حضرت لقمان حکیم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کی شان بہت بُلند و بالا ہے، قراٰنِ کریم پارہ 21میں آپ کے نام پر ایک پوری سورت ’’ سورۃ لقمٰن ‘‘ کے نام سے موجود ہے۔ اللہ پاک سورۃ لقمٰن آیت 12میں حکمت ِ لقمان بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَةَ اَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِؕ-وَ مَنْ یَّشْكُرْ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ(۱۲)
آسان ترجمۂٔ قرآن کنزالعرفان:اور بیشک ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی کہ اللہ کا شکرادا کر اور جو شکر اداکرے تووہ اپنی ذات کیلئے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو بیشک اللہ بے پرواہ ہے، حمد کے لائق ہے۔
صراط الجنان جلد7 صفحہ483 پر ہے: حضرت وَہب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کا کہنا ہے کہ حضرت لقمان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کے بھانجے تھے جبکہ (قراٰنِ کریم کے) مفسر مقاتل(رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ) نے کہا کہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کی خالہ کے بیٹے تھے۔ آپ نے حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کا زمانہ پایا اور اُن سے علم حاصل کیا ۔حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کے اعلانِ نبوت سے پہلے فتویٰ دیا کرتے تھے اور جب آپ(یعنی حضرت داؤد ) عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نبوت کے مَنصب پر فائز ہوئے (یعنی اعلانِ نبوت کیا ) تو حضرت لقما ن رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے فتویٰ دینا بند کر دیا ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کے نبی ہونے میں اختلاف ہے، اکثر علما اسی طرف ہیں کہ آپ حکیم (یعنی صاحبِ حکمت و دانائی )تھے نبی نہ تھے۔(تفسیر بغوی ج۳ص۴۲۳، تفسیر مدارک ص۹۱۷)
حضرت عبدُاللّٰہ بن عبّاس رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سُوڈانیوں کی صحبت اختیار کرو کیونکہ ان میں سے تین حضرات اہلِ جنت کے سرداروں میں سے ہیں: (1)حضرت لقمان حکیم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ ، (2) حضرت نجاشی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ ، (3) مؤذنِ(رسول) حضرت بلال رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ۔‘‘ (معجم کبیر ج۱۱ص۱۵۸حدیث ۱۱۴۸۲)
حکمت کی کئی تعریفات (DEFINITIONS) ہیں جن میں سے ’’صراط الجنان‘‘ جلد7 صفحہ484 پر یہ چار بیان کی گئی ہیں: (1) حِکمت عقل اور فہم (یعنی سمجھ) کو کہتے ہیں (2)حکمت وہ علم ہے جس کے مطابق عمل کیا جائے (3)حکمت معرفت (یعنی پہچا ن) اور کاموں میں پختگی(یعنی مضبوطی) کو کہتے ہیں (4)حکمت ایسی چیز ہے کہ اللہ پاک اسے جس کے دل میں رکھتا ہے یہ اس کے دل کو روشن کر دیتی ہے۔(تفسیر خازن ج۳ص۴۷۰)
حضرتِ علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ’’روح البیان‘‘ میں لکھتے ہیں: حضرت لقمان حکیم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ طب(MEDICAL) اور حقیقی علم و حکمت کے حکیم تھے۔(تفسیر روح البیان ج۷ص۷۳)
حضرتِ عکرمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں: ان کا آقا استنجا خانے(یعنی ٹائلٹ۔ TOILET) میں گیا تو دیر لگا دی، حضرت لقمان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے آواز دی : یہاں دیر تک بیٹھنے سے جگر کو نقصان پہنچتا ہے اور بواسیر کا مرض پیدا ہوتا ہے اور گرمی سر کو چڑھ جاتی ہے، تھوڑی دیر کے لیے استنجا خانے میں بیٹھو اور بہت جلد فارغ ہوکر آجاؤ۔ حضرت لقمان کے اس نسخے کو لکھ کر دروازے پر لٹکادیا گیا۔ (تفسیر دُرّمنثور ج۶ص۵۱۰)
حضرت لقمان حکیم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کے آقا نے کہا : بکری ذبح کرکے اس کے سب سے بہترین دو حصے لے آئیے، آپ زبان و دل نکال کرلے گئے۔ کچھ دنوں کے بعد آقا نے ان سے دوبارہ کہا: بکری ذبح کرکے اس کے سب سے بدترین حصے لے آئیے، آپ نے پھر زبان و دل لا کر حاضر کر دئیے، آقا کے پوچھنے پر حضرت لقمان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے کہا: اگر زبان و دل صحیح ہوں تو سب سے بہتر ہیں اور اگر یہ بگڑ جائیں تو ان سے بڑھ کر بُری چیز کوئی نہیں۔
(تفسیر طبری ج۱۰ ص۲۰۹)
* بغیر ضرورت پوچھنا: یہ کتنے میں لیا؟ وہ کتنے میں ملا؟ فلاں جگہ پلاٹ کا کیا بھائو چل رہا ہے؟*کسی کے مکان میں جانا ہوا یا کسی نے نیا مکان لیا تو سوال کرنا کہ کتنے کا لیا؟ کتنے کمرے ہیں؟ کرایہ کتنا ہے ؟ مکان مالک (LANDLORD)کیسا ہے ؟ ( مکان مالک کے متعلق سوال بسا اوقات مَعاذَاللّٰہ غیبت و تہمت کا دروازہ کھولنے کا سبب بن سکتا ہے مثلاً کبھی کچھ اس طرح گناہوں بھرا جواب بھی مل سکتا ہے: ہمارا مکان مالک بَہُت سخت مزاج/بے رحم/ٹیڑھا/ کھوچڑا/ خر دماغ/ وائڑا/ کنجوس ہے) وغیرہ وغیرہ * ملاقاتی سے پوچھنا: آپ کے کتنے بچے ہیں؟ بڑے بیٹے (یا بیٹی)کی عمر کتنی ہے؟اس کی منگنی (یا شادی) کر لی یا نہیں؟ *اِسی طرح جب کوئی نئی دکان ، کار یا اسکوٹر وغیرہ خریدے توبلاوجہ خریدنے و الے سے اس کا بھائو، پائیداری (یعنی مضبوطی)، نقد ، ادھار ، قِسطوں وغیرہ سے متعلق سُوالات کرنا *بے چارہ مریض جس سے بولا تک نہ جاتا ہو اُس سے عِیادت کرنے والے کا بلاضَرورت طرح طرح کے سوالات اور دوائوں وغیرہ کی تفصیلات معلوم کرنا اور اگر آپریشن ہوا ہو تو زخم کے ٹانکوں (STITCHES) کی تعدادتک پوچھ لینا،حتّٰی کہ’’ شرم کی جگہ ‘‘ کا مسئلہ ہو تب بھی بعض اُس کی پوچھ گچھ کرتے ہوئے نہیں شرماتے۔ اِس طرح کی فضولیات میں عورَتیں بھی مردوں سے کسی طرح پیچھے نہیں رہتیں *گرمی یا سردی کے موسم میں اِس کی کمی زیادَتی کے موقع پر بلاضرورت اِس طرح کی باتیں کرنا مَثَلاً گرمی کے موسم میں بعض ابوالفُضُول کا ’’ اُف ! اُف ‘‘ کرتے ہوئے اِس طرح کہنا : ایک تو آج کل سخت گرمی ہے اوراُوپر سے بجلی بھی بار بار چلی جاتی ہے *اسی طرح سردیوں میں اداکاری کے ساتھ دانت بجاتے ہوئے کہنا: آج تو بَہُت کڑاکے کی سردی ہی* اگر بارِش کا موسِم ہے تو بلاضرورت اس پربھی تبصرہ (تَب۔ صِ۔ رَہ) کرنا: مَثَلاًآج کل توبارِشیں بہت ہورہی ہیں ، ہر طرف پانی کھڑا ہوگیا ہے ، اِنتِظامیہ کیچڑ صاف کروانے کا کوئی خیال نہیں کرتی وغیرہ وغیرہ* اِسی طرح ملکی اورسیاسی حالات پر بِلانیّتِ اِصلاح بے جا تبصرے ، مختلف سیاسی پارٹیوںپر بلا وجہ تنقیدیں* کسی شہر یا ملک کا سفر کیا ہے تو وہاں کے پہاڑوںاور سبزہ زاروں کی غیر ضروری منظر کشی ،مکانوں اور سڑکوں کی تفصیلات کا بلاضرورت بیان وغیرہ وغیرہ یہ سب فضول گوئی نہیں تو اورکیا ہے؟البتہ یہ یاد رہے کہ فضول باتوں کی جو مثالیں دی گئی ہیں ان کے مطابق اگر ہم کسی کو باتیں کرتا ہوا پائیں تو اپنے آپ کو بدگُمانی سے بچائیں کیونکہ بعض اوقات جو باتیں ہمیں فضول لگ رہی ہوتی ہیں وہ کہنے والا کسی دُرُست مقصد کے تحت کہہ رہا ہوتا ہے جس کے سبب فضول نہیں رہتیں۔ مُباح چیزیں (یعنی جن میں نہ ثواب ہو نہ گناہ)اچھی نیت کے ساتھ کرنے سے کارِ ثواب بن جاتی ہیں۔
یہ ذِہن میں رہے کہ فضول بولناگناہ نہیں مگر فضول بات اسی صورت میں فضول ہوتی ہے جبکہ کم زیادہ کئے بغیر100فیصدصحیح صحیح کہی جائے۔ تشویش(یعنی پریشانی) کی بات یہ ہے کہ اِس طرح کی گفتگو کو ناپ تول کر دُرُست بیان کرنا کہ ’’ فضول ‘‘ کی حد سے آگے نہ بڑھے یہ بہت مشکل کام ہوتاہے،بار ہا جھوٹا مبالغہ(یعنی اصل کے خلاف حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کرنا) ہو جاتا ہے، کبھی فضول بولنے والا غیبتوں ، تہمتوں اور ناحق دل آزاریوں وغیرہ کے دَلدَل میں بھی جا پڑتا ہے۔ لہٰذا عافیت چپ رہنے ہی میں ہے کہ ایک چپ سو سکھ۔
ایک اسلامی بھائی ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کے سنتوں بھرے اجتماع میں خاموشی کے متعلق سنتوں بھرا بیان سننے سے پہلے دینی ماحول سے وابستہ ہونے کے باوجود بہت فضول گو تھے، زیادہ دُرُودشریف پڑھنے کی بھی کوئی خاص ترکیب نہ تھی۔جب انہوں نے چُپ رہنے کی کوشِش شروع کی، روزانہ ایک ہزار دُرُودشریف پڑھنا نصیب ہونے لگا، اِس سے پہلے ان کا انمول وَقت اِدھر اُدھر کی فضول بحثوں میں برباد ہو جاتا تھا۔انہوں نے خاموشی کی کوشِش شروع کرنے کے بعد بارہ دن میں پڑھے ہوئے 12 ہزار دُرُود شریف کا ثواب مجھ ( سگِ مدینہ کو) تحفت ًپیش(یعنی ایصالِ ثواب) کیا۔ان کے باتونی مزاج کے باعث ہونے والی الٹی سیدھی باتوں کی نحوست سے ان کے ذَیلی حلقے میں دعوتِ اسلامی کے دینی کام کو بھی نقصان پہنچ جاتاتھا۔ پچھلے دنوں ان کے حلقے میں آپس کا اختِلاف نمٹانے کے لیے مَدَنی مشورہ ہوا، حیرت بالائے حیرت کہ ان کی خاموشی کے سبب اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الکریم سارا جھگڑا بَآسانی خَتْم ہو گیا ۔ان کے ’’ نگران‘‘نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے بے تکلُّفی میں کچھ اس طرح فرمایا : ’’ مجھے بَہُت ڈرلگ رہا تھا کہ شاید آپ بحث شُروع کریں گے اور بات کا بتنگڑ بن جائے گا لیکن آپ کے خاموشی اپنانے کی نعمت نے ہمیں راحت بخشی۔‘‘دراصل بات یہ ہے کہ اِس سے قبل ان کی فضول بحث اوربک بک کی عادتِ بد کے سبب ’’مَدَنی مشورے‘‘ وغیرہ کا ماحول خَراب ہوجایا کرتا تھا۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے؟ فُضُول باتوں سے بچنادینی کاموں کیلئے بھی کس قدر مفیدہے، لہٰذا جو سنتوں کا مبلغ ہے اُسے تو خصوصاً ہر حال میں سنجیدہ اورکم گو ہونا چاہیے ۔ جو بَڑ بَڑیا، باتونی ، دوسروں کی بات کاٹنے والا، بار بار بیچ میں بول پڑنے والا ، بات بات پر بحث و تکرار کرنے اور’’ بال کی کھال‘‘ اُتارنے والا ہو اُس کی وَجہ سے دین کے کام کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ رہتا ہے، کیوں کہ خاموشی جو کہ شیطان کو مار بھگانے کا ’’بہترین‘‘ ہتھیارہے اِس سے یہ باتونی شخص محروم ہے۔ حضرتِ ابو ذَر غفاری رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو وصیت کرتے ہوئے مصطَفٰے جانِ رَحمت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’خاموشی کی کثرت کو لازِم کر لو کہ اس سے شیطان دَفع ہو گا اور تمہیں دین کے کاموں میں مدد ملے گی۔‘‘
(شُعَبُ الْاِیمان ج۴ ص ۲۴۲ حدیث ۴۹۴۲)
اللہ اِس سے پہلے ایماں پہ موت دیدے نقصاں مِرے سبب سے ہو سنّتِ نبی کا
(وسائلِ بخشِش ص۱۷۸)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!عقل مند پہلے بات کو تولتا ہے پھر منہ سے بولتا ہے اوربَیوُقُوف جو کچھ زبان پر آئے بولتا چلا جاتاہے، چاہے اِس کی وجہ سے ذلیل ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔ چنانچِہ حضرتِ حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں: لوگوں میں مشہور تھا کہ عقلمند کی زَبان اُس کے دل کے پیچھے ہوتی ہے وہ بات کرنے سے پہلے اپنے دل سے رُجوع کرتاہے یعنی غور کرتا ہے کہ کہوں یا نہ کہوں ؟اگر بات فائدے والی ہوتی ہے تو کہتا ہے ورنہ چپ رہتا ہے۔ جبکہ بیوقوف کی زَبان اُس کے دل کے آگے ہوتی ہے کہ اِدھریعنی دل کی طرف رُجوع کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی بس جو کچھ زَبان پر آئے کہہ دیتاہے۔
( تَنبِیہُ الْغافِلین ص۱۱۵سے خلاصہ )
جو زَبان کو سنبھالنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، اُس کے سارے کام سنبھل جاتے ہیں۔ حضرت یونُس بن عبید رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ جس کی زبان ٹھیک رہتی ہے اُس کے سب کام ٹھیک رہتے ہیں۔‘‘
( احیاء العلوم (اردو) ج۳ص۳۳۹، احیاء العلوم ج۳ ص۱۳۷)
جس طرح خریداری کے وقت بے پروائی کے سبب دھوکا کھا جانے والا پچھتاتا ہے، اسی طرح زبان کو بلاضرورت چلانے والا بھی پچھتاتا ہے، ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں:’’ اپنی بات کو مال کی طرح محفوظ رکھو اور جب(اس مال یعنی بات کو) خرچ کرنا چاہو تو خوب سوچ سمجھ کر خرچ کرو۔‘‘
اے عاشقانِ رسول!یاد رکھئے !اللہ پاک کے پیارے پیارے آخِری نبی، مکی مَدَنی، محمد ِ عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی مبارک زَبان سے کبھی بھی کوئی فالتو لفظ ادا نہ فرمایا اور نہ کبھی قَہقَہہ لگایا۔کاش ! خاموشی کی سنّت بھی عام ہو جائے اور ہماری قہقہہ لگانے یعنی زور زور سے ہنسنے کی عادت بھی نکل جائے۔ اے کاش!ہم ’’بولنے‘‘ سے پہلے ’’ تولنے‘‘ والے بن جائیں۔ تولنے کا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ اِس سے پہلے کہ الفاظ زَبان سے اداہوں اپنے دل سے سُوال کرلیا جائے کہ اِس بولنے کا مقصد کیاہے ؟کیا میں یہ کسی کو نیکی کی دعوت دے رہاہوں ؟کیا یہ بات جو میں بولنا چاہتاہوں اس میں میرایا کسی دوسرے کا بھلا اور فائدہ ہے؟ کیا اس بات کرنے میں مجھے ثواب ملے گا؟ میری بات کہیں ایسے مُبالَغے(یعنی بڑھانے چڑھانے ) سے پُرتو نہیں جو مجھے جھوٹ میں مبتَلا کردے ۔جھوٹے مُبالَغے کی مثال دیتے ہوئے حضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں: ’’ اگر ایک مرتبہ آیا اور یہ کہہ دیاکہ ہزار مرتبہ آیا تو جھوٹا ہے۔‘‘ (بہارِ شریعت ج۳ص۵۱۹) یہ بھی سوچے کہ میں کہیں کسی کی خوشامد اور جھوٹی تعریف تو نہیں کررہا ؟کسی کی غیبت تو نہیں ہورہی ؟میری اس بات سے کسی کا دل تو نہیں دُکھ جائے گا ؟بول کر نَدامت (یعنی شرمندگی )کے سبب رُجوع کرنے یاSORRYکہنے کی نوبت تو نہیں آئے گی ؟ تھوک کر چاٹنے یعنی جوش میں کہی ہوئی بات واپَس لینے کی ضرورت تو نہیں پڑے گی؟ کہیں اپنا یا کسی دوسرے کا راز فاش(یعنی ظاہر) تو نہیں کر بیٹھوں گا؟بولنے سے پہلے بات کو تولنے میں اگر یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس بات میں نہ نفع ہے نہ نقصان اور نہ ثواب ہے نہ گناہ، تب بھی یہ بات بول دینے میں ایک طرح کا نقصان ہے کیونکہ زَبان کو اِس طرح کی فضول اور بے فائدہ گفتگوکیلئے زَحْمت دینے کے بجائے اگر ثواب کی نیّت سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُول اللہ (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کہہ لیا جائے یا دُرُود شریف پڑھ لیا جائے تو یقینا اِس میں فائدہ ہی فائدہ ہے اور یہ اپنے انمول وقت کا جنّت میں لے جانے والا بہترین استِعمال ہے،ایسے عظیمُ الشّان فائدے کا ضائِع ہونالازِماً نقصان ہی ہے۔
ذِکر و دُرُود ہر گھڑی وِردِ زَباں رہے میری فُضُول گوئی کی عادت نکال دو
(وسائلِ بخشِش ص۳۰۵)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!فُضُول گوئی گُناہ نہ سہی مگر اِس میں محرومیاں اور نقصانات موجود ہیں لہٰذا اِس سے بچناہی مناسب ہے۔کاش! کاش! اے کاش! خاموشی کی عادت ڈالنے کی سعادت مل جاتی۔ ہاتھوں ہاتھ خاموشی کی نعمت کا حاصل ہو جانا ضروری نہیں،اس کے لئے خوب کوشش کرنی ہوگی۔ جو چُپ رہنے کی عادت بنانا چاہے اُس کو اِس بات کو سنجیدہ لینا ہوگا اور مایوسی کو اپنی ڈکشنری سے نکال کر خوب کوشش کرنی ہوگی۔حضرتِ مُوَرِّق عِجْلِی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ایک ایسا مُعامَلہ جسے میں 20 سال تک حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن پانہ سکامگر پھر بھی اُس کی طلب (یعنی مانگ) نہیں چھوڑی۔پوچھا گیا :وہ اہم چیز کیا ہے ؟ فرمایا : خاموشی ۔ (اَ لزُّہْد لِلامام اَحمد ص ۳۱۰ قول نمبر ۱۷۶۲) ’’خاموشی‘‘ کی عادت بنانے کے خواہش مند کو چاہئے کہ زَبان چلا نے کے بجائے ممکن ہو توروزانہ ضرورت کی تھوڑی بہت باتیں لکھ کر یا اشارے سے بھی کر لیا کرے، اِنْ شَآءَاللہُ الْکریم اِس طرح خاموشی کی عادت بننا شروع ہوجائے گی۔
یاد رہے کہ فضول گوئی،فضول نگاہی یعنی بے فائدہ اِدھر اُدھر نظر ڈالنا، فضول مناظر (SCENES) دیکھنا، نارمل ہوں یا ڈیف سب کافضول اشارے کرنا، فضول آوازیں نکالنا وغیرہ وغیرہ سب کا بروزِ قیامت حساب ہے۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہ’’دعوتِ اسلامی ‘‘ کی طرف سے نیک بنانے والے رسالے: ’’نیک اعمال‘‘ میں 53نمبر ’’نیک عمل‘‘ ہے: کیا آج آپ نے زبان کو فضول استعمال ( یعنی وہ گفتگو جس سے دینی یا دُنیاوی فائدہ نہ ہو) سے بچانے کی عادت بنانے کے لئے کچھ نہ کچھ اِشارے سے گفتگو کی؟ (زہے نصیب! روزانہ کم از کم چار بار لکھ کر اور کم از کم تین بار اِشارے سے گفتگو کی ہو) خاموشی کی عادت بنانے کی کوشش کے دَوران ایسا بھی ہوسکتاہے کہ فُضُول باتوں سے بچنے کی کوشش میں چند روز کامیابی ملے مگر پھر زیادہ باتیں کرنے کی عادت پہلے ہی کی طرح ہو جائے ،اگر ایسا ہو بھی جائے توہمّت مت ہاریئے، بار بارکوشش کیجئے ، جذبہ سچّا ہوا تو اِنْ شَآءَاللہُ الْکریم کبھی نہ کبھی کامیابی ضرور حاصل ہو گی۔ جیسا کہ عربی مقولہ(یعنی کہاوت) ہے : السَّعْیُ مِنِّیْ وَالْاِ تْمَامُ مِنَ اللّٰہ یعنی کوشش میری طرف سے ہو گی اور کام اللہ پاک مکمَّل کرے گا۔ ایک اورعربی مقولہ ہے: مَنْ جَدَّ وَجَدَ یعنی جس نے کوشش کی اُس نے پا لیا۔ خاموشی کی عادت بنانے کی مشق (PRACTICE) کرنے کے دوران اپنا چِہرہ مُسکراتا رکھنا مناسب ہے تا کہ کسی کو یہ نہ لگے کہ آپ اُس سے ناراض ہیں جبھی منہ ’’ پھلا یا‘‘ ہوا ہے۔ خاموشی کی کوشش کے دنوں میں غصّہ بڑھ سکتا ہے لہٰذا اگر کوئی آپ کا اشارہ نہ سمجھ پائے تو ہرگز اُس پر غصّے کا اظہار نہ کیجئے کہ کہیں ناحق دل آزاری وغیرہ کا گناہ نہ کر بیٹھیں۔ اشارے وغیرہ سے گفتگو صرف انہیں کے ساتھ مناسب رہتی ہے جن کے ساتھ آپ کی ذِہنی ہم آہنگی (یعنی سوچ ملتی) ہو، ورنہ انجان آدمی ہو سکتا ہے کہ اشارے وغیرہ کی گفتگو سمجھ نہ آنے کے سبب آپ سے ناراض ہو جائے، لہٰذا اُس کے ساتھ ضرورتاً زَبان سے بات چیت کر لیجئے۔بعض صورَتوں میں زَبان سے بولنا واجِب بھی ہو جاتا ہے مَثَلاًملاقاتی کے سلام کا جواب زبان سے دینا وغیرہ۔ یہ بھی یاد رہے کہ سلام بھی اِشارے سے نہیں زَبان سے کرناہے۔اس کے علاوہ بھی کئی مواقع ایسے ہیں جن میں زبان ہی سے بولنا ہو گا۔ اسی طرح والدین اور گھر کے دیگر اَفراد کو بھی تشویش ہوتی ہو تو ضرورتاً زَبان سے گفتگو کیجئے۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
انسان اگر بولنے سے قبل ’’تولنے‘‘ یعنی غور کرنے کی عادت ڈالے تو ہو سکتا ہے اُسے اپنی کئی فضول باتیں خودہی محسوس ہونی شروع ہوجائیں! صرف’’فضول باتیں ‘‘ ہوں تو اگر چِہ گناہ نہیں مگر کئی طرح کے نقصانات ان میں موجود ہیں مَثَلاً ان باتوں میں زَبان چلانے کی زَحْمت ہوتی اور قیمتی وَقْت برباد ہوتا ہے ،اگر اُتنی دیر ذِکرُاللّٰہ،دُرود شریف کا وِردیا دینی مُطالَعَہ کر لیا جائے ،یا کوئی سنَّت بیان کر دی جائے تو ثواب کا اَنبار(اَمْ۔بار یعنی ڈھیر ) لگ جائے اور فضول باتوں کا ایک بہت بڑا نقصان یہ ہے کہ بروزِ قیامت ان کا حساب دینا ہو گا۔
معاذَاللّٰہ کہیں دہشت گردی کی وارِدات ہو گئی تو بس لوگوں کو فضول بلکہ بعض صورَتوں میں گناہوں بھری بحث کیلئے ایک موضوع ہی ہاتھ آگیا! ہر جگہ اُسی کا تذکرہ، بے سروپا قِیاس آرائیاں ، بے تکے تبصرے، اٹکل سے کسی بھی پارٹی یا لیڈر وغیرہ پر تہمت لگا دینا وغیرہ۔ بسا اوقات یہ گفتگو لوگوں میں خوف و ہراس پھیلنے کا باعِث ، اَفواہیں گرم ہونے کا سبب اور ہنگامے برپا ہونے کی ’’ وجہ‘‘بھی بن سکتی ہیں، دھماکوں اور دہشت گردیوں کی وارِداتیں سننے سنانے میں نفس کو خوب دلچسپی ہوتی ہے، بسا اوقات لب پر دُعائیہ الفاظ ہوتے ہیں مگر قلب کی گہرائیوں میں سنسنی خیز خبریں سننے سنانے کے ذَرِیعے حظ(یعنی مزے) اُٹھانے اور لطف اندوز ہونے کا جذبہ چھپا ہوتا ہے، کاش! نفس کی اس شرارت کو پہچانتے ہوئے ہم دہشت گردیوں اور دھماکوں کے تذکروں میں دلچسپی لینے سے باز آجائیں۔ ہاں مظلومانہ شہادت پانے والوں کیلئے دعائے مغفرت، زخمیوں اور مُتأَثِّرہ مسلمانوں کی ہمدردیوں، خدمتوں اور امن و سلامتی کی دعائوں سے گریز نہ کیا جائے کہ یہ ثواب کے کام ہیں۔ بس جب بھی اِس طرح کی گفتگو کرنے سننے کی صورت پیدا ہو تو اپنے دل پر غور کر لینا چاہئے کہ نیَّت کیا ہے؟ اگر اچھی نیّت پائیں تو عمدہ اور بہت عمدہ ہے مگر اکثر اس قسم کی گفتگو کا حاصِل لطف اندوزی ہی پا یا جاتا ہے۔
حضرتِ عیسٰی عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام سے منقول ہے کہاللہ پاک کے ذِکر کے عِلاوہ کوئی بھی بات کثرت سے نہ کرو ورنہ تمہارے دِل سخت ہوجائیں گے اور سخت دِل اللہ پاک سے دُور ہوتا ہے لیکن تمہیں اِس کا علم نہیں۔ (تنبیہ الغافلین ص۱۱۸)
افسوس! آج کل اگر کوئی ’’بک بک‘‘ کرتا ہے توبعض لوگ اُس کی ہاں میں ہاں مِلاتے اور ہنس ہنس کر اُس کی حوصَلہ اَفزائی کررہے ہوتے ہیں۔ یاد رکھئے! ہمارے بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم دل و زبان دونوں میں کھرے(یعنی سچّے) ہوتے تھے۔ چنانچِہ کروڑوں مالکیوں کے عظیم پیشوا حضرتِ اِمام مالک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ جب کسی شخص کو زیادہ باتیں کرتا دیکھتے تو اُس سے فرماتے: ’’اپنی کچھ باتیں اپنے پاس بھی روک لیا کرو (یعنی باتیں کم کیا کرو) ۔‘‘ ( تنبیہُ ا لمغترین ص ۱۹۰ )
اے اللہ پاک کی رضا کے طلبگارو! جو واقعی سُدھرنا چاہتا ہے اُسے دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول میں آجانا چاہئے۔ ایک بڑی پیاری ’’ مدنی بہار‘‘ پیش کی جاتی ہے، سنئے اور جھومئے: دعوتِ اسلامی سے وابَستہ ہونے سے پہلے کراچی کے ایک نوجوان کا اُٹھنا بیٹھنا جرائم پیشہ افراد کے ساتھ تھا، بُری صحبت نے رنگ دکھایا اور یہ ’’غنڈا گینگ‘‘ میں شامل ہوگئے۔ لوگوں کو مارنا پیٹنا، گالیاں بکنا اور جان بوجھ کر جھگڑے مول لیناان کا معمول بن گیا، یہ اپنے پاس اسلحہ بھی رکھنے لگے۔ کالے کرتوتوں کی وجہ سے انہیں کوئی منہ نہ لگاتا تھا۔ گھر والے، عزیز و اقارب، اہلِ علاقہ سبھی ان سے بیزار تھے۔ اس غفلت کی نیند سے بیداری کچھ یوں نصیب ہوئی کہ ان کے علاقے میں عاشقانِ رسول کی دینی تحریک، ’’دعوتِ سلامی‘‘ سے وابستہ ایک بزرگ اسلا می بھائی رہتے تھے،عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ سے ان کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ وہ لیاقت آباد (عالمی مدَنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی سے قریب ایک علاقے) سے پیدل نمازِ فجر پڑھنے فیضانِ مدینہ آتے۔ جب اس بزرگ اسلامی بھائی نے ان پر انفِرادی کوشش کرتے ہوئے گناہوں سے دور رہنے اور نماز پڑھنے کی تلقین کی تو اِس کا ان پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے نماز شروع کردی۔ ایک دن مسجد میں ان کی دعوتِ اسلامی کے ایک ذمّے دار اسلامی بھائی سے ملاقات ہوگئی جن کی انفِرادی کوشش کے نتیجے میں یہ دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں تشریف لائے۔ یہاں سنّتوں کی بہاریں تھیں، دورانِ اجتماع ہونے والے بیان نے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ اجتماع میں جب سب نے مل کر ذکرُاللّٰہ کیا توان کو قلبی سکون ملا۔ اجتماع کی برکت سے نیکی کا ایسا جذبہ دِل میں جاگا کہ یہ دعوتِ اسلامی کے ہوکر رہ گئے۔ غنڈا گردی اور دیگر گناہوں سے توبہ کرلی۔ درسِ فیضانِ سنّت بھی دینے لگے۔ ان کی زندگی میں آنے والی تبدیلی لوگوں کے لیے حیرت کا باعث تھی۔ کچھ لوگ باتیں بناتے اور چند دن کے شوق کا طعنہ دے کر ان کا دِل توڑتے مگر یہ خاموشی سے سن لیتے اور دل میں عہد کرتے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے میں دینی ماحول نہیں چھوڑوں گا۔ گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کرکے نیک اعمال کرنے کی برکت سے ان کے رزق میں برکت ہونے لگی،اَلْحَمْدُلِلہ انہیں علاقائی مشاورت کے نگران کی حیثیت سے دینی کاموں کی دھومیں مچانے کی سعادت بھی ملی ۔
سنور جائے گی آخرت اِنْ شَآءَاللہ تم اپنائے رکھو سدا مَدنی ماحول
بہت سخت پچھتائو گے یاد رکھو نہ عطّارؔ تم چھوڑنا مدنی ماحول
(وسائلِ بخشش ص ۶۴۶)