30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
عَنْہُ نے ارشاد فرمایا : اس کو ایسے ہی چھوڑ دو یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے تیروں میں سے ایک تیر ہے یعنی میری شہادت اسی کے ساتھ مقدر کی گئی ہے۔ بس اسی کے سبب 60 یا 64 سال کی عمر میں آپ اس وطنِ اقامت کو چھوڑ کر وطنِ اصلی میں جا بسے۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، طلحۃ بن عبید اللہ التیمی، ج۲، ص۳۲۰۔ ملتقطاً)
سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کا خراجِ تحسین :
امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو جب حضرت سیِّدُناطلحہ بن عُبَیْد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شہادت کی خبر ملی تو فوراً آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جسدِ خاکی کے پاس تشریف لائے، سواری سے اتر کر حضرت سیِّدُنا طلحہ بن عُبَیْد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس بیٹھ گئے اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے نورانی چہرے اور داڑھی مبارک سے گرد وغبار صاف کر کے انتہائی درد بھرے انداز میں فرمایا : ’’اے کاش! یہ دن دیکھنے سے بیس سال پہلے ہی میں اس دنیا سے چلا جاتا۔‘‘
(تاریخ مدینۃ دمشق، الرقم ۲۹۸۳ طلحۃ بن عبید اللہ، ج۲۵، ص۱۱۵۔ المعجم الکبیر، الحدیث : ۲۰۲، ج۱، ص۱۱۳)
طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضرت سیِّدُناطلحہ بن عُبَیْد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قاتل امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی خدمت میں حاضر ہوا اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے لوگوں سے ارشاد فرمایا : ’’اسے جہنم کی خبر دے دو۔‘‘ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الرقم۴۷طلحۃ بن عبیداللہ، ج۳، ص۱۶۹)
دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 346 صَفحات پر مشتمل کتاب،’’ کراماتِ صحابہ ‘‘ صَفْحَہ 118 تا 120 پر ہے کہ شہادت کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بصرہ کے قریب دفن کر دیا گیا مگر جس مقام پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی قبر شریف بنی وہ نشیب میں تھا اس لئے قبر مبارک کبھی کبھی پانی میں ڈوب جاتی تھی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک شخص کو بار بار متواتر خواب میں آ کر اپنی قبر بدلنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اس شخص نے حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے اپنا خواب بیان کیا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دس ہزار درہم میں ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا مکان خرید کر اس میں قبر کھودی اور حضرت طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی مقدس لاش کو پرانی قبر میں سے نکال کر اس قبر میں دفن کر دیا۔ کافی مدت گزر جانے کے باوجود آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا مقدس جسم سلامت اور بالکل ہی تروتازہ تھا۔
(اسد الغابۃ، طلحۃ بن عبید اللہ التیمی، ج۳، ص۸۷)
پیارے اسلامی بھائیو! یہ واقعہ ذکر کرنے کے بعد شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَنِیفرماتے ہیں کہ غور فرمائیے کہ کچی قبر جو پانی میں ڈوبی رہتی تھی ایک مدت گزر جانے کے باوجود ایک ولی اور شہید کی لاش خراب نہیں ہوئی تو حضرات انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام خصوصاً حضور سید الانبیاء صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے مقدس جسم کو قبر کی مٹی بھلا کس طرح خراب کرسکتی ہے ؟یہی وجہ ہے کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا :
اِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاء (مشکوۃ، ص۱۲۱)
(یعنیاللہ عَزَّوَجَلَّ نے زمین پر انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام کے جسموں کو کھانا حرام فرما دیا ہے)
اسی طرح اس روایت سے اس مسئلہ پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ شہداءے کرام اپنے لوازم حیات کے ساتھ اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں کیونکہ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع