دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Kamanay Aur Mangnay Kay Ahkam | کمانے اور مانگنے کے احکام

book_icon
کمانے اور مانگنے کے احکام
            
پہلے اِسے پڑھ لیجئے معاشی ومعاشرتی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے ہر انسان معاش کا کوئی نہ کوئی ذریعہ اختیار کرتا ہے، ایک مسلمان کی یہ سوچ ہونی چاہئے کہ وہ غور کرے کہ آمدنی کا جو ذریعہ اس نے اپنایا ہے آیا وہ شرعی طور پر درست بھی ہے یا نہیں یا جس مقصد کو پورا کرنے کیلئے وہ کمارہا ہے آیا وہ مقصد جائز بھی ہے یا نہیں؟ اسی طرح کچھ لوگ ذراسی آزمائش میں کیا آتے ہیں وہ ہر ایک کے پاس اپنا رونا دھونا اور مانگنا شروع کردیتے ہیں، ہمارےدین اسلام نے ان تمام ہی چیزوں میں مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی ہے۔ چودھویں صدی کے بہت بڑے عالم دین اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مولانا شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے 1318ھ میں کمانے اور مانگنے کے احکام پر انتہائی مختصر اور جامع رسالہ ”خَیْرُالاٰمال فِيْ حُکْمِ الْکَسْبِ وَالسُّؤَال“ تحریر فرمایا جس میں آپ نے کسب (کمانے) کو ذریعہ اور مقصد میں تقسیم کرتے ہوئے اس کے قواعد واحکام انتہائی مختصراورجامع انداز میں بیان فرمائے ہیں، موضوع اہم تھا تو ذہن بنا کہ اس کا آسان انداز میں خلاصہ کردیا جائے تاکہ علمائے کرام کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔ پھردل میں بات آئی کہ اس کام کو موضوعاتی رنگ دے دیا جائے تو زیادہ فائدہ مند ہوگا چنانچہ فتاوی رضویہ شریف اور امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کی دیگر کتابوں سے کمانے اور مانگنے سے متعلقہ مسائل واحکام کو جمع کرکے ان کا خلا صہ بھی کردیا گیا ہے۔ پیش نظر رسالے میں کئےگئے کاموں کی کچھ تفصیل یہ ہے: (1)آیات واحادیث کی تخریج کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ (2)مشکل اور مختصر قواعد واحکام کو ٹیبل کی صورت میں واضح کرکے آسان کیا گیا ہے۔ (3)پڑھنے والوں کی آسانی اوران کی دلچسپی کوبرقرار رکھنے کیلئے ہیڈنگز لگائی گئی ہیں۔ (۴)دلائل اور علمی وفنی بحثوں کو ذکر نہیں کیا گیا۔ (۵)ماخذ ومراجع کی فہرست مع مطابع وسنِ طباعت تیار کی گئی ہے۔ (۶)آخر میں فہرستِ مضامین بنائی گئی ہے۔ بارہ رسائل مکمل ہونے پر تمام کے خلاصے مع اصل رسائل مجموعہ کی صورت میں شائع کرنے کا ارادہ ہے جو ان شاء اللہ عزوجل گلدستۂ رضویت میں ایک خوش نما اضافہ ہوگا۔ اس کاوش میں آپ کو جو بھی خوبی نظر آئے وہ در حقیقت اللہ پاک کی توفیق ،اس کے آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نظر عنایت، امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کے فیض اور شیخِ طریقت،اَمیر اہلسنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی شفقتوں کا نتیجہ ہے اور جو بھی خامی ہو اس میں ہماری کوتاہی کا دَخَل ہے۔ اللہ پاک دعوتِ اسلامی کی تمام مجالس بالخصوص المدینۃ العلمیۃ (اسلامک ریسرچ سینٹر) کو دن دُگنی رات چَوگنی ترقی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عمل کو زیورِ اخلاص سے آراستہ فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم شعبہ کتبِ اعلیٰ حضرت (مجلس المدینۃ العلمیۃ) ۱۱ ذو القعدۃ الحرام ۱۴۴۳ھ 11.06.2022

رسالہ خیرالآمال کا خلاصہ

سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مال کمانا کس وقت فرض، کس وقت مستحب، کس وقت مکروہ اورکس وقت حرام ہے۔نیز سوال کرناکب جائزہے اورکب ناجائز؟بیان فرمائیے، اجرپائیے۔ الجوا ب: اس مسئلہ میں بہت تفصیل ہے، یہاں اس کی بعض صورتیں اور قواعد ذکر کئے جائیں گے۔ انسان کمانے کا جو ذریعہ اختیار کرتا ہے اور جس مقصد کیلئے کماتا ہے ان کی مختلف صورتوں میں درج ذیل 9 احکام جاری ہوتے ہیں: (1)فرض (2)واجب (3)سنت (4)مستحب (5)مباح (6)مکروہِ تنزیہی (7)اِساءت (8)مکروہِ تحریمی (9) حرام۔

ذریعۂ آمدنی کے اعتبار سے مال حاصل کرنے کےاحکام

(1)حرام: کبھی انسان مال حاصل کرنے کا ایسا ذریعہ اختیار کرتا ہے جو شرعی طورپرحرام ہوتا ہے۔ مثالیں: (1) کسی کا مال چھین لینا (2)چوری کرنا (3)کسی سے رشوت لینا (4)سود کا مال اورتمام باطل یا قطعی طور پر فاسد لین دین بھی اسی میں شامل ہیں۔ (2)مکروہِ تحریمی: مثالیں: (1)اذانِ جمعہ کے وقت تجارت (2)کوئی مسلمان بھائی چیز خریدرہا ہو اور قیمت بھی طے ہوچکی ہو اورخرید وفروخت کی گفتگو جاری ہوتو کوئی دوسرا شخص زیادہ قیمت لگاکر یا کسی اور طریقے سے وہ چیز خرید لے(3)بدمذہبوں کے مخصوص لباس یا جوتے تیار کرنا۔ (3)اِساءَ ت: یعنی وہ کام جومکروہِ تحریمی تو نہیں لیکن شرعی طور پر بُرا،خلافِ سنت یا اس کو کرنے سےسنت ترک ہوجاتی ہو ۔ مثالیں: (1)ظہر، مغرب اور عشاء کے صرف فرض پڑھ کر سنتوں کی ادائیگی سے پہلے بلا ضرورت خرید وفروخت میں لگ جانا (2)فجر کا وقت شروع ہونے کے بعد نمازِ فجر ادا کرنے سے پہلے بلا ضرورت خرید وفروخت کرنا (3)کمائی کا ہر وہ ذریعہ جو خلافِ سنت ہو یا اس میں مشغولیت سے کوئی سنت چھوٹ رہی ہو۔ (4)مکروہ تنزیہی: مثال: پیسوں کی ضرورت تھی،کسی سے قرض مانگا تواس نے پیسوں کے بجائے دس روپے مالیت کی چیز پندرہ روپے کی اُسے ادھار بیچ دی اب اس چیز کو اس نے مارکیٹ میں فروخت کیا تو اسے دس روپے ملے کیونکہ اس کی مارکیٹ ویلیو ہی دس روپے تھی تو دس کی چیز پندرہ میں فروخت کرنے کا یہ عمل مکروہِ تنزیہی ہے، البتہ اگروہ چیز واپس قرضہ دینے والے کے پاس آجائے تواب اس کایہ عمل مکروہِ تحریمی ہوجائے گا۔ (5)مباح: مثالیں: (1)جنگل سے لکڑیاں کاٹ کرفروخت کرنا (2) جنگل سے شکارکرکے ان کو فروخت کرنا (3)دریا کی مچھلیاں پکڑ کر فروخت کرنا۔ (6)مستحب: مثال: علمائے کرام اور اللہ والوں کی خدمت کی نوکری کرنا۔ (7)سنّت: مثال: دوستوں کے تحفے قبول کرکے بدلے میں انہیں بھی کچھ دینا۔ (8)واجب: مثال: والدین کا تحفہ قبول کرنا جبکہ اسے خدشہ ہو کہ نہیں لے گا تو انہیں دکھ ہوگا۔ (9)فرض: مثالیں: (1)والدین کا تحفہ نہ لینے کی صورت میں انہیں تکلیف پہنچنے کا یقین ہوتو اس صورت میں ان کا تحفہ قبول کرنا فرض ہے کیونکہ والدین کو تکلیف دینا حرامِ قطعی ہے اور حرام کاموں سے بچنا فرضِ قطعی ہے (2) قاضی کا عہدہ قبول کرنااس وقت فرض ہے جب اس عہدہ کا اس کے علاوہ کوئی اور اہل نہ ہو۔

مقصدکے اعتبار سے مال حاصل کرنے کی تفصیل

(1)فرض: کبھی مال کمانے کا مقصداتنا اَہم ہوتا ہے کہ شریعت نے اس کیلئے کمانے کو فرض قرار دیا ہے۔ مثالیں: (1)اتنا کھانا پینا جس سے فرض نماز کھڑے ہوکر ادا کرنے اور رمضان المبارک کے روزے رکھنے کی طاقت آجائے اور سِتر(1)چھپانے کی مقدار کپڑے پہننا (2) اتنا کمانا جس سے گھروالوں کے ضروری اخراجات پورےہوجائیں (3) اس پر قرض ہو تو وہ اداہوجائے (4)جو اخراجات اس پر فرض ہیں وہ ادا ہوجائیں مثلاً بیوی کا کفن دفن اسی طرح اگر کوئی قریبی رشتہ دار فوت ہوجائے اور اس کے گھر والوں کے پاس کفن دفن کیلئے مال نہ ہو، بلکہ ہر مسلمان کے کفن دفن کا انتظام مسلمانوں پر فرضِ کفایہ ہے(5)حج فرض ہوالیکن نہیں کیااوراب پیسے بھی نہیں تو اتنا مال کمانا فرض ہے جس سے وہ فریضۂ حج اداکرسکے۔ (2)واجب: مثالیں: (1)اتنی مقدار میں کھانا پینا جس سے وہ اپنے ذمہ واجبات کی ادائیگی کرسکے (2)کسی پرصدقۂ فطر کی ادائیگی یاقربانی واجب ہوئی،اس نے ادا نہیں کی اور اب اس کے پاس ادائیگی کیلئے مال بھی نہیں رہا (3)اسی طرح ہر وہ واجب جس کی ادائیگی کیلئے مال ضروری ہے تو اتنا کمانا اس پر واجب ہے جس سے واجب ادا ہوجائے۔ (3)سنت: مثالیں: (1) نماز کے لئے عمامہ،جُبّہ اور چادر وغیرہ سنت لباس (2) عیدالفطر، عید الاضحیٰ اور جمعہ میں زینت اختیار کرنا(3)مساجد کی تعمیر وترقی میں حصہ دار بننا اور انہیں خوشبوداررکھنا(4)رشتہ داروں سے اچھاسلوک کرنا(5)دوستوں کو تحفہ دینا (6)مسکینوں کی غمخواری،یتیموں اور بیواؤں کی مدد کرنا(7) مہمان نوازی کرنا اور اسی طرح وہ چیزیں جن میں مال خرچ کرنا سنت ہے(8)سنت پر عمل کی نیت سے عطر، سرمہ اورآئینہ رکھنا (9) اتنا کھانا کہ ایک تہائی (1/3)پیٹ بھرجائے ۔ان سب کاموں کے لیے کماناسنت ہے۔ (4)مستحب: مثالیں:(1)لوگوں کے لئے پانی کا انتظام کرنا (2)مسافر خانے بنانا (3)مدرسے بنانا (4)آمد ورفت کیلئے پل تعمیر کروانا (5)اتنا کھانا کہ نوافل اورحصول علم دین میں بھی معاون ہو(6)اگر پتا ہو کہ کھانے سے ہاتھ روکے گا تو مہمان بھی مروت میں ہاتھ روک لےگا تواس لئےمہمان کے ساتھ پیٹ بھر کر کھانا۔ ان سب کاموں کے لیے کمانامستحب ہے۔ (5)مباح: مثالیں: (1)اپنے لباس ومکان کو زیب وزینت دینا (2)عورتوں کا زیور پہننا۔ ان کو حاصل کرنے کے لیے کمانامباح ہےمگراس کے لیے شرط یہ ہے کہ اچھی یا بری کوئی نیت نہ ہو اور شرعی حدود کا بھی خیال رکھا جائے۔ (6)مکروہِ تنزیہی: مثال:مختلف قسم کے پھلوں اور میوہ جات سے لطف اندوز ہونے کے لیے کمانا۔(2) (7)اِساءَت: مثالیں: (1)نفسانی خواہشات کی پیروی اور طبعی لذت کے لیے جائزعیش و آرام میں پڑے رہنا (2) دو وقت پیٹ بھر کر عمدہ کھانے کھانا (3) روز مرہ زندگی میں بھی عمدہ اور مہنگے لباس پہننے کی عادت بنالینا (4) عورتوں کی طرح دن رات بال سنوارنے میں لگے رہنا، یہ کام اگرچہ حرام وگناہ نہیں لیکن خلافِ سنت ضرور ہیں۔لہٰذاان سب کاموں کیلئے کمانابُرااورخلافِ سنت ہے۔ (8)مکروہِ تحریمی: مثالیں: (1)صرف مال بڑھانے اور فخر کیلئے حلال مال جمع کرنا (2)لباسِ شہرت: چمکیلا بھڑکیلا، انوکھا لباس پہننا جس پر لوگ انگلیاں اٹھائیں، جان بوجھ کر ناقص وگھٹیا قسم کا لباس پہننا جسے لوگ عجیب نظروں سے دیکھیں، ہر وہ ہیئت وشکل اختیار کرنا جس سے لوگ حیرت وتعجب میں اس پر انگلیاں اٹھائیں، حدیثوں میں لباسِ شہرت کی بہت زیادہ مذمت آئی ہے۔ ان کاموں کیلئے کمانا مکروہِ تحریمی ہے ۔ (9)حرام: مثالیں: (1)مرد کاریشمی لباس پہننا(2)ایسی ٹوپی پہننا جس میں سونا، چاندی کا کام ہویا ریشم کا بھر پور استعمال ہو(3)پیٹ بھرجانے کے باوجود مزید اتنا کھاناکہ پیٹ خراب ہوجانے کا غالب گمان ہو۔

کمانے کے احکام

مال خواہ روپیہ پیسہ کی صورت میں ہو یا کھانے، لباس یا کسی اور شکل میں، اس کو حاصل کرنے کا کوئی مقصد اور اس کو کمانے کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ضرور ہوتا ہے، پیچھے جو 9 احکام دونوں کے اعتبارسے بیان ہوئے ان میں پہلے چار کےکرنےکاشریعت تقاضا کرتی ہے اور بقیہ چار (حرام، مکروہِ تحریمی، اساءت اور مکروہِ تنزیہی) سے باز رہنے کا حکم فرماتی ہے اور باقی ایک یعنی مباح تو اس کے کرنے کانہ تو تقاضا ہے اور نہ ہی اس سے رکنے کا حکم تو اب ٭اگر آمدنی کا ذریعہ اور کمانے کا مقصد دونوں ایک ہی قسم سےہیں مثلاً ذریعہ اور مقصد دونوں ایسے ہیں جو فرض ہیں تو ایسی صورت میں کمانا دگنا(ڈبل) فرض ہوگا۔ ٭اسی طرح ذریعہ اور مقصد دونوں حرام ہیں تو ایسی صورت میں کمانا دگنا حرام ہوگا۔ ٭اگر آمدنی کا ذریعہ اورکمانے کا مقصد دونوں الگ قسموں سے ہوں تو اس کی تین صورتیں ہیں: (1) ذریعہ اور مقصد میں اختلاف ایک طرف سے ہو یعنی ذریعۂ آمدنی اور کمانے کا مقصد دونوں ایسے ہوں جس پر عمل کاشریعت تقاضا کرےیا دونوں ایسے ہوں جسے کرنے سے شریعت نے منع کیا ہو البتہ ان میں احکام کا اختلاف ہو۔ مثلاً ذریعۂ آمدنی--کمانے کا مقصد--کمانے کاحکم فرض--واجب--فرض مکروہِ تنزیہی--حرام--حرام مثال: ذریعۂ آمدنی :فرض۔قاضی کا عہدہ قبول کرنا جس کے لئے فرض ہو اس صورت میں قاضی بننا۔ کمانے کا مقصد: واجب: صدقہ فطر کی ادائیگی۔ کمانے کا حکم:فرض (2) ذریعہ اور مقصد میں اختلاف بیچ کی طرف سے ہو، یعنی ان میں سے ایک ایسا ہو جس پر عمل کا نہ تو شریعت تقاضا کرے اور نہ ہی اس سے باز رہنے کا حکم دے مثلاً ذریعہ واجب ہو تو مقصد مباح۔ ذریعۂ آمدنی--کمانے کا مقصد--کمانے کا حکم واجب--مباح--واجب حرام--مباح--حرام مباح--واجب--واجب مباح--حرام--حرام مثال: ذریعۂ آمدنی : واجب۔ والدین کا تحفہ قبول کرنا جبکہ اس کا گمان ہو کہ اگر نہیں لے گا تو انہیں رنج ہوگا ۔ مقصد: مباح۔اپنے لباس ومکان کو زیب وزینت دینا ۔ کمانے کا حکم:واجب۔ (3) ذریعہ اور مقصد میں اختلاف دونوں جانب سے ہو یعنی ذریعۂ آمدنی ایسا ہو جسے اختیار کرنے اور مقصد ایسا ہو جس سے باز رہنے کا حکم ہو اس صورت میں کمانے کا حکم بھی وہی ہوگا جو مقصد کا ہوگا مثلاً ذریعہ فرض یاواجب ہے اور مقصد مکروہِ تنزیہی تو کمانا مکروہِ تنزیہی ہوگا اس کی وجہ یہ ہے کہ کمانے کیلئے کوئی خاص مقصدہو یہ ضروری نہیں، نیت کی تبدیلی سے اس مقصد کا حکم مختلف ہوسکتا ہےاس کی مثال نماز میں ریاکاری ہے، نماز اگرچہ فرض ہے لیکن اس میں جب لوگوں کے دکھاوے کی بری نیت آگئی تو اس سبب سے وہ حرام کا مرتکب ہوگا۔ ذریعۂ آمدنی--کمانے کا مقصد--کمانے کا حکم فرض--حرام--حرام واجب--مکروہِ تحریمی--مکروہِ تحریمی سنت--اساءت--اساءت مستحب--مکروہِ تنزیہی--مکروہِ تنزیہی مثال: ذریعۂ آمدنی: مستحب۔ علمائے کرام اور اللہ والوں کی خدمت کی نوکری کرنا ۔ کمانے کا مقصد:مکروہِ تنزیہی۔مختلف قسم کے پھلوں سے خود لطف اندوز ہونے کے لیےکمانا۔ کمانے کاحکم: مکروہِ تنزیہی۔ اورمعاملہ برعکس ہو یعنی ذریعہ ٔ آمدنی ایسا ہو جس سے باز رہنے اور مقصد ایسا ہو جسے اختیار کرنے کا حکم ہو تواگر وہ جائز ذریعہ اختیار کرسکتا تھا پھر بھی اس نے حرام ذریعہ ہی اختیار کیا تو اس کا کمانا بھی حرام ہوگا۔ ذریعۂ آمدنی--کمانےکا مقصد--کمانے کا حکم حرام--فرض--حرام مکروہِ تحریمی--واجب--مکروہِ تحریمی اساءت--سنت--اساءت مکروہِ تنزیہی--مستحب--مکروہِ تنزیہی مثال: ذریعۂ آمدنی: حرام: چوری کرنا۔ کمانے کا مقصد: فرض۔ فرض حج کی ادائیگی۔ کمانے کا حکم: حرام۔ اور اگر کوئی جائز ذریعہ اس کے بس میں ہی نہیں تو اب دو صورتیں ہیں: (1)ذریعہ اور مقصد کا مرتبہ حکم وممانعت میں برابر ہو یعنی ذریعۂ آمدنی حرام ہے تو کمانے کامقصد فرض تو اب احکام کی شدت اور ان کے درجات کا فرق بھی دیکھنا ضروری ہے، مثلاً ذریعہ فرض ہے تو کس درجہ کا فرض ہے اسی طرح اس کے مقابل مقصد حرام ہے تو وہ کس درجہ اور نوعیت کا حرام ہے پھر اگر ذریعہ اور مقصد میں ہر طرح سے برابری ثابت ہوجائے تو اس وقت کمائی کے حکم میں ذریعہ کا اعتبار ہوگا۔ (وضاحت کیلئے پچھلا ٹیبل ملاحظہ فرمائیں) (2)دونوں کے احکام کی قوت میں کمی بیشی ہوتو ذریعہ اور مقصد میں سے جس کا حکم زیادہ قوی ہوگا وہی کمائی کا حکم ہوگا۔ مثالیں: (1)کسی کا مال اس کی اجازت کے بغیر لینا حرام ہےلیکن خنزیر کھانے اور شراب پینے کی حرمت اس سے بھی زیادہ سخت ہے ۔کسی شخص پر بھوک وپیاس کا اتنا غلبہ ہو کہ کچھ کھائے گا پئے گا نہیں تو مرجائے گا اور کوئی حلال چیز بھی اس کے پاس نہیں تو اپنی جان کوہلاکت سے بچانا فرض ہے اور اس فرض کی قوت خنزیرکھانے اورشراب پینے کی حرمت سے بھی زیادہ ہے تو اس صورت میں مقصد کے مطابق حکم ہوگا یعنی اتنی مقدار میں خنزیر وشراب کھانا پینا فرض ہوگاجس سےجان جانے کا خطرہ ٹل جائے (2)بھوک سے جان پر بن آئی ہے اور کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے ایسی صورت میں کسی انسان کا ہاتھ کاٹ کر کھانااگرچہ اس شخص نے اجازت بھی دے دی ہوپھر بھی اس کیلئے حلال نہیں کیونکہ جان بچانا اگرچہ فرض ہے لیکن انسان کی عزت اور اس کی حرمت اس فرض سے زیادہ قوی ہے اس صورت میں ذریعہ کے مطابق حکم ہوگا ۔ شروع سے اب تک جتنی عمدہ تحقیق اور قواعدبیان ہوئے، اللہ پاک کی توفیق سے یہاں کے علاوہ کسی اور جگہ نہیں ملیں گے لہٰذاانہیں ذہن نشین کرلیجئے۔
1 .. مرد کے ليے ناف کے نیچے سے گھٹنوں کے نیچے تک کا حصہ چھپانا فرض ہے، ناف اس میں داخل نہیں اور گھٹنے داخل ہیں۔آزاد عورتوں کے ليے سارا بدن چھپانا فرض ہے، سوائے منہ کی ٹکلی اور ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلووں کے، سر کے لٹکتے ہوئے بال اور گردن اور کلائیاں بھی عورت ہیں، ان کا چھپانا بھی فرض ہے۔(بہارشریعت ، 1/481،ردالمحتار،2/95) 2.. مختلف پھل کھانا جائزہے البتہ نہ کھانا افضل ہے۔( در مختار ،9/ 561)

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن