، فقیر کا اسی پر عمل ہے، مگر اس کے استخراج میں قدرے دشواری ہوتی ہے لہذا بعض مشائخ نے بغرض آسانی قول امام ثانی علیه الرحمة پر فتوی دیا“۔
کتابِ ہذا میں چیدہ چیدہ مقامات پر ضروری ، اہم اور مفید حواشی کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔
اللہ كريم ساعی حقیر کی سعی حقیر کو اپنی بارگاہِ عالی میں شرفِ قبول سے مشرف فرمائے اور مجھے غضب وعذاب سے بچاکراپنی رحمت ورضوان کا وارث بنائے۔ آمین یا ربّ العٰلمین بجاہ رسولک سیّد المرسلین وصلّ علیه وعلی آله وأصحابه أجمعین.
کلماتِ تقدیم
کسی شخص کے انتقال کے بعد اُس کا چھوڑا ہوا مال میراث کہلاتاہے جسے اُس کے رشتے داروں میں تقسیم کیاجاتاہے۔تقسیمِ میراث میں دنیا کی مختلف اقوام میں مختلف طریقے رائج رہے ہیں جو اعتدال سے دور اور عدل وانصاف کے تقاضوں کے خلاف تھے۔
دین اِسلام نے جہاں دیگر معاملات میں اِفراط و تفریط کو ختم کیا وہیں تقسیم میراث کے معاملے میں بھی بہترین طریقہ عطا فرمایااور اِس میں پائی جانے والی باطل رسموں کو مٹایا، عورتوں ، یتیموں اور کمزوروں پر ہونے والے ظلم و ستم اور جور وجفا کو اٹھایا اورہر قسم کی خیانت، حق تلفی اور بد دیانتی کو ختم فرمایا۔
مگر افسوس صد افسوس! کہ اب بھی بہت سے مسلمان شرعی اَحکام سے لا علمی اور غفلت کی بنا پر یا محض ظلماً مستحقین کو اُن کا پورا حق نہیں دیتے ، مالِ وراثت میں طرح طرح کی خیانتیں کرتے اور کبائر کے مرتکب بنتے ہیں مثلاً:
(الف) کسی حق دار کو نا جائز وصیّت کے ذریعے اُس کے حق سے محروم قرار دینا جیسے بعض لوگ اپنے کسی وارث کے بارے میں وصیّت کرتے ہیں کہ اُسے میرے مال میں سے ایک پائی بھی نہ دی جائے یا میرافلاں بیٹا یا بیٹی میری جائیداد سے عاق ہے، یہ وصیت میں خیانت ہے جوبرے خاتمے اورجہنّم میں جانے کا سبب ہے،اوریاد رہے کہ اِس طرح کی وصیّت سے یا کسی کو عاق کردینے سے کسی حق دار کا حق ہرگزباطل نہیں ہوتا۔
(ب) کسی وارث کو اُس کاحصّہ نہ دینا، جیسے بہت سی صورتوں میں بھائی ، بہن، نانی ، دادی یا دادا کا حصّہ بنتاہے مگر نہیں دیاجاتا، یونہی ماں اور بیوہ کا حصّہ ہوتاہے مگر نہیں دیا جاتا؛ حالانکہ وارث کو اُس کے حق سے محروم کردیناکافروں کا طرزِ عمل ہے۔
(ج) دوسروں کے مالِ وراثت پر نا جائز قبضہ جمالینا، یہ مالِ حرام حاصل کرنا اور مالِ حرام کھانا ہے جو سخت کبیرہ گناہ اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔
(د) بالخصوص یتیم اور نا بالغ وارثوں کا مال کھا لینا جو گناہِ کبیرہ اور سخت حرام ہے جس پر قرآنِ کریم نے بھڑکتی آگ کی وعید سنائی ہےوالعیاذ باللہ۔
(ہ)یتیم اورنا بالغ وارثوں کے مال سے میّت کی فاتحہ، نیاز اور سوئم وغیرہ کرنا، یہ امور اگرچہ فی نفسہ جائز اورمستحب ہیں مگر کسی نا بالغ کے مال سےاِن امور میں صرف کرنا حرام ہے۔
(و) بیٹیوں ، بہنوں اور بیواؤں کو اُن کا حق نہ دینا یا زور دیکراُن سے حصّہ معاف کروالینا خاص طور پر جبکہ بیٹی یا بہن شادی شدہ ہو یا بیوہ دوسرا نکاح کرلے، یہ بھی ناجائزو حرام ہے۔
(ز)والدین کو اولاد کی وراثت سے حصّہ نہ دینا یا باپ کی دوسری بیوی کو حصّہ نہ دینا ؛ حالانکہ اولاد کے مال میں والدین کا اور شوہر کے مال میں اُس کی ہر ہر بیوی کا حق ہوتاہے۔
(ح)زندگی ہی میں والدین سے جائیداد کی تقسیم کا جبری مطالبہ کرنا ،یہ بھی نا جائز ہے؛ کہ یہ والدین کی دل آزاری کا سبب ہے جو ناجائزو گناہ ہے۔البتہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنا مال اپنی اولاد کو دینا چاہے تو سب بیٹوں، بیٹیوں کو برابر دینا افضل ہے، اور اگر اولاد میں کوئی علم دین سیکھنے یا دینی خدمت میں مشغول ہے تو اُسے دوسروں سے زیادہ دے سکتاہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وراثت کے معاملے میں ہر گز ہر گزکسی قسم کی غفلت اور کوتاہی نہ کریں اور ہر معاملے میں اللّه تعالیٰ اور اُس کے پیارے رسول صلّی الله تعالی عليه وآله واصحابه وبارک وسلّم کی اطاعت وفرمانبرداری کو ملحوظ رکھیں کہ اسی میں دنیا اور آخرت کی بہتری ہے،اللہ کریم ہمیں اپنی رحمت ورضوان کی دولتیں عطا فرمائے۔
اِصْطِلاحات و فوائد
بہت سے فوائداوراصطلِاحات کی تعریفوں کا ذکر اَسْباق کےضمن میں آچکا ہے، کچھ فوائد و اصطلاحات کا ذکر یہاں کیا جارہاہے۔
١۔سگےبھائی بہن: وہ بھائی بہن جن کے ماں باپ ایک ہی ہوں، اِن کوعَیْنِی یاحقیقی یا ماں باپ جائےبھائی بہن یا بَنِی اَعْیان بھی کہتے ہیں۔
۲۔عَلّاتی بھائی بہن: وہ بھائی بہن جن کا باپ ایک ہواور ماں الگ الگ، اِن کوعِلِّی یاباپ شریک یا باپ جائے بھائی بہن یابَنِی عَلّات بھی کہتے ہیں۔
۳۔اَخْیَافی بھائی بہن: وہ بھائی بہن جن کی ماں ایک ہو اور باپ الگ الگ، اِن کو خَیْفِی یا ماں شریک یاماں جائے بھائی بہن یا بَنِی اَخْیاف بھی کہتے ہیں۔
تنبیہ: سگے، عَلّاتی اوراَخْیافی بھائی بہنوں پر قِیاس کرتے ہوئے تمام سگے، عَلّاتی اور اَخْیافی رشتوں کو سمجھا جاسکتاہے مثلاًسگے ، عَلّاتی یا اخیافی بھتیجے ،بھتیجیاں، بھانجے، بھانجیاں، چچے، پھوپھیاں، ماموں اور خالائیں وغیرہ۔
۴۔جَدِّ صحیح: وہ مُذکَّراصلِ بعید(1)جس کی میّت کی طرف نسبت میں عورت کا واسطہ نہ آئے۔ جیسے: دادا ، پردادا،سکڑ دادا،لکڑ دادا اوپر تک۔
۵۔جَدِّ فاسِد: وہ مُذکَّراصلِ بعید جس کی میّت کی طرف نسبت میں عورت کا واسطہ آجائے۔جیسے: نانا،پرنانا اوپر تک، دادی کا باپ، دادا،نانا اوپرتک۔
۶۔جَدَّہ صحیحہ: وہ مُؤنَّث اصلِ بعیدجس کی میّت کی طرف نسبت میں جَدِّ فاسد کا واسطہ نہ آئے۔جیسے: دادی، پردادی اوپر تک، نانی، پرنانی اوپرتک ۔
۷۔جَدَّہ فاسِدَہ: وہ مُؤنَّث اصلِ بعیدجس کی میّت کی طرف نسبت میں جَدِّ فاسِد کا واسطہ آجائے۔جیسے: نانا کی ماں، نانی،دادی اوپر تک، اِسی طرح دادی کے باپ کی ماں ، نانی، دادی اوپر تک۔
فائدہ: اَجْدادِ صحیحین اور جَدّاتِ صحیحات‘ اَصْحابِ فرائض میں سے ہیں جبکہ اَجْدادِ فاسِدِین اور جَدَّاتِ فاسِدات ذوی الاَرْحام کی چوتھی قسم کے اَفراد ہیں۔
۸۔جس عددکی کسی کَسْر کی مقدار معلوم کرنی ہو اُس عدد کو اُس کَسْر کے مخرج پر تقسیم کردیں خارجِ قسمت اُس عدد کی اُس کَسْر کی مقدار ہوگی۔مثلاً24 کاثُمُن(-)معلوم كرنا ہو تو 24 کوثُمُن کےمخرج 8پر تقسیم کردیں خارجِ قسمت 24کا ثُمُن ہوگا۔وَعَلَى هَذَا الْقِيَاسُ.
۹۔ہر کُل میں ہمیشہ 10عُشُر، 9تُسُع، 8ثُمُن، 7سُبُع، 6سُدُس، 5خُمُس، 4رُبُع، 3 ثُلُث اور2نصف ہوتے ہیں۔اِس کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اِن کَسْروں کی آپس کی بے شمار نسبتیں سمجھی جاسکتی ہیں مثلاًیہ کہ عُشُر نصف خُمُس ہوتاہے یادو سُدُس ایک ثُلُث ہوتے ہیں وغیرہ۔
۱۰۔فَنِّ فرائض میں جب کوئی رشتہ مطلق بیان کیا جائے تو وہ میّت کی طرف منسوب ہوتاہے مثلاً ماں ،باپ، بیٹا وغیرہ کہاجائےتو مطلب ہوتاہے: میّت کی ماں، میّت کا باپ، میّت کا بیٹا،اورمطلق رشتے ہمیشہ میّت کے اعتبار سے ہی بیان کیے جائیں وارثوں کے آپس کے رشتے مطلق بیان نہ کیے جائیں؛ کہ اِس سےسخت التباس کا اندیشہ ہے۔
مقدِّمہ (ابتدائی باتیں)
علمِ میراث کی تعریف:
وہ علم جس سے میت کے تَرْکے میں ہر وارث کا پورا پورا حق معلوم ہوجائے۔ اِس علم کوفرائض اورعلمِ فرائض بھی کہتے ہیں۔اورمسائلِ میراث جاننے والے کو فَارِض، فَرِیْض، فَرَضِیّ، فَرَّاض اورفَرَائِضیّ بھی کہتے ہیں۔
علمِ میراث کا موضوع:
علمِ میراث کا موضوع وارثین کے درمیان تَرْکے کی تقسیم ہے۔
علم ِمیراث کی غَرَض:
میّت کے تَرْکے میں ہر وارث کے حق کی معرفت حاصل کرنا۔
علم میراث کی اہمیت :
اس علم کی اہمیت کے لیے اتنا کافی ہے کہ قرآنِ کریم نے اِس کے اَحکام بہت تفصیل سے بیان فرمائے ہیں اورحدیث پاک میں اِسے سیکھنے اورسکھانے کا حکم ارشاد فرمایاگیا ہے: ”علم سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ اورفرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھا ؤ“(2)۔
وِرَاثت کے اَرْکان:
وراثت کے تین ارکان ہیں:
١۔ مُوْرِث یعنی وہ شخص جو فوت ہوگیا اور وارثوں کے لیے میراث چھوڑ گیا ہو۔
٢۔ وَارِث یعنی وہ شخص جو مُوْرِث کی میراث کا مستحق ہو۔
٣۔ مِیْرَاث یا تَرْکہ یعنی وہ قابلِ وِرَاثت اَمْوال جو میت نے چھوڑے ہوں۔
وِرَاثت کے اسباب :
وراثت کے تین اسباب ہیں:
١۔ نَسَبی قَرابت (3)یعنی رشتہ داری۔
٢۔نکاحِ صحیح (4)۔
٣۔وَلاء یعنی عِتَاق ومُوَالات(5)۔
وراثت کی شرطیں:
وراثت کی تین شرطیں ہیں:
١۔مُوْرِث کا مرنا۔
٢۔مُوْرِث کی موت کے وقت وارِث کا زندہ ہونا۔
٣۔مانعِ اِرْث(وِراثت سے محروم کردینے والی کسی چیز) کا نہ پایا جانا۔
وراثت کے موانع:
وراثت کے مَوَانِع(وراثت سے محروم كردینے والی چیزیں)چار ہیں:
١۔رِقّ یعنی غلام ہونا اگرچہ مُکاتَب یا مُدَبَّر یا اُمِّ وَلَد ہو۔
٢۔قتلِ مُوْرِث یعنی عاقل بالغ وارِث کا ناحق اپنے مُوْرِث کواِس طورپرقتل کردینا جس پر قِصَاص یا کَفَّارہ لازم آتاہے(6)۔
٣۔اختلافِ دِیْنَین: وارث و مورث میں سے ایک کامسلمان اور دوسرے کا کافر ہونا۔
مسئلہ: کفار کے مختلف گروہ مثلاً نصرانی ، یہودی ، مجوسی، بت پرست سب ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔
٤۔ اختلافِ دارَین یعنی وارث و مورث دونوں کے مُلکوں کا جدا جدا ہونا جبکہ دونوں کافر ہوں مثلاً ایک حَرْبی یا مُستامِن ہواور دوسرا ذِمّی۔
مسئلہ: ملکوں کے جدا جدا ہونےسے شرعاً مراد یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی اپنی الگ افواج ہوں اور وہ ایک دوسرے کا خون حلال سمجھتے ہوں۔
مسئلہ: ملکوں کا اختلاف غیر مسلموں کے حق میں ہے یعنی اگرایک عیسائی‘ مسلمانوں کے ملک میں ہے اور اس کا رشتہ دار دوسرے ملک میں ہے جو دار الحرب ہے تو اب یہ ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے۔
(1)اصلِ بعید: وہ اصل جس کی فرع کی طرف نسبت میں کوئی واسطہ ہو۔جیسےپوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کےلیےدادا دادی اورنانا نانی وغیرہ۔اورجس اصل کی فرع کی طرف نسبت میں کوئی واسطہ نہ ہو وہ”اصلِ قریب“ہے۔جیسےبیٹےبیٹیوں کےلیےماں،باپ۔اِسی پر قِیاس کرتے ہوئے ”فرعِ بعید“ اور” فرعِ قریب“ کو بھی سمجھا جا سکتاہے۔
(2)"السنن الکبری " کتاب الفرائض، الأمر بتعليم الفرائض، ٤/٦٣، حديث: ٦٣٠٥.
(3) نسبی قرابت اور نکاحِ صحیح کی وجہ سے یہ لوگ وارث بنتے ہیں: (۱) ذوی الفروض۔ (۲) عصباتِ نسبیہ۔ (۳) ذوی الارحام۔(۴) مُقَرّلہ بالنَّسَب علی الغیر۔اِسی طرح وَلاء کی وجہ سے یہ لوگ وارث بنتے ہیں: (۱) مولیٰ عَتاقہ ۔(۲) مولیٰ عَتاقہ کے عصبہ نسبیہ۔ (۳) مولیٰ مُوَالات ۔باقی موصٰی لہ بجمیع المال اور بیت المال حقیقۃً وارثین میں سے نہیں ہیں، اِن کو تغلیباً وارثوں میں شمار کر لیا جاتاہے۔
(4)نکاحِ صحیح وہ ہے جو شرائطِ نکاح کے ساتھ ہواہو، نکاحِ صحیح ہونے کے بعد اگر میاں یا بیوی میں سے کسی کا انتقال ہوجائے تو دوسرا اُس کا وارث ہوگا خواہ دخول یا خلوتِ صحیحہ ہوئی ہو یا نہیں، ہاں ! اگر نکاح فاسد ہوایعنی نکاح کی کوئی شرط مفقود ہوئی مثلاً بغیر گواہوں کے نکاح ہوا یا دوبہنوں سے ایک ساتھ نکاح کیا یا عورت کی عدّت میں اُس کی بہن سے نکاح کیایا غیر کی معتدّہ سے نکاح کیا وغیرہ پھر اُن میں سے کسی کا انتقال ہوجائے تو دوسرا اُس کا وارث نہیں ہوگا۔نکاحِ صحیح کے بعد اگر عورت کو طلاق دیدی اور عدّت بھی گذر گئی،یا غیر مرض الموت میں طلاقِ بائن دیدی تو کوئی کسی کا وارث نہیں ہوگا،اور طلاق رجعی تھی توعدّت کے اندر دونوں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے، اور اگر مرض الموت میں طلاقِ بائن دی تو عدّت کے اندر عورت وارث ہوگی شوہر نہیں۔
(5)عِتَاق سے مراد غلام یا باندی کو آزاد کرنا ہے اور مُوَالات سے مراد عقدِ مُوَالات ہے یعنی کوئی مجہول النَّسَب (جس کا نَسَب معلوم نہ ہو) کسی دوسرے سے اِس طرح کہے کہ: تو میرا مولیٰ ہے، جب میں مر جاؤں تو میرا وارث تُو ہوگا اور اگر میں کوئی جِنَایت(جُرْم) کروں تودِیَت تُو ادا کرےگا،اوردوسرا اِسے قبول کرلے، تو یہ دوسرا شخص پہلے شخص کا وارث بن جائے گا۔
(6)قتل کی پانچ قسمیں ہیں: ١۔قتلِ عمد: کسی دھار دار آلے مثلاً چھری یا خنجر وغیرہ سے قصدًا قتل کرنا۔ ٢۔قتلِ شبہِ عمد: اسلحہ یااس کے قائم مقام کے علاوہ کسی چیز مثلاً لاٹھی یا پتھرسے قصدًا قتل کرنا۔ ٣۔قتلِ خطا: گمان یا فعل میں خطا کی بنا پر قتل کرنا مثلاًکسی مسلمان کو شکار یا حربی یا مرتد سمجھ کر قتل کردیا، یا نشانہ پرتو شکار یا دیوار کو لیا مگر ہاتھ بہک گیا یا کسی اور وجہ سے گولی وغیرہ کسی آدمی کو جالگی اور وہ مرگیا۔ ٤۔قتلِ شبہِ خطا: ایسا قتل جس میں قاتل کے فعل اختیاری کو دخل نہ ہو مثلاً سوتے میں یا چھت سے کسی پر گر پڑا اور وہ مرگیا۔ ٥۔قتل بالسبب:ایسا قتل جس کا سبب مذکورہ بالا صورتوں کے علاوہ قاتل کا فعل ہو مثلاً کسی نے دوسرے کی مِلْک میں کنواں کھودا یا راستے میں پتھر یا لکڑی رکھ دی اور کوئی شخص کنویں میں گرکریا پتھر یا لکڑی سے ٹھوکر کھاکر مرگیا۔ اِن میں سے پہلی چارقسموں میں قاتل وارث اپنے مقتول مُوْرِث کی وراثت سے محروم کر دیا جائے گا۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع