30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
حضرتِ سیِّدُنا طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : ’’جس نے مجھ پر دن بھر میں ایک ہزار مرتبہ دُرُودِ پاک پڑھا وہ اُس وقت تک نہیں مَرے گا جب تک جنّت میں اپنی جگہ نہ دیکھ لے۔‘‘ (اَلتَّرغیب وَالتَّرہیب رقم الحدیث ۲۴۸۳ج۲ص۴۹۹)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
بَصْرَہ کا رَاہِب اور قُرَیْشِی تاجِر
سرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے اظہارِ نبوت سے قبل امیر المومنین سیِّدُنا ابو بکر صدیقرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے قبیلہ بنو تیم کا ایک تاجر تجارت کی غرض سے بصرہ گیا۔ جب بازار پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک راہِب اپنے عبادت خانہ میں موجود لوگوں سے کہہ رہا تھا : سرزمینِ عرب سے آنے والے ان معزز تاجروں سے ذرا یہ تو معلوم کرو کیا ان میں کوئی حرم کا رہنے والا بھی ہے؟ تو وہ معزز قریشی تاجر آگے بڑھ کر بولا : جی ہاں ! میں حرم کا رہنے والا ہوں۔ راہب کو معلوم ہوا تو اس نے بڑی بیتابی سے اس قریشی جوان سے پوچھا : ’’کیا آپ کے ہاں احمد نامی کسی ہستی کا ظہور ہوا ہے؟‘‘ تاجر نے پوچھا : ’’یہ کون ہیں ؟‘‘ تو راہب نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا تعارف کچھ یوں کرایا : ’’ یہ حضرت عبد المطلب کے نورِ نظر حضرت عبد اللہ کے لختِ جگر ہیں۔ ان کے ظہور کا ماہِ مبارک یہی ہے، وہ آخری نبی ہیں اور ان کا ظہور سرزمینِ حرم (مکۃ المکرمہ) سے ہو گا، پھر وہ اس جگہ ہجرت کریں گے جہاں کی زمین تو پتھریلی اور شور زدہ ہو گی مگر وہاں کھجوروں کے باغات کثرت سے ہوں گے، تمہیں تو ان کی بارگاہ میں فوراً حاضر ہونا چاہئے۔‘‘ وہ قریشی تاجر فرماتے ہیں کہ راہب کی باتیں میرے دل میں گھر کر گئیں اور میں فوراً وہاں سے چل پڑا یہاں تک کہ مکہ مکرمہ پہنچ کر ہی دم لیا۔ مکہ شریف پہنچتے ہی لوگوں سے پوچھا کہ کوئی نئی خبر ہے؟ تو انہوں نے بتایا : ہاں ! محمد بن عبد اللہ (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم) جنہیں ہم امین کے طور پر جانتے ہیں ، نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور ابن ابی قحافہ (یعنی امیر المؤمنین سیِّدُنا ابو بکررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) ان پر ایمان بھی لے آئے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا : ’’کیا آپ نبی ٔپاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پر ایمان لے آئے ہیں ؟‘‘ انہوں نے جواب دیا : ’’ہاں ! اور چلو تم بھی ان کی بارگاہ میں حاضر ہونے میں دیر مت کرو کیونکہ وہ حق کی دعوت دیتے ہیں۔‘‘ تاجر کا دل راہب کی باتوں سے اسلام کی طرف مائل ہو چکا تھا۔ عاشقِ اکبر، سیِّدُنا صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی نیکی کی دعوت سے بھرپور باتیں سن کر مزید متأثر ہوا اور اس نے راہب کی تمام باتیں بھی بتا دیں۔ چنانچہ، امیر المؤمنین سیِّدُنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے قبیلے کے اس نوجوان تاجر کو لے کر دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور بصرہ کے راہب اور عاشقِ اکبر کی باتوں سے متاثر ہونے والا یہ قریشی تاجر آخر کار سرکارِ والا تَبار، بے کسوں کے مددگار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے دامنِ با برکت سے وابستہ ہو کر مسلمان ہو گیا اور
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع