30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
دوسری فصل : موت کےوقت کے مستحب اعمال
جان لیجئے!جس کی موت کا وقت قریب آجائے اس کےلئے مستحب یہ ہے کہ ظاہری اعتبار سے پُرسکون رہے، زبان سے کلمہ طیِّبہ کا ورد کرتارہےاور دل میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے اچھا گمان رکھے۔
مرنے والا عذاب میں یا رحمَتِ الٰہی میں؟
رحمَتِ عالَم، نُورِمُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا : مرنے والے کی تین باتوں پر نظر رکھو جب پیشانی پر پسینہ آجائے، آنسو بہہ نکلیں اور ہونٹ خشک ہوجائیں تو سمجھ لو کہ یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت ہے جو اس پر نازل ہو رہی ہےاور جب گلا گھونٹے جانے کی طرح آواز نکلے،رنگ سرخ ہوجائے اور ہونٹ مٹیالے رنگ کے ہوجائیں تو سمجھوکہ یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا عذاب ہےجو اس پرنازل ہورہاہے۔(1 )
زبان پر کلمہ طیّبہ کا وِرد :
یہ بھی خاتمہ بالخیر کی علامت ہے۔ چنانچہ حضرت سیِّدُنا ابوسعید خُدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہےکہ تاجدارِرِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا : اپنےمرنےوالوں کو’’ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ‘‘کی تلقین کیا کرو۔(2 )اور حضرت سیِّدُناحذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی روایت میں ہے : ’’ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ‘‘ پچھلے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔(3 )
کلمہ طیّبہ پر ایمان اور جنت میں داخلہ :
امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سےمروی ہےکہ جوشخص یوں مرےکہ’’ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ‘‘پراس کاایمان ہوتو وہ جنت میں داخل ہوگا۔(4 )حضرت سیِّدُنا عُبَیـْدُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سےمروی روایت میں ہے کہ وہ گواہی دے۔
کلمہ طیّبہ پر ایمان اور جنت میں داخلہ :
حضرت سیِّدُنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : جب کسی کی موت کاوقت قریب آئے تو تم اسے ’’ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ‘‘کی تلقین کروکیونکہ جس کا خاتمہ اس کلمہ پر ہوتاہے یہ کلمہ اس کےلئے جنت کا زادِراہ بن جاتا ہے۔
مرنے والوں کے قریب رہاکرو :
حضرت سیِّدُنا عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : مرنے والوں کے قریب رہا کرو اور انہیں نصیحت کیاکروکیونکہ انہیں وہ چیزیں نظر آتی ہیں جو تمہیں نظر نہیں آتیں اور انہیں’’ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ‘‘ کی تلقین کیاکرو۔
کلمہ طیّبہ کے سبب مغفرت :
حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کوارشادفرماتےسناکہ ایک شخص کی موت کاوقت قریب آیاتومَلَکُ الموت عَلَیْہِ السَّلَام اس کےپاس آئے اوردل پرنظر ڈالی اسے خالی پایا، جبڑوں کو کھولاتودیکھاکہ زبان تالو سے ملی ہوئی ہےاور’’ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ‘‘زبان پر جاری ہے، اسی کلمہ اخلاص (یعنی کلمہ طیبہ)کے سبب اس کی مغفرت ہوگئی۔(5 )
تلقین کرنے میں احتیاط :
تلقین کرنے والے کو چاہئےکہ تلقین میں یوں پیچھےنہ پڑجائےکہ پڑھواکر ہی دَم لے بلکہ نرمی سے کام لے کیونکہ بعض اوقات بیمار کی زبان سے الفاظ ادا نہیں ہوپاتے،اسے مشکل پیش آتی ہےاوروہ تلقین کو بوجھ محسوس کرتاہےجس کی وجہ سے کلمہ طیّبہ کی ادائیگی ناگوارگزرتی ہےاورڈر ہے کہ کہیں یہ بات اس کے بُرے خاتمےکاسبب نہ بن جائے۔
مرتے وقت کلمہ نصیب ہوجانےکی وضاحت :
کلمہ طیّبہ نصیب ہونے سے یہ مراد ہے کہ موت کے وقت دل میں ربّ عَزَّ وَجَلَّ کےسوا کوئی نہ ہولہٰذا جب دل میں کسی اور کی طلب نہ ہوگی تواس دنیا سے رخصت ہوکر بارگاہِ الٰہی میں حاضری انتہائی فائدہ مند ثابت ہوگی اور اگر دل میں دنیا کی یاد بَسی ہو،طبیعت اسی کی جانب مائل ہو، لذتوں کے چھوٹ جانے پر افسوس ہو، کلمہ صرف زبان کی نوک پر ہواوردل میں اس کے معنیٰ پختہ نہ ہوں تواب اس کا معاملہ تقدیرِالٰہی پرہے کیونکہ صرف زبان کا ہلنا بہت کم فائدہ دیتاہے مگر یہ کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے فضل سے قبول فرما لے۔
مرتے وقت اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے متعلق اچھا گمان رکھنا مستحب ہےجس کی تفصیل امید کے بیان میں گزر چکی ہے۔ بلاشبہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے اچھا گمان رکھنے کی فضیلت پر کئی احادیْثِ مُبارَکہ وارد ہوئی ہیں۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ بندے کے گمان کے قریب ہے :
حضرت سیِّدُنا وا ثِلہ بن اَسْقَع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ایک مریض کی عیادت کےلئےتشریف لائے اور فرمایا : مجھے بتاؤکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کےبارے میں تم کیا گمان رکھتے ہو؟ اس مریض نے کہا : ”گناہوں نے اتنا برباد کر دیا ہے کہ ہلاکت کےقریب ہوچکاہوں مگر اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت سے پُرامید ہوں۔“یہ سن حضرت سیِّدُنا واثلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بلند آواز سے کہا : ” اَللہُ اَکْبَر ۔“پھر اہل خانہ نے بھی بلند آواز سے کہا : اَللہُ اَکْبَر ۔ اس کے بعد حضرت سیِّدُنا واثِلَہ بن اَسْقَع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : میں نے پیارے آقا محمد مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشادفرماتاہے : میرابندہ جو گمان میرے بارےمیں رکھتا ہے میں اس کے قریب ہوں(یعنی ویسا ہی معاملہ فرماتا ہوں) اب اس کی مرضی جو چاہے گمان رکھے۔(6 )
امید اور خوف کے سبب نجات :
رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک نوجوان کےآخری وقت میں اس کےسرہانےتشریف لائے اور ارشادفرمایا : ”تم اپنےآپ کوکیساپاتےہو؟“عرض کی : ”رحمت الٰہی سےپُر امید ہوں جبکہ گناہوں کے سبب خوف زدہ بھی ہوں۔“ارشادفرمایا : ”اس موقع پراگر بندے کے دل میں یہ دونوں باتیں جمع ہوجائیں تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ وہ بھی عطافرماتاہےجس کی امیدتھی اور اس سے بھی حفاظت فرماتا ہے جس سے خوف زدہ تھا۔“(7 )
اچھے گمان کے سبب مغفرت :
حضرت سیِّدُنا ثابت بُنانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں کہ ایک نوجوان انتہائی غفلت کا شکارتھا،اس کی ماں اسے باربار سمجھاتی اورکہتی : ”اے میرے بیٹے!ایک دن تجھےمرناہےلہٰذا اس دن کی فکر کر۔“جب حکْمِ الٰہی سے اس کی موت کا وقت قریب آیا تو ماں نے اپنے بیٹے کی جانب رُخ کیا اور کہا : ”اے میرے بیٹے !میں تجھے اسی شکست سے ڈراتی تھی اور کہاکرتی تھی ایک دن تجھےمرناہے۔“اس نوجوان نے کہا : ”اے میری ماں! بےشک میرا ایک ربّ ہے جس کے بہت زیادہ احسانات ہیں اور مجھے امید ہے کہ وہ آج بھی مجھ پر ایک احسان فرما دے گا۔“ حضرت سیِّدُنا ثابت بنانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں : اس نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کےبارے میں اچھاگمان رکھاتو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اس کی مغفرت فرمادی۔
بدکار نوجوان کی بخشش :
حضرت سیِّدُنا جابربن وَداعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ایک بدکار نوجوان کی موت کا وقت قریب آیا تو اس کی ماں نے کہا : ”بیٹا!کیاتم کوئی وصیت کرنا چاہتے ہو؟“اس نے کہا : ”ہاں!بس یہ کہ میری انگوٹھی کو مَت اُتارناکیونکہ اس میں اسْمِ جلالت’’ اللہ ‘‘ لکھاہےشاید اللہ عَزَّ وَجَلَّ اسی سبب سے مجھے بخش دے۔“ اسے دفن کرنے کے بعد کسی نے خواب میں دیکھاتواس نے کہا : ”میری ماں کو بتادوکہ آخری جملہ میرے کام آگیا اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے میری مغفرت فرمادی۔“
بھلائی اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی کی طرف سے ملتی ہے :
منقول ہے کہ ایک دیہاتی بیمار ہواتوکسی نے کہا : ”اب تم مرجاؤگے۔“اس دیہاتی نے کہا : ”پھرمجھے کہاں لےجایا جائے گا؟“ لوگوں نے کہا : ” اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی جانب۔“اس نے کہا : ”اس ذات کی جانب جانا کیوں پسند نہ کروں کہ بھلائی تو صرف اسی کی طرف سے ہے۔“
موت کے وقت قبر وآخرت کی آسانیاں بیان کرو :
حضرت سیِّدُنا مُعْتَمِربن سُلَیْمان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّان فرماتےہیں کہ جب میرے والد صاحب کی موت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے فرمایا : اے مُعْتَمِر!میرے سامنے قبروآخرت کی آسانیاں بیان کرو تاکہ میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے اس حال میں ملوں کہ اس کے متعلق میرا گمان اچھا ہو۔
اسی وجہ سے بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن اس بات کومستحب جانتے تھےکہ موت کے وقت بندے کے اچھے اعمال ذکر کئے جائیں تاکہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے بارے میں اچھا گمان رکھ سکے۔
1 نوادر الاصول ، الاصل السادس والثمانون ، ۱ / ۳۷۲، حدیث :۵۴۳
2 مسلم ، کتاب الجنائز ، باب تلقین الموتی ” لا الہ الا اللّٰہ “، ص ۴۵۶، حدیث :۹۱۶
3 موسوعة الامام ابن ابی الدنیا ، کتاب المحتضرین ، ۵ / ۳۰۳، حدیث :۲
4 مسلم ، کتاب الایمان ، باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید دخلا الجنة قطعا ، ص ۳۴، حدیث :۲۶
5 موسوعة الامام ابن ابی الدنیا ، کتاب المحتضرین ، ۵ / ۳۰۴، حدیث :۹
6 المسند للامام احمد بن حنبل ، مسندالکوفیین ، حدیث واثلہ بن الاسقع ، ۵ / ۴۲۱، حدیث :۱۶۰۱۶
7 سنن الترمذی ، کتاب الجنائز ، باب رقم ۱۱، ۲ / ۲۹۶، حدیث :۹۸۵
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع