30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
حضر ت محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ حضرت عوف بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو کفار نے گرفتار کر کے انہیں تانتوں سے باندھ رکھا تھا۔ ان کے والد مالک اشجعی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُحضور اقدس عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامکی خدمت اقد س میں حاضر ہوئے اورماجرا عرض کیا آپ نے ارشادفرمایا : تم اپنے بیٹے عوف کے پاس کسی قاصد کے ذریعے یہ کہلا دو کہ وہ بکثرت لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّابِاللہ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِپڑھتے رہیں۔
چنانچہ حضرت عوف بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُیہ وظیفہ پڑھنے لگے ۔ ایک دن ناگہاں ان کی تمام تانتیں ٹوٹ گئیں اوروہ رہا ہوکرکفار کی قید سے نکل پڑے او رایک اونٹنی پر سوار ہوکر چل پڑے ۔ راستہ میں ایک چراگاہ کے اندر کفار کے سینکڑوں اونٹ چر رہے تھے ۔ آپ نے ان اونٹوں کو پکارا تو وہ سب کے سب دوڑتے بھاگتے ہوئے آپ کی اونٹنی کے پیچھے پیچھے چل پڑے ۔ انہوں نے مکان پر پہنچ کر اپنے والدین کو پکار اتووہ سب ان کی آواز سن کر ماں باپ اورخادم دوڑپڑے اوریہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ حضرت عوف بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاونٹوں کے زبردست ریوڑکے ساتھ موجود ہیں سب خوش ہوگئے ۔
ان کے والد حضرت مالک اشجعی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے بارگاہ نبوت میں پہنچ کر سارا قصہ سنایا اور اونٹوں کے بارے میں بھی عرض کیا توآپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ان اونٹوں کو تم جو چاہو کرو، تمہارا بیٹا ان اونٹوں کا مالک ہوچکا میں ان اونٹوں میں کوئی مداخلت نہیں کروں گا۔ یہ اللہ تَعَالٰی کی طرف سے ایک رزق ہے جو تمہیں عطا کیا گیا۔روایت ہے کہ اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی :
-وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ(۲) وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُؕ-وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗؕ (سورہ طلاق، پ۲۸)
اورجو شخص اللہ تَعَالٰی سے ڈرتاہے اللہ تَعَالٰی اس کے لیے مضرتوں سے نجات کی شکل نکال دیتاہے اوراس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچاتا ہے جہاں اس کو گمان بھی نہیں ہوتااور جو شخص اللہ تَعَالٰی پر توکل کرے گا تو اللہ تَعَالٰی اسکے لیے کافی ہے ۔([1]) (الترغیب والترہیب ، ج۳، ص۱۰۵ وتفسیر ابن کثیر، ج۴، ص۳۸۰)
(۹۵)حضرت فاطمۃ الزہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا
یہ حضور شہنشاہ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سب سے چھوٹی اور سب سے زیادہ پیاری بیٹی ہیں ان کا لقب سَیِّدَۃُ نِسَائِ الْعٰلَمِیْنَ(سارے جہان کی عورتوں کی سردار) ہے۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے بارے میں ارشادفرمایا کہ فاطمہ میری بیٹی ، میرے بدن کا حصہ ہے جس نے اس کا دل دکھایا ، اس نے میرا دل دکھایا اور جس نے میرا دل دکھایا اس نے اللہ تَعَالٰی کو ایذا دی ۔([2])
ان کے فضائل ومناقب میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔رمضان ۲ھ میں مدینہ منورہ کے اندر ان کا نکاح حضرت علی بن ابی طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ساتھ ہوا اورذوالحجہ ۲ ھ میں رخصتی ہوئی ۔ ان کے بطن سے حضرت امام حسن وامام حسین وامام محسن تین صاحبزادگان اور حضرت زینب ورقیہ وام کلثوم تین صاحبزادیاں تولد ہوئیں۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد صرف چھ ماہ زندہ رہیں ۔ ۸ ۲برس کی عمر میں عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت فرما ہوئیں ۔ حضرت عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے نمازجنازہ پڑھائی اور رات کو سپرد خا ک کی گئیں ۔ مزار مبارک مدینہ منورہ میں ہے۔ ([3])(اکمال، ص۶۱۳وغیرہ)
آپ کی کرامتوں میں سے ایک کرامت یہ ہے کہ آپ ایک دن ایک بوٹی اور دوروٹیاں لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں ۔ رحمت عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی پیاری صاحبزادی کے اس تحفے کو قبول فرما کر ارشادفرمایا کہ اے لخت جگر ! تم اس سینی کو اپنے ہی گھر میں لے کر چلو، پھر خود حضور سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت سیدہ فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰیعَنْہَاکے مکان پررونق افروزہوکراس سینی کو کھولاتو گھر کے تمام افراد یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ سینی روٹیوں اوربوٹیوں سے بھری ہوئی تھی۔ حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اَنّٰی لَکِ ھٰذَا؟(اے بیٹی!یہ سب تمہارے لئے کہاں سے آیا؟)توحضرت فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰیعَنْہَانے عرض کیا :
ھُوَ مِنْ عِنْدِاللہ اِنَّ اللہ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ
(یعنی یہ اللہ تَعَالٰی کی طر ف سے آیاہے، وہ جس کو چاہتا ہے بے شمار روزی دیتاہے ۔)
پھر حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت علی وحضرت فاطمہ وحضرت امام حسن وحضرت امام حسین اور دوسرے اہل بیت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو جمع فرما کر سب کے ساتھ سینی میں سے کھانا تناول فرمایاپھر بھی اس کھانے میں اس قدر حیرت ناک اورتعجب خیز برکت ظاہرہوئی کہ سینی روٹیوں اوربوٹیوں سے بھری ہوئی رہ گئی اور اس کو حضرت بی بی فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰیعَنْہَا نے اپنے پڑوسیوں اوردوسرے مسکینوں کو کھلایا۔([4]) (روح البیان، آل عمران، ص۳۲۳)
روایت ہے کہ ایک روز حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے شہنشاہ مدینہ حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعوت کی ۔ جب دونوں عالم کے میزبان ، حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع