30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
جانور کا ہی جزو ہے 1 اس لئے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بچے کو کھانا حلال ہوگا یا حرام ؟
شرعی حکم
امامِ اعظم امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا موقف یہ ہے کہ اگر حلال جانور کو ذَبْح کیا گیا اور اس کے پیٹ سے ایسا بچہ نکلا جس کی خلقت مکمل ہو چکی تھی (یعنی اس کے تمام اعضا بن چکے تھے) تواگر یہ مردہ حالت میں نکلا یا زندہ بچہ نکلا لیکن ذَبْح سے پہلے مرگیا تو اس کو کھانا حرام ہے ،خواہ اس کے بال آئے ہوں یا نہ آئے ہوں۔2 یہی موقف راجح اور صحیح ہے۔ 3 ( ہاں اگرذَبْح شدہ جانور کے پیٹ سے بچہ زندہ حالت میں نکلا اور اسے بھی مرنے سے پہلے پہلے ذَبْح کر لیا تو پھر وہ بھی حلال ہوگا۔ )
1... وہ بچہ جس کی خلقت ماں کے پیٹ میں مکمل ہو چکی ہو اس کے متعلق ہدایہ میں ہے: ” جزء من الأم حقيقة لأنه متصل بها حتى يفصل بالمقراض ويتغذى بغذائها ويتنفس بتنفسها “ (الہدایہ،4/ 351) فتاوی رضویہ میں ہے:’’ بچہ تام الخلقۃ من وجہ جز و حیوان ہے۔“ (فتاوی رضویہ، 20 /240ملتقطا)
2... قدوری وغیرہ میں ہے، واللفظ للآخر : ’’ ومن نحر ناقة أو ذبح بقرة أو شاة فوجد في بطنها جنينا ميتا لم يؤكل أشعر أو لم يشعر. (مختصر القدوری،ص206) بدائع میں ہے: ” الجنين إذا خرج بعد ذبح أمه إن خرج حيا فذكي يحل وإن مات قبل الذبح لا يؤكل بلا خلاف وإن خرج ميتا۔۔۔۔إن كان كامل الخلق اختلف فيه قال أبو حنيفة - رضي الله عنه -: لا يؤكل “ (بدائع الصنائع، 5 /42) فتاوی ہندیہ میں ہے: ” الجنين إذا خرج حيا، ولم يكن من الوقت مقدار ما يقدر على ذبحه فمات يؤكل، وهذا التفريع على قول أبي يوسف ومحمد رحمهما الله تعالى - لا على قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى ، كذا في النهاية. “(الفتاوى الہندیۃ، 5 /287)
3...فاکہۃ البستان میں اس مسئلے کے متعلق علماء کا اختلاف بیان کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’ وذكر في الزاد: والصحيح قول أبي حنيفة. كذا في التاتارخانية. ‘‘(فاکہۃ البستان،ص 117)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع