30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
سوال: اگر کوئی شخص شریعت پر عمل نہ کرے تو کیا وہ وَلی بن سکتا ہے ؟
جواب: جب تک عقل سلامت ہے کوئی وَلی کیسے ہی بڑے مرتبے کا ہو اَحکامِ شریعت کی پابندی سے ہر گزآزاد نہیں ہو سکتا اور جو اپنے آپ کو شریعت سے آزاد سمجھے وہ ہر گز وَلی نہیں ہوسکتا ۔جو ا س کے خلاف عقیدہ رکھے (شریعت سے آزاد شخص کو وَلی سمجھے) وہ گمراہ ہے ۔ہاں !اگرآدمی مجذوب ہو جائے اور اس کی عقل زائل ہو جائے تو اس سے شریعت کا قلم اٹھ جاتا ہے، مگر یہ بھی خوب سمجھ لیجئے کہ جو ایسا ہو گا وہ شریعت کا مقابلہ کبھی نہ کرے گا ۔(ہمارااسلام،اولیاء اللہ رحمہم اللہ ،حصہ۳،ص۱۱۸)
سوال: اَولیاء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کی خصوصیات کیاہیں ؟
جواب:اَولیاء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم حضور آقائے دوجہان ،رحمتِ عالمیان ، سرورِکون و مکان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سچے ّجانشین ہوتے ہیں ۔ اللہ عَزَّوَجَل نے انہیں بڑی طاقتیں عطا فرمائی ہیں ۔ اِن سے عجیب وغریب کرامتیں ظاہر ہوتی ہیں ، اِن کی بَرَکت سے اللہ عَزَّوَجَل مخلوق کی حاجتیں پوری فرماتا ہے، اِن کی دعاؤں سے خلقِ خدا فائدہ اٹھاتی ہے،اِن کی محبت دِین و دنیا کی سعادت اور خدائے اَحکم ُالحاکمین کی رِضا کا سبب ہے ، اِن کے مزارات پر حاضری ،مسلمان کے لئے سعادت اور باعثِ بَرَکت ہے ،اِن کے عرس میں شرکت کرنے سے بَرَکتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ (ہمارا اسلام،اولیاء اللہ رحمہم اللہ ،حصہ۳،ص۱۱۸)
سوال: اَولیاء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم سے مدد مانگنا جائز ہے یا نا جائز ؟
جواب: اَولیا ء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم سے مدد مانگنا بلا شبہ جائز ہے، اسے اِسْتِمْدَاد اور اِسْتِعَانَت کہتے ہیں ،یہ مدد مانگنے والے کی مدد فرماتے ہیں ،چاہے وہ کسی بھی جائز لفظ کے ساتھ مدد مانگے اِن کو دور و نزدیک سے پکارنا سلف صالحین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کا طریقہ ہے۔ (ہمارا اسلام،اولیاء اللہ رحمہم اللہ ،حصہ۳،ص۱۱۸)
سوال:اَولیا ء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کی نذر و نیاز جائز ہے یا نہیں ؟
جواب: اَولیاء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کو جو اِیصالِ ثواب کیا جاتا ہے اُسے براہِ اَدَب نذر و نیاز کہتے ہیں جیسے کہ بادشاہوں کو نذریں دی جاتی ہیں اور اِیصالِ ثواب کرنا یعنی خیرات، تلاوتِ قرآنِ شریف ،یا ذکرِ الٰہی ، یادُرود شریف وغیرہ کا ثواب دوسروں کو بخش دینا یقینا جائز بلکہ مستحب ہے ۔صحیح احادیث سے یہ اُمور ثابت ہیں اسی لئے گزشتہ زمانے سے یہ فاتحہ خوانی اور اِیصا لِ ثواب کرنامسلمانوں میں رائج ہیں اور اِن میں خصوصاً گیارہویں شریف کی فاتحہ تونہایت عظیم اوربا برکت ہے۔ گیارہویں شریف شہنشاہِ بغداد، غوثِ صمدانی ،محبوبِ سبحانی،شہباز لامکانی‘ قطبِ رَبَّانی،قندیلِ نورانی، پیر ِلاثانی، پیر ِپیراں ، میرِمیراں ،حضور سیِّدنا غوثِ پاک شیخ ابو محمد عبدا لقاد ر جیلانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی نیاز کو کہتے ہیں ۔(ہمارا اسلام،اولیاء اللہ رحمہم اللہ ،حصہ۳،ص۱۱۸)
سوال: جو لوگ اَولیاء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کی نذر و نیا ز سے روکتے ہیں وہ کیسے ہیں ؟
جواب : نذر و نیاز کا طریقہ اَحادیث سے ثابت ہے ،تو جو اِس سے منع کر ے وہ اَحادیث مبارکہ کا مقابلہ کر تا ہے اور ایسا شخص ضرور گمراہ ہے ۔ (ہمارا اسلام،اولیاء اللہ رحمہم اللہ ،حصہ۳،ص۱۱۹)
سوال: اَولیاء ُاللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کے مزارات پر چادر چڑھانا کیسا ہے ؟
جواب: بزرگانِ دِین ،اَولیاء وصالحین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم کے مزاراتِ طیّبہ پر غلاف یعنی چادر ڈالنا جائز ہے اوراس سے مقصود یہ ہوکہ صاحبِ مزار کی وَقعت عوام کی نظروں میں پیدا ہو اور وہ بھی اُن کا اَدَب کریں اور اُن سے بَرَکتیں حاصل کریں ۔ (ہمارااسلام،اولیاء اللہ رحمہم اللہ ،حصہ۳،ص۱۱۹)
تقدیرِ الٰہی عَزَّوَجَل کا بیان
سوال: تقدیر سے کیامراد ہے ؟
جواب :عالَم میں جو کچھ بُرا یا بھلا ہوتا ہے اور بندے جو کچھ نیکی یا بدی کے کام کرتے ہیں وہ سب اللہ عَزَّوَجَل کے علمِ اَزَلی کے مطابق ہوتا ہے ہر بھلائی بُرائی اس نے اپنے علمِ اَزَلی کے موافق مقدر فرمادی ہے سب کچھ اس کے علم میں ہے اور اس کے پاس لکھا ہوا محفوظ ہے اِسی کا نام تقدیر ہے ۔(ہمارا اسلام،تقدیر الٰہی کا بیان،حصہ۵،ص۲۶۵)
سوال: کیا تقدیر کے موافق کام کرنے پر آدمی مجبور ہے ؟
جواب:اللہ تَعَالیٰ عالم الغیب و الشہادۃ ہے یعنی ہر ظاہر اور پوشیدہ کو جاننے والا ہے اس کا علم ہر شے کو محیط ہے ، جیسا ہونے والا تھا اور جو جیسا کرنے والا تھا اس نے اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ لیا تو یہ نہیں کہ جیسا اس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اس نے لکھ دیا۔ زید کے ذمہ برائی لکھی اس لیے کہ زید برائی کرنے والا تھا اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا وہ اس کے لیے بھلائی لکھتا تو اس کے علم یا اس کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا۔اتنا سمجھ لو کہ اللہ تَعَالیٰ نے آدمی کو مثل پتھر اور دیگر جمادات کے بے حس وحرکت نہیں پیدا کیا بلکہ اس کو ایک نوع اختیار دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے چاہے نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی عقل بھی دی ہے کہ بھلے برے نفع نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیا کر دیے ہیں کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے اسی قسم کے سامان مہیا ہوجاتے ہیں اور اسی بنا پر اس سے مواخذہ ہے۔ اپنے آپ کو بالکل مجبور سمجھنایا بالکل مختار سمجھنا دونوں ہی گمراہی ہیں ۔ (بہار شریعت،حصہ ۱،ج۱،ص۱۱۔۱۹)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع