(1)مسکرا کر اور خندہ پیشانی سے بات چیت کرنا سنَّت ہے ۔
(2)بات چیت کرتے ہوئے چھوٹوں کے ساتھ شفقت بھرا اور بڑوں کے ساتھ ادب والا لہجہ رکھئے، اِنْ شَآءَاللہُ الْکریم دونوں کے یہاں آپ عزت پائیں گے۔
(3)چلاچلا کر بات چیت کرناسنَّت نہیں۔
(4)دورانِ گفتگو ایک دوسرے کے ہاتھ پرتالی دینا ٹھیک نہیں ہے کہ یہ معزز و مہذب(یعنی اچھے) لوگوں کے طریقے کے خلاف ہے۔
(صراط الجنان ج۷ص۵۰۲ تا ۵۰۳)
(5)بات چیت کرتے ہوئے دوسرے کے سامنے باربار ناک سہلاتے رہنا، ناک یا کان میں اُنگلی ڈالنا ، تھوکتے رہنا، بدن کا میل اتارنا، پردے کی جگہوں کو چھونا یا کھجاتے رہنا اچھی بات نہیں، اکیلے میں بھی بلا وجہ یہ کام نہیں کرنے چاہئیں۔
(6)جب تک دوسرا بات کر رہا ہو ،اِدھر اُدھر دیکھے بغیر اُس کی طرف پوری طرح متوجہ ہو کر اطمینان سے سننا چاہئے، بیچ میں بولنا بھی نہیں چاہئے کہ کسی کی بات کاٹنا خلافِ اَدَب ہے۔اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری نبی، مکی مدنی محمد ِ عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کسی کی بات کو نہ کاٹتے البتہ اگر کوئی حد سے تجاوز کرنے لگتا تواُسے روک دیتے یا وَہاں سے اُٹھ جاتے۔(شمائل ترمذی ص ۲۰۰ مُلَخَّصًا )
(7) ہکلے یعنی رُک رُک کر بات کرنے والے یا تتلے کی پیچھے سے نقل نہ اُتا ریں کہ غیبت ہے اوراس کے سامنے سے نقل اُتارنا اس کی دل آزاری کا بھی سبب ہے۔
(8)زیادہ باتیں کرنے اور دورانِ گفتگو قہقہے لگاتے رہنے سے عزت و رُعب میں کمی آتی ہے۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
(1)حضرتِ لقمان حکیم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ سے پوچھا گیا: آپ اس مقام ومرتبے تک کیسے پہنچے؟ انہوں نے فرمایا: سچ کہنے، امانت ادا کرنے اور بیکار باتوں کو چھوڑ دینے سے۔ (حلیۃ الاولیا ج۶ص۳۵۸حدیث۸۹۲۵،اللّٰہ والوں کی باتیں ج۶ص۴۶۲)
(2) فرمانِ امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ:جوبات (کسی کو اُس کی اصلاح کیلئے) سب لوگوں کے سامنے کی جائے اُسے ڈانٹ ڈَپٹ اور بے عزتی کرنا شمار کیا جاتا ہے اور جو بات(کسی کی اصلاح کیلئے) تنہائی(یعنی اکیلے) میں کی جائے وہ شفقت و نصیحت سمجھی جاتی ہے۔
(احیاء العلوم (اردو) ج۲ص۶۵۹)
(3)چار چیزیں چارچیزوں کی طرف لے جاتی ہیں: (۱)’’خاموشی ‘‘سلامتی کی طرف (۲)’’نیکی‘‘ بُزُرگی کی طرف (۳)’’سخاوت‘‘ سرداری کی طرف اور (۴)’’شکر‘‘ نعمت کی زیادتی کی طرف۔ ( دین و دُنیا کی اَنوکھی باتیں ج۱ ص۸۴)
(4)’’آدمی کا بات کرنا‘‘ اُس کی فضیلت کا بیان اور عقل کا ترجُمان ہوتا ہے لہٰذااسے اچھی اور تھوڑی بات تک ہی محدود رکھو۔(یعنی بولنے سے بندے کی سمجھداری کی پہچان ہوتی ہے ، لہٰذا کم بولے تا کہ پردہ رہے کہ باتیں کرتے چلے جانے سے اُس کے اندر چھپی ہوئی کم عقلی اور نادانی ظاہر ہو سکتی ہے)
(5)آدمی اپنی بات چیت کے ذریعے پہچانا جاتا اوراپنے کام کے ذریعے مشہور ہوتا ہے، لہٰذا دُرست بات کہو (اور صرف اچھے کام کرو)۔
(6)جو اپنے آپ کو پہچان لے، اپنی زبان کی حفاظت کرے، فضول کاموں میں نہ پڑے اور اپنے مسلمان بھائی کی بے عزتی نہ کرے تو وہ ہمیشہ سلامت رہتا اور اُسے شرمندگی کم اٹھانی پڑتی ہے۔
(7)خاموشی اختیار کرو اور سچے بن کر رہوکیونکہ خاموشی حفاظت کرنے والی اور سچائی عزت دلانے والی ہے۔
(8)جو زیادہ بولتا ہے سمجھدار لوگ اُس سے کتراتے اور دور بھاگتے ہیں ۔
(9)جو اپنی گفتگو میں سچ بولتا ہے اُس کی خوش اخلاقی میں اضافہ ہوتا ہے۔
(10)ایسی خاموشی جس سے سلامتی ملے اُس گفتگو سے بہتر ہے جس سے شرمندگی اُٹھانی پڑے ۔
(11)جو نامناسب گفتگو کرتا ہے اُسے نا پسندیدہ باتیں سننی پڑتی ہیں ۔
(12)زَبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ سخت ہے۔
(13) جاہل کی بے ہودہ اورتکلیف دہ بات پرخاموش رہنا اُس کے لئے بھرپور جواب اوراُس جاہل کیلئے خوب تکلیف کا باعث ہے۔
(14)زَبان ایسی کاٹ کر نے والی تلوار ہے جس کے وار سے بچنا ممکن نہیں اور کلام (یعنی بات )ایسانکلا ہوا تیر ہے جسے واپس لاناممکن نہیں۔
(دین و دُنیا کی اَنوکھی باتیں ج۱ ص۸۵تا۸۸ بتغیر قلیل)
(15)کسی کو اپنا راز مت بتائو کہ جو بات دو ہونٹوں میں نہیں سماتی وہ کہیں بھی نہیں سما سکتی۔
(یہ باتیں سوشل میڈیا وغیرہ سے لے کر بالتصرف یعنی تبدیلی کے ساتھ پیش کی گئی ہیں)
(1)دھاگا او رلمبی زَبان عموماً اُلجھ جاتے ہیں اِس لئے دھاگا لپیٹ کر اورزَبان سمیٹ کررکھئے۔
(2)شوگر( کی بیماری) میٹھا کھانے سے ہوتی ہے، میٹھا بولنے سے نہیں۔
(3)جب چاقو ،خنجر،تیر اورتلوار بیٹھے سوچ رہے تھے کہ کو ن زیادہ گہرا زخم دیتاہے تب الفاظ پیچھے بیٹھ کر مسکرا رہے تھے۔(یعنی الفاظ کے زخم سب سے گہرے ہوتے ہیں)
(4)جن باتوں پر جھگڑا کرکے لوگ منوں مٹّی تلے سوجاتے ہیں اُنہی باتوں پہ ہلکی سی مٹّی ڈال کر دُنیا میں پُرسکون زندگی گزاری جاسکتی ہے۔
(5)چھری ہی سے نہیں لفظوں سے بھی ذبح کیاجاتاہے ،گولی ہی صرف ہلاک نہیں کرتی،رَوَیّے (یعنی غلط برتائو) بھی ماردیتے ہیں،بے شک گولی اور چھری دُنیا سے تعلق ختم کروادیتی ہے لیکن لفظوں کی کاٹ اوررَوَیوں کی مار حلق کاپھندا بن کر نہ جینے دیتی ہے نہ مرنے۔
(6)تب بولئے جب آپ کے الفاظ آپ کی خاموشی سے زیادہ مفید و خوبصورت ہوں۔
(7)طوطا مرچیں کھا کر بھی میٹھا بولتا ہے جب کہ انسان بسا اوقات میٹھاکھا کر بھی کڑوابولتاہے۔
(8)میٹھا بولنے والے کا ’’زہر‘‘ بھی بک جاتاہے جبکہ کڑوابولنے والے کا ’’شہد‘‘ بھی نہیں بکتا۔
(9)جس طرح پھل خریدتے وقت ’’میٹھے پھل‘‘ کا انتخاب کرتے ہیں ایسے ہی بولتے وقت بھی ’’میٹھے بول‘‘ منتخب کیجئے۔
(10)جس طرح چھوٹے چھوٹے سوراخ، بند کمرے میں سورج نکلنے کا پتا دے دیتے ہیں، اسی طرح چھوٹی چھوٹی باتیں بھی انسان کا کردار نمایاں کرتی ہیں۔
(11)بے شک الفاظ کی بھی اہمیت ہوتی ہے مگر بعض اوقات لہجوں کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے۔
(12)ہمیشہ ’’میٹھا‘‘ بولو کہ اگر کبھی واپس لینا پڑے تو ’’کڑوا‘‘ نہ لگے۔
(13)کچھ سوالات کے جوابات زبان نہیں وقت دیتاہے اور وقت جو جوابات دیتاہے وہ لاجواب ہوتے ہیں۔
(14)کہتے ہیں: ذرا سی بات سے تعلق ٹوٹ گیا حالانکہ اُس ’’ذرا سی بات‘‘ کے پیچھے بعض دَفعہ ’’بہت سی باتیں‘‘ ہوتی ہیں اور وہ ذرا سی بات دراصل برداشت کی آخری حد ہوتی ہے۔
(15)انسان اپنی زَبان کے پیچھے چھپا ہوا ہے اگر اُسے سمجھنا ہے تو اُسے بولنے دیجئے۔
(16)لفظوں کے دانت نہیں ہوتے مگریہ کاٹ لیتے ہیں اورجب یہ کاٹتے ہیں تو اِن کا زخم آسانی سے نہیں بھرتا۔
(17)بعض اوقات لوگ نرم لہجے سے اتنی گرم بات کرجاتے ہیں کہ اُن لفظوں کی تپش (یعنی گرمی)ٹھنڈی ہونے (یعنی بھولنے) میں عمر لگ جاتی ہے۔
(18)عقل چھوٹی ہوجائے تو زبان لمبی ہو جاتی ہے۔
(19)’’مشین‘‘ کو زنگ لگ جائے تو پُرزے (یعنیPARTS) شورکرتے ہیں اور جب’’ عقل ‘‘کو زنگ لگے توزبان فضول بولنے لگ جاتی ہے۔
(20)سوچ سمجھ کر بولئے کہ آپ کے الفاظ کسی کادل بُری طرح توڑ بھی سکتے ہیں۔
(21)عمدہ لہجے میں بولے گئے ا لفاظ سے بات سمجھ میں آتی ، اوردِل میں اُتر جاتی ہے کیوں کہ بعض اوقات جادو الفاظ میں کم اورلہجے میں زیادہ ہوتا ہے۔
(22)یوں توبولنا سبھی کو آتا ہے مگر کسی کا دماغ بولتا ہے تو کسی کا اَخلاق۔
(23)’’گفتگو‘‘ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے یا تو انسان کسی کے ’’دِل میں اُتر‘‘ جاتا ہے یا پھر کسی کے ’’دِل سے اُتر‘‘ جاتا ہے۔
(24)دو میٹھے بول، پُرخلوص الفاظ اورمُؤَدِّبانہ(یعنی باادب) لہجہ کسی کی رُوح کو تروتازہ کرسکتے ہیں ۔
(25) حقارت بھرے زہریلے الفاظ بسااوقات کسی کو جیتے جی مارڈالنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔
(26-27)ساری دُنیا کا شہد جمع کرلیجئے مگر زَبان کا ایک ’’میٹھا بول‘‘ اُس(دُنیا بھر کے شہد) سے زیادہ میٹھا ہے اور ساری دُنیا کا زہر جمع کر لیجئے مگر زَبان کے ایک ’’کڑوے بول‘‘ کا زَہر اُس (سارے زہر)سے زیادہ کڑواہے۔
(28)اپنی زَبان کو کڑوی باتوں سے بچانا بہت بڑی کامیابی ہے۔
(29)پیار اور ’’میٹھے بول‘‘ سے ساری دُنیا فتح کی جاسکتی ہے۔
(30)زَبان کا سائز اگر چہ کم ہے مگر بہت کم لوگ اِسے سنبھال پاتے ہیں۔
(31)صرف اپنی زَبان پر قابو پا لینے سے آپ بہت ساری مشکلات سے بچ سکتے ہیں۔
(32)اگر کسی کی اصلاح کرنی ہوتونرم لہجے میں کیجئے، کیونکہ نرم لہجہ اصلاح کے جذبے کو جگاتا ہے جب کہ سخت لہجہ ضِد پیدا کرتا ہے۔
(33)کچھ باتوں کا جواب صرف خاموشی ہے اور خاموشی بہت خوبصورت جواب ہے۔
(34)پرندے اپنے پاؤں اور انسان اپنی زبان کی وجہ سے جال میں پھنستے ہیں۔
(35)گفتگو میں نرمی اختیار کیجئے الفاظ سے زیادہ لہجے کا اثرہوتا ہے۔
(36)چمچ ناپاک ہو جائے توتھوڑے سے پانی سے پاک کی جاسکتی ہے مگر زبان ناپاک ہو جائے تو اُسے سات سمندر کا پانی بھی پاک نہیں کر سکتا۔
(37)اگر کوئی کھانے میں زہر گھول دے تو اِس کاعلاج ممکن ،مگر کوئی کان میں زہر گھول دے تو اس کا علاج بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
(38)اپنی زَبان کو مسلمانوں کو سلام کرنے کا عادی بنالیجئے اِس سے دوست بڑھتے اور دشمن کم ہوتے ہیں۔
(39)بچے کی زبان بسا اوقات انسان کی اچھی یابُری شخصیت کا راز اُگل دیا کرتی ہے۔
(40)ہمیشہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی احتیا ط کرنی چاہئے کہ انسان پہاڑوں ہی سے نہیں پتھروں سے بھی ٹھوکر کھاتا ہے۔
(41)بدگمانی اور بد زبانی دو ایسے عیب ہیں جو انسان کے ہر کمال(یعنی خوبی) کو زوال(یعنی نقصان) میں بدل سکتے ہیں۔
(42)چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنے سے بڑی بڑی مَحَبَّتیں پیدا ہوتی ہیں۔
(43)زَبان کی حفاظت کیجئے اِنْ شَآءَاللہُ الْکریم عزت پائیں گے ،بصورتِ دیگر ذلّت کے استقبال کیلئے تیّار رہئے۔
(44)آواز بُلندکرنے کے بجائے اپنی دلیل کو بلندکیجئے ،پھول بارش سے کِھلتے ہیں بادَلوں کے گرجنے سے نہیں۔
(45)ایک بارکا جھوٹ آپ کی ہمیشہ کی سچائی پر سوالیہ نشان بنا سکتا ہے!
(46)عقلمند انسان اُس وقت تک نہیں بولتا جب تک سب خاموش نہیں ہو جاتے۔
(47)بُری باتیں سن کر حوصلہ نہ ہارو، شور کھلاڑی نہیں تماشائی کرتے ہیں ۔
(48)کسی کو چار پیسے دے کر خوش نہیں کرسکتے تو ’’دو میٹھے بول‘‘ ہی بول کر خوش کر دیجئے ۔
(49)لوگوں کے ساتھ ہمیشہ اچھاسلوک کیجئے اِنْ شَآءَاللہُ الْکریم اُن کے دل میں آپ کیلئے ہمیشہ عزت بنی رہے گی۔
(50) میرے عیب میری اصلاح کی نیّت سے مجھے ہی بتایئے، میری کوئی دوسری برانچ نہیں۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
(1)خَیْرُ الْکَلَامِ مَا قَلَّ وَدَلَّ(بہترین بات وہ ہے جو قلیل یعنی مختصر وپُر دلیل ہو)
(2)ـ عَیْبُ الْکَلَامِ تَطْوِیْلُہٗ(کلام یعنی بات کا (بلاضرورت )لمبا کرناکلام کا عیب ہے)
(3)بَلَائُ الْاِنْسَانِ مِنَ اللِّسَانِ (انسان پر آزمائش زبان کی وجہ سے آتی ہے)
(4)لِسَانُکَ دَائٌ مَا لَہُ دَوَائٌ ( تیرا زبان کا غلط استعمال کرنا ایسی بیماری ہے جس کی کوئی دوا نہیں )
(5)لَا تُکْثِرْ کَلَامَکَ فَیَقِلَّ مَقَامُکَ(زیادہ گفتگو نہ کرو ورنہ تمہارا مقام ومرتبہ کم ہوجائے گا)
(6)حِفْظُ اللِّسَانِ سَلَامَۃُ الْاِنْسَانِ(زبان کی حفاظت میں انسان کی سلامتی ہے)
(7)یَمُوْتُ الْفَتٰی مِنْ عَثْرَۃٍ بِلِسَانِہٖ وَ لَیْسَ یَمُوْتُ مِنْ عَثْرَۃِ الرِّجْلِ (نوجوان اپنی زبان کے پھسلنے سے مرتا ہے، پائوں کے پھسلنے سے نہیں)
(8)خَیْرُ الْخِلَالِ حِفْظُ اللِّسَانِ(زبان کی حفاظت بہترین خصلت وعادت ہے)
(9)صَدْرُکَ اَوْسَعُ لِسِرِّکَ(تیرا سینہ تیرے اپنے راز کے لئے وسیع ترین جگہ ہے لہٰذا اپنی کمزوریاں کسی کومت بتا )
(10)مَا اَصْغَرَ اللِّسَانَ وَمَا اَکْثَرَ نَفْعَہٗ وَضَرَرَہٗ( زبان کتنی چھوٹی سی ہے لیکن اس کا نفع ونقصان کتنا زیادہ ہوتا ہے)
(11)جُرْحُ اللِّسَانِ اَنْکٰی مِنْ جُرْحِ السِّہَامِ(زبان کا زخم تیر کے زخم سے زیادہ تکلیف دِہ ہے )
(12)مَنْ حَفِظَ لِسَانَہٗ نَجَا مِنَ الشَّرِّ کُلِّہٖ (جس نے اپنی زَبان کی حفاظت کی اس نے(بہت) ساری برائیوں سے نجات پائی)
(13)لَا تَتْرُکْ لِسَانَکَ یَقْطَعُ عُنُقَکَ(اپنی زبان کو ایسا کھلا مت چھوڑو کہ تمہاری گردن کٹوادے)
(14)مَنْ کَثُرَ کَلَامُہٗ قَلَّ فِعْلُہٗ (جس کی باتیں زیادہ ہوں اس کا کام کم ہوتا ہے)
(15)مَنْ کَثُرَ کَلَامُہٗ کَثُرَ مَلَامُہٗ (جس کی گفتگو زیادہ ہو اُسے شرمندگی کا سامنا بھی زیادہ ہوتا ہے )
(16)ـ مَنْ عَذُبَ لِسَانُہٗ کَثُرَ اِخْوَانُہٗ (جس کی زبان میٹھی ہو اُس کے دوست زیادہ ہوتے ہیں )
(17)اَللِّسَانُ مِفْتَاحُ الْخَیْرِ وَالشَّرِّ(بھلائی اور برائی کی چابی زبان ہے)
(18)اَلْحَرْبُ اَوَّلُہَا کَلاَم ٌ(لڑائی کی ابتدا باتوں سے ہوتی ہے)
(19)لِیْنُ الْکَلامِ قَیْدُ الْقُلُوْبِ(نَرم بول دلوں کو لوٹ لیتے ہیں)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
(محاوَرہ: یعنی وہ الفاظ یا جملہ جسے اہلِ زبان نے لُغوی معنٰی کی مناسبت یا غیر مناسبت سے کسی خاص مفہوم کے لئے مخصوص کر لیا ہو)
(1)زَبان بدلنے سے گلی بدلنا بہتر ہے (یعنی وعدہ وفا نہ کرنے سے نقصان اُٹھانابہتر ہے)
(2)زَبان پر سر دینا(یعنی عہد پوراکرنے کے لئے جان کی بازی لگا دینا)
(3)زَبان سے پھول جھڑنا(یعنی نہایت میٹھا بولنا)
(4)زَبان قینچی کی طرح چلنا (یعنی بہت تیزی سے گفتگو کرنا)
(5)زَبان کو لگام دو(یعنی سوچ سمجھ کر بولو)
(6)زَبان ہلانے سے کام نکلتا ہے (یعنی کہنے سننے ہی سے کام ہوتا ہے ،سفارش سے مقصد حاصل ہوتا ہے)
(7)پہلے تولو بعد میں بولو ( یعنی پہلے غور کر لو بات کرنے جیسی ہو تو کرو ورنہ چُپ رہو)
(8)ایک چُپ سو سکھ ( یعنی خاموشی میں آرام ہی آرام ہے)
(9)ایک چپ سوکو ہرائے ( یعنی چُپ رہنے والا ہی کامیاب ہوتا ہے)
(10)جو بات دو ہونٹوں میں نہیں سماتی وہ کہیں بھی نہیں سماتی( یعنی کسی کو رازبتا کر یہ اُمید رکھنا بے کار ہے کہ دوسروں کو پتا نہیں چلے گا)
(11)زَبان میں کھجلی ہونا( یعنی تُوتُو میں میں کرنے کو جی چاہنا)
اے عاشقانِ رسول! بے شک بات چیت بھی عمل ہے اگر رضائے الٰہی کے مطابق ہو تو ثواب ، گناہ بھری ہو تو عذاب اور فضول ہو تو بروزِ آخِرت حساب۔ ان چیزوں کی معلومات اور عمل کا جذبہ بڑھانے کیلئے دعوتِ اسلامی کے سنتیں سیکھنے سکھانے کے مَدَنی قافلوں میں سفر کرنا مفید ہے۔ ایک’’مدنی بہار‘‘ پیش کی جاتی ہے: کراچی کے علاقے لائنز ایریا کے ایک نوجوان دینی ماحول میں آنے سے پہلے گناہوں بھری زندگی گزار رہے تھے۔ جھوٹ بولنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، بات بات پر غصہ کرنا، ناجائز انگوٹھی اور چھلے پہننا اور چھنگلی کے ناخن خوب بڑھا کر رکھنا وغیرہ گویا ان کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا، لوگوں کے سمجھانے کے باوجود بھی فائدہ نہ ہوتا۔ بالآخر اسلامی بھائیوں کی انفرادی کوشش کی برکت سے ان کو دعوتِ اسلامی کے سنتیں سیکھنے سکھانے کے تین دن کے مدنی قافلے میں سفر کی سعادت حاصل ہوئی، مدنی قافلے کی برکت یہ ظاہر ہوئی کہ انہوں نے جھوٹ بولنے کی گندی عادت سے توبہ کی اور خوب بڑھایا ہوا ناخن جو منع کرنے کے باوجود بھی نہیں کاٹتے تھے اسے دورانِ مَدَنی قافلہ ہی کاٹ دیا۔ مزید یہ کہ انہوں نے اپنی بری عادتوں سے توبہ کرتے ہوئے اچھی اچھی نیتیں کیں کہ والدین سے معافی مانگ کر ان کو راضی کروں گا، اپنے غصے پر قابو رکھوں گا، دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں میں خود بھی حصہ لوں گا اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دوں گا۔
اے عاشقانِ رسول! اس مدنی بہار میں آپ نے سنا کہ وہ نوجوان اسلامی بھائی ’’ناجائز انگوٹھی اور چھلے پہنا کرتے تھے،‘‘ اس حوالے سے مکتبۃُ المدینہ کی کتاب ’’رفیق الحرمین ‘‘ صفحہ نمبر82پر ہے: اسلامی بھائی جب کبھی انگوٹھی پہنیں تو صرف چاندی کی ساڑھے چار ماشے (یعنی 4گرام 374ملی گرام) سے کم وزن کی ایک ہی انگوٹھی پہنیں ایک سے زیادہ نہ پہنیں اور اس ایک انگوٹھی میں نگینہ بھی ایک ہی ہوایک سے زیادہ نگینے نہ ہوں اور بغیر نگینے کے بھی نہ پہنیں۔ نگینے کے وزن کی کوئی قید نہیں۔ چاندی یا کسی اور دھات کا چھلا (چاہے مدینے شریف ہی کا کیوں نہ ہو) یا چاندی کے بیان کردہ وزن وغیرہ کے علاوہ کسی بھی دھات ( میٹل۔METALمَثَلاً سونا، تانبا، لوہا، پیتل، اسٹیل وغیرہ) کی انگوٹھی نہیں پہن سکتے۔ سونے چاندی یا کسی بھی دھات کی زنجیر گلے میں پہننا گناہ ہے۔
نیز بیان کردہ مدنی بہار میں یہ بھی تھا کہ وہ نوجوان ’’چھنگلی یعنی ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی کا ناخن خوب بڑھا کر رکھتے تھے، ‘‘اس بارے میں شرعی مسئلہ یہ ہے کہ ’’چالیس روز سے زیادہ ناخن یا موئے بغل یا موئے زیر ناف (یعنی ناف کے نیچے کے بال) رکھنے کی اجازت نہیں، بعد چالیس روز کے گناہ گار ہوں گے، ایک آدھ بار میں گناہِ صغیرہ (یعنی چھوٹا گناہ) ہوگا، عادت ڈالنے سے کبیرہ (یعنی بڑا گناہ) ہوجائے گا، فسق ہوگا۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ ج ۲۲ ص ۶۷۸)
سنّتیں سیکھنے تین دن کیلئے ہر مہینے چلیں قافِلے میں چلو
(وسائلِ بخشش ص۶۷۰)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
یاربَّ المصطَفٰے! ہمیں گفتگو کرنے کے آداب پر عمل کرنے کی تو فیق عطا فرما۔اور ہماری زبان سے کبھی بھی تیری ناراضی والی بات نہ نکلے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
ہم اللہ پاک کے گناہ گار بندے اور پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے غلام ہیں۔ یقیناً زندگی مختصر ہے، ہم ہر وقت موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ ہمیں جلد ہی اندھیری قبر میں اُتار دیا جا ئے گا۔ نجات اللہ پاک کا حکم ماننے اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنّت پر عمل کرنے میں ہے۔
عاشقانِ رسول کی دینی تحریک ، دعوتِ اسلامی کا ایک مدنی قافِلہ ………سے آپ کے علاقے کی ……………… مسجد میں آیا ہوا ہے۔ہم نیکی کی دعوت دینے کیلئے حاضر ہوئے ہیں۔ مسجد میں ابھی درس جاری ہے ، درس میں شرکت کرنے کیلئے مہربانی فرما کر ابھی تشریف لے چلئے ، ہم آپ کو لینے کیلئے آئے ہیں ، آئیے ! تشریف لے چلئے ! ( اگر وہ تیار نہ ہوں تو کہیں کہ ) اگر ابھی نہیں آسکتے تو نمازِ مغرب وہیں ادا فرما لیجئے۔ نماز کے بعد اِنْ شَآءَاللہ سنّتوں بھرا بیان ہوگا۔آپ سے درخواست ہے کہ بیان ضرور سنئے گا۔ اللہ پاک ہمیں اور آپ کو دونوں جہانوں کی بھلائیاں نصیب فرمائے۔ آمین
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
فضول باتوں سے بچنے کی فضیلت
یا ربَّ المصطَفٰی! جوکوئی’’فضول باتوں سے بچنے کی فضیلت‘‘ کے 105صفحات پڑھ یا سُن لے اُسے فضولیات سے بچا، نیک بنا اور بار بار حج ودیدارِ مدینہ کا شرف عطا فرما۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
حضرتِ سیدنا ابو بکر شبلی بغدادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں:میں نے اپنے مرحوم پڑو سی کو خواب میں دیکھ کرپوچھا: مَافَعَلَ اللّٰہُ بِکَ؟ یعنی اللہ پاک نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ وہ بولا: میں سخت ہولناکیوں سے دو چا ر (یعنی مصیبت میں مبتلا) ہوا، منکر نکیر کے سُوالات کے جوابات بھی مجھ سے نہیں بن پڑ رہے تھے، میں نے دل میں خیال کیا کہ شاید میراخاتمہ ایمان پر نہیں ہوا ! اتنے میں آواز آئی: ’’دنیامیں زَبان کے غیر ضروری استعمال کی وجہ سے تجھے یہ سزا دی جارہی ہے۔‘‘ اب عذاب کے فَرِ شتے میری طر ف بڑھے۔ اتنے میں ایک خوب صورت عمدہ خوشبو والے صاحِب میرے اور عذاب کے درمیان آڑ ہوگئے اورانہوں نے مجھے منکر نکیر کے سوالات کے جوابات یاد دلا دیئے اور میں نے اُسی طرح جوابات دے دیئے، الحمدُللہ عذاب مجھ سے دُور ہوا۔ میں نے اُن بُزُرگ سے عرض کی: اللہ پاک آپ پر رحم فرمائے آپ کون ہیں؟ فرمایا:’’تیرے کثرت کے ساتھ دُرُود شریف پڑھنے کی بَرَ کت سے میں پیدا ہوا ہوں اور مجھے ہر مصیبت کے وقت تیری مدد پر مامور کیاگیا ہے۔‘‘(اَلْقَوْلُ الْبَدِ یع ص ۲۶۰)
آپ کا نامِ نامی اے صلِّ علیٰ ہر جگہ ہر مصیبت میں کام آ گیا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! یہاں آج کل بَدقسمتی سے خاموش رہنے والے بہت کم ملتے ہیں۔بعضوں کی زبان دِن بھر چلتی رہتی ہے، صِرف سوتے وقت زبان کو کچھ آرام ملتا ہو گا،اور بعض تو نیند میں بھی باتیں کرنے لگ جاتے ہیں! جو زیادہ بولتا ہے بسا اوقات اُس کے مُنہ سے جھوٹ بھی نکل سکتا ہے، غیبت بھی ہوسکتی ہے، چغل خوری بھی کر بیٹھتا ہو گا، راز بھی فاش کرڈالتا ہو گا، دل آزاریاں بھی کرتا رہتا ہوگا، لوگوں کی ہر بات کو قینچی کی طرح کاٹتے رہنے کی وجہ سے اپنا وقار بھی کھو بیٹھتا ہو گا، بارہا ایسا بھی ہوتا ہو گا کہ بول کر پچھتا تا ہو گا، پھر باتونی شخص کے ’’بک بک‘‘ کرنے سے دوسروں کو بھی تو بوریت ہوتی ہے، لوگ بیزار ہو کر اُس سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ الغرض زیادہ باتیں کرنے میںبے شمار نقصانات ہیں۔ اسی لیے تو کسی نے کہا ہے کہ ’’ نہ بولنے میں نو گن‘‘(یعنی نہ بولنے میں9 خوبیاں) کیونکہ خاموش آدمی بہت ساری آفتوں سے اَمْن میں رہتا ہے۔اللہ کریم ہم سب کو بے ضرورت باتیں کرنے سے محفوظ فرمائے اور زبان کی آفتوں سے بچائے۔آمین ۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد