30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکابیان ہے کہ مجھ سے حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا کہ آئیے ہم اورآپ یہ عہد کریں کہ ہم دونوں میں سے جو بھی پہلے وصال کرے وہ خواب میں آکر اپنا حال دوسرے کو بتادے ۔ میں نے کہا کہ کیا ایسا ہوسکتاہے ؟تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں مؤمن کی روح آزاد رہتی ہے ۔ روئے زمین میں جہاں چاہے جاسکتی ہے ۔ اس کے بعد حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا وصال ہوگیا۔
پھر میں ایک دن قیلولہ کر رہا تھاتو بالکل ہی اچانک حضرت سلمان رضی اللہ تَعَالٰی عنہ میرے سامنے آگئے اوربلند آوازسے انہوں نے کہا : اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہ وَبَرَکَاتُہٗ میں نے جواب میں : وَعَلَیْکُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَۃُ اللہ وَبَرَکَاتُہٗکہااور ان سے دریافت کیا کہ کہئے وصال کے بعد آپ پر کیا گزری ؟اورآپ کس مرتبہ پر ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میں بہت ہی اچھے حال میں ہوں اورمیں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ آپ ہمیشہ خدا پر توکل کرتے رہیں کیونکہ توکل بہترین چیز ہے، تو کل بہترین چیز ہے، توکل بہترین چیز ہے۔ اس جملہ کو انہوں نے تین مرتبہ ارشادفرمایا۔([1])
(شواہدالنبوۃ، ص۲۲۱)
اس روایت سے یہ معلوم ہوا کہ خدا کے نیک بندوں کی روحیں اپنے گھر والوں یا احباب کے مکانوں پر جایا کرتی ہیں اوراپنے متعلقین کو ضروری ہدایات بھی دیتی رہتی ہیں اور یہ روحیں کبھی خواب میں اورکبھی عالم امثال میں اپنے مثالی جسموں کے ساتھ بیداری میں بھی اپنے متعلقین سے ملاقات کرکے ان کو ہدایات دیتی اور نصیحت فرماتی رہتی ہیں۔ چنانچہ بہت سے بزرگوں سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے وفات کے بعد اپنے جسموں کے ساتھ اپنی قبروں سے نکل کر اپنے متعلقین سے ملاقات کی نیز اپنے اور دوسروں کے حالات کے بارے میں بات کی ۔
چنانچہ مشہور روایت ہے کہ حضر ت خوا جہ ابوالحسن خرقانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ روزانہ حضرت خوا جہ بایزید بسطامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے مزار پر انوار پر حاضری دیا کرتے تھے۔ ایک دن حضرت خوا جہ بایزید بسطامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ قبر منور سے باہر تشریف لائے اورحضرت خوا جہ ابوالحسن خرقانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو اپنی نسبت طریقت سے سرفراز فرما کر خلافت عطافرمائی ۔
چنانچہ شجرہ نقشبندیہ پڑھنے والے یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضرت خوا جہ ابو الحسن خرقانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ حضرت خوا جہ بایزیدبسطامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے خلیفہ ہیں حالانکہ تاریخوں سے ثابت ہے کہ حضرت خوا جہ بایزیدبسطامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی وفات کے تقریباً انتالیس برس بعد حضرت خوا جہ ابوالحسن خرقانی رحمۃاللہ تَعَالٰی علیہخرقان میں پیدا ہوئے ۔
ان کی مشہور کرامت یہ ہے کہ جنگل میں دوڑتے ہوئے ہرن کو بلایا تو وہ آپ کے پاس فوراً ہی حاضر ہوگیا۔ اسی طرح ایک مرتبہ اڑتی ہوئی چڑیا کو آپ نے آواز دی تو وہ آپ کی آواز سن کر زمین پر اترپڑی۔ (تذکرۂ محمود)
سلم بن عطیہ اسدی کابیان ہے کہ حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک مسلمان کے پاس اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے وہ جاں کنی کے عالم میں تھا توآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا کہ اے فرشتہ !تو اس کے ساتھ نرمی کر!راوی کہتے ہیں کہ اس مسلمان نے کہا کہ اے سلمان فارسی!(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) یہ فرشتہ آپ کے جواب میں کہتا ہے کہ میں تو ہر مؤمن کے ساتھ نرمی ہی اختیار کرتاہوں ۔([2]) (حلیۃ الاولیاء، ج۱، ص۲۰۴)
(۴۱)حضرت عبداللہ بن جعفر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
یہ حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے بھائی حضرت جعفربن ابی طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے فرزند ارجمند ہیں ۔ ان کی والدہ کا نام’’اسماء بنت عمیس ‘‘رَضِیَ اللہُ تَعَالٰیعَنْہَاہے ۔ ان کے والدین جب ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تو یہ حبشہ ہی میں پیداہوئے پھر اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے۔یہ بہت ہی دانشمندوحلیم، نہایت ہی علم وفضل والے اوربہت ہی پاکباز وپرہیزگار تھے اور سخاوت میں تو اس قدربلند مرتبہ تھے کہ ان کو بَحْرُالْجُوْدِ(سخاوت کا دریا) اوراَسْخَی الْمُسْلِمِیْنَ (مسلمانوں میں سب سے زیادہ سخی)کہتے تھے ۔ نوّے برس کی عمر پاکر بط ۸۰ھ میں مدینہ منورہ کے اندر وفات پائی۔([3])(اکما ل فی اسماء الرجال، ص۶۰۴)
ان کے وصال کے وقت عبدالملک بن مروان اموی خلیفہ کی طرف سے مدینہ منورہ کے حاکم حضرت ابان بن عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماتھے ان کو حضرت عبداللہ بن جعفر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی وفات کی خبر پہنچی تو وہ آئے اور خود اپنے ہاتھوں سے ان کو غسل دے کر کفن پہنایا اوران کا جنازہ اٹھا کر جنت البقیع کے قبرستان تک لے گئے ۔
حضرت ابان بن عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماکے آنسو ان کے رخسار پر بہہ رہے تھے اور وہ زور زور سے یہ کہہ رہے تھے کہ اے عبداللہ بن جعفر!رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُآپ بہت ہی بہترین آدمی تھے، آپ میں کبھی کوئی شر تھا ہی نہیں ، آ پ شریف تھے ، لوگوں کے ساتھ نیک برتاؤکرنے والے نیکو کار تھے۔ پھر حضرت ابان بن عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمانے آپ کے جنازہ کی نماز پڑھائی ۔ آپ کی عمر شریف کے بارے میں اختلاف ہے ۔ بعض نے کہا کہ آپ کی عمر نوّے برس کی تھی اوربعض کا قول ہے کہ بانوے برس کی عمر میں آپ نے وصال فرمایا۔اسی طرح آپ کے وصال کے سال میں بھی اختلاف ہے۔۸۰ھ، ۸۲ھ، ۸۵ھ تین اقوال ہیں۔ ([4]) (اسدالغابہ، ج۳، ص۱۳۳تا۱۳۵)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع