حضرتِ مالک بن دینار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ بیان کرتے ہیں: حضرت سیِّدُنا داوٗد عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے ارشاد فرمایا: اے پرہیز گارو! آؤ میں تمہیں خوفِ خدا کی تعلیم دوں، تم میں جو بھی یہ پسند کرتا ہے کہ وہ زندہ رہے اور نیک اعمال دیکھے تو اسے چاہئے کہ اپنی آنکھ اور زَبان کی حفاظت کرے، نہ تو برائی کی طرف نظر کرے اور نہ زَبان سے کوئی غلط بات نکالے، کیونکہ اللہ پاک کی نگاہ ِکرم صدیقین(یعنی سچوں ) پر ہے اور وہ ان کی بات جلد سنتا ہے۔
(اللّٰہ والوں کی باتیں ج۲ص۵۴۷، حلیۃ الاولیاء ج۲ص۴۰۸ حدیث ۲۷۵۰)
پیارے اسلامی بھائیو! اِس واقعے سے یہ درس ملتا ہے کہ خوفِ خدا ملنے اور نیک بندہ بننے کیلئے آنکھ اور زبان کو گناہوں بلکہ فضولیات سے بھی بچانا ہو گا ! نیز جھوٹ وغیرہ سے خود کوبچا کر ہمیشہ کیلئے سچائی کو اپنانا ہو گا۔ اللہ پاک کے پیارے اور سچّے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالی شان ہے: بے شک صدق( سچ) نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور بے شک آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ پاک کے ہاں صدیق (یعنی بہت بڑا سچا)لکھ دیا جاتا ہے اور بے شک کذب (یعنی جھوٹ) گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے اور بے شک آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ پاک کے ہاں کذاب (یعنی بہت بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔
(بخاری ج۴ص۱۲۵ حدیث ۶۰۹۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
صحابی ِ رسول حضرتِ سیدنا عبدُاللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ایک مرتبہ کوہِ صفا پر کھڑے ہوکر تَلْبِیَہ (یعنی لَبَّیْک اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک) پڑھ رہے تھے اور فرما رہے تھے: اے زبان! اچھی بات کہا کر فائدہ ہوگا ،اور بری بات سے خاموشی اختیار کر سلامت رہے گی،(میری ان دونوں باتوں پر عمل کر) اس سے پہلے کہ تجھے ندامت(یعنی شرمندگی) اٹھانی پڑے۔ (احیاء العلوم ج۳ص۱۳۵)
صحابی ابنِ صحابی حضرت سیِّدُنا عبدُاللّٰہ بن عبَّاس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں :’’اے زبان !تجھ پر اَفسوس ہے! اچھی بات کہہ کہ اسی میں بھلائی ہے اور بری بات سے بچ کہ اسی میں سلامتی ہے۔‘‘ دیکھنے سننے والے نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا: ’’مجھے خبرملی ہے کہ قیامت کے دن آدمی اپنی زبان کی وجہ سے سب سے زیادہ خسارہ(یعنی نقصان) اُٹھائے گا۔‘‘(اللّٰہ والوں کی باتیں ج۱ ص۵۷۴)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! یہ حقیقت ہے کہ زَبان سے اچھی باتیں کرنے سے رِضائے الٰہی حاصِل ہوتی ہے اورجس سے اللہ کریم راضی ہو جائے اُس کو جنت ملے گی اور بُری بات کہنے سے اللہ پاک ناراض ہوتا ہے اور جس سے اللہ پاک ناراض ہو جائے اُس کے لئے جہنم کا عذاب ہے۔
جہنَّم سے ہم کو بچا یاالٰہی تو جنت میں ہم کو بسا یاالٰہی
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حضرتِ ابراہیم بن بشار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ ہم لوگ اکٹھے ہوئے توہم میں سے ہرایک نے کچھ نہ کچھ گفتگوکی مگر حضرت ابراہیم بن اَدہم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ خاموش رہے،آپ نے کوئی بات نہ کی۔جب لوگ چلے گئے تو میں نے ان سے اپنی تشویش کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا: گفتگو بے وقوف کی بے وقوفی اور عقل مند کی عقل مندی کو ظاہر کرتی ہے۔ میں نے کہا: (آپ تو عقل مند ہیں ) پھر آپ نے گفتگوکیوں نہ کی؟ فرمایا: مجھے خاموش رہ کرغم زدہ ہونا بول کر شرمندہ ہونے سے زیادہ پیارا ہے۔(ایک چپ سو سکھ ص۱۸،حسن السمت فی الصمت ص۳۱)
سُبْحٰنَ اللہ!ہمارے بزرگانِ دین کی سوچ بھی کتنی پیاری ہوتی تھی! واقعی بولنے سے انسان کی سمجھداری کا تعارف ہو جاتا ہے، اور بعض اوقات لوگوں پر ظاہر ہو جاتا ہے کہ اِس یعنی بول پڑنے والے کو اتنی سمجھ ہی نہیں کہ کہاں، کب اور کیا بولنا چاہئے۔ ’’چپ رہ کر غم زدہ ہونا‘‘ سے مراد یہ ہو سکتا ہے کہ چُپ رہنے پر بعد میں اِس طرح کا غم ہو سکتا ہے کہ گفتگو کے دَوران فلاں موقع پر میں یہ جملہ بول دیتا تو خوب ہوتا اور فلاں فلاں بات کر ڈالتا تو مزا ہی آجاتا وغیرہ۔ بہرحال بول کر پچھتانے سے نہ بول کر پچھتانا اور کھا کر پچھتانے سے نہ کھا کر پچھتانا اچھا ہے۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
تابعی بزرگ حضرتِ وَہب بن منبہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں: بنی اسرائیل میں دوبزرگ عبادت کے ایسے مرتبے پرفائزتھے کہ پانی پرچلتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ سمندرپر چل رہے تھے کہ انہوں نے ایک بزرگ کودیکھاکہ وہ ہوا میں چل رہے ہیں ،پانی پر چلنے والوں نے ہوا پر چلنے والے بُزُرگ سے پوچھا:اےاللہ پاک کے بندے!آپ اس مقام تک کیسے پہنچے؟ انہوں نے فرمایا:’’تھوڑی دنیا ‘ ‘ پر راضی رہتے ہوئے میں نے اپنے نفس کو خواہشات اور زبان کوفضول باتوں سے روکا اوراُن کاموں میں مشغول ہواجن کا ربِّ کریم نے مجھے حکم دیا ہے اور میں نے خاموشی کو اپنائے رکھا،اگر میں اللہ پاک پر کسی بات کی قسم کھا لوں تو(مجھے رحمت پر امید ہے کہ ) وہ میری قسم پوری فرمادے گا اور اگر اُس سے(کچھ) مانگوں گاتو وہ مجھے عطا کردے گا۔ (ایک چپ سو سکھ ص۲۲، حسن السمت فی الصمت ص۳۴)
اللّٰہُ اَکْبَر! ہوا پر چلنے والے بزرگ نے خاموش رہ کر بھی عبادت پر نفع اٹھایا کہ جو وَقت فالتو باتوں میں خرچ ہوسکتا تھا اُس کو بچا کر اُس میں اللہُ ربُّ العِزّت کی عبادت کی سعادت حاصل کی۔کاش! ہم بھی غور کر لیا کریں کہ جو بات کرنے لگے ہیں اُس سے دین یا دنیا کا کوئی فائدہ بھی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں نہ رضائے الٰہی پانے کی نیت سے سُبحٰنَ اللّٰہ ، سُبحٰنَ اللّٰہ پڑھنا شروع کر دیں کہ ہر بار سُبحٰنَ اللّٰہ کہنے پراللہ پاک کی رحمت سے جنت میں ایک درخت لگا دیا جائے گا۔ اور کثرت سے سُبحٰنَ اللّٰہ کہنے کے تو دنیا میں بھی فوائد ہیں چنانچِہ کروڑوں شافِعیوں کے پیشوا حضرت امام شافِعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں:’’میں نے وبائوں سے بچنے کے لیے تَسبیح سے زیادہ فائدے مند کوئی چیز نہیں دیکھی۔‘‘
( حلیۃ ا لاولیا ء ج ۹ ص ۱۴۵ قول نمبر ۱۳۴۴۰ )
نوٹ:تَسبیح سے مراد اللہ پاک کی پاکی بیان کرنا ہے مثلاً سُبحٰنَ اللّٰہ کہنا۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حضرت ابراہیم بن بشار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں:میں حضرت سیدنا ابراہیم بن اَدہم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کی صحبتِ بابرکت میں 6 سال سے زیادہ عرصہ رہا۔آپ اکثر خاموش رہتے اور ہم سے کبھی بھی کوئی بات نہ پوچھتے بلکہ ہم ہی ان سے کلام(یعنی بات چیت) کرتے ۔ہمیں ایسا محسوس ہوتا جیسے آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کے منہ مبارک میں کوئی چیز ڈال کر بولنے سے روک دیا گیا ہو۔
(عیون الحکایات (اردو )ج ۱ص ۲۰۴،عیون الحکایات ص ۱۲۹)
سُبْحٰنَ اللہ! ہمارے بزرگانِ دین کی پیاری پیاری سوچ صد کروڑمرحبا! بے شک وہ حضرات خوبیوں کے جامِع تھے مگر ہم عیبوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ زَبان کی حفاظت کیلئے لوگوں سے غیر ضروری میل جول سے بچنا بھی بے حد مفید ہو تا ہے۔ صحابیِ رسول حضرتِ سیِّدُنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ارشاد فرمایا کرتے:اللہ کی قسم! میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اور لوگوں کے درمیان لوہے کا ایک دروازہ ہو،نہ مجھ سے کوئی بات کرے اور نہ میں کسی سے بات کروں یہاں تک کہ میں اللہ پاک سے جا ملوں۔(کتاب العزلۃ لابن ابی الدنیا مع موسوعہ ج۶ ص۵۱۱قول نمبر ۵۷)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
کسی بزرگ سے پوچھا گیا کہ حضرت سیدنااَحنف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ آپ لوگوں کے سردار کیسے بنے حالانکہ نہ تو وہ عمر میں آپ سب سے بڑے ہیں اور نہ مال ودولت میں؟ تو انہوں نے ارشاد فرمایا: انہیں یہ سرداری اپنی زَبان پر حکومت کرنے کی وجہ سے نصیب ہوئی ہے۔ (المستطرف ج ۱ص۱۴۷)
اے عاشقانِ رسول! واقِعی جو زبان پر کنٹرول کر لے وہ اپنی ’’ الفاظ نما رعایا‘‘ کا بادشاہ ہے مگر یہ بادشاہت پانے کیلئے نفس وشیطان کے لشکروں کو شکست دینی ہو گی اور یہ اگرچِہ ایک مشکل کام ہے، مگر سچی دُھن اور پکی لگن ہو تو اللہُ ربُّ العِزّت کی رحمت اور مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عنایت سے کامیابی ناممکن نہیں ، کوشش جاری رکھنی چاہئے۔ ایک بہت ہی پیارا عربی محاورہ ہے: اَلسَّعْیُ مِنّیْ وَالْاِتْمَامُ مِنَ اللّٰہ۔ یعنی ’’میری طرف سے صرف کوشش ہے اور کام پورا ہونا یعنی کامیابی ملنا اللہ پاک کی طرف سے ہے۔‘‘
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حضرتِ سیدنا عبدُاللّٰہ بن مبارک رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں: ایک بادشاہ کے ہاں چار علمائے کرام جمع ہوئے تو بادشاہ نے اُن سے عرض کی: آپ حضرات ایک ایک مختصرمگر جامع بات ارشاد فرمایئے: اُن میں سے ایک عالم صاحب نے فرمایا: عالم کے علم کی فضیلت خاموشی ہے۔دوسرے نے فرمایا:آدَمی کے لئے سب سے بڑھ کر نفع مند بات یہ ہے کہ وہ اپنی حیثیت اورعقل کی انتہا(یعنی گہرائی ) کو جان لے اوراس کے مطابق گفتگو کرے۔تیسرے نے فرمایا: سب سے بڑھ کر محتاط شخص وہ ہے جونہ توموجودہ نعمت پرمطمئن ہو،نہ اُس پر بھروسا کرے اور نہ اس کے لئے کوئی تکلیف اُٹھائے۔ چوتھے نے فرمایا:تقدیرپرراضی رہنے اورقَناعت اختیار کرنے سے بڑھ کر کوئی شے بدن کے لئے آرام دہ نہیں۔
(ایک چپ سو سکھ(اردو) ص ۱۶)
مَا شَآءَاللہ! چاروں ارشادات مختصر مگر جامع اور اپنے اندر عبرت کے انمول مَدَنی پھول لئے ہوئے ہیں۔ عربی مَقولہ ہے: خَیْرُالْکَلَامِ مَا قَلَّ وَ دَلَّ۔ یعنی اچھی بات وہ جو مختصر اور دلیل کے ساتھ کی جائے۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حضرت ابوبکربن عیاش رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں:چار ملکوں فارس، روم، ہند اورچین کے بادشاہ ایک جگہ جمع ہوئے اورچاروں بادشاہوں نے چارایسی باتیں کیں گویا ایک ہی کمان سے چار تیر پھینکے گئے ہوں،ایک نے کہا: میں کہی ہوئی بات کے مقابلے میں نہ کہی ہوئی بات سے رُکنے پرزیادہ قادر ہوں۔ دوسرے نے کہا: جو بات میں نے منہ سے نکال دی وہ مجھ پر حاوی اور جو بات منہ سے نہ نکالی اس پر میں حاوی ہوں۔ تیسرے نے کہا:مجھے نہ کی ہوئی بات پر کبھی شرمندگی نہیں ہوئی البتہ کی ہوئی بات پر ضرور شرمندہ ہوا ہوں۔ چوتھے نے کہا: مجھے بولنے والے پرتعجب ہے کہ اگر وہی بات اس کی طرف لوٹ جائے تو اسے نقصان دے اور اگر نہ لوٹے توفائدہ بھی نہ دے ۔
(ایک چپ سو سکھ(اردو)ص ۱۸ ، حسن السمت فی الصمت ص۳۰ )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
تابعی بُزُرگ حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ چالیس (40)برس تک نہیں ہنسے۔ جب آپ کو بیٹھے ہوئے دیکھا جاتا تو یوں معلوم ہوتا گویا ایک قیدی ہے جسے گردن اڑانے کے لئے لایا گیا ہو، اور جب گفتگو فرماتے تو انداز ایسا ہوتا گویا آخرت کو آنکھوں سے دیکھ دیکھ کر بتا رہے ہیں ، اور جب خاموش رہتے تو ایسا محسوس ہوتا گویا ان کی آنکھوں میں آگ بھڑک رہی ہے ۔ جب ان سے اس قدر غمگین وخوف زدہ رہنے کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا :مجھے اس بات کا خوف ہے کہ اگر اللہ پاک نے میرے بعض ناپسندیدہ اعمال کو دیکھ کر مجھ پر غضب فرمایااور یہ فرمادیا کہ جاؤ! میں تمہیں نہیں بخشتا۔تو میرا کیا بنے گا!۔
(احیاء العلوم(اردو) ج۴ص ۵۵۵تا۵۵۶،احیاء العلوم ج۴ ص ۲۳۱)
اللّٰہُ اَکْبَر ! مولائے کائنات، حضرت مولی علی شیرِ خدا رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے خلیفہ اور بلند پایہ تابعی بُزُرگ و ولیُّ اللّٰہ حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کا خوفِ خدا میں سہمے سہمے رہنے کے اِس واقعے میں ہم گناہ گاروں کیلئے عبرت کے بے شمار مَدَنی پھول موجود ہیں۔اللہ پاک سے ڈرنے کے کافی فضائل ہیں۔ اللہ پاک پارہ 29 سورۃ الملک آیت12 میں ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَیْبِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ كَبِیْرٌ(۱۲)
آسان ترجَمۂ قرآن کنزُالعِرفان: بے شک جو لوگ بغیر دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔
مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ، حضرتِ سیِّدُنا علی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے کہ سرکارِدو عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جو اپنی عمرمیں زیادتی اور رزق میں کُشادگی اور بری موت سے حفاظت چاہتا ہے وہ اللہ پاک سے ڈرے اور صلۂ رحمی کرے۔
(مسند احمد بن حنبل ج۱ ص ۳۰۲ حدیث ۱۲۱۲)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! خوفِ خدا سے مرادیہ ہے کہ اللہ پاک کی خفیہ تدبیر(یعنی چھپا فیصلہ )، اس کی بے نیازی، اُس کی ناراضی، اس کی پکڑ، ا س کی طرف سے دیئے جانے والے عذابوں، اس کے غضب اور اس کے نتیجے میں ایمان کی بربادی وغیرہ سے خوف زدہ رہنے کا نام خوفِ خدا ہے ۔ اے کاش! ہمیں حقیقی معنوں میں خوفِ خدا نصیب ہو جائے۔
زمانے کاڈر میرے دل سے مٹا کر تو کر خوف اپنا عطا یا الٰہی
ترے خوف سے تیرے ڈر سے ہمیشہ میں تھر تھر رہوں کانپتا یا الٰہی
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حضرت ابوحاتم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں: دو شخصوں نے علم حاصل کیا۔ ایک نے خاموشی اختیار کی اور دوسرے نے بولنا، تو بولنے والے نے چپ رہنے والے کی طرف لکھا:تو نے اپنے علم سے کیا کمایا؟ جب کہ روزی کمانے کے لیے زَبان سے بہتر کوئی آلہ (یعنی ہتھیار) نہیں ۔ چپ رہنے والے نے بولنے والے کی طرف لکھا: ’’تو نے اپنے علم سے کون سا کمال حاصل کیا؟ جب کہ میں سمجھتا ہوں کہ زَبان قید میں رکھنے کی زیادہ حق دار ہے۔‘‘
(حسن السمت ص۴۴سے خلاصہ)
بے شک شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے اچھا اچھا بولنے میں کوئی حرج نہیں، بُری باتوں سے بچنا لازِم ہے اور فضول و بے فائدہ گفتگو سے بھی بچنا چاہئے۔ روزی کمانے میں بھی جھوٹ بولنا گناہ ہے اور فضول گفتگو بھی کوئی اچھی چیز نہیں۔
ایک تاجر کو ہزار دینار کا نقصان ہوا۔ اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ دیکھنا یہ نقصان والی بات کسی سے بھی نہ کرنا، لڑکا بولا: ابو جان! یہ آپ کا حکم ہے اِس لئے میں کسی کو نہیں بتائوں گا ،لیکن میری یہ خواہش ہے کہ آپ اس (خاموش رہنے) کا فائدہ بتا دیجئے کہ اس نقصان کو چھپانے میں کیا مصلحت ہے؟ باپ بولا: خاموشی اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں دو مصیبتیں (ایک ساتھ) نہ اٹھانا پڑیں یعنی ایک تو سرمائے(یعنی رقم ) کا نقصان اور دوسرا (مخالف ) پڑوسیوں کا ہمارے نقصان پر خوش ہو کر مذاق اُڑانا۔(گلستان سعدی ص۱۱۵)
اے عاشقانِ رسول! اِس واقعے سے ہمیں سیکھنے کو ملا کہ کبھی اپنا نقصان ہو جائے تو بلا ضرورت دوسروں پر اظہار کے بجائے خاموشی اختیار کرنے ہی میں عافیت ہے، کیوں کہ ہو سکتا ہے ہمارے بتانے کی وجہ سے کسی ایسے شخص کو پتا چل جائے جو نادانی کے سبب ہمارے نقصان میں خوش ہونے کی آفت میں پڑے ۔ یاد رہے ! کسی مسلمان کی بیماری یا مصیبت پر یا اس کا نقصان ہوجانے پر خوشی ظاہر کرنا یہ شماتت کہلاتا ہے اور شماتت کی شریعت میں ممانعت ہے۔حضرت سیِّدُنا واثِلَہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے کہ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’اپنے بھائی کی شماتت نہ کر یعنی اُس کی مصیبت پر اظہار مسرت نہ کر کہ اللہ پاک اُس پر رحم کرے گا اور تجھے اس میں مبتلا کردے گا۔‘‘
(ترمذی ج۴ ص۲۲۷حدیث۲۵۱۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
ایک عقلمند نوجوان جو کئی خوبیوں کا مالک تھا ،جب کبھی وہ دانشمندوں(یعنی اہلِ علم) کی محفلوں میں بیٹھتا تو بات کرنے سے اپنی زَبان کو روکے رکھتا۔ ایک مرتبہ اُس کے باپ نے اُس سے کہا: اے بیٹے! جو کچھ تجھے آتا ہے تُو بھی کہہ د یا کر۔ توجوان بولا: مجھے اس بات کا ڈر رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ مجھ سے ایسی بات پوچھ لیں جس کا مجھے علم نہ ہو اور یوں مجھے شرمندہ ہونا پڑے۔
(گلستان سعدی ص۱۱۶)
اے عاشقانِ رسول!اِس واقِعے سے سیکھنے کو ملا کہ جب اہلِ علم حضرات کی صحبت حاصل ہو تو زبان بند رکھنی چاہئے کہ اس طرح اِنْ شَآءَاللہُ الْکریم ان کی باتیں اچھی طرح سن اور سمجھ سکیں گے ، بولتے رہنے کی صورت میں ایک تو ہو سکتا ہے کہ سیکھنے سمجھنے سے محرومی ہو اور دوسرے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سامنے سے کوئی سوال ہو جائے اور جواب نہ بن پڑے۔ یہ بات ذہن نشین کر لیجئے کہ جب کسی بات کا دُرُست جواب معلوم نہ ہو توجان بوجھ کر غلط سَلَط جواب نہیں دینا چاہئے۔ خصوصاً شرعی مسائل کا جواب اُس وقت تک نہ دیا جائے جب تک 100فیصدی یقینی معلومات نہ ہو۔ اپنی اٹکل سے شرعی مسئلہ بتانا اپنی آخِرت کو دائو پر لگانا ہے۔ قراٰنِ کریم پارہ11 سورۃ یونس آیت68 میں ارشاد ِ الٰہی ہے:
اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۶۸)
آسان ترجَمۂ قرآن کنزالعرفان: کیا تم اللّٰہ پر وہ بات کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں۔
جو لوگ بغیر علم کے دینی سوالات کے اپنی اٹکل سے جوابات دے رہے ہوتے ہیں وہ اس آیتِ مبارکہ سے درس(LESSON) لیں۔ وہ علمائے کرام جو دینی احکامات جاننے اور دوسروں کے سوالات کے جوابات دینے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود جوابات دینے میں اللہ پاک سے ڈرتے تھے ان کی تین مثالیں: (۱)صحابیِ رسول حضرت سیِّدُنا عبدُاللّٰہ ابن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا: جو لوگوں کے ہر سوال کا جواب دیتا ہے وہ مجنوں (یعنی پاگل) ہے۔ اور لَا اَ دْرِی (یعنی میں نہیں جانتا) عالم کی ڈھال ہے کیونکہ اگر اس نے غلط مسئلہ بتا دیا تو ہلاکت میں مبتلا ہوگا (۲)حضرت سیِّدُنا ابوحفص نیشاپوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے فرمایا: ’’عالم وہی ہے کہ جب اس سے سوال کیا جائے تو وہ خوف زدہ ہو کہ بروزِ قیامت اس سے پوچھا جائے گا کہ تم نے کہاں سے جواب دیا؟‘‘ (۳)حضرت ابراہیم تمیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ سے جب کوئی مسئلہ معلوم کیا جاتا تو رونے لگتے اور فرماتے: ’’تمہیں میرے علاوہ کوئی اور نہیں ملا کہ تمہیں میری ضرورت پڑگئی۔‘‘
(احیاء العلوم(اردو) ج۱ص۲۴۱، احیاء العلوم ج۱ص۱۰۰)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حضرتِ شیخ سعدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میں نے ایک دانشور (یعنی اہلِ علم )کے بارے میں یہ سنا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ کوئی شخص بھی اپنی جہالت کا اقرار نہیں کرتا سوائے اُس شخص کے کہ جب کوئی دوسرا بات کررہا ہوتا ہے تو اُس کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی بیچ میں اپنی بات شروع کردیتا ہے۔سمجھدار آدمی اُس وقت تک اپنی بات شروع نہیں کرتا جب تک دوسرے کی بات ختم نہ ہو جائے۔
(گلستان سعدی،ص۱۱۸)
اے عاشقانِ رسول !اِس واقِعے میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو خواہ مخواہ دوسرے کی بات کاٹ کر اپنی بات شروع کر دیتا ہے وہ خود کو ناسمجھ تسلیم کر رہا ہے۔ ورنہ جو سمجھدار ہے وہ دوسرے کی بات پوری ہوجانے تک بیچ میں نہیں بولتا۔ یہ بھی یاد رہے کہ دوسروں کی بات کاٹ کر اپنی بات شروع کر دینا اسلامی آدابِ گفتگو کے خلاف ہے۔ مکتبۃُ المدینہ کے 36صفحات کے رسالے: ’’احترامِ مسلم‘‘ صفحہ 30پر ہے: (اللہ پاک کے پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کسی کی بات کو نہ کاٹتے البتہ اگر کوئی حد سے تجاوز کرنے (یعنی بڑھنے) لگتا تواُس کو منع فرماتے یا وَہاں سے اُٹھ جاتے۔
(شمائل ترمذی ص۱۹۹۔۲۰۰سے خلاصہ)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حضرتِ سلطان محمود غزنوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کے خاص غلاموں میں سے چند غلاموں نے بادشاہ کے ایک خادمِ خاص سے پوچھا کہ آج بادشاہ نے فلاں معاملے میں تجھ سے کیا کہا؟ بادشاہ جو کچھ تجھ سے کہتے ہیں وہ ہم جیسوں سے کہنا دُرُست نہیں سمجھتے۔ اس پر اُس خادمِ خاص نے کہا: ’’بادشاہ سلامت مجھ سے اس لیے کہتے ہیں کہ ان کو مجھ پر بھروسا ہے کہ میں وہ بات کسی اور کو نہیں بتائوں گا۔ (گلستان سعدی ص۱۱۸ بتغیر قلیل)
اے عاشقانِ رسول! بات بھی اَمانت ہوتی ہے، بعض اوقات کوئی شخص کسی کوبات بتاتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھ لیتا ہے کہ کوئی سُن تو نہیں رہا یا جس سے بات کر رہا ہے اُسے دوسرے کوبتانے سے منع کر دیتا ہے ان صورتوں میں وہ بات کسی کو بتانی نہیں ہوتی ۔ بسااوقات وہ کسی سے ایسی بات کرتا ہے کہ وہ دوسرے کو بتانے جیسی نہیں ہوتی تو اب بھی دوسرے کو نہ بتائی جائے۔ بعض لوگ اپنے دوستوں وغیرہ کے واٹس ایپ کے ذَرِیعے ملے ہوئے پیغامات بلا تکلف دوسروں کو فارورڈ کر رہے ہوتے ہیں اُن کو بھی محتاط رہنا چاہئے۔
کسی کی بات دوسرے کو نہ بتانے کے متعلق دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سنئے: (1)’’جب کوئی آدَمی بات کر کے اِدھراُدھر دیکھے تو وہ بات امانت ہے۔‘‘( تِرمِذی ج۳ ص۳۸۶ حدیث ۱۹۶۶ ) شرحِ حدیث: ’’مرآت ‘‘میں ہے: یعنی اگر کوئی شخص تم سے اکیلے میں کوئی بات کہے اور بات کے دوران یا بات کے درمیان میں اِدھر اُدھر دیکھے کہ کوئی سن نہ لے تو وہ اگرچِہ منہ سے نہ کہے کہ یہ کسی سے نہ کہنا مگر اس کی یہ حرکت بتاتی ہے کہ وہ راز کی بات ہے لہٰذا اسے امانت سمجھو ،اُس کا راز ظاہر نہ کرو، کسی سے یہ بات نہ کہو۔ سُبْحٰنَ اللہ کیسی پاکیزہ تعلیم ہے! (مرآت ج۶ ص۶۲۹)(2)منافِق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے۔ (بخاری ج۱ ص۲۴ حدیث ۳۳) یعنی جب کوئی اسے کسی بات کا راز دار بناتا ہے تو دوسرے لوگوں کو بتادیتا ہے یا امانت لوٹانے سے انکار کردیتا ہے یا امانت کی حفاظت نہیں کرتا اسے اپنے استعمال میں لاتا ہے وغیرہ۔
(مکاشفۃ القلوب (اردو) ص ۹۵، مکاشفۃ القلوب ص۴۴ )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حضرتِ سیِّدُنایونس بن عبید رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے فرمایا:میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جو 20 سال سے یہ تمنا کررہا ہے کہ اس کی زندگی کاکوئی ایک دن (تابعی بزرگ) حضرتِ سیِّدُنا عبدُاللّٰہ بن عو ن رحمۃ اللہ علیہ کے دنوں کی طرح سلامتی سے گزرے لیکن وہ ایسا کر نہیں پاتا وہ چاہتا ہے کہ خاموش نہ رہے بلکہ باتیں بھی کرے اور زبان کی آفت سے اس طرح محفوظ رہے جس طرح حضرتِ عبدُاللّٰہ بن عون رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ محفوظ رہتے ہیں۔
(اللّٰہ والوں کی باتیں ج۳ص۵۷، حلیۃ الاولیاء ج۳ ص ۴۳ معمولی فرق کے ساتھ)
اِس واقِعے سے معلوم ہوا کہ نیک بننے کیلئے صرف نیکیاں کرنے کی تمنّا کرتے رہنا کافی نہیں، نیکیاں کرنی بھی ہوں گی۔ ’’اِحیاء العلوم‘‘ میں ہے: حضرت سیِّدُنا یحییٰ بن مُعاذرازی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں: میرے نزدیک بڑے دھوکوں میں سے یہ بھی ہے کہ آدمی مغفرت کی امیدرکھتے ہوئے بغیر کسی ندامت (یعنی شرمندگی) کے گناہوں میں مشغول رہے اور عبادت کے بغیر اللہ پاک کے قرب (یعنی قریب ہونے) کی اُمید رکھے اور جہنَّم کابیج بوکر جنت کی کھیتی کا منتظر رہے اور گناہ پر گناہ کئے جانے کے باوجود نیک بندوں کے گھر (یعنی جنت) کااُمیدوار رہے اور نیک اعمال کے بغیر ثواب کا انتظار کرے اور زیادتی کے باوجود اللہ پاک سے (مغفرت کی) تمنّا رکھے۔پھر آپ نے یہ اشعار پڑھے:
تَرْجُو النَّجَاۃَ وَلَمْ تَسْلُـکْ مَسَالِکَھَا اِنَّ السَّفِیْنَۃَ لَا تَجْرِیْ عَلَی الْیَبَسِ
ترجمہ:تم نجات کی اُمید تو رکھتے ہو مگر اس کے راستوں پر نہیں چلتے، یقینا کشتی خشکی پر نہیں چلا کرتی۔
(احیاء العلوم ج۴ص۴۱۷تا۴۱۸)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ بیان کرتے ہیں: میں نے حضرت ابو خالد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کو فرماتے سناکہ حکمت تین چیزوں سے آتی ہے:(1)خاموش رہنے (2)غور سے سننے اور (3)سن کر یاد رکھنے سے۔ اور تین خصلتوں کی وجہ سے حکمت کا پھل ملتا ہے:(1) ہمیشہ کے گھر (یعنی جنت)کی طرف رجوع کرنے(یعنی جنت میں لے جانے والے اعمال کرنے) (2)دھوکے کے گھر(یعنی دنیاکی محبت )سے دور ہونے اور (3)موت سے پہلے موت کی تیاری کرنے سے۔ (اللّٰہ والوں کی باتیں ج۷ص۳۳۶، حلیۃ الاولیاء ج۷ص۳۳۰)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
کروڑوں شافعیوں کے عظیم پیشوا حضرت امام شافعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ سے ایک بار کچھ پوچھا گیا تو خاموش رہے۔ کسی نے عرض کی: حضور! اللہ کریم آپ پر رحم فرمائے! آپ جواب کیوں نہیں دیتے؟ فرمایا: ’’پہلے میں یہ جان لوں کہ میرے جواب دینے میں فضیلت ہے یا خاموش رہنے میں۔‘‘
(احیاء العلوم (اردو) ج ۱ص ۱۰۲، احیاء العلوم ج ص۴۴)
سُبْحٰنَ اللہ! یہ ہے بولنے سے پہلے تولنا! کاش! ہم بھی بات کرنے سے قبل غور کر لیا کریں کہ جوبات کرنے جارہے ہیں اس میں ثواب بھی ملے گا یا نہیں؟ حضرت امام محمد بن محمد بن محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ لکھتے ہیں:صحابہ و تابعین رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن پانچ چیزوں میں مشغول رہتے تھے: ’’(۱)تلاوتِ قرآنِ کریم (۲)مساجد آبادکرنا (۳)ذِکْرُ اللّٰہ (۴)نیکی کی دعوت دینا اور(۵) برائی سے منع کرنا۔‘‘ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے یہ فرمانِ مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سن رکھا تھا کہ ’’ انسان کا ہر کلام (یعنی بولنا) اس کے لئے وبال ہے مفید نہیں،سوائے نیکی کی دعوت دینے یابرائی سے منع کرنے یا ذِکْرُاللّٰہ کے۔‘‘
[ترمذی ج ۴ ص ۱۸۵ حدیث ۲۴۲۰] (احیاء العلوم ج۱ص۱۰۰ بتصرف)
اللہ پاک قراٰن مجید پارہ5 سُوْرَۃُ النِّسَآء آیت114 میں ارشاد فرماتا ہے:
لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِؕ
آسان ترجَمۂ قرآن کنزالعرفان: ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی مگر ان لوگوں (کے مشوروں) میں جو صدقے کا یا نیکی کا یا لوگوں میں باہم صلح کرانے کا مشورہ کریں۔
حضرت کعبُ الاحبار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں: حضرت لقمان حکیم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے اپنے بیٹے سے فرمایا: بیٹا! ’’عقل مندگونگا‘‘ بن جانامگر ’’جاہل باتُونی ‘‘نہ بننا، تمہاری رال سینے پر ٹپک رہی ہو(یعنی بولنے کو بہت ہی جی چاہ رہا ہو) اور تم اپنی زبان کوفضول باتوں سے بچائے ہوئے ہو تو یہ تمہارے لئے اس بات سے عمدہ وبہتر ہے کہ لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر تم فضول و بے فائدہ باتیں کرو۔ ہر عمل کی دلیل ہوتی ہے، عقل کی دلیل غوروفکر ہے اور غورو فکر کی دلیل خاموشی۔ہرچیز کی سواری ہوتی ہے، عقل کی سواری تواضع (یعنی عاجزی)ہے، تمہاری جہالت کیلئے یہی کافی ہے کہ تم عقل کی سواری کو اختیار نہ کرواورتمہاری عقل مندی کیلئے یہی کافی ہے کہ لوگ تمہارے شر(یعنی بُرائی)سے محفوظ رہیں ۔
(اللّٰہ والوں کی باتیں ج۶ ص۱۳، حلیۃ الاولیاء ج۶ ص ۶)
سُبْحٰنَ اللہ! اِس واقِعے میں نہایت انمول مَدَنی پھول بیان ہوئے ہیں اور آخری مَدَنی پھول ’’تمہاری عقل مندی کیلئے یہی کافی ہے کہ لوگ تمہارے شر سے محفوظ رہیں ‘‘ بھی خوب ہے ۔اِس سلسلے میں کچھ مدنی پھول پیش کئے جاتے ہیں: اللہ پاک کے پیارے پیارے نبی ،مکی مَدَنی،محمدِ عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابوذَر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو ارشاد فرمایا: ’’لوگوں کوشر(یعنی بُرائی) سے بچائے رکھو کیونکہ یہ صدقہ ہے جو تم اپنی جان کیلئے دو گے۔‘‘
(بخاری ج۲ص۱۵۰حدیث ۲۵۱۸ مختصراً)
شرحِ حدیث: مرآت میں ہے: یعنی کوشش کرو کہ تم سے کسی کو نقصان نہ پہنچے۔ (مرآت ج۵ص۱۸۱)
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ اس حدیثِ پاک کی وضاحت میں فرماتے ہیں: برائی کا ترک کرنا ایسی چیز ہے جس کے ذَرِیعے تم اپنے اوپر صَدَقہ کرتے ہو یعنی ’’کسی کے ساتھ برائی نہ کرنا‘‘ بھی نیک کام ہے، جب کہ برائی پر قدرت بھی ہو۔ لوگوں پر صدقہ کرنا دراصل اپنی ذات ہی پر صدقہ کرنا ہے اس لئے فرمایا کہ تم اپنی ذات پر صدقہ کرتے ہو۔
(اشعۃ اللمعات ج۳ص۲۰۳)