30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
حَمْد،نَعت اورمَنْقَبت لکھنے میں اِحتیاطیں
نَعْت شریف،نظم یا اَشعار لکھنے میں مزید اِحتیاط کی حاجت ہے کہ آدمی اس میں پھنس جاتا ہے کیونکہ اس کو رَدِیْف یا قافِیہ نِبْھانا ہوتا ہے اور اپنے مصرع کا وزن برابر رکھنے کے لیے الفاظ ڈھونڈنا پڑتے ہیں جس کی وجہ سے سخت آزمائش ہوتی ہے لہٰذا سلامتی اسی میں ہے کہ حمد اور نعت وغیرہ لکھنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اس میدان میں بڑے بڑے شُعَرا جن میں نعت گو (نعت خوان )شاعر بھی شامل ہیں انہوں نے ٹھوکریں کھائی ہیں اور ایسی ایسی شرعی غلطیاں چھوڑ کر دُنیا سے رُخصت ہوئے ہیں کہ اَلْاَمَان وَ الْحَفِیْظ۔ لکھنے والوں نے ان کی مثالیں تک لکھی ہیں کہ فلاں اتنا بڑا شاعر تھا ،اتنے اتنے کلام لکھے، نعتیں بھی کہیں مگر یہ یہ غلط بات لکھ گیا۔ یاد رَکھیے! نعت شریف لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ لکھنے والا مُتَصَلِّب (پُختہ) عالِم ہو اور اس کے ساتھ ساتھ فنِ شاعری بھی جانتا ہو، اگر ایسا نہیں ہے تو کلام نہ لکھے۔
(ملفوظات امیر اہل سنت ،3/32)
سوال: آپ نے ایک مدنى مذاکرے مىں فرماىا تھا کہ مىں روڈ پار کرکے ککری گراؤنڈ میں کھیلنے نہیں جاتا تھا کیونکہ میری والدہ نے منع کیا تھا،کچھ دن پہلےآپ کے ایک دوست سے میری ملاقات ہوئى توانہوں نے اىک واقعہ بتاىا کہ ہم ایک گلى مىں کھىلا کرتے تھے تو مىں نے الیاس قادری سے کہا کہ ”چلو الىاس! ککرى گراؤنڈ مىں کھىلتے ہىں“، آپ نے فرمایا: ”میری ماں نے منع کىا ہے“ انہوں نے کہا: ماں تو گھر مىں ہے ان کو کىا پتا؟ تو آپ نے فرمایا کہ ”نہىں جھوٹ نہىں بولنا“، پیارے مرشدِ کریم! میری آپ سے درخواست ہےکہ ىہ واقعہ بچوں کو بتائىں تاکہ وہ جہاں بھى جائىں والدىن کو بتا کر جائىں اورجھوٹ نہ بولىں۔
جواب: ککری گراؤنڈ اور ہمارے گھر کے درمیان ایک بڑا روڈ واقع تھا اور اس روڈ پر گاڑیاں بہت رفتار سے چلتی تھیں اس لئے میری والدہ مجھے اس گراؤنڈ میں کھیلنے کے لئے جانے سے منع کرتی تھیں تاکہ مجھے کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے یقیناً یہ ان کی مجھ سے محبت تھی ۔ نیز میں اپنی ماں سے جھوٹ نہیں بول سکتا تھا کیونکہ اَلحمدُ لِلّٰہ !مجھے بچپن سے ہی اللہ پاک سے ڈر لگتا تھا۔(ملفوظات امیر اہل سنت، 8/67)
سوال:جھوٹ اور چُغلی سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟
جواب:اِنسان جھوٹ اور چغلی سے اُس وقت بچ سکے گا جب اُسے جھوٹ اور چُغلی کی تباہ کاریوں کا عِلم ہو گا اور یہ عِلم دِینی کُتُب کا مُطالعہ کرنے سے حاصل ہو گا۔ جھوٹ سے بچنے کی کوشش جاری رکھے اور اِس کے ساتھ ساتھ اللہ پاک سے دُعا بھی کرتا رہے، اللہ پاک کی رَحمت سے اُمید ہے کہ جھوٹ اور چُغلی سے چُھٹکارا نصیب ہو جائے گا۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں آہِستہ آہِستہ انہیں چھوڑ دوں گا تو یہ خیال ذہن سے نکال کر فوراً ان گناہوں کو چھوڑ دے کہ موت کا کچھ معلوم نہیں کہ کس وقت آجائے لہٰذا اِنسان کو اپنے گناہوں سے جلد توبہ کر لینی چاہیے۔ ہاں اگر کوئی زیادہ چائے پیتا ہے اور اُس کے لیے چائے نقصان دہ بھی ہے وہ کہے کہ میں آہستہ آہستہ چائے چھوڑ دوں گا تو یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے ، جبکہ گناہوں کے مُعاملے میں آہستہ کا مُعاملہ تَرک کر دینا چاہیے۔اِسی طرح اگر کوئی شراب پیتا ہے اُسے بھی چاہیے کہ فوراً چھوڑ دے کہ اس کا پینا حرام و گناہ ہے۔کسی گناہ کو آہستہ آہستہ چھوڑنے کی اِجازت کوئی بھی عالمِ دِین نہیں دے گا۔ مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے مکتبۃ ُالمدینہ کی کتاب ’’ غیبت کی تباہ کاریاں‘‘ خرید کر مُطالعہ کیجیے۔ اِس کتاب کو پڑھنے سے اِن شاءَ اللہ عِلم میں اِضافہ ہو گا۔ یاد رَکھیے!عِلم ایک نور ہے اور گناہ اندھیرا ہے، جہاں عِلم کا نور آجاتا ہے تو وہاں گناہوں کا اندھیرا باقی نہیں رہتا۔
(ملفوظات امیر اہل سنّت، 8/279، 280)
سوال:جھوٹ کى تباہ کارىاں کتاب کب تک آئے گى؟
جواب:زندگى نے ساتھ دىا تو جھوٹ کى تباہ کارىاں کتاب لکھنے کا بھی اِرادہ ہے کیونکہ مىں اس کى ضَرورت بہت محسوس کرتا ہوں ۔ پہلے خیال تھا کہ غىبت زىادہ ہے مگر اب سمجھتا ہوں کہ جھوٹ غىبت سے بھى زىادہ ہے ۔بات بات پر جھوٹ بولنا عام ہوگیا ہے۔ذِمَّہ داران اور مُبَلِّغِىْن کی بات کی جائے یا عوام و خواص کی،پتا بھی نہىں چلتا اور منہ سے جھوٹ نکل رہا ہوتا ہے، اب مىرے جىسا جو حُسَّاس (Sensitive)آدمى ہوتا ہے وہ بعض اوقات جان لىتا ہے کہ اس غرىب کو پتا بھی نہىں کہ ىہ جھوٹ ہے لیکن بہت مرتبہ بولنے کى ہِمَّت نہىں ہوتى ۔کتاب میں مثالىں دے کر سمجھانے کا ذہن ہے ۔کبھى ىاد آتا ہے تو کئى مثالىں اپنے پاس لکھ لىتا ہوں تاکہ اللہ پاک کی توفىق سے جب کتاب آئے گی تو اِن شاءَ اللہ اس میں ڈال دىں گے۔بس اللہ پاک قبول کرے اور اخلاص بھى عطا فرمائے۔( ملفوظات امیر اہل سنت ،2/107)
سوال:کیا جھوٹے شخص کی کوئی نشانی ہے؟ تاکہ اُس سے بچا جاسکے۔
جواب:نشانی تو بعض اَوقات غیرمسلم کی بھی پتا نہیں چلتی۔”ایک مَرتبہ میں کسی مُلک میں تھا اور ہماری گاڑی سِگْنل پر رُکی ہوئی تھی، اِتنے میں چائے کے ہوٹل سے ایک نوجوان بھاگتا ہوا نِکلا اور بڑے پُرتپاک انداز سے مجھے ” السلام علیکم “ کہا، کسی نے مجھے بتایا کہ یہ غیر مسلم ہے۔“آج کل تو کسی کا مسلمان ہونا بھی معلوم نہیں ہوتا کیونکہ مسلمان بھی غیر مسلموں جیسا لباس پہنتے اور اُن کی طرح بال رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کا تَہذىب و تَمَدُّن بھی غیر مسلموں جیسا ہوگیا ہے۔ خُدا کى پناہ! رہی بات جھوٹے شخص کی نشانی کی، تو جب وہ جھوٹ بولے گا تبھی معلوم ہوسکے گا کہ وہ جھوٹا ہے، اِس کے علاوہ یہ بات کیسے معلوم ہوسکتی ہے! کیونکہ یہ کوئی پہیلی تو ہے نہیں جسے بُوجھا جاسکے۔ حدیثِ پاک میں مُنافق کی یہ نشانیاں بیان کی گئی ہیں کہ” وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور اُس کے پاس اَمانت رکھوائی جائے تو خِیانت کرتا ہے۔“( بخاری،1/25، حدیث:34)
( ملفوظات امیر اہل سنت ،1/243)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع