30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
پر مبنی حکم ہے ۔ اور علماء صدیوں سے ہر زمانے میں قیاس و دلالۃ النص کی بنیاد پر نئے مسائل کا حکم بیان کرتے آ رہے ہیں۔ کسی فقیہ کا بیان کردہ ایسا حکم محض اس وجہ سے رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے قبل کسی نے وہ بیان نہیں کیاخصوصاً جبکہ اس حکم کی علت بھی بالکل واضح ہو۔
یہ تو ایک اصولی بات ہے۔ علاوہ ازیں ہم یہاں یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ امام اہل سنت اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ یہ فتوی دینے میں متفرد (تنہا) نہیں ہیں بلکہ آپ سے ماقبل مستند و معتمد حنفی فقہاء اوجھڑی کی ممانعت کا فتوی دے چکے ہیں ۔اور بالکل اسی بنیاد پر دے چکے ہیں جس بنیاد پر اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فتوی دیا ہے کہ اوجھڑی نجاست وگندگی جمع ہونے کی جگہ ہے ۔ بلکہ علماء نے یہ بھی لکھا ہےکہ اوجھڑی کو کسی نبی نے تناول نہیں فرمایا۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اوجھڑی گندی چیزوں میں سے ہے ۔ طیب و پاکیزہ چیزوں میں سے نہیں ہے۔
چنانچہ علامہ ہاشم ٹھٹھوی رحمۃ اللہ علیہ (وفات: 1174ھ) اپنی کتاب” فاکہۃ البستان“ میں لکھتے ہیں : ” ودر شکنبه دو روایت است، کذا فی الفتاوی البزازیة نقلاً عن الصلاة المسعودیۃ۔ وعبارة الصلاة المسعودیة فی المسألة الأخیرة هکذا: در شکنبه دو روایت است: در یک مکروه است، و در یک ني، اما کراهیت شکنبه بدان سبب است که وی محل نجاست است، و هیچ پیغمبری وی را نخوردہ انتهی “ یعنی اوجھڑی کے بارے میں دو روایتیں ہیں، جیسا کہ فتاویٰ بزازیہ میں الصلاة المسعودیۃ سے نقل کرتے ہوئےیہی لکھا ہے۔ اور الصلاة المسعودیۃ کی
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع