30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
پاکستان ائیر فورس کے اسلامی بھائی کے بیان کا خلاصہ ہے کہ غالباً1982ء کی بات ہے ،میرا دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستگی کا ابتدائی دور تھااور تنظیمی ترکیب سے نا واقف تھا۔ میری ڈرگ کالونی کی ایک مسجد کے امام صاحب سے شنا سائی تھی۔ ایک روز باہمی مشورے سے خود ہی طے کرکے بغیر امیرِاَہلسنّتدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کو اطلاع کئے نمازِ فجر میں اعلان کردیا کہ آج بعد نمازِمغرب ہماری مسجد میں امیرِاَہلسنّتدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا بیان ہوگا۔پھر نماز ِظہر کے بعد ہم امیراَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کو بیان کی اطلاع دینے نور مسجد پہنچے تو آپ موجود نہ تھے۔ ہم ایک رقعہ کسی کو یہ کہہ کر دے آئے کہ امیرِاَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کو دے دینا، اس میں یہ تحریرتھاکہ ہم نے آج بعدِنمازِ مغرب آپ کا بیان اپنی مسجد میں رکھا ہے اور اسکا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔ ہم آپ کو لینے حاضرہوئے تھے مگر آپ موجودنہیں تھے لہٰذا یہ رقعہ دے کر جارہے ہیں ،آپ مغرب میں ضرورتشریف لائیے گا۔نمازِ مغرب میں لوگ کافی جمع ہوچکے تھے۔ کچھ دیر بعد امیرِاَہلسنّتدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ قافلے سمیت تشریف لے آئے اوربیان فرمایا، ہم جب ملاقات کیلئے حاضر ہوئے اور عرض کی کہ بیان کیلئے رقعہ ہم لے کر حاضر ہوئے تھے تو آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نیمسکرا کر اپنی ڈائری نکال کر دکھائی کہ میں نے پورے ماہ کے بیان کی تاریخیں دے رکھی ہیں ۔ ابھی بھی میرا بیان کسی اور مسجد میں تھا، مگر میں نے رقعہ پڑھ کر اندازہ لگایا کہ یہ کوئی نئے اسلامی بھائی ہیں ۔ یہ سوچ کر کہ ان کا دل نہ ٹوٹ جائے حاضر ہوگیا اور دوسری مسجد میں چونکہ ذمہ داران نے بیان رکھا تھا ،وہاں کسی اور مبلغ کی ترکیب بنادی ۔سبحان اللہ عَزَّ وَجَلَّ ! قربان جائیے آپ کی عاجزی اور انفرادی کوشش کے انداز پَر۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ کی نگاہِ ولایت اس شخص کے روشن مستقبل کو دیکھ رہی تھی جو بظاہر انوکھے اندازسے بیان کیلئے پہنچا تھا،اس اسلامی بھائی کے صاحبزادے جامعۃ المدینہ سے فارغ ہو کرکچھ عرصہ دارالافتاء میں اپنے فرائض انجام دیتے رہے اورتادمِ تحریر دونوں خوش نصیب باپ بیٹے پاکستان انتظامی کابینہ کے رکن کی حیثیت سے مَدَنی کاموں کی بَرَکتوں سے مستفیض ہو کر دوسروں کوبھی مستفیض کر رہے ہیں ۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی امیرِ اہلِسنّت پَر رَحْمت ہو اور ان کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ضلع مظفر گڑھ(پنجاب) کے قصبہ گجرات کے مقیم اسلامی بھائی کے بیان کا خلاصہ ہے: غالباً 1988میں پتا چلا کہ قبلہ امیرِاَہلسنّتدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ’’کوٹ اَدُّو‘‘ بیان کے لئے تشریف لارہے ہیں ۔ہمارے چچا نے امیرِاَہلسنّتدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی بارگاہ میں عرض کی: حضور! ملتان سے ’’کوٹ اَدُّو‘‘ جاتے ہوئے راستے میں ہمارا قصبہ آتا ہے، اگر کرم فرمادیں اور ہمارے گھر کی دعوت قبول فرمالیں تو مہربانی ہوگی۔آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے شفقت فرماتے ہوئے ہاں کردی اور یوں ہمارے قصبہ میں آنے کا طے ہوگیا۔سارے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور قصبے میں ہر طرف یہ دھوم مچ گئی کہ زمانے کے ولی تشریف لارہے ہیں ۔گھر کے افراد نے خوشی میں نئے کپڑے پہنے،گھر کو صاف کرنے اور سجانے کا اہتمام کیاگیااور میدان میں پانی کا چھڑکاؤ کروایا گیا۔ انتظار ہوتارہا مگر آپ تشریف نہ لاسکے۔ سب کو تشویش ہوئی کہ ’’ اللہ خیر کرے‘‘،وقت گزرنے کے بعد والد اور چچا اجتماع میں شرکت کیلئے’’کوٹ اَدُّو‘‘ روانہ ہوگئے۔
اجتماع کثیر تھا ،جب امیراَہلسنّتدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ منچ پرتشریف لائے اور آپ کی نظر میرے چچا پَرپڑی تو آپ نے ہزاروں لوگوں کے سامنے چچا کے آگے ہاتھ جوڑ لئے اور فرمایا مجھے معاف فرمادیں میں آپ کے گھر حاضر نہ ہوسکا، آپ کی دل آزاری ہوئی ہوگی۔ عاجزی کا یہ انداز دیکھ کرچچا کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ، بعد میں معلوم ہوا کہ ڈرائیور کی غلطی سے ’’کوٹ اَدُّو‘‘ کیلئے وہ راستہ اختیار کیاگیا جس راستے میں ہمارا قصبہ نہیں پڑتا تھا اور یوں سب دوسرے راستے سے ’’کوٹ اَدُّو‘‘ جا پہنچے۔ اب وقت اتنا ہوچکا تھا کہ واپسی ممکن نہ تھی۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی امیرِ اہلِسنّت پَر رَحْمت ہو اور ان کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
باب المدینہ( کراچی) کے مقیم ڈاکٹر صاحب کے بیان کا خلاصہ ہے کہ میری لیاقت نیشنل ہسپتال( کراچی) میں ڈیوٹی ہے ۔ایک بارکوئی عالم صاحب تشریف لائے اورمیں نے ان کے سامنے اپنی ’’ عطاری نسبت‘‘ کا اظہار کیا تو انہوں نے پوچھاکہ کیا آپ ’’الیاس قادری صاحب‘‘ کے مرید ہیں ۔ میں نے عرض کی:جی ہاں اور میرے مرید ہونے کا معاملہ بھی انوکھاہے ۔ ہوا یوں کہ ایک روزقبلہ امیرِاَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکسی مریض کی عیادت کیلئے ہمارے یہاں تشریف لائے۔ مجھے شخصیات سے آٹو گراف لینے کا جنون کی حد تک شوق تھا جس کے لئے میں نے ہسپتال کاایک رجسٹر مختص کیا ہوا تھا۔ میں نے واپسی کے وقت وہ رجسٹر کھول کر امیرِاَہلسنّتدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے سامنے کر دیا کہ آٹو گراف سے نواز دیں ۔ آپ نے رجسٹر بند کرنے کے بعد اپنی جیب سے مَدَنی پیڈ نکالا اور اس پر جوکچھ تَحریر فرمایااسکا مفہوم یہ ہے کہ یہ رجسٹرہسپتال کے کاموں کیلئے مخصوص ہے، آپ کو آٹوگراف لینے کے لئے نہیں دیا گیا۔ ساتھ میں کچھ دعائیں تَحریر فرما کررقعہ مجھے عطا فرمادیا ۔میں اس قدر متاثر ہوا کہ فوراً آپ کے ذریعے مرید ہو کر’’عطاری ‘‘بن گیا۔
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی امیرِ اہلِسنّت پَر رَحْمت ہو اور ان کے صدْقے ہماری مغفِرت ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
نواب شاہ (باب الاسلام سندھ) کے اسلامی بھائی کے بیان کا خلاصہ ہے کہ ایک بار امیرِ اَہلسنّتدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے ہمراہ چند اسلامی بھائی کہیں تشریف لے جارہے تھے۔ خوش قسمتی
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع