30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
{۴} بلاسخت مجبوری تنخواہ بڑھانے کامطالبہ مناسب نہیں نیز زیادہ مُشَاہَرے کے لالچ میں دوسری مسجد میں چلا جانا ایک اِمام کو کسی طرح زیب نہیں دیتا۔
{۵} مہربانی کرکے پیشگی تنخواہ نہ لیں بلکہ پہلی تاریخ سے قبل بھی تنخواہ قبول نہ کریں کہ زندگی کاکیا بھروسہ !
{۶} سوال کرنے، قرض مانگنے سے بچیں ورنہ اس کا نقصان خود ہی دیکھ لیں گے۔
{۷} آجکل اِمام اپنے آپ کو خطیب اور مؤذِّن خود کو نائب اِمام کہنا کہلواناپسند کرنے لگے ہیں ۔اِمامُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے غلام کواِمام اور سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مؤذِّن سیِّدنا بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دیوانے کومؤذِّن کہلوانے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہئے۔
{۸} لباسِ تقویٰ اِختیار کریں ،جھوٹ ،غیبت ، چغلی ، وعدہ خلافی وغیرہ گناہوں سے پرہیز کرتے رہیں اس سے آخِرت کے خسارے کے ساتھ ساتھ دنیامیں بھی یہ نقصان ہو گاکہ لوگ آپ سے بدظن ہوں گے۔
{۹} زیادہ بولنے،قہقہہ لگانے اورمذاق کرنے سے عزت اوررُعب میں کمی آتی ہے۔ مقتدیوں سے بے تکلف بھی نہ بنیں۔
{۱۰} حُبِّ جاہ سے بچیں ،شہرت وعزت بنانے کی خواہش آپ کیلئے باعثِ ہلاکت ثابت ہو سکتی ہے۔
{۱۱} اِمام کا ملنسار ہونا بے حد ضروری ہے لہٰذا نمازوں کے بعد لوگوں سے ملاقات کریں پھر تھوڑی دیر کیلئے وہیں تشریف رکھیں مگردنیا کی باتیں نہ کریں صرف دِینی گفتگو، وہ بھی آہستگی کے ساتھ ہوکہ نمازیوں وغیرہ کیلئے تشویش کا باعث نہ بنے۔
{۱۲} جواِمام ملنسارنہیں ہوتالوگوں سے دُوردُور رہتا ہے،صرف اپنے جیسے یعنی داڑھی عمامے والوں ہی سے میل جول رکھتاہے تو عام لوگ بھی اس سے دُور بھاگتے ہیں اور اگر اِمامت وغیرہ کے معاملے میں آڑا وقت آتاہے تو تعاون حاصل نہیں ہوتااور پھر۔۔۔
{۱۳} مؤذِّن صاحب اور خدَّامِ مسجد سے بنا کر رکھیں ،اِن پر حکم چلانے کے بجائے سعادت سمجھتے ہوئے مسجد کی صفائی اپنے ہاتھوں سے کرتے رہا کریں ،دریاں خود بچھائیں ، غیر ضروری پنکھے وغیرہ خود ہی بند کر دیاکریں ۔
{۱۴} وُ ضو خانہ کی صفائی میں بھی خدَّام کا ہاتھ بٹادیا کریں اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ محبت بھری فضاء قائم ہو گی اوراِن کو مَدَنی قافلوں میں سفر کیلئے آمادہ کرنا آپ کیلئے آسان ہو گا۔
{۱۵} مسجد انتظامیہ کے ساتھ ہر گز اُلجھاؤ پیدا نہ کریں ،ان کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آئیں اور کوشش کر کے انہیں دعوتِ اسلامی کے قافلوں میں سفر کروائیں ۔
{۱۶} کسی بھی سُنِّی امام وانتظامیہ سے ہر گز نہ بگاڑیں ، اُن پر تنقیدیں کرکے انہیں اپنا مخالف نہ بنائیں اگر بالفرض آپ سے کبھی کوتاہی ہو بھی جائے تو فوراً معافی مانگ لیں ۔ ہاں جس کی شَرعی غلَطی ہوتوحُسنِ تدبیر کے ساتھ براہِ رَاست اس کی اِصلاح کریں ۔
{۱۷} اَطراف کی مساجد کے ائمَّۂ اَہلسُنَّت اور انتظامیہ سے مَراسم اُستُوار کریں اور انہیں دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافلوں میں سفر کا شرف دلوائیں ۔
{۱۸} جُمُعہ وعیدَین کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ اِنہیں قائم کرنے والا حاکمِ اسلام یا اس کا مأذُون(یعنی اِجازت یافتہ)ہو،فی زمانہ علَمائے اَہلسُنَّت حاکمِ اسلام کے قائم مقام ہیں لہٰذا اپنے شہر کے سب سے بڑے سُنِّی عالِم(جس کی طرف لوگ شَرعی مسائل میں رُجوع کرتے ہوں )سے اجازت لے لیجئے، اب اجازت یافتہ اُسی مسجد وغیرہ میں جُمُعہ وعیدَین قائم کرنے کیلئے دوسرے کو اجازت دے سکتا ہے۔اگر پورے شہر میں کوئی بھی ایسا عالِم نہ ہوتو عام لوگ جس کو چاہیں اپنے لئے جُمُعہ وعیدَین کا امام بنا سکتے ہیں ۔ (خصوصاً نئی تعمیر کردہ مسجد میں اس مسئلہ کاخیال رکھا جائے۔)
{۱۹} جُمُعہ وعیدَین میں خُطباتِ رضَوِیَّہ ہی پڑھیں کہ یہ اللہ عَزَّوَجَل کے وَلی اور عاشقِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مجدِّدِ اعظم امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُالرَّحْمٰن کے مُرتَّب شدہ ہیں ،اُن کے الفاظ میں کمی بیشی نہ کریں کہ وَلی کی زبان و قلم سے نکلے ہوئے الفاظ بھی تبرُّک ہوتے ہیں ۔
{۲۰} جُمُعہ کو عُمُوماًنمازیوں کی اکثریت خطبہ کے وقت پہنچتی ہے ،ایسے میں لوگوں کی نفسیات کا خیال رکھنا ضروری ہے مثَلاًمقرَّرہ وقت پر جماعت قائم ہونا،بیان میں دلچسپی کاسامان مُہیَّا کرنا وغیرہ، بیان آسان اور سادَہ الفاظ پر مشتمل ہو عوام میں اَدَق مضامین نہ چھیڑیں بلکہ اس اُصولکَلِّمُواالنَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ(یعنی لوگوں کی عقلوں کے مطابق کلام کرو)کو مدِّ نظر رکھیں ،لوگ اَولیاء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کی حکایات و کرامات عُمُوماً دلچسپی سے سنتے ہیں اور اگر اِن کو سُنَّتیں سکھائی جائیں تو ایک دم قریب آجاتے ہیں ، قبر وآخِرت کی تیاری کاذہن بھی دیں ، ہر بیان کا اِختتام دعوتِ اسلامی کے سُنَّتوں کی تربیت کے مَدَنی قافِلوں کی بَرَکتوں اوراُن میں سفر کی ترغیب پر ہو تو مدینہ مدینہ۔
{۲۱} بیان،خطبہ،دعاء اورصلوٰۃ وسلام وغیرہ کیلئے حسبِ ضرورت اِسپیکرمنہ کی سیدھ میں پہلے ہی سے جمالیں پھر اس کو آن(On)کریں ورنہ اِسکی کھڑکھڑکا اِنتہائی ناپسندیدہ شورمسجد میں گونجے گا۔
{۲۲} علَمائے اَہلسُنَّت کے مابَین جن مسائل میں اِختلاف پایا جاتا ہے اُن کے بیان سے اِجتناب فرمائیں ۔
{۲۳} اگر آپ باصلاحیت عالِمِ دین ہیں توروزانہ دَرسِ قرآن (ترجمہ کنز الایمان شریف سے) اور دَرسِ حدیث دینے کا شرف حاصل کریں ۔
{۲۴} بیان وغیرہ میں اپنے لیے عاجزانہ الفاظ کہتے وقت دل پر غور کرلیا کریں ، اگر قلب عاجزی سے خالی ہو تو اِنکساری کے الفاظ سے آپ خود کو جھوٹ اوررِیا کاری کے گناہ سے کس طرح بچا سکیں گے۔
{۲۵} دَرس و بیان سے قبل تیاری کی عادت بنائیں ،ضرورتاً علمائے اَہلسُنَّت کی کتب سے فوٹو کاپیاں کروا کر اپنی ڈائری میں چسپاں کر لیں ۔
{۲۶} دیگر کتبِ دِینیہ کے ساتھ ساتھ حُسَّامُ الحَرَمَین،اِحیاء ُالعلوم،منہاج العابدین وغیرہ بھی مطالَعہ میں رکھیں ۔
{۲۷} روزانہ فیضانِ سُنَّت کے دَرس میں شرکت فرمایا کریں اور ضرورتاً خود بھی دَرس دے دیا کریں ۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع