30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
فقہی احکام میں
نیت کی حیثیت
مؤلف:
حضرت مولانا محمدعرفان عطاری مدنی مد ظلہ العالی
پیشکش: مجلس افتاء (دعوت اسلامی )
پیش لفظ
الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید الانبیاءوالمرسلین
اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
چند ماہ پہلے کرونا وائرس ((COVID 19 کی وجہ سے ملک بھرمیں لاک ڈاؤن لگا جس کے باعث جامعات میں تعلیم و تعلم کا عمل تعطل کا شکار ہوا ،ان دنوں مفتی اہلسنت شیخ الحدیث والتفسیرحضرت علامہ مولانا مفتی محمدقاسم صاحب دام ظلہ العالی سے فون پرگفتگو کا شرف ملا،توآپ نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ الاشباہ والنظائرکی طرز پر کام کیا جائے،چنانچہ راقم الحراف نے اس عرصۂ لاک ڈاون میں ہی اس کا م کا آغاز کیا ۔ اولاً دوقواعد:" لاثواب الابالنیۃ اور الاموربمقاصدھا "پرکام کیا۔
اوراس کانام " فقہی احکام میں نیت کی حیثیت "رکھا۔
ان پرکام کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱: اولانیت سے متعلق بخاری شریف کی پہلی حدیث مبارک تحریرکرکے اس کی وضاحت تحریرکی گئی ۔
۲: پھرعبادات،مباحات اورعقودومعاملات میں نیت کی شرعی حیثیت کے متعلق کلام کیاگیاہے کہ کہاں اس عمل کے صحیح ہونے کے لیے نیت شرط ہے اورکہاں صحت کے لیے شرط نہیں لیکن حصول ثواب کے لیے ضروری ہے۔اس دوران جوصورتیں قواعدسے مستثنی ہیں ،ان کابھی ذکرکیاگیا۔
۳: ایک ہی کام کا مقصدوارادہ مختلف ہونےسےاس کے احکام میں جائزوناجائزہونے کے اعتبارسے فرق آجانے پرامثلہ ذکرکی گئی ہیں ۔
۴: نیت کے متعلق تفصیلی مباحث ذکرکی گئی ہیں ،اس کے لیے درج ذیل عنوانات پرکلام کیاگیاہے:
(1)نیت کی تعریف، (2)نیت کی مشروعیت کامقصد، (3)نیت کی شرائط، (4)نیت کامحل، (5)نیت کے وقت کابیان، (6)عبادت کے ہررکن اورجزء میں نیت کاجاری رہناشرط نہیں، (7)نیت میں اخلاص، (8)ایک ہی نیت سے دوعبادتیں جمع کرنا، (9) اورمنوی کی تعیین وعدم تعیین۔
ان پرقدرے تفصیل سے کلام کیاگیاہے،ضمناکئی امورزیربحث لائے گئے اورجوقواعدسے مستثنی تھے،ان کابھی ذکرکیاگیا۔
استدعا:
حتی الامکان کوشش کی گئی ہے کہ کتاب اغلاط سے محفوظ ہولیکن بشری تقاضے کے تحت اغلاط سے مبراہونے کادعوی نہیں کیاجاسکتا،لہٰذا قارئین سے گزارش ہے کہ جسے کسی قسم کی کوئی غلطی نظرآئے ،وہ اطلاع کردے ، ان شاء اللہ عزوجل بعدتفتیش اس کی اصلاح کردی جائے گی ۔ نیز راقم الحروف کودعائے مغفرت میں یادرکھیں ۔
محمدعرفان عطاری مدنی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الفن الاول
القاعدۃ الاولیٰ:
" لاثواب إلابالنیۃ "(نیت کے بغیرثواب نہیں ہے ۔)
عمل خواہ اپنی ذات میں عبادت ہو،یاوہ اپنی ذات میں عبادت نہ ہوبلکہ مباح ہو، ہرقسم کے عمل پر ثواب اسی صورت میں ملے گا جبکہ اللہ تعالی کی رضاوغیرہ ثواب والی نیت کی جائے۔ جیساکہ قرآن پاک کی یہ آیت مقدسہ اس کے متعلق رہنمائی کرتی ہے: (وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِۚ-وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ)ترجمۂ کنزالایمان: اور تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی اور جو تم خیرات دو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو انہیں کے دونے ہیں۔
(سورۃ الروم، پارہ 21، آیت39)
تفسیرطبری میں اس آیت مبارکہ کے تحت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے ایک روایت ذکرکی گئی ہے: ” عن ابن عباس قوله: (وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ) قال: هو ما يعطي الناس بينهم بعضهم بعضاً، يعطي الرجل الرجل العطية، يريد أن يعطى أكثر منها “ ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : (اور تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی) کے حوالے سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ ہے جو لوگ آپس میں ایک دوسرے کو دیتے ہیں، ایک شخص دوسرے شخص کو کچھ دیتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ دے ۔
(تفسیرطبری،ج09،ص92،افغانستان)
اس کی ترجمانی اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیرخزائن العرفان میں یوں ہے: ” لوگوں کا دستور تھا کہ وہ دوست احباب اور آشناؤں کو، یا اور کسی شخص کو اس نیّت سے ہدیہ دیتے تھے کہ وہ انہیں اس سے زیادہ دے گا۔ یہ جائز تو ہے لیکن اس پر ثواب نہ ملے گا اور اس میں برکت نہ ہو گی، کیونکہ یہ عمل خالصاً للہ تَعالیٰ نہیں ہوا ۔“
اسی بناء پرامام اہلسنت علیہ الرحمۃ نے یہ تحریرفرمایا: ”زید سرِراہ بیٹھا تھا۔ ایک کھاتا پیتا ناشناسا گھوڑے پرسوار جارہا تھا۔ اس نے ہزار روپے اٹھا کر اُسے دے دیے کہ نہ صدقہ، نہ صلہ رحم، نہ محتاج کی اعانت، نہ دوست کی امداد؛ کوئی نیت صالحہ نہ تھی۔ نہ ریا یا نام وغیرہ کسی مقصد بد کا محل تھا۔ تو اسے ضرور حرکت عبث کہیں گے، اگرچہ واقع میں وہ اس کا کوئی ذی رحم ہو، جسے یہ نہ پہچانتا تھا۔ مقاصد شرعیہ پر نظر کرنے سے یہ حکم خوب منجلی ہوتا ہے۔ رب عزوجل فرماتا ہے: (وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِۚ-وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ) (ترجمہ کنزالایمان: اور تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں، تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی، اور جو تم خیرات دو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو انھیں کے دونے ہیں )۔“
(فتاوی رضویہ،ج01،ص1001،رضافاونڈیشن،لاہور)
حدیث پاک سے اس پردلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نےارشادفرمایا: ” إنما الأعمال بالنیات .“ ترجمہ:اعمال کادارومدارنیتوں پرہے۔ (صحیح البخاری،ج01،ص02،مطبوعہ کراچی)
اسے بخاری ،مسلم وغیرہ تمام اصحاب صحاح ستہ نے روایت کیاہے۔
یہاں اعمال کے حکم کی ایک قسم یعنی ثواب وعذاب مراد ہے کہ اعمال پرثواب وعذاب کادارومدارنیتوں پرہے۔ اچھی نیت سے ثواب اوربری نیت سے عذاب کااستحقاق ہو گا۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ اگرحدیث پاک کو ظاہرپررکھیں تومطلب یہ بنے گاکہ کوئی عمل بغیرنیت کے وقوع پذیرنہیں ہوتا۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے اعمال بغیرنیت وارادہ کے وقو ع پذیرہوتے ہیں، مثلاسوتے میں لوگ بولتے یاچلتے پھرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جس سے واضح ہواکہ یہاں " الأعمال " سے پہلے لفظ "حکم" محذوف ہےاورحکم کی دوقسمیں ہیں: ایک صحت وفساداوردوسری ثواب وعقاب۔دوسری قسم مرادہونے پراجماع ہے۔ توجب دوسری مرادلے لی توپہلی مرادلینے کی ضرورت نہ رہی، کیونکہ یہاں حکم کالفظ ہم نے حدیث پاک کامعنی درست بنانے کی ضرورت کے تحت نکالا تھا اور ضرورت جتنے سے پوری ہوجائے تومعاملہ صرف اتنی حدتک محدودرکھاجاتاہے۔ لہذاہم صرف یہی معنی مرادلیں گے۔ تواب مطلب یہ ہوگاکہ:"اعمال پرثواب وعذاب کااستحقاق نیت سے ہی ہوگا۔" (الاشباہ والنظائر،ص24،مطبوعہ کراچی)
اوراس پراجماع بھی ہے کہ ثواب وعذاب کا دار و مدار نیت پرہے۔ چنانچہ الاشباہ والنظائرمیں ہے:” ا لإجماع على أنه لا ثواب ولا عقاب إلا بالنية “ ترجمہ: اس پر اجماع ہے کہ ثواب وسزا نہیں ہے مگر نیت کے ساتھ۔
(الاشباہ والنظائر،ص24،مطبوعہ کراچی)
کس عمل کے صحیح ہونے کے لیے نیت شرط ہے اورکس کے لیے نہیں؟
اس حدیث پاک سے یہ پتا چلاکہ عمل پرثواب نیت سے ہی ملے گا ، لیکن کس عمل کی صحت کے لیے نیت شرط ہے اورکس کے لیے نیت شرط نہیں ہے ،اس کاذکراس حدیث پاک میں نہیں ہے۔ اس کے لیے تفصیل درج ذیل ہے :
اعمال مختلف اقسام کے ہیں :(1)عبادات،(2)مباحات،(3)عقودومعاملات۔
عبادات میں نیت کے متعلق تفصیل:
(1)عبادات کی دواقسام ہیں : (۱)غیرمقصودہ(۲)مقصودہ۔
(۱)عبادات غیرمقصودہ:
وہ عبادات جواپنی ذات میں اصل مقصودنہیں ہیں بلکہ اصل مقصوددوسرے اعمال ہیں اوریہ ان کے لیے وسیلہ ہیں یعنی شرط ہیں ،جیسے وضو،غسل،تیمم،موزوں پرمسح،نجاست حقیقیہ دورکرنا۔ان کی درستی کے لیے نیت شرط ہے یانہیں؟اس کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
وضواورنیت:
کس وضومیں نیت شرط ہے اورکس میں نہیں ہے اورجس وضومیں نیت شرط نہیں تووہاں نیت کاکیامقام ہے ،اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
(الف)وضوکے نمازکی چابی بننے کے لیے نیت شرط نہیں ، لہٰذا اگرکسی نے بغیرنیت کے وضوکر لیا تو وہ نمازکے لیے چابی بن جائے گا، یعنی اس کے ساتھ نمازدرست ہوجائے گی، لیکن اس پرثواب نہیں ملے گا۔ثواب کے لیے نیت ہوناشرط ہے ۔ بحرالرائق میں ہے: ” اعلم أن النیۃفي غير التوضؤ بسؤر الحماروبنبيذ التمر سنة مؤكدة على الصحيح ولیست بشرط فی کون الوضوء مفتاحا للصلاۃ ۔۔۔۔قیدنا بقولنا فی کونہ مفتاحاً لأنھا شرط فی کونہ سبباً للثواب علی الأصح “ ترجمہ:واضح ہو کہ گدھے کے جھوٹے اورنبیذتمرکے علاوہ سے وضوکرنے میں نیت سنت موکدہ ہے صحیح قول کے مطابق۔وضو کے نماز کی چابی بننے میں نیت شرط نہیں۔نماز کی چابی بننے کی قید ہم نے اس لئے لگائی کہ ثواب کے لیے وضو کے سبب بننے میں اصح قول کے مطابق نیت شرط ہے۔ (البحرالرائق ،کتاب الطہارۃ،سنن الوضوء،ج01،ص50، کوئٹہ)
الغرۃ المنیفۃ میں ہے:” العبادة على نوعين: مقصودة لذاتها كالصلاة وهي لا تصح إلا بالنية، وغير مقصودة لذاتها بل هي وسيلة لغيرها كالوضوء وغيره من الشرائط فإنه لا يراعى وجودها قصداً فيتحقق بدون النية ‘‘ ترجمہ:عبادت کی دوقسمیں ہیں : (1)جو مقصود بالذات ہو جیسے نماز ،یہ نیت کے بغیر درست نہیں ہوتی ۔(2)جو مقصود بالذات نہ ہو بلکہ وہ غیر کے لیے وسیلہ ہو جیسے وضو اور دیگر شرائط نماز کہ ان کے قصدا پائے جانے کی رعایت نہیں کی جاتی،اس لیے یہ نیت کے بغیر بھی پائی جاتی ہیں ۔ (الغرۃ المنیفۃ،کتاب الطہارۃ، ص20،بیروت)
(ب)وضومیں نیت وضوکے درست ہونے کے لیے شرط نہیں ہے، لیکن سنت مؤ کدہ ضرورہے۔ جیساکہ اوپربحرکے حوالے سے گزرا۔ جس کامطلب یہ ہے کہ بلاعذرشرعی اس کے ترک پراصرار سے انسان گنہگار ہوگا۔ ردالمحتارمیں ہے: "( قوله: ويأثم بتركها ) أي إثما يسيرا كما قدمناه عن الكشف، والمراد الترك بلا عذر على سبيل الإصرار كما قدمناه أيضا عن شرح التحريروذلك لأنها سنة مؤكدة لمواظبته - صلى الله عليه وسلم - عليها كما حققه في الفتح "ترجمہ: (ان کا قول :اس کو چھوڑنے سے گنہگار ہوگا )یعنی تھوڑے گناہ کا مرتکب ہوگا، جیساکہ ہم نے کشف کے حوالے سے پہلے ذکر کیا اور اس سے مقصود بلا عذر بطور اصرار ترک کرناہے، جیساکہ ہم نے اسے بھی التحریر کی شرح کے حوالے سے پہلے ذکر کیا ہےاور یہ اس وجہ سے کہ یہ سنت مؤکدہ ہے کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اس پر ہمیشگی اختیار فرمائی ہے، جیساکہ فتح میں اسے ثابت کیا ہے ۔ (ردالمحتارمع الدرالمختار،ج01،ص238،کوئٹہ)
فتاوی رضویہ میں حاشیہ میں ہے: "مسئلہ: وضومیں نیت نہ کرنے کی عادت سے گنہگار ہو گا۔ اس میں نیت سنت مؤکدہ ہے ۔" (فتاوی رضویہ،ج01،جزءب،ص914،رضافاونڈیشن،لاہور)
(ج)جووضونمازکی صحت کے لیے شرط ہے اس کے لیے نیت ضروری نہیں ۔ لیکن وضوئے مستحب، جیسے وضو پر وضو، تو اس کے درست ہونے کے لیے نیت ضروری ہے ۔ کیونکہ یہ وضوعبادت مقصودہ ہے، غیرمقصودہ نہیں، کہ یہ وسیلہ نہیں ہے بلکہ مقصودہے، اوراسے کیاہی ثواب کے لیے جاتاہے اورثواب تب ملتاہے جبکہ نیت ہو۔ لہذااس کاحصول تبھی ہوگاکہ جب نیت ہوگی۔ الاختیارلتعلیل المختارمیں ہے: " قال: ( والماء المستعمل لا يطهر الأحداث، وهو ما أزيل به حدث، أو استعمل في البدن على وجه القربة ) كالوضوء على الوضوء بنية العبادة "ترجمہ:فرمایا:(اور مستعمل پانی حدث سے پاک (یعنی حدث دور) نہیں کرتا اور یہ وہ پانی ہے جس سے حدث دور کیا گیا ہو، یا جسے بدن میں بطور قربت استعمال کیا گیا ہو ۔) جیسے عبادت کی نیت سے وضو پر وضو کرنا ۔ (الاختیارلتعلیل المختار،کتاب الطھارۃ،ج01،ص22،مطبوعہ کراچی)
اس سے پتاچلاکہ وضوپروضوقربت اورباعث ثواب اسی صورت میں بنے گا جبکہ عبادت کی نیت سے کیاجائے ۔
فتاوی رضویہ میں ہے: "جو وضو فرض ہے وہ وسیلہ ہے کہ شرطِ صحت یا جواز ہے اور شروط وسائل ہوتے ہیں۔ مگر جو وضو مستحب ہے وہ صرف ترتبِ ثواب کیلئے مقرر فرمایا جاتا ہے۔۔۔وضوئے مستحب محتاجِ نیت ہوا اور وسائل محضہ محتاج نیت نہیں ہوتے۔۔۔تو ثابت ہوا کہ وضوئے مستحب وسیلہ نہیں ۔ ملخصاً "
(فتاوی رضویہ،ج01،جزءب،ص950تا 952،رضافاونڈیشن،لاہور)
غسل اورنیت:
اسی طرح کس غسل میں نیت شرط ہے اورکس میں نہیں اورجس میں شرط نہیں، تواس میں نیت کے متعلق کیاحکم ہے ،اس کی تفصیل :
غسل بھی وضوکی طرح ہے۔ لہذا(الف)فرض غسل کے اداہونے کے لیے نیت شرط نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کافرکاغسل درست ہوجاتاہے۔پس اگروہ غسل کرے تواس کےقرآن پاک کوچھونے میں کوئی حرج نہیں ۔فتاوی ہندیہ میں ہے " قال أبو حنيفة رحمه اللہ تعالى: أعلم النصراني الفقه والقرآن لعله يهتدي، ولا يمس المصحف، وإن اغتسل ثم مس لا بأس، كذا في الملتقط. "ترجمہ:امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا :نصرانی کو فقہ اور قرآن سکھایا جائے تاکہ وہ ہدایت پائے ،لیکن وہ قرآن کو نہ چھوئے اور اگر غسل کرکے چھوئے تو کوئی حرج نہیں ۔ملتقط میں اسی طرح ہے ۔ (فتاوی ہندیہ ،ج05،ص323،کوئٹہ)
(ب) لیکن اس میں بھی ثواب کے لیے نیت شرط ہے۔(ج)اوراس میں بھی نیت کرناسنت ہے۔ (د)نیز سنت اورمستحب غسل کے لیے نیت شرط ہے۔ جیساکہ مستحب وضوکے لیے نیت شرط ہے ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے: " يسن أن يبدأ بالنية بقلبه ويقول بلسانه نويت الغسل لرفع الجنابة أو للجنابة "ترجمہ:دل کی نیت کے ساتھ ابتدا کرنا سنت ہے اور زبان سے یہ کہے :میں نے جنابت کو دور کرنے کے لیے یا جنابت کی وجہ سے غسل کی نیت کی ۔
(فتاوی ہندیہ،کتاب الطھارۃ،ج01،ص14،کوئٹہ)
مراقی الفلاح میں ہے: " يسن في الاغتسال اثنا عشر شيئاً . الأول الابتداء بالتسمية، لعموم الحديث: "كل أمر ذي بال" . و الابتداء ب "النية" ليكون فعله تقرباً يثاب عليه كالوضوء "ترجمہ:غسل کرنے میں بارہ چیزیں سنت ہیں۔ (1) بسم اللہ سے ابتدا کرنا ۔کیونکہ یہ حدیث عام ہے: ”ہر مرتبہ والا کام ۔۔۔الخ “ اور نیت کے ساتھ ابتدا کرنا ، تاکہ اس کا یہ فعل وضو کی طرح عبادت قرار پائے جس پر اسے ثواب دیا جائے ۔
(مراقی الفلاح،کتاب الطھارۃ،فصل فی سنن الغسل،ص73،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
(ہ)غسل میت میں کچھ تفصیل ہےکہ میت کاغسل درست ہونے کے لیے نیت ضروری نہیں ہے، بغیرنیت وارادہ اس پرپانی بہا دیا بلکہ اگرخودبہہ گیا، مثلامیت پانی میں گرگئی اورسارے بدن پر پانی بہہ گیا، توغسل درست ہوگیاکہ اب اگراس پرنمازجنازہ پڑھی جائے گی تونمازدرست ہوجائے گی۔ ہاں بندوں پرسے فرض کفایہ اترنے کے لیے نیت ضروری ہے اوراس كی نیت میں صرف فعل غسل کاقصدکرناکافی ہے، میت کوغسل دینے کی نیت کرناضروری نہیں ۔اسی طرح شریعت کاحکم بجالانے کی نیت، یاکسی بھی طرح ثواب کی نیت کرناضروری نہیں۔ ہاں ثواب حاصل کرنے کے لیے ثواب کی نیت کرناضروری ہے۔
فتح القدیرمیں ہے : " وهل يشترط للغسل النية؟ . الظاهر أنه يشترط لإسقاط وجوبه عن المكلف لا لتحصيل طهارته هو وشرط صحة الصلاة عليه عن أبي يوسف في الميت إذا أصابه المطر أو جرى عليه الماء لا ينوب عن الغسل؛ لأنا أمرنا بالغسل. انتهى.ولأنا لم نقض حقه بعد. "ترجمہ:کیا غسل کے لیے نیت شرط ہے ؟ ظاہر یہ ہے کہ مکلف سے واجب کو ساقط کرنے لیے شرط ہے ،میت کو پاک کرنے کے لیے شرط نہیں ہے اور میت پر نماز کے درست ہونے کے لیے شرط ہے ۔میت اگر بارش میں بھیگ جائے یا اس پر (کسی اور طرح سے)پانی پڑ جائے تو حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ یہ غسل کے قائم مقام نہیں ہوگا، کیونکہ ہمیں غسل دینے کا حکم دیا گیا ہے ۔انتہی۔اور اس وجہ سے کہ ابھی تک ہم نے اس کا حق ادا نہیں کیا ۔ (فتح القدیر،فصل فی الغسل،ج02،ص109،کوئٹہ)
فتاوی رضویہ میں ہے: " اگر میت دریا میں ملے تو جب تک اَحیا اپنے قصد سے اسے پانی میں جنبش نہ دیں اُن پر سے فرض نہ اُترے گا۔ مگر میت کے سب بدن پر پانی گزر گیا تو اُسے طہارت حاصل ہوگئی، یونہی بے غسل دیے اس پر نماز جنازہ جائز ہے اور خاص غسلِ میت کی نیت تو اَحیا پر بھی ضرور نہیں، اپنا قصدی فعل کافی ہے۔ یہی اس مسئلہ میں توفیق وتحقیق ہے ۔۔۔۔۔ وغسل المیت لہ وجھان؛ وجہ الی الشرطیۃ وھو عدم صحۃ الصلاۃ علیہ بدون الطھارۃ، وھذا مایکفی فیہ وجودہ بلا ایجادہ کطھارۃ الحی، ووجہ الی الفرضیۃ علینا ولا یتأتی الا بفعل توقعہ قصدا ولولم تقصد العبادۃ المامور بھا . وھذا معنی قول ابی یوسف، لانا امرنا بالغسل . وقول المحیط ان الخطاب یتوجہ الی بنی اٰدم . وبھذا تتفق الکلمات ویظھرمافی کلام الغنیۃ، وللّٰہ الحمد۔ (ترجمہ:غسل میت کی دو وجہیں ہیں ایک تو شرطیہ کی طرف اور وہ یہ ہے کہ اس پر نماز بلا طہارت جائز نہیں اور اس صورت میں غسل کا وجود کافی ہے خواہ اس کی طرف سے ایجاد نہ ہو، جیسے زندہ انسان کی پاکی اور ایک وجہ ہم پر فرضیت کی ہے اور یہ اُسی فعل سے ادا ہوسکتی ہے جو قصداً کیا جائے اگرچہ مامور بہا عبادت کا قصد نہ کیا جائے اور یہی مفہوم ہے حضرت امام ابو یوسف کے قول ''اس لئے کہ ہم کو غسل کا حکم دیا گیا ہے'' کا اور محیط کے اس قول ''کہ خطاب بنو آدم کی طرف متوجہ ہے'' کا بھی یہی مفہوم ہے،اس طرح مختلف اقوال میں تطبیق ہوجائے گی اور جو غنیہ میں ہے وہ ظاہر ہوجائے گا۔ وللہ الحمد )۔" (فتاوی رضویہ،ج02،ص115تا 117،رضافاونڈیشن،لاہور)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع