30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
جنگ بدرمیں سعید بن العاص کا بیٹا’’عبیدہ‘‘سر سے پاؤں تک لوہے کا لباس پہنے ہوئے کفار کی صف میں سے نکلا اورنہایت ہی گھمنڈاورغرورسے یہ بولا کہ اے مسلمانو! سن لو کہ میں ’’ابو کرش‘‘ہوں ۔ اس کی یہ مغرورانہ للکارسن کر حضرت زبیر بن العوام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُجوش جہاد میں بھرے ہوئے مقابلے کے لیے اپنی صف سے نکلے مگر یہ دیکھا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے سوا اس کے بدن کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جو لوہے میں چھپاہوا نہ ہو۔آپ نے تاک کر اس کی آنکھ میں اس زور سے برچھی ماری کہ برچھی اس کی آنکھ کو چھیدتی ہوئی کھوپڑی کی ہڈی میں چبھ گئی اور وہ لڑکھڑا کر زمین پر گرااورفوراًہی مرگیا۔حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے جب اس کی لاش پر پاؤں رکھ کر پوری طاقت سے برچھی کو کھینچا تو بڑی مشکل سے برچھی نکلی لیکن برچھی کا سرا مڑکر خم ہوگیا تھا۔یہ برچھی ایک باکرامت یادگار بن کر برسوں تک تبرک بنی رہی۔ حضوراقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے یہ برچھی طلب فرمالی اوراس کو اپنے پاس رکھا۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد خلفائے راشدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے پاس یکے بعد دیگرے منتقل ہوتی رہی اوریہ حضرات اعزازواحترام کے ساتھ اس برچھی کی خاص حفاظت فرماتے رہے ۔ پھر حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے فرزندحضرت عبداللہ بن زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰیعَنْہَاکے پاس آگئی یہاں تک کہ ۷۳ھ میں جب بنو امیہ کے ظالم گورنرحجاج بن یوسف ثقفی نے ان کو شہید کردیا تو یہ برچھی بنوامیہ کے قبضہ میں چلی گئی۔ پھر اس کے بعد لاپتہ ہوگئی ۔ ([1]) (بخاری شریف ج۲، ص۵۷۰، غزوہ بدر)
بخاری شریف کی یہ حدیث پاک ہر مسلمان دین دار کو جھنجھوڑ جھنجھوڑکر متنبہ کر رہی ہے کہ بزرگان دین وعلما ء صالحین کے عصاء، قلم، تلوار ، تسبیح ، لباس ، برتن وغیرہ سامانوں کو یادگار کے طور پر بطورتبرک اپنے پاس رکھنا حضوراقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اورخلفاء راشدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی مقدس سنت ہے ۔ غور فرمائیے کہ حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی برچھی کو تبرک بنا کر رکھنے میں حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اورآپ کے خلفائے راشدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے کس قدر اہتمام کیا اورکس کس طرح اس برچھی کا اعزازواکرام کیا؟
بدعقیدہ لوگ جو بزرگان دین کے تبرکات اوران کی زیارتوں کا مذاق اڑایا کرتے ہیں اور اہل سنت کو طعنہ دیا کرتے ہیں کہ یہ لوگ بزرگوں کی لاٹھیوں ، تلواروں ، قلموں کا اکرام واحترام کرتے ہیں ۔ یہ حدیث ان کی آنکھیں کھول دینے کے لئے سرمۂ ہدایت سے کم نہیں بشرطیکہ ان کی آنکھیں پھوٹ نہ گئی ہوں۔
مصر کی جنگ میں حضرت عمروبن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاپنے لشکر کے ساتھ فسطاط کے قلعہ کا کئی ماہ سے محاصرہ کئے ہوئے تھے لیکن اس مضبوط قلعہ کو فتح کرنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی تھی ۔ آپ نے دربار خلافت میں مزید فوجوں سے امداد کے لیے درخواست بھیجی۔ امیر المؤمنین حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے دس ہزار مجاہدین اورچار افسروں کو بھیج کر یہ تحریر فرمایا کہ ان چار افسروں میں ہر افسر دس ہزار سپاہ کے برابر ہے ۔ ان چارافسروں میں حضرت زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُبھی تھے ۔
حضرت عمروبن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے حضرت زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو حملہ آور محاصرین کی فوج کا سپہ سالار بنادیا۔ حضرت زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے قلعہ کا چکر لگا کراندازہ فرمالیا کہ اس قلعہ کو فتح کرنا نہایت ہی دشوار ہے لیکن آپ نے اپنے فوجی دستے کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے بہادران اسلام ! دیکھومیں آج اپنی ہستی کو اسلام پر فدا اور قربان کرتاہوں ۔ یہ کہہ کر آ پ نے بالکل اکیلے قلعہ کی دیوار پر سیڑھی لگائی اور تنہا قلعہ کی فصیل پر چڑھ کر ’’اللہ اکبر‘‘کا نعرہ مارااور ایک دم فصیل کے نیچے قلعہ کے اندر کود کر اکیلے ہی قلعہ کی اندرونی فوج سے لڑتے ہوئے قلعہ کا پھاٹک کھول دیا او ر اسلامی فوج نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے قلعہ کے اندر داخل ہوگئی اوردم زدن میں قلعہ فتح ہوگیا۔
اس مضبوط ومستحکم قلعہ کو جس بے مثال جرأت اوربہادری سے منٹوں میں فتح کرلیا ۔ اس کو تاریخ جنگ میں کرامت کے سواکچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ۔ امیر لشکرحضرت عمروبن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُبھی اس کرامت کو دیکھ کر دنگ رہ گئے کیونکہ وہ کئی ماہ سے اس قلعہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے مگر باوجود اپنی جنگی مہارت اوراعلیٰ درجے کی کوششوں کے وہ اس قلعہ کو فتح نہیں کرسکے تھے۔ (کتاب عشرہ مبشرہ، ص۲۲۴)
حضرت زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی شکل میں حضرت جبریل علیہ السلام
حضوراکرمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایاکہ جنگ بدرکے دن حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلامپیلے رنگ کاعمامہ باندھے ہوئے حضرت زبیررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی شکل وصورت میں فرشتوں کی فوج لے کر اترے تھے۔ ([2]) (کنزالعمال، ج۲، ص۱۲۷، مطبوعہ حیدرآباد)
(۷) حضرت عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
یہ بھی عشرہ مبشرہ یعنی دس جنتی صحابہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی فہرست میں ہیں۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت مبارکہ سے دس سال بعد خاندان قریش میں پیدا ہوئے۔ ([3]) ابتدائی تعلیم وتربیت اسی طرح ہوئی جس طرح سرداران قریش کے بچوں کی ہوا کرتی تھی ۔ ان کے اسلام لانے کا سبب یہ ہوا کہ یمن کے ایک بوڑھے عیسائی راہب نے ان کو نبی آخرالزمان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ظہور کی خبردی اوریہ بتایا کہ وہ مکہ میں پیدا ہوں گے اور مدینہ منورہ کو ہجرت کریں گے ۔جب یہ یمن سے لوٹ کر مکہ مکرمہ آئے توحضرت ابو بکر صدیق رضی ا للہ تَعَالٰی عنہ نے ان کو اسلام کی ترغیب دی۔ چنانچہ ایک دن انہوں نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔جبکہ آپ سے پہلے چند ہی آدمی آغوش اسلام میں آئے تھے چونکہ مسلمان ہوتے ہی آپ کے
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع