30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
العزت جل جلالہ کے دربار عالیہ سے کیسی کیسی عظیم الشان کرامتوں کے نشان عطاکئے جاتے ہیں ۔ وفات کے بعد بھی ان کے تصرفات بصورت کرامات جاری رہتے ہیں ۔ لہٰذا شہیدوں سے عقیدت ومحبت اوران کا ادب واحترام واجب العمل اورلازم الایمان ہوتاہے ۔
(۲۶) حضرت عبیدہ بن الحارث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
ان کا وطن مکہ مکرمہ ہے اور یہ خاندان قریش کے بہت ہی ممتاز اورنامور شخص ہیں۔ یہ ابتدائے اسلام ہی میں مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے ۔ پھر ہجرت بھی کی ۔ نہایت ہی وجیہ بہت ہی بہادر اورجانبازصحابی ہیں ۔ ۲ھ میں ساٹھ یا اسّی مہاجرین کے ساتھ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کو ’’رابغ‘‘ کی طرف جہاد کے لیے روانہ فرمایا۔ چنانچہ تاریخ اسلام میں مجاہدین کا یہ لشکر سریہ عبیدہ بن الحارث کے نام سے مشہور ہے۔
۲ھ جنگ بدر میں انہوں نے شیبہ بن ربیعہ سے جنگ کی جو لشکر کفار کے سپہ سالار عتبہ بن ربیعہ کا بھائی تھا۔ یہ بڑی جاں بازی کے ساتھ لڑتے رہے مگر اس قدر زخمی ہوگئے کہ ان کی پنڈلی ٹوٹ کر چور چور ہوگئی اورنلی کا گودا بہنے لگا ۔ یہ دیکھ کر حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے آگے بڑھ کر شیبہ کو قتل کردیا اورحضر ت عبیدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو اپنے کاندھے پر اٹھاکر بارگاہ رسالت میں لائے ۔ اس حالت میں حضرت عبیدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیا میں شہادت سے محروم رہا؟ ارشاد فرمایا : ہر گز نہیں بلکہ تم شہادت سے سرفراز ہوگئے ۔ یہ سنکر انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ! عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اگر آج ابو طالب زندہ ہوتے تو وہ مان لیتے کہ ان کے اس شعر کا مصدا ق میں ہی ہوں ؎
وَنُسْلِمُہٗ حَتّٰی نُصَرَّعَ حَوْلَہٗ
وَنَذْھَلْ عَنْ اَبْنَا ئِنَا وَالْحَلَائِلٖ
(یعنی ہم حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس وقت دشمنوں کے حوالہ کریں گے جب ہم ان کے گردا گرد لڑتے لڑتے خون میں لت پت ہوجائیں گے اورہم اپنے بیٹوں اور بیویوں کو بھول جائیں گے ۔ )اسی زخم میں آپ منزل صفراء میں پہنچ کر شرف شہادت سے سرفراز ہوگئے ۔([1]) (ابوداود، ج۲، ص۲۶۱وزرقانی ، ج۱، ص۴۱۸)
عشق رسول میں بے پناہ جاں نثاریوں اورفداکاریوں کی بدولت ان کو یہ شاندار کرامت نصیب ہوئی کہ ان کی قبر اطہرسے اس قدر مشک کی تیز خوشبوآتی کہ پورا میدان ہر وقت مہکتا رہتا۔چنانچہ منقول ہے کہ ایک مدت کے بعد حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے ساتھ منزل صفراء میں قیام ہوا تو صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے حیران ہوکر بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس صحرا میں مشک کی اس قدر تیز خوشبو کہاں سے اورکیوں آرہی ہے؟آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس میدان میں ابو معاویہ (حضرت عبید ہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)کی قبر موجود ہوتے ہوئے تمہیں تعجب کیوں ہورہاہے کہ یہاں مشک کی خوشبو مہک رہی ہے ۔ ([2]) (کتاب صدصحابہ ، ص۳۱۴مرتبہ شاہ مراد مارہروی)
اللہ اکبر ! یہ سچ ہے ؎
کمالات ِ ولی مٹی میں بھی یوں جگمگاتے ہیں کہ جیسے نور ظلمت میں کبھی پنہاں نہیں ہوتا
(۲۷)حضرت سعد بن الربیع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
حضرت سعدبن الربیع بن عمروانصاری خزرجی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُبیعۃ العقبہ اولیٰ اور بیعۃ العقبہ ثانیہ دونوں بیعتوں میں شریک رہے اور یہ انصار میں سے خاندان بنی الحارث کے سردار بھی تھے ۔زمانہ جاہلیت میں جبکہ عرب میں لکھنے پڑھنے کا بہت ہی کم رواج تھااس وقت یہ کاتب تھے ۔ یہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے انتہائی شیدائی اوربے حد جاں نثار صحابی ہیں ۔
حضرت سعد بن الربیع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی صاحبزادی کا بیان ہے کہ میں امیر المؤمنین حضرت ابو بکرصدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے دربار میں حاضر ہوئی تو انہوں نے اپنے بدن کی چادر اتار کرمیرے لئے بچھا دی اورمجھے اس پر بٹھایا۔ اتنے میں حضر ت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُآگئے اورپوچھا : یہ لڑکی کون ہے ؟امیر المؤمنین حضرت ابو بکرصدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے فرمایا کہ یہ اس شخص کی بیٹی ہے جس نے حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے ہی میں جنت کے اندر اپنا ٹھکانابنا لیا اورمیں اور تم یوں ہی رہ گئے ۔ یہ سن کر حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے حیرت کے ساتھ دریافت کیا کہ اے خلیفہ رسول ! وہ کون شخص ہیں ؟تو آپ نے فرمایاکہ’’سعد بن الربیع‘‘ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اس کی تصدیق کی۔
جنگ بدر میں نہایت شجاعت کے ساتھ کفار سے معرکہ آرائی کی۔جنگ احد میں بارہ کافروں کو ایک ایک نیزہ مارا اور جس کو ایک نیزہ مارا وہ مرکر ٹھنڈا ہوگیا ۔ پھر گھمسان کی جنگ میں زخمی ہوکر اسی جنگ احد میں ۳ھ میں شہید ہوگئے اورحضرت خارجہ بن زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے ساتھ ایک قبر میں دفن ہوگئے ۔([3]) (اکمال ، ص۵۹۶، حاشیہ کنزالعمال، ج۱۶، ص۳۶، اسدالغابہ ، ج۲، ص۲۷۷)
حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا بیان ہے کہ جنگ احد کے دن حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ کو حضر ت سعد بن الربیع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی لاش کی تلاش میں بھیجا
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع