30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
طرح مفہوم ہوتے تھے ان کو اسی عنوان سے اخذ کیا۔ اِسی طرح جو مسائل اِجماع ِ امّت اور قیاس سے ثابت ہوئے ان سب کو لے کر ہر قسم کے مسائل کو جُدا جُدا بابوں اور فصلوں میں جمع کرکے اس مجموعہ کا نام ’’ فِقْہ ‘‘ رکھ دیا تو ان مسائل پر عمل کرنا عین قرآن و حدیث اور اِجماعِ امّت پر عمل کرنا ہے اور اس علم فِقْہ میں مہارت رکھنے والے علماء کو فقیہ یا فقہاء کہا جاتا ہے۔ (ہمارا اسلام،تقلید کا بیان،حصہ ۴،ص۲۰۴)
سوال:مذہب کسے کہتے ہیں ؟
جواب: دِین کے فروعی مسائل اور اَحکامِ جُزْئیہ میں کسی امام مجتہد کا وہ آئین یا دَستور العمل جو انھوں نے قرآن و حدیث اور اِجماعِ امّت سے اَخذْ کیا اُسے مذہب کہتے ہیں اس بات کویوں سمجھیں کہ دِین اصل ہے اور مذہب اس کی شاخ ۔ حدیث شریف کے مطابق دُنیا و آخِرت میں نجات پانے والا مسلمانوں کا بڑا گروہ جسے سوادِ اَعظم فرمایا، وہ اَہلِ سُنَّت و جماعت کا ہے اور یہ ناجی(نجات پانے والا) گروہ اہلِ سُنَّت و جماعت آج چار مذاہب حَنَفِی ، مالکی ، شافعی، حنبلی میں جمع ہو گیاہے ۔ (ہمارا اسلام،تقلید کا بیان،حصہ ۴،ص۲۰۵ملتقطاً)
بِدعَت ا ور گناہِ کبیرہ وصغیرہ
سوال:بِدْعَتْ کسے کہتے ہیں اور اس کی کتنی اقسام ہیں ہر ایک کی وضاحت کریں ؟
جواب: بدعت اُس نئی چیز کو کہتے ہیں جو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد دِین میں نکلی ہو ، پھر اس کی دو قسمیں ہیں ، ایک بدعتِ ضلالت جس کو بدعتِ سَیّئہ بھی کہتے ہیں اور دوسری بدعتِ محَمودہ جس کو بدعتِ حَسَنَہ بھی کہتے ہیں ۔
بدعتِ سیئہ وہ نَوْ پیدا بات ہے جو کتاب اللہ عَزَّوَجَل اور حدیث ِنبوی اور اِجماعِ امّت کے مخالف ہو یا یوں کہنا چاہیئے کہ جو نَو پیدا بات کسی ایسی چیز کے تحت داخل ہو جس کی بُرائی شَرع سے ثابت ہے تو وہ بُری اور بدعتِ سیّئہ ہے اور یہ کبھی مکروہ اور کبھی حرام ہوتی ہے اور وہ نَوپید ا بات یا نئی چیزجو کتابُ اللہ عَزَّوَجَل اور حدیث رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور اِجماع ِ امّت کے مخالف نہ ہو وہ بدعتِ محمودہ یا بدعتِ حَسَنَہ کہلاتی ہے ۔ اس بات کو یوں سمجھیں کہ جونئی بات کسی ایسی چیز کے تحت داخل ہو جس کی خوبی شرع سے ثابت ہے تو وہ اچھی بات اور بدعتِ حسنہ ہے اور یہ بدعت کبھی مستحب ،بلکہ سُنَّت اور کبھی واجب تک ہوتی ہے ۔ (ہمارا اسلام،بدعت اور گناہ کبیرہ وصغیرہ،حصہ ۴،ص۱۹۷)
سوال: صحابہ کرام یا تابعین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بعد جو بات نئی پیدا ہو کیا وہ بھی بِدعتِ سیّئہ ہے ؟
جواب:کسی نَو پید بات کا بدعتِ سیّئہ یا حَسَنَہ ہونا کسی زمانہ پر موقوف نہیں ہے بلکہ قرآن و سُنَّت اور اِجماعِ امّت کی موافقت یا مخالفت پر ہے لہٰذا جس اَمْر کی اَصل شریعت سے ثابت ہویعنی کتاب و سُنَّت اور اِجماع کے مخالف نہ ہو وہ ہرگز بدعتِ سیّئہ نہیں ، خواہ کسی بھی زمانے میں ہو ، خود صحابۂ کرام ، تابعین اور تبع تابعین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے زمانے میں یہ بات رائج تھی کہ اپنے زمانے کی بعض نئی پیداہونے والی چیزوں کو منع کرتے اور بعض کو جائز رکھتے ۔ چنانچہ امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تراویح کی جماعت کی نسبت فرماتے ہیں : ’’نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ‘‘یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے۔ (المؤطا للامام مالک، کتاب الصلاۃ فی رمضان، باب ماجاء فی قیام رمضان، الحدیث: ۲۵۵، ج۱،ص۱۲۰)
اسی طرح حضرتِ سیِّدنا عبداللہ بن مُغَفَّل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے صاحبزادے کو نماز میں بسم اللہ بآواز پڑھتے سن کر فرمایا: ’’اَیْ بُنَیَّ مُحْدَثٌ اِیَّاکَ وَالْحَدَثَ‘‘ (سنن الترمذی ،کتاب الصلاۃ،باب ماجاء فی ترک الجہر ۔۔۔الخ،الحدیث:۲۴۴، ج۱، ص۲۷۷) ’’اے میرے بیٹے !یہ نَو پید بات ہے ،نئی باتوں سے بچ۔‘‘ تو معلوم ہوا کہ ُان کے نزدیک بھی کسی کام کا اپنے زمانے میں ہونے یا نہ ہونے پر مَدَار نہ تھا بلکہ نفسِ فعل کو دیکھتے اگر اس میں کوئی شرعی خرابی نہ ہوتی تو اجازت دیتے ورنہ منع فرمادیتے اور اُنھیں بُرا کہتے۔
خود رسول اللہ عَزَّوَجَل وصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نیک بات پیدا کرنے والے کو سُنَّت نکالنے والا فرمایاتو قِیامت تک نئی نئی باتیں پیدا کرنے کی اجازت عطا فرمائی اور یہ کہ جو نئی(اچھی) بات نکالے گا ثواب پائے گااور قِیامت تک جتنے اس پر عمل کریں گے سب کا ثواب اُسے ملے گا۔(المعجم الاوسط، من اسمہ مقدام ، الحدیث:۸۹۴۶، ج۶، ص۳۳۱)چاہے وہ عبادت ہو یا کوئی اَدَب کی بات یا کچھ اور ہو مگر اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ کسی بھی زمانے کے جاہل جو بات چاہیں اپنی طرف سے نکال لیں اور وہ بدعتِ حَسَنَہ ہو جائے ۔ یہ معاملہ علمائے دِین اور پابندِ شرع مسلمانوں کے بارے میں ہے کہ یہ جو اَمْرایجاد کر لیں اور اُسے جائز و مستحب کہیں وہ بے شک جائز و مستحب ہے اس نیک بات کا کرنے والا سُنّی ہی کہلائے گا بدعتی نہیں ۔ (ہمارا اسلام،بدعت اور گناہ کبیرہ وصغیرہ،حصہ ۴،ص۱۹۸)
سوال:گناہ کسے کہتے ہیں اور وہ کتنی قسم کے ہوتے ہیں ان کی وضاحت کریں ؟
جواب:خدا عَزَّوَجَلَّ و رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی یعنی اَحکامِ شریعت پر عمل نہ کرنا گناہ اور مَعْصِیَتْ ہے، گناہ کرنے والا گناہ گار یا عاصی کہلاتا ہے ۔ گناہ آدمی کو خدا عَزَّوَجَلَّ سے دُور کرتا ہے اور اسے ثواب سے محروم اور عذاب کا مستحق بناتا ہے گناہ کی دو قسمیں ہیں : {۱} صغیرہ اور {۲} کبیرہ ۔صغیرہ وہ گناہ ہے جس کے کرنے پر شریعت میں کوئی وَعید نہیں آئی یعنی اس کی کوئی خاص سزا بیان نہیں کی گئی ہے ۔ آدمی کوئی نیکی ، عبادت ، صَدَقہ ، اطاعتِ والدین وغیرہ کرتا ہے تو اس کی بَرَکت سے صغیرہ گناہ معاف ہو جاتا ہے جیساکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس نے کامل وضو کیا پھر نماز کے لیے کھڑا ہوا تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو جاتا ہے جیسے آج ہی اس کی ماں نے اسے جنا ہو۔(المعجم الاوسط للطبرانی،من اسمہ موسیٰ، الحدیث:۷۹۴۷، ج۶، ص۴۶) غرض یہ گناہ بِلا توبہ بھی معاف ہو جاتے ہیں ، مگر شرط یہ ہے کہ اس پر اِصرار نہ ہو کہ گناہِ صغیرہ اِصرار سے گناہِ کبیرہ بن جاتا ہے اورپھر توبہ کئے بغیر اس کی معافی نہیں ہوتی اور کبیرہ وہ گناہ ہے جس پر وَعید آئی یعنی وعدۂ عذاب دیا گیا، کبیر ہ گناہوں سے آدمی خالص توبہ و اِستغفار کئے بغیر پاک نہیں ہوتا ۔ (ہمارا اسلام،بدعت اور گناہ کبیرہ وصغیرہ،حصہ ۴،ص۱۹۹۔۲۰۰)
سوال:گناہِ کبیرہ کونسے ہیں اور کیا گناہِ کبیرہ کرنے والا مسلمان رہتا ہے یا نہیں ؟
جواب:قرآن و حدیث میں جن کبیرہ گناہوں کا ذکر آیا ہے ان میں سے کچھ یہ ہیں :
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع