30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اگراستاذ نفاست پسندہے تو اس کے طلباء کی چیزیں بھی کمرے میں بکھری ہوئی دکھائی نہیں دیں گی ، …
اگراستاذ پرہیز گار ہے تو اس کے طلباء بھی خوف ِ خدا عَزَّ وَجَلَّ رکھنے والے ہوں گے ۔ علی ھذاا لقیاس …
لہذا!مسند ِ تدریس پر متمکن ہونے والا اگر خود کو دنیاوی واخروی اعتبار سے کامیاب دیکھنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی ذات میں مذکورہ بالا اوصاف اجاگر کرے ۔
سبق کس طرح پڑھائے؟
واقفان ِ حال پر مخفی نہیں کہ کسی بھی سبق کو پڑھانے کے لئے اس کی پیشگی تیاری کرنا اَز حد ضروری ہے اور یہی ہمارے اسلاف کا طریقہ رہا ہے کیونکہ جب تک استاذ کو کسی سبق کے بارے میں معلومات مستحضر نہ ہوں ، وہ انہیں طلباء تک کامل طور پر نہیں پہنچا سکتا ۔ چنانچہ اگر کوئی استاذ (بالخصوص نیا استاذ )اسباق تیار کئے بغیر پڑھانے بیٹھ جائے تو غلطیوں کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے ۔عین ممکن ہے کہ موصوف جوکچھ بیان فرمائیں کتاب میں اس کے برعکس بیان کیا گیا ہو ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ طلباء کو مطمئن نہیں کرپائے گا اور عدمِ اطمئنان کا یہ سلسلہ طویل ہونے کی صورت میں انتظامیہ اس کی خدمات لینے سے معذرت بھی کرسکتی ہے ۔
لہذا!استاذ کو چاہئیے کہ سبق کی تیاری ، درسی بیان مرتب کرنے ، درجہ میں سبق پڑھانے ، طلباء کے سوالات کے جوابات دینے ، طلباء کو ہوم ورک دینے ، دوسرے دن ان سے سبق سننے کے سلسلے میں نیچے دی گئی گزارشات پر عمل کرے ، مگر یاد رہے کہ ان تمام طریقوں کا تعلق اسباب سے ہے اور ہمیں اپنی نگاہ اسباب پر نہیں ‘ خالق ِ اسباب پر رکھنی چاہئیے۔ اس کا ایک فائدہ تویہ ہوگا کہ اگر آپ مذکورہ طریقوں پر کاملاًعمل نہ بھی کرپائے تب بھی آپ احساس ِ کمتری میں مبتلاء نہیں ہوں گے ۔جبکہ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کبھی اس قسم کے شکووں میں مبتلاء نہیں ہوں گے کہ’’ میں نے فلاں درجے (کلاس) کے طلباء کو اتنی محنت سے پڑھایا ، مجھ میں کوئی کمی نہیں ہے لیکن ان کے دماغ میں تو لگتا ہے ’’بُھوسا‘‘ بھرا ہوا ہے انہیں کوئی بات سمجھ ہی نہیں آتی ۔‘‘اوراس کا تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ ان پر کامل طور پر عمل کرنے اور اپنی کامیابی کی صورت میں خود پسندی کا شکار نہیں ہوں گے کہ میرا انداز ِ تدریس بہت اچھا ہے ، میں تو مٹی کو بھی ہاتھ لگاتا ہوں توسونا بن جاتی ہے ، فلاں درجے کو کئی اساتذہ نے پڑھایا لیکن اس درجہ کے طلباء ان سے مطمئن نہ ہوپائے اور جب میں نے ان طلباء کو پڑھایا تو وہ اَش اَش کر اٹھے ، وغیرہ وغیرہ…
پڑھانے کے لئے مطالعہ کس طرح کرے ؟
اسباق کی بہترین تیاری کے لئے مدرس کو چاہئے کہ جب مطالعہ کرنے بیٹھے تو سب سے پہلے یہ جائزہ لے کہ کل مجھے کس مضمون کا کتنا سبق پڑھانا ہے ؟(اس سلسلے میں انتظامیہ کی طرف سے دئیے گئے نصاب کو تعلیمی ایام پر تقسیم کرلینا بے حد مفید ہے ) پھروقت ِ مطالعہ کو تمام مضامین کے حجم کے اعتبار سے تقسیم کر لے مثلاً اس کے پاس مطالعہ کے لئے تین گھنٹے ہوں اور اسے چھ اسباق کی تیاری کرنی ہے تو جس سبق کے مطالعہ میں زیادہ وقت صرف ہو اس کے لئے زیادہ وقت اور جس سبق کے مطالعہ میں تھوڑا وقت صرف ہو اس کے لئے کم وقت مقرر کر لے ، علی ھذا القیاس ۔ اس تقسیم کا فائدہ یہ ہوگا کہ کم سے کم وقت میں تمام مضامین کی تیاری ممکن ہوسکے گی ۔
اس کے بعدمطالعہ کا آغاز کرتے ہوئے اولاً سبق کے متن کا مطالعہ کرے ، پھر اگر عربی کتاب ہوتو اس کی عبارت کے اعراب ، حل ِ لغات اورمفہوم پر غور وتفکر کرے ۔ اس سلسلے میں متن سے متعلقہ حواشی وشروحات کا ضرور مطالعہ کرے کہ اس سے سبق کا درست مفہوم سمجھنے میں مدد بھی ملے گی اور استاذ کی معلومات میں بھی اضافہ ہوگا۔ کسی بھی سبق کے بارے میں اپنا مطالعہ کم از کم اس وقت تک جاری رکھے جب تک متن میں درج شدہ ایک ایک لفظ کے مفہوم اور فوائدِ قیودوغیرہ کے بارے میں اس کا فہم کامل نہ ہوجائے کیونکہ اگر سبق کے بارے میں کوئی الجھن باقی رہ گئی تو یہ درجہ میں ٹھیک سے نہیں پڑھا پائے گا ۔اگر حواشی وشروحات سے مدد لینے کے باوجود کوئی بات سمجھ میں نہ آسکے تو رب تَعَالٰی سے اس کے حل کے لئے دعا کرے ۔اگر پھر بھی ناکام رہے تو سبق پڑھانے سے پہلے پہلے جامعہ میں پڑھانے والے دیگر اساتذہ سے پوچھنے میں شرم محسوس نہ کرے۔
درسی بیان(تقریر) کو کس طرح مرتب کرے ؟
کسی کو اپنا مافی الضمیر اچھے انداز میں سمجھانے کی صلاحیت بلاشبہ بہت بڑی نعمت ہے ۔جس مضمون کے مطالعے کے لئے استاذ نے طویل وقت صرف کیا ہو‘اس مطالعے سے حاصل شدہ معلومات کو خوبصورت اسلوب اور دل نشین ترتیب کے ساتھ طلباء تک پہنچانا بے حد ضروری ہے ۔ اگر کسی استاذ کا مطالعہ بہت وسیع ہو، وہ سبق سے متعلقہ تمام ابحاث کا فہم بھی رکھتا ہو لیکن اپنی معلومات طلباء تک منتقل کرنے کے لئے اس کے پاس مناسب جملے نہیں ہیں تو طلباء اس استاذ سے کامل طور پر استفادہ نہیں کر پائیں گے اور یوں اس کا کثرت سے مطالعہ کرنا طلباء کے لئے زیادہ نفع بخش ثابت نہ ہوگا ۔ اس لئے استاذ کو چاہئے کہ اس نعمت کوطلب کرنے اور اس میں دوام کے حصول کے لئے بارگاہِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ میں دعا کرتا رہے ۔
استاذ کو چاہئیے درجہ میں کئے جانے والے درسی بیان کی تیاری کے لئے اس سبق کے بارے میں اپنی تمام معلومات کو اپنے ذہن میں یا صفحۂ قرطاس پر نکات کی صورت میں یکجا کرے پھرتقدیم وتاخیر کا خیال رکھتے ہوئے ان معلومات کو مرتب کرے۔ حلِّ متن سے تعلق نہ رکھنے والی کسی بحث کو اپنے درسی بیان میں ہرگز شامل نہ کرے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ طلباء اس میں دل چسپی بھی لیں اور ان پر استاذ کے کثرت ِ مطالعہ کی دھاک بھی بیٹھ جائے لیکن وہ اصل سبق سے محروم رہ جائیں اورجب امتحان قریب آجائیں تو نصاب کی عدمِ تکمیل پر پریشان حال دکھائی دیں ۔
درسی بیان مرتب کرنے کے بعد اس پر نظر ثانی ضرور کرے۔اگر اس میں کچھ ایسے الفاظ شامل ہوگئے ہوں جو طلباء کے لئے مشکل ہوں تو ان کی جگہ آسان الفاظ کی ترکیب بنائے۔ اسی طرح اگر سبق کی ترتیب میں نقص محسوس ہو مثلاً جونکتہ آخر میں ہے اسے پہلے کہنا زیادہ مناسب ہو تو ترتیب ضرور درست کر لے ۔ پھر اگر اس بیان کے نتیجے میں کوئی اعتراض پیدا ہوتا ہو یا سوال اٹھتا ہو تو اس کا جواب بھی ہاتھوں ہاتھ تیار کر لے تاکہ درجہ میں کسی طالب علم کے سوال کرنے پر سوچ وبچار میں صرف ہونے والا وقت بچ سکے ۔
درسی بیان(تقریر) کی مشق کس طرح کرے ؟
نئے مدرسین کو بالخصوص چاہئے کہ وہ درسی بیان مرتب کرنے کے بعد اسے تنہائی میں اس طرح بیان کریں کہ گویا طلباء آپ کے سامنے بیٹھے ہیں اور آپ انہیں سبق پڑھا رہے ہیں ، یا اگرہوسکے تو اپنا بیان ریکارڈ کرلے پھر اسے سنے اور اس بات پر غور کرے کہ آیا میرے اندازِ بیان سے طلباء کو سبق کے بارے میں شرحِ صدر حاصل ہوجائے گا یا نہیں ؟اگر جواب ہاں میں آئے تو
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع