اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
(یہ رسالہ امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ سے کیے گئے سوالات اور ان کے جوابات پر مشتمل ہے )
امیرِ اہل ِسنّت سے جِنّات کے بارے میں سوال جواب
دُعائےجانشینِ امیرِ اہلِ سنّت : ياربَّ المصطفےٰ ! جو کو ئی 17 صفحات کا رسالہ ” امیرِاہلِ سنّت سے جِنّا ت کے بارے میں سوال جواب“پڑھ یا سن لے اُسے ہر طرح کی آفات وبلیّات اور شریر جِنّا ت کے شر سے محفوظ فرما۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیهِ واٰلهٖ وسلّم
فرمانِ آخِری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : بے شک اللہ پاک نے ایک فرشتہ میری قبر پر مُقرّر فرمایا ہے جسے تمام مخلوق کی طاقت عطا کی ہے ، پس قیامت تک جو کوئی مجھ پر دُرُودِ پاک پڑھتا ہے تو وہ مجھے اُس کا اور اُس کے والد کا نام پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ فُلاں بن فُلاں نے آپ پر دُرُودِ پاک پڑھا ہے۔( مسند بزار ،4 /255 ، حدیث :1425(
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
جواب:جو لوگ دَم کو نہیں مانتے تو ایک دِن ان کا اپنا ہی دَم نکل جاتا ہے، واقعی ایک تعداد ہے جو جنات وغیرہ کے اثر کو نہیں مانتی نہ کسی عامل سے علاج کرواتی ہے، حالانکہ اُن پر واقعی جن کا اثر ہوتا ہے۔ یاد رَکھیے! اَحادیثِ مُبارَکہ سے جنات کا اثر ثابت ہے بلکہ قرآنِ کریم میں ایک پوری سورت کا نام ہی سورۂ ” جِن “ہے، اِس کے علاوہ بھی قرآنِ کریم میں (مختلف مقامات پر ) جنات کے تَذکرے موجود ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی جنات کا اِنکار کرے گا تو کافر ہو جائے گا۔(فتاویٰ حدیثیہ،ص167۔بہارشریعت،1/97 ، حصہ:1)(ملفوظات امیراہل سنت ،4/46)
سوال:جِن کی حاضری والے سے لوگ گزشتہ یا آئندہ کی باتیں پوچھتے ہیں ، کیا ایسا کرنا درست ہے ؟
جواب:لوگوں کو جب معلوم ہوتا ہے کہ فلاں پر جن آ گیا ہے تو اس سے سوال جواب شروع کردیتے ہیں ، حالانکہ جنات سے غَیْب کی باتیں پوچھنا حرام اور شدید حَماقت ہے بلکہ اگر یہ عقیدہ ہوا کہ جنات مستقبل کی خبریں بتاسکتے ہیں تو یہ کُفْر ہوگا۔( فتاویٰ افریقہ،ص 175، 179 ملخصا) کیونکہ قرآنِ پاک میں صراحت ہے کہ جنات کو غیب کا علم نہیں ہے( )
جنات کے لیے گُزشتہ خبریں بتانا ممکن ہے ، کیونکہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ایک جن اور ایک فرشتہ بھی پیدا ہوتا ہے ، اس جن کو ہَمزاد کہتے ہیں ۔( مسلم، ص 1158، حدیث:7109 ) چونکہ یہ ہمزاد بچپن سے اس کے ساتھ ہوتا ہے تو اس کو بہت ساری باتیں اس شخص کی یاد ہوتی ہیں اور یہی ہَمزاد حاضری والے جن کو یہ گزشتہ باتیں بتا دیتا ہے، جس کی وجہ سے یہ جن درست خبریں دے رہا ہوتا ہے۔ ( کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص 322 ،323 ماخوذا)مثلاً” بچپن میں اس کو ٹائیفائیڈ ہوگیا تھا اور اس کے بچنے کی اُمید نہیں رہی تھی یا ڈاکٹر نے آپریشن کا کہا تھا مگر فُلاں نے علاج کیا تو بغیر آپریشن کے ٹھیک ہوگیا تھا وغیرہ “ اور لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ بڑا پہنچا ہوا ہے ۔ یوں یہ لوگ اس جن کی باتوں میں آجاتے ہیں حالانکہ اس نے کوئی غیب کی بات نہیں بتائی ہوتی بلکہ ماضی کی ساری باتیں اس ہَمزاد سے سن کر بتائی ہوتی ہیں ۔ مسئلہ مستقبل کی خبروں کا ہوتا ہے لہٰذا آئندہ کی خبریں نہ پوچھی جائیں کہ ”فلاں کام ہوگا یا نہیں ہوگا ، مجھے فلاں جگہ نوکری ملے گی یا نہیں ملے گی یا فلاں جگہ شادی کرنا چاہتاہوں تو شادی ہوگی یا نہیں، میرا بچہ ٹھیک ہوگا یا نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ“ یہ باتیں جنات سے پوچھنے کی نہیں ہیں کہ اس میں ایمان کا خطرہ ہے، کیونکہ اگر یہ عقیدہ رکھ کر پوچھا کہ جنات غیب بتا سکتے ہیں تو پوچھنے والاکافر ہوجائے گا، مگر افسوس فی زمانہ جگہ جگہ یہ کاروبار چل رہے ہیں ۔ اللہ پاک مسلمانوں کو اس سے نجات عطا فرمائے ۔
اگر کسی پر سواری آتی ہو اور وہ کسی بزرگ کا نام لے کہ میں فلاں ہوں تب بھی کسی مضبوط عامِل سے علاج کروا لینا چاہیے، کیونکہ وہ حقیقت میں جن ہی ہوتا ہے ، جب علاج ہوگا تو وہ جن بھاگ جائے گا ۔ بعض اوقات خاندان میں بھی اس طرح کے لوگ ہوتے ہیں جو سواری آنے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں ،کیونکہ اس سے ان کی کمائی ہوتی ہے ورنہ کم ا ز کم واہ وا تو ہوتی ہی ہے، کیونکہ لوگ ان کے گِرد جمع ہوجاتے ہیں اور یوں ان کو مزہ آتا ہے ۔ اگر ایسوں کو سمجھایا جائے تو بُرا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں ۔ (ملفوظاتِ امیراہل سنت ، 2/473)
سوال : انسانوں کی مختلف زبانیں ہوتی ہیں۔ یہ ارشاد فرمائیے کہ جنات کی زبان کون سی ہے؟
جواب : جنات کی بھی مختلف زبانیں ہوتی ہیں ، یہ اردو ، عربی اور دیگر زبانیں بھی بولتے ہیں۔ جیسے میں میمن ہوں لیکن اردو بول رہا ہوں ، اسی طرح یہ بھی جس شخص پر حاوی ہوتے ہیں اس کی زبان بولنا شروع کردیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس کی مادَری زبان کچھ اور ہوتی ہو۔
ایک پُرانا واقعہ ہے کہ مجھے کسی میمن آدمی کے پاس یہ کہہ کر لےگئے کہ اس کی طبیعت خراب ہے ، میں ساتھ چل پڑا اور جاکر اپنی عادت کے مطابق اسے سلام کیا اور ملانے کےلئے ہاتھ آگے بڑھایا ، لیکن اس نے ہاتھ نہیں ملایا ، یہ دیکھ کر میں چونکا کہ مسئلہ کچھ اور لگتا ہے ، وہ لیٹا ہوا تھا اور جو بھی اس پر حاوی تھا وہ میمنی میں ہی بول رہا تھا ، مجھے اس وقت ساری باتیں تو یاد نہیں ہیں ، البتہ اس نے کچھ اس طرح کا بتایا تھا کہ میں اس کے ساتھ فلاں ملک سے آیا ہوں اور ایسا ایسا مُعاملہ ہوا تھا۔ میں نے کہا کہ تم مجھ سے اکیلے میں ملو ، تم سے اکیلے بات کرنی ہے ، مسجد میں آجاؤ۔ وہ بولا کہ نہیں! مسجد میں تکلیف ہوگی۔ میں نے پوچھا کہ کسے تکلیف ہوگی؟ تو بولا کہ اسے تکلیف ہوگی۔ میں نے پوچھا : پھر کہاں ملو گے ؟ وہ بولا : مَسا ن(شمشان ، یعنی ہندوؤں کے مردہ جلانے کی جگہ) میں ملوں گا۔ اس بات سے مجھے اس کا مذہب پتا چل گیا(یعنی وہ ہندو جن تھا)۔ پھر میمنی میں ہی کہنے لگا کہ ہاتھ ملانا ہے؟ میں نے کہا کہ میں تو پہلے ہی ہاتھ ملارہا تھا۔ پھرمیں نے جیسے ہی ہاتھ آگے کیا تو اس نے اپنا انگوٹھا میری ہتھیلی پر مارا ، اس کے بعد جُھرجُھری لی اور پھر مریض نارمل ہوگیا۔ مریض نے جیسے ہی مجھے دیکھا تو کہا کہ مَاشَاءَ اللہ! بھئی آؤ ! ، بیٹھو ، کھاؤ پیو۔ یعنی نارمل ہونے کے بعد مریض کو معلوم ہی نہیں ہوا کہ میرے ساتھ کیا ہوا تھا ، اس کا جن بھاگ گیا تھا۔ جس وقت اس نے میری ہتھیلی پر انگوٹھا مارا تھا تو میرے بدن میں بھی جُھرجُھری دوڑ گئی تھی اور جو شخص مجھے ساتھ لے کر گیا تھا وہ بھاگ کر سیڑھی کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا تھا۔
بندے کو خالی ہوشیاری نہیں کرنی چاہیے کہ اپنے کسی کے باپ سے نہیں ڈرتے۔ میں تو بہت ڈرتا ہوں ، اللہ کریم اپنا ایسا ڈر عطا کردے کہ سارے ڈر دَر بَدر ہوجائیں۔ انسان کی نفسیات ہے کہ وہ ڈرتا ہے اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ ابھی تو کورونا وائرس نے سب کو ڈرا رکھا ہے ، جراثیم کا ایسا ڈر پھیلا ہوا ہے کہ بڑے بڑے بہادروں کے پتے پانی ہو گئے ہیں۔ جھوٹ نہیں بولنا چاہیے کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا۔
ایک بار کسی مال دار آدمی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو تو ڈر نہیں لگتا نا؟ میں نے کہا کہ مجھے تو ڈر لگتا ہے ، جبھی گارڈز رکھے ہوئے ہیں۔ اگر میں ہوشیاری کروں کہ نہیں ، مجھے ڈر نہیں لگتا تو یہ جھوٹ ہوجائے گا۔ جو بولتے ہیں کہ ہمیں ڈر نہیں لگتا ، انہیں سوچنا چاہیے کہ بِلّی میاؤں کرے تو بھاگ کھڑے ہوں اور ابھی چوہا نکل آئے تو سارے شیر مار خان بھاگم بھاگ کرتے پھریں۔ البتہ جو خوفِ خدا والا ہے وہ سب سے بڑا بہادر ہے۔ انسان کو ماں باپ سے بھی ڈرنا چاہیے ، یوں ہی استاد اور بزرگوں سے بھی ان کے ادب کی وجہ سے ڈرنا چاہیے۔ بزرگوں سے ڈرنا بہت اچھا ہے۔(ملفوظاتِ امیراہل سنّت ،5/251)
سوال : لوگ کہتے ہىں کہ مٹھائى جنات کى پسندىدہ غِذا ہے کىا یہ صحیح ہے ؟
جواب : جنات ہڈّىاں، کوئلے اور گوبر کھاتے ہىں ۔( ابوداود،1 / 48 ، حدیث : 39 )جنات جب ہڈّىاں کھاتے ہیں تو انہیں ان میں چربی اور بوٹی کا Taste(یعنی ذائقہ)محسوس ہوتا ہے ۔ رہی بات مٹھائی کی تو ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہىں کہ جنات مِٹھائی کھاتے ہیں ، اگر مٹھائى ان کی پسندیدہ غِذا ہوتی تو مٹھائى کى دُکان کس طرح باقى رہتى؟کیونکہ سارے جِن اتنے شرىف تو ہوتے نہیں کہ وہ اِنسانى رُوپ مىں آئیں اور مٹھائی خرىد کر لے جائىں ۔ میرا خیال ہے کہ اگر جنات مٹھائی خرىدنا شروع کردىں تو مٹھائی کا دَھندا اِتنا ہو کہ اىک ایک گلى مىں بارہ بارہ مٹھائى کى دُکانىں کُھل جائىں کیونکہ اىک رِواىت کے مُطابق اِنسانوں کے مقابلے میں ان کی تعداد نو گُنا ہے ۔ (تفسير طبری، پ17، الانبیاء، تحت الآیۃ:96 ،9 / 85، حدیث :24803)(ملفوظاتِ امیراہل سنّت ،2/63)
سوال : انسانوں کی مَیِّت کو دفنایا جاتا ہے ، جنات کی مَیِّت کے ساتھ کیا مُعاملہ ہوتا ہے؟
جواب : ایک سانپ کی حِکایت ملتی ہے کہ قافلے وا لوں نے سفید سانپ کو تڑپتا دیکھا (جب وہ مَر گیا تو)،اسے لپیٹ کر دفنا دیا تو کچھ آوازیں آئیں جن میں شکریہ ادا کیا گیا اور بتایا کہ یہ ایک صحابی جن تھے جو سانپ کی شکل میں ظاہر ہوئے ۔(دلائل النبوة للاصبہانی، ص214 ، حدیث:257) بہرحال اب جنات کی تَدفین وغیرہ سے متعلق کیا اَحکام ہیں اِس عنوان پر کوئی کتاب دیکھی نہیں جس میں جنات کے مَسائل لکھے ہوں ۔ اگر کوئی کتاب ہوئی بھی تو جنوں میں ہی ہو گی ، جس سے یہ جنات ہی پڑھ سکتے ہوں گے، ہم کو یہ نظر نہیں آئے گی ۔ ہاں!ایسے مفتی ہوئے ہیں جو جنات کے مسائل بھی جانتے تھے جیسے حضرتِ امام(ابوحَفْص عمربن محمد)نَسَفی رحمۃُ اللہِ علیہ ”مُفتیٔ ثَقَلَین“ تھے۔ یعنی جنات اور انسان دونوں ہی ان سے فتویٰ لیتے اور مَسائل دَریافت کرتے تھے ۔ (الفوائد البہیۃ، ، ص194)یقیناً حضرتِ امام نسفی رحمۃُ اللہِ علیہ اتنے بڑے عالِم ہوں گے کہ انھیں جنات کے مَسائل کا بھی عِلم ہو گا ۔ فی زمانہ ایسے عالِم صاحب کا ہمیں نہیں
معلوم جو جنات کو بھی مَسائل بتا سکتے ہوں ۔(ملفوظاتِ امیراہل سنّت ،1/435)
… جیساکہ اِرشادِ ربانی ہے : ( تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُهِیْنِؕ(۱۴) )
(پ22، السبا:14)ترجَمۂ کنزالایمان:جنّوں کی حقیقت کُھل گئی اگر غیب جانتے ہوتے اس خواری کے عذاب میں نہ ہوتے ۔