30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
نے ایک بلند آواز اپنے پیچھے سنی کہ کوئی کہہ رہا ہے : اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ کُلُّہٗ وَلَکَ الْمُلْکُ کُلُّہٗ وَبِیَدِکَ الْخَیْرُ کُلُّہٗ وَاِلَیْکَ یَرْجِعُ الْاَمْرُ کُلُّہٗ عَلَانِیَتُہٗ وَسِرُّہٗ لَکَ الْحَمْدُ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ اِغْفِرْ لِیْ مَا مَضٰی مِنْ ذُنُوْبِیْ وَ اعْصِمْنِیْ فِیْمَا بَقِیَ مِنْ عُمْرِیْ وَارْزُقْنِیْ اَعْمَالًا زَاکیۃً ترضٰی بِہَا عَنِّیْ وَتُبْ عَلَیَّ۔(اے اللہ ! عَزَّ وَجَلَّ تیرے ہی لئے تعریف ہے کل کی کل اور تیرے ہی لئے بادشاہی ہے تمام کی تمام اورتیرے ہی لئے بھلائی ہے سب کی سب اورتیری ہی طرف تمام معاملات لوٹتے ہیں۔ ظاہری بھی اورباطنی بھی ۔ تیرے ہی لئے تعریف ہے یقیناتوہر چیز پر قدرت والا ہے ۔ میرے ان گناہوں کو بخش دے جو ہوچکے اورمیری عمر کے باقی حصہ میں تو مجھے اچھے اعمال کی توفیق دے اورتو ان اعمال کے ذریعے مجھ سے راضی ہوجااورمیری توبہ قبول فرمالے ۔)
حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمسجد سے نکل کر رحمت عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں حاضر ہوئے اورماجرا سنایا۔ آپ نے فرمایا : تمہارے پیچھے بلند آواز سے دعا پڑھنے والے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلامتھے۔([1]) (کتاب الذکرلابن ابی الدنیا)
حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰیعَنْہَافرماتے ہیں کہ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُایک قافلہ کے ساتھ مکہ مکرمہ جارہے تھے اورمیں اورحضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُدونوں اس قافلے کے پیچھے چل رہے تھے ناگہاں ایک بدلی اٹھی تو حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا کہ یا اللہ! عَزَّ وَجَلَّ ہم کو اس بدلی کی اذیت سے بچالے اور اس بدلی کا رخ پھیر دے ۔ چنانچہ بدلی کا رخ پھر گیااور ہم دونوں پر بارش کی ایک بوند بھی نہیں گری لیکن جب ہم دونوں قافلے میں پہنچے تو ہم نے یہ دیکھا کہ لوگوں کی سواریاں اور سب سامان بھیگے ہوئے ہیں ۔ ہم کو دیکھ کر حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا کہ کیا یہ بارش جو ہم پر ہوئی ہے تم لوگوں پر نہیں ہوئی؟میں نے عرض کیا کہ اے امیرالمؤمنین! حضرت ابی بن کعب نے بدلی دیکھ کر خدا سے دعا مانگی کہ ہم اس بارش کی ایذارسانی سے بچ جائیں اس لئے ہم پر بالکل بارش نہیں ہوئی اوربدلی کا رخ پھرگیا۔ یہ سن کر حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا کہ تم دونوں نے ہمارے لئے کیوں دعا نہیں مانگی؟کاش! تم ہمارے لئے بھی دعا مانگتے تاکہ ہم لوگ بھی اس بارش کی تکلیف سے محفوظ رہتے ۔ ([2]) (کنزالعمال، ج۱۵، ص۲۳۲)
ایک دن حضورسید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا کہ بخار کے مریض کو اللہ تَعَالٰی بہت زیادہ نیکیاں عطافرماتاہے ۔ یہ سن کر حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے یہ دعا مانگی کہ یا اللہ! عَزَّ وَجَلَّ میں تجھ سے ایسے بخار کی دعا مانگتاہوں جو مجھے جہاد اوربیت اللہ شریف کے سفر اورمسجد کی حاضری سے نہ روکے ۔ آپ کی دعا مقبول ہوئی۔ چنانچہ آپ کے صاحبزادگان کا بیان ہے کہ میرے باپ حضرت ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو ہر وقت بخار رہتا تھا اوربدن جلتا رہتا تھا مگر اس حالت میں بھی وہ حج و جہاد کے لئے سفر کرتے اور مسجدوں میں بھی حاضری دیتے تھے اوراس قدر جوش وخروش کے ساتھ ان کاموں کو کرتے تھے کہ کوئی محسوس بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یہ بخار کے مریض ہیں۔([3]) (کنزالعمال، ج۱۵، ص۲۳۴مطبوعہ حیدرآباد)
(۶۲)حضرت ابو الدرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
یہ قبیلہ انصار میں خاندان خزرج سے نسبی تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کا نام عویمربن عامر انصاری ہے ۔ یہ بہت ہی علم وفضل والے فقیہ اورصاحب حکمت صحابی ہیں اورزہد وعبادت میں بھی یہ بہت ہی بلند مرتبہ ہیں ۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد انہوں نے مدینہ منورہ چھوڑ کر شام میں سکونت اختیار کرلی اور ۳۲ھ میں شہر دمشق کے اندر وصال فرمایا۔([4]) (اکمال، ص۵۹۴وغیرہ)
ایک مرتبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاپنی ہانڈی کے نیچے آگ سلگارہے تھے اور حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُبھی ان کے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے ۔ ناگہاں ہانڈی میں سے تسبیح پڑھنے کی آواز بلند ہوئی پھر خودبخود وہ ہانڈی چولہے پر سے گرکر اوندھی ہوگئی پھر خود بخود ہی چولہے پر چلی گئی لیکن اس ہانڈی میں سے پکوان کا کوئی حصہ بھی زمین پر نہیں گرا۔ حضرت ابو الدرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے حضرت سلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے کہاکہ
اے سلمان!یہ تعجب خیز اور حیرت انگیز معاملہ دیکھو۔حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایاکہ اے ابوالدردائ! اگر تم چپ رہتے تو اللہ تَعَالٰی کی نشانیوں میں سے بہت سی دوسری بڑی بڑی نشانیاں بھی تم دیکھ لیتے ۔ پھر یہ دونوں ایک ہی پیالہ میں کھانا کھانے لگے تو پیالہ بھی تسبیح پڑھنے لگا اور اس پیالہ میں جو کھانا تھا اس کھانے کے دانے دانے سے بھی تسبیح پڑھنے کی آواز سنائی دینے لگی۔(حلیۃالاولیاء ، ج۱، ص۲۲۴و۲۸۹)
عقدمواخات میں حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابو الدرداء اور حضر ت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰیعَنْہَاکو ایک دوسرے کا بھائی بنادیا تھا۔([5])
(۶۳)حضرت عمروبن عبسہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
ان کی کنیت ابونجیح ہے اوریہ قبیلہ بنو سلیم میں سے تھے ۔ اسلام کے آغاز ہی میں یہ دولت ایمان سے مالا مال ہوگئے تھے ۔مسلمان ہونے کے بعدحضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے فرمایا کہ تم اپنی قوم میں جاکر رہو اورجب تم یہ سن لو کہ میں مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ چلا گیا ہوں تو اس وقت تم میرے پاس چلے آنا۔ چنانچہ یہ اپنی قوم میں مقیم ہوگئے یہاں تک کہ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع