طلباء کو کتنا ہوم ورک دے
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Kamyab Ustad Kaun? | کامیاب استاذ کون؟

book_icon
کامیاب استاذ کون؟

دے ۔ سوال کرنے کے چند آداب ملاحظہ ہوں ،

 (۱)  مدرس کے درسی بیان کے دوران سوال نہ کرے کہ ہوسکتا ہے کہ اس کی بات کا جواب آگے آرہاہو ۔

 (۲)  سوال سبق سے ہٹ کر نہ ہو ۔

 (۳)  وہ سوال دیگر طلباء کی ذہنی سطح کے مطابق ہو بصورت ِ دیگر تعلیمی اوقات کے بعد استاذ سے دریافت کر لے ۔   

 (۴)  وہ سوال استاذ کا امتحان لینے کے لئے نہ ہو ۔(لیکن اس کی شناخت بے حد مشکل کام ہے کیونکہ یہ قلبی معاملہ ہے، لہذا کسی طالب العلم کو یہ مت کہیں کہ تم میرا امتحان لے رہے ہو؟)

طلباء کو کتنا ہوم ورک دے ؟

         استاذ کو چاہئے کہ طلباء کو مناسب ہوم ورک دے ۔اس سلسلے میں دیگر اسباق کو مدِنظر رکھنا بے حد ضروری ہے کہ طلباء کو ان اسباق کا بھی ہوم ورک کرنا ہوگا ۔ علاوہ ازیں طلباء کو ان کی استعداد کے مطابق ہوم ورک دے مثلاً جن طلباء نے ابھی نحو کے بنیادی قواعد بھی نہ پڑھے ہوں انہیں عربی عبارت کی نحوی ترکیب کرنے کا کام دینا بے فائدہ ہے کیونکہ ایسی صورت حال میں طلباء بڑے درجے کے طلباء یا دیگر اساتذہ سے ترکیب پوچھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔یوں طلباء دیا گیا کام کسی سے پوچھ کرلکھ لاتے ہیں اور سزا سے بھی بچ جاتے ہیں لیکن اس سے ان کی صلاحیتوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا ۔ استاذ محض ہوم ورک دینے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ اسے دوسرے دن چیک بھی کرے ورنہ طلباء اس کا دیا ہوا ہوم ورک کرنا چھوڑ دیں گے ۔

طلبا سے سبق سننے کا انداز کیسا ہو؟

        طلباء استاذ کے پڑھائے ہوئے سبق سے کماحقہ اسی وقت مستفید ہوسکتے ہیں جب وہ اس سبق کو تکرار کے حلقے میں دہرائیں اور یاد کرکے دوسرے دن استاذ کو سنائیں ۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ استاذ کو معلوم ہو جائے گا کہ طلباء نے کیا سمجھا اور کیانہیں سمجھا ؟ یوں وہ ان کی کمزوریوں کو دور کرسکتا ہے ۔

        دوسرے دن طلباء کا سبق دو طرح سے سنا جاسکتا ہے …

 (1)  طلبا سے کسی مقام سے عبارت پڑھوائے ، اس کا ترجمہ سنے پھر انہیں اس عبارت کا مطلب اپنے الفاظ میں بیان کرنے کا کہے ۔

 (2)   طلباء سے سبق سے متعلق زبانی سوالات کرے (یہ طریقہ عموماً غیرعربی اسباق میں زیادہ استعمال ہوتا ہے )۔

ممکن ہو تو ہر طالب علم کا سبق خود سنے ورنہ چند طلباء کا سبق خود سنے پھر تمام طلباء کو ایک دوسرے کا سبق سننے کی ہدایت کرے ۔جوطالب علم بہترین انداز میں سبق سنائے اس کی حوصلہ افزائی کرے جو ناکام رہے اسے تسلی دے کر محنت کرنے کی ترغیب دے ۔

طلبا کو سزا کس طرح دے ؟

        اگر کوئی طالب العلم سبق سنانے میں ناکام رہتا ہے تواسے فوراً جھاڑنے یا کوئی سزادینے کی بجائے مناسب لہجے میں اس سے وضاحت طلب کرے ۔ اگر ناکامی میں طالب العلم کی سستی کو دخل ہو تو اسے تنبیہ کرے ۔ پھر بھی کوئی نتیجہ نہ نکلے تو شرعی اجازت کے تحت ہی سزا دے ، اس اجازت سے ہرگز تجاوز نہ کرے کہ آخرت میں حق العبد میں گرفتار ہونے کا پورا پورا امکان ہے ۔ استاذ اپنے شاگرد کو جسمانی طور پرکتنی سزا دے سکتا ہے اس کے لئے ذیل میں دیا گیا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں :

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُولَ اللہ                                                                    وَعَلٰی اٰلِكَ وَ اَصْحٰبِكَ یَا حَبِیْبَ اللہ                                           

       دارالافتاء اھلسنت

مسئلہ : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ میں کہ استاذشاگرد کو تادیب کے لئے جسمانی سزا دے سکتاہے یانہیں اگر دے سکتا ہے تو کتنی ؟نیز طریقہ بھی ارشاد فرما دیجیے؟     

                                     سائل :   مدرس جامعۃالمدینہ فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ کراچی

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

الجواب بعون الوہاب اللھم ھدایۃالحق والصواب

        استاذشاگرد کو تادیباََ بقدرِحاجت سزا دے سکتاہے لیکن یہ سزا ہاتھ سے دے اور ایک وقت میں تین ضربوں سے زیادہ نہ مارے نیز چہرے پر مارنے کی ممانعت ہے،  رَحمتِ عالَم، نورِمُجَسَّم، شاہِ بنی آدمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مدرسہ کے معلم سے فرمایا : ’’ ایاک ان تضرب فوق الثلث فانک اذاضربت فوق الثلث اقتص اللہ منک ۔‘‘یعنی تین مرتبہ سے زیادہ ضربیں لگانے سے پرہیز کرواگرتین مرتبہ سے زیادہ سزا دی تو اللہ تَعَالٰی تم سے بدلہ لے گا۔(احکام الصغار بحوالہ فتاوٰی رضویہ ج۲۳ص۶۵۲رضا فاؤنڈیشن مرکزالاولیا ء لاہور) خاتم المحققین حضرت علامہ ابن عابدین شامی علیہ رحمۃ القوی فرماتے ہیں :  ’’لایجوز ضرب ولد الحر بامر  ابیہ ، اماالمعلم فلہ ضربہ لان المامور یضربہ نیابۃ عن الاب لمصلحتہ وقید ہ الطرسوسی بان یکون بغیرآلۃ جارحۃ ، بان لا یزید علی ثلاث ضربات ‘‘ (ردالمحتارج۹ص۶۱۶مکتبہ امدادیہ ملتان )یعنی ایک آزاد بچے کو باپ کی اجازت سے مارنا جائز نہیں لیکن استاذ تعلیمی مصلحت کے تحت مار سکتا ہے کیونکہ و ہ بچے کو مارنے میں باپ کا نائب ہے امام طرسوسی علیہ رحمۃ القوی نے قید لگائی ہے کہ یہ مارنا زخمی کرنے والے آلہ سے نہ ہویعنی ہاتھ سے ہو اورتین ضربوں سے زیادہ بھی نہ ہو ، سیدی اعلیٰ حضرت مجددِ دین وملت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃالرحمٰن فرماتے ہیں : ’’ ضرورت پیش آنے پر بقدرِ حاجت تنبیہ ، اصلاح اور نصیحت کے لئے بلاتفریق اجرت وعدم اجرت استاذ کا بدنی سزا دینا اور سرزنش سے کام لینا جائز ہے مگر یہ سزا لکڑی ڈنڈے وغیرہ سے نہیں بلکہ ہاتھ سے ہونی چاہیے اور ایک وقت میں تین مرتبہ سے زائد پٹائی نہ ہونے پائے ۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ ج۲۳ ص۶۵۲رضا فاؤنڈیشن مرکزالاولیا ء

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن