30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکہتے ہیں کہ جنگ احد کے دن جب میرے والدحضرت عبداللہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی مقدس لاش کو اٹھا کر بارگاہ رسالت میں لائے تو انکا یہ حال تھا کہ کافروں نے ان کے کان اورناک کو کاٹ کر ان کی صورت بگاڑدی تھی۔ میں نے چاہا کہ ان کا چہرہ کھول کر دیکھوں تو میری برادری اورکنبہ قبیلہ والوں نے مجھے اس خیال سے منع کردیا کہ لڑکا اپنے باپ کا یہ حال دیکھ کر رنج وغم سے نڈھال ہو جائے گا۔ اتنے میں میری پھوپھی روتی ہوئی ان کی لاش کے پاس آئیں تو سید عالم حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ تم ان پر روؤیا نہ روؤفرشتوں کی فوج برابر لگاتاران کی لاش پر اپنے بازوؤں سے سایہ کرتی رہی ہے ۔([1]) (بخاری، ج۱، ص۳۹۵)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا بیان ہے کہ جنگ احد کے دن میں نے اپنے والد حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو ایک دوسرے شہید(حضرت عمروبن جموح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) کے ساتھ ایک ہی قبرمیں دفن کردیا تھا ۔ پھر مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میرے باپ ایک دوسرے شہید کی قبر میں دفن ہیں اس لئے میں نے اس خیال سے کہ ان کو ایک الگ قبر میں دفن کروں ۔ چھ ماہ کے بعد میں نے ان کی قبر کو کھود کر لاش مبارک کو نکالاتو وہ بالکل اسی حالت میں تھے جس حالت میں ان کو میں نے دفن کیا تھا بجز اس کے کہ انکے کان پر کچھ تغیر ہوا تھا۔([2]) (بخاری ، ج۱، ص۱۸۰ وحاشیہ بخاری)
اورابن سعد کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے چہرےپر زخم لگا تھاا ور ان کا ہاتھ ان کے زخم پر تھا جب ان کا ہاتھ ان کے زخم سے ہٹایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا ۔ پھر جب ان کا ہاتھ ان کے زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیااوران کا کفن جو ایک چادر تھی جس سے چہرہ چھپا دیا گیا تھا اوران کے پیروں پر گھاس ڈال دی گئی تھی ، چادر اورگھاس دونوں کو ہم نے اسی طرح پر پڑا ہوا پایا۔([3]) (ابن سعد، ج۳، ص۵۶۲)
پھر اس کے بعد مدینہ منورہ میں نہروں کی کھدائی کے وقت جب حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے یہ اعلان کرایا کہ سب لوگ میدان احد سے اپنے اپنے مردوں کو ان کی قبروں سے نکال کر لے جائیں توحضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں کہ میں نے دوبارہ چھیالیس برس کے بعداپنے والد ماجدحضرت عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی قبر کھود کر ان کی مقدس لاش کو نکالا تومیں نے ان کو اس حال میں پایا کہ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ۔ جب ان کا ہاتھ اٹھایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا پھر جب ہاتھ زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیا اور ان کا کفن جو ایک چادر کا تھا بدستو رصحیح و سالم تھا۔ ([4]) (حجۃ اللہ علی العالمین، ج۲، ص۸۶۴بحوالہ بیہقی)
حضرت طلحہ بن عبیداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں کہ میں اپنی زمین کی دیکھ بھال کے لیے ’’غابہ ‘‘جا رہا تھا تو راستہ میں رات ہوگئی ۔ اس لئے میں حضرت عبداللہ بن عمروبن حرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی قبر کے پاس ٹھہر گیا ۔ جب کچھ رات گزرگئی تو میں نےان کی قبر میں سے تلاوت کی اتنی بہترین آواز سنی کہ اس سے پہلے اتنی اچھی قرأت میں نے کبھی بھی نہیں سنی تھی ۔
جب میں مدینہ منورہ کو لوٹ کرآیا اورمیں نے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا اے طلحہ! تم کو یہ معلوم نہیں کہ خدا نے ان شہیدوں کی ارواح کو قبض کر کے زبرجد او ریاقوت کی قنـدیلوں میں رکھا ہے اور ان قندیلوں کو جنت کے باغوں میں آویزاں فرمادیاہے جب رات ہوتی ہے تو یہ روحیں قندیلوں سے نکال کر ان کے جسموں میں ڈال دی جاتی ہیں پھرصبح کو وہ اپنی جگہوں پر واپس لائی جاتی ہیں ۔([5])(حجۃ اللہ علی العالمین، ج۲، ص۸۷۱بحوالہ ابن مندہ)
یہ مستند روایات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرا ت شہداء کرام اپنی اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں اوروہ اپنے جسموں کے ساتھ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں تلاوت کر سکتے ہیں اور دوسرے قسم قسم کے تصرفات بھی کرسکتے اور کرتے ہیں۔
(۱۸)حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
ان کی کنیت ابو عبداللہ ہے ۔ یہ قبیلہ خزرج کے انصاری اورمدینہ منورہ کے باشندہ ہیں ۔ یہ ان ستر خوش نصیب انصار میں سے ایک ہیں جن لوگوں نے ہجرت سے بہت پہلے میدان عرفات کی گھاٹی میں حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بیعت اسلام کی تھی ۔ یہ جنگ بدر اوراس کے بعدکے تمام جہادوں میں مجاہدانہ شان سے شریک جنگ رہے ۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کو یمن کا قاضی اورمعلم بنا کر بھیجا تھا اورحضرت امیر المؤمنین عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اپنے دور خلافت میں ان کو ملک شام کا گورنربھی مقرر کردیا تھا جہاں انہوں نے ۱۸ھ میں طاعونِ عمواس میں علیل ہوکر اڑتیس سال کی عمرمیں وفات پائی ۔آپ بہت ہی بلند پایہ عالم ، حافظ ، قاری، معلم اور نہایت ہی متقی وپرہیز گار اور اعلی درجے کے عبادت گزار تھے ۔ بنی سلمہ کے تمام بتوں کو انہوں نے ہی توڑ پھوڑ کر پھینک دیا تھا۔ حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ قیامت میں ان کا لقب’’امام العلماء ‘‘ہے ۔([6]) (اکمال ، ص۶۱۶واسدالغابہ، ج۴، ص۳۷۸)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع