30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
میری آنکھوں میں رکھ کر مجھے ارحم الراحمین کے سپرد کیا جائے۔ چنانچہ لوگوں نے آپ کی اس وصیت پر عمل کیا۔ ([1]) (اکمال ، ص۶۱۷وغیرہ)
بوقت وصال اٹھتّریا چھیاسی برس کی عمر تھی ۔ وصال کے وقت ان کا بیٹا یزیددمشق میں موجود نہیں تھا اس لئے ضحاک بن قیس نے آپ کے کفن ودفن کا انتظام کیا اور اسی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی ۔ حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُبہت ہی خوبصورت، گورے رنگ والے اور نہایت ہی وجیہ اوررعب والے تھے۔ چنانچہ امیر المؤمنین حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرمایا کرتے تھے کہ ’’معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُعرب کے کسریٰ ‘‘ہیں۔ ([2]) (اسدالغابہ، ج۴، ص۳۸۵تا۳۸۷)
آپ کی چند کرامتیں بہت ہی مشہور ہیں اور آپ کے فضائل میں چند احادیث بھی مروی ہیں ۔
ان کی ایک مشہور کرامت یہ ہے کہ کشتی یا جنگ میں کبھی بھی اورکہیں بھی اور کسی شخص سے بھی مغلوب نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ ہی اپنے مد مقابل پر غالب رہے کیونکہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے بارے میں ارشادفرمادیا تھا : اِنَّ مُعَاوِیَۃَ لَا یُصَارِعُ اَحَدًا اِلاَّ صَرَعَہٗ مُعَاوِیَۃُ(یعنی معاویہ جس شخص سے لڑے گا معاویہ ہی اس کو پچھاڑے گا۔) ([3])
(کنز العمال، ج۱۲، ص۳۱۷بحوالہ دیلمی عن ابن عباس)
سلیم بن عامرخبائری کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ملک شام میں بالکل ہی بارش نہیں ہوئی اورشدید قحط کا دور دورہ ہوگیا ۔ حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنماز استسقاء کے لیے میدان میں نکلے اورمنبرپر بیٹھ کر آپ نے حضرت ابن الاسودجرشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو بلایا اوران کو منبرکے نیچے اپنے قدموں کے پاس بٹھا کر اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا اور اس طرح دعامانگی کہ یا اللہ!عَزَّ وَجَلَّ ہم تیرے حضور میں حضرت ابن الاسودجرشی کو سفارشی بنا کر لائے ہیں جن کو ہم اپنے سے نیک اورافضل سمجھتے ہیں ۔
پھر حضرت ابن الاسودجرشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاورتمام حاضرین بھی اپنے اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر بارش کی دعا مانگنے لگے ناگہاں پچھم سے ایک زوردار ابر اٹھا پھر موسلا دھار بارش ہونے لگی یہاں تک کہ ملک شام کی زمین سیراب ہوکر کھیتی سے سرسبز و شاداب ہوگئی ۔([4]) (طبقات ابن سعد، ج۷، ص۴۴۴)
حضرت علامہ مولاناجلال الدین مولانائے روم رحمۃاللہ تَعَالٰی علیہ نے اپنی مثنوی شریف میں آپ کی اس کرامت کو بڑی دھوم سے بیان فرمایا ہے کہ ایک روز آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے محل میں داخل ہوکر کسی نے آپ کو نماز فجر کے لیے بیدار کیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے دریافت فرمایا کہ تو کون ہے؟ اورکس لئے تو نے مجھے جگایا ہے؟تو اس نے جواب دیا کہ اے امیر معاویہ! میں شیطان ہوں۔ آپ نے حیران ہوکر پوچھا کہ اے شیطان !تیرا کام تو انسان سے گناہ کرانا ہے اورتونے مجھے نماز کے لیے جگاکر مجھے نیک عمل کرنے کا موقع دیا۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟تو شیطان نے جواب دیا کہ اے امیر المؤمنین! میں جانتاہوں کہ اگر سوتے رہنے میں آپ کی نماز فجر قضاہوجاتی تو آپ خوف الٰہی سے اس قدر روتے اوراس کثرت سے توبہ واستغفار کرتے کہ خدا کی رحمت کو آپ کی بے قراری وگریہ و زاری پر پیارآجاتا اوروہ آپ کی قضا نماز قبول فرماکر ادا نماز سے ہزاروں گنازیادہ اجر وثواب عطافرما دیتا چونکہ مجھے خدا کے نیک بندوں سے بغض وحسد ہے اس لئے میں نے آپ کو جگادیا تاکہ آپ کو کچھ زیادہ ثواب نہ مل سکے ۔([5]) (مثنوی مولانا روم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ)
مثنوی شریف کی اس حکایت سے معلوم ہوا کہ شیطان کبھی لوگوں کو سلاکر اور نمازیں قضا کر اکرنیکیوں اورثوابوں سے محروم کراتا ہے کبھی کچھ لوگوں کو نمازوں کے لیے جگا کر اورادانمازیں پڑھوا کر زیادہ نیکیوں اورثوابوں سے محروم کراتاہے اوراس کی صورت یہ ہے کہ جو لوگ صبح کو بیدارہوکر نماز فجر جماعت سے پڑھتے ہیں تو شیطان کبھی کبھی کچھ لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈال دیتاہے کہ میں خدا کا بہت ہی نیک بندہ ہوں کیونکہ میں نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی ہے اورفلاں فلاں لوگوں کی نمازیں قضا ہوگئیں یقینامیں ان لوگوں سے بہت نیک اوربہت اچھا ہوں ۔ظاہر ہے کہ اپنی اچھائی اوربرائی کا خیال آتے ہی نماز کا اجروثواب تو غارت اوراکارت ہوہی گیا، الٹے تکبراورگھمنڈ کا گناہ سر پر سوار ہوگیا بہر حال شیطان کے شر سے خدا تَعَالٰی کی پناہ۔
(۵۴)حضرت حارثہ بن نعمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
حضرت حارثہ بن نعمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ افاضل صحابہ میں سے ہیں ۔ جنگ بدر اور جنگ احدوغیرہ تمام اسلامی جنگوں میں مجاہدانہ شان کے ساتھ معرکہ آرائی کرتے رہے۔یہ قبیلہ بنو نجارمیں سے ہیں۔([6])
حضوراقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان کے بارے میں ارشادفرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے وہاں قرأت کی آوازسنی جب میں نے دریافت کیا کہ یہ کون شخص ہیں ؟تو
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع