30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
فتویٰ :56
مسافر کے لیے تراویح اور دیگر سنتیں چھوڑنے کا حکم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم جس جگہ کام کرتے ہیں وہ جگہ کراچی سے تین سو کلو میٹر دور واقع ہے اور آس پاس کوئی مستقل آبادی بھی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی باقاعدہ مسجد ہے ، یہ جگہ بھٹ کا پہاڑی سلسلہ کہلاتا ہے اور اس کے قریب کوئی شہر یا بڑی آبادی نہیں، البتہ 45کلومیٹر کے فاصلے پر سہون شریف واقع ہے ۔کمپنی کے اندر دو جگہیں نماز کے لیے مخصوص کی ہوئی ہیں، جن میں سے ایک کو مستقبل میں باقاعدہ مسجد بنانے کا ارادہ ہے ، ان دونوں جگہوں پر پنج وقتہ نماز ادا کی جاتی ہے اور ایک جگہ پر جمعہ کی نماز بھی ادا کی جاتی ہے ۔ہماری ڈیوٹی کا شیڈول کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ ہمیں چودہ دن سائٹ پر رہنا ہوتا ہے اور چودہ دن ہم فیلڈ بریک پر گھر آجاتے ہیں، لیکن کبھی کبھار طے شدہ پروگرام کے تحت اور کبھی ایمرجنسی میں سائٹ پر چودہ دن سے زیادہ بھی رکنا پڑتا ہے ۔ ہماری آمد و رفت اکثر ہوائی جہاز کے ذریعے ہوتی ہے ۔
جہاں ہماری رہائش کا انتظام کیا گیا ہے ،وہ ہائی کلاس سٹینڈرڈ کے مطابق ہے اور ہر طرح کی بنیادی سہولیات ہمیں میسر ہیں ، ہمارا ضروری سامان وہیں رکھا رہتا ہے ۔اس کمپنی میں تقریباً ڈیڑھ سو ملازمین مذکورہ طریقے کے مطابق کام کرتے ہیں، جبکہ پینتیس سے چالیس افراد وہاں مستقل رہائش پذیرملازم ہیں ،جو چند مخصوص ایام میں ہی چھٹی پر گھر جاتے ہیں ۔ واضح رہے کہ یہ جگہ ہر ایک کے گھر سے شرعی سفر یعنی تقریباً92 کلومیٹر سے زائد فاصلے پر واقع ہے ، لہٰذا مذکورہ صورتِ حال کے پیشِ نظر درج ذیل اُمور میں رہنمائی فرما دیں :
(1)کیا ہمیں تراویح اور دیگر سنتیں چھوڑنے کی اجازت ہو گی ؟
(2)مذکورہ فیکٹری میں جمعہ کی ادائیگی کا کیا حکم ہے ؟
بسمِ اﷲالرَّحمنِ ا لرَّحِیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
(1)فیکٹری میں اگرچہ آپ مسافر ہیں مگر حالتِ امن و قرار میں ہوتے ہیں، اس لیے وہاں تراویح اور دیگر سنتیں ادا کرنے کا معمول بنائیں، کیونکہ سنتیں فرائض کی تکمیل کے لیے مشروع ہوئی ہیں اور مسافرکو بھی فرض کو مکمل کرنے کی حاجت ہے ۔
بحر الرائق میں ہے:’’واختلفوا فی ترک السنن فی السفر فقیل :الأفضل ھو الترک ترخیصا وقیل الفعل تقربا وقال الھندوانی:الفعل حال النزول والترک حال السیر ، وقیل یصلی سنۃ الفجر خاصۃ ، وقیل سنۃ المغرب أیضا ، وفی التجنیس والمختار أنہ إن کان حال أمن وقرار یأتی بھا لأنھا شرعت مکملات والمسافر إلیہ محتاج وإن کان حال خوف لا یأتی بھالأنہ ترک بعذر‘‘ترجمہ :سفر کی حالت میں سنتیں چھوڑنے میں علما کا اختلاف ہے ، ایک قول یہ ہے کہ رخصت کے طور پر ترک کرنا افضل ہے اور ایک یہ ہے کہ نیکی اور قربِ الہی کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے سنتیں ادا کرنا افضل ہے اور امام ہندوانی رَحِمَہُ اللہُ نے فرمایا کہ جب سفر نہ کر رہے ہوں، تو ادا کریں اور جب سفر کر رہے ہوں ،تو چھوڑ دیں اور ایک قول کے مطابق بالخصوص فجر کی سنتیں ادا کرے گا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مغرب کی سنتیں بھی ادا کرے گا ، اور تجنیس میں ہے کہ مختار قول یہ ہے کہ اگر امن و قرار کی حالت میں ہے، تو سنتیں ادا کرے ،کیونکہ سنتیں فرض کی تکمیل کے لیے مشروع ہیں اور مسافر بھی فرض کی تکمیل کا محتاج ہے اور اگر( سواری نکل جانے کا) خوف ہو تو ادا نہ کرے، کیونکہ یہاں عذر کی وجہ سے سنت کو ترک کیا ہے ۔(1)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ امجدیہ میں بحالتِ سفر سنتیں ادا کرنے کے متعلق حکم لکھنے کے بعد فرماتے ہیں :’’یہ حکم سنتِ فجر کے غیر کا ہے اور سنتِ فجر چونکہ قریب بوجوب ہے، لہٰذا سفر کی وجہ سے اس کے ترک کی اجازت نہیں اور بعض ائمہ کا قول یہ بھی ہے کہ مغرب کی سنتیں بھی ترک نہ کرے ،کیونکہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر وحضر کہیں بھی اس کو ترک نہیں کیا ہے ۔‘‘(2)
(2)فیکٹری کے اندر جمعہ ادا کرنا متعدد اعتبارات کی بِنا پر درست نہیں،مثلاً:ادائے جمعہ کے لیے شرط ہے کہ شہر میں ہو اور فیکٹری شہر میں نہیں ہے ، اسی طرح فیکٹری میں اذنِ عام نہیں ہوتا یعنی ایسا نہیں ہوتا ، کہ جو نماز ادا کرنا چاہے وہ ادا کر لے، بلکہ مخصوص افراد جو وہاں کے ملازم ہوتے ہیں ، صرف انہی کو جمعہ ادا کرنے کی اجازت ہوتی ہے ، جو کہ جمعہ قائم کرنے کی شرائط میں سے ہے ، ہاں جو عوام وہاں جمعہ کی نماز ادا کرتی ہے، انہیں جمعہ ادا کرنے سے نہ روکا جائے کہ عوام جس طرح بھی اللہ کا نام لیں غنیمت ہے ۔
امام حاکم شہید رحمۃ اللہ علیہ کافی میں فرماتے ہیں :’’فأما الشرائط في غير المصلى لأداء الجمعة فستة المصر والوقت والخطبة والجماعة والسلطان والإذن العام‘‘ ترجمہ :جہاں نمازِ جمعہ ادا کی جاتی ہے ، اس کے علاوہ کسی جگہ جمعہ پڑھنے کی چھ شرطیں ہیں ، شہر ہونا ، وقت ، خطبہ ، جماعت ، سلطان اور اذنِ عام ہونا ۔
امام شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :’’والإذن العام من شرائطھا حتی أن السلطان إذا صلی بحشمہ فی قصرہ فإن فتح باب القصر وأذن للناس إذنا عاما جازت صلاتہ شھدھا العامۃ أو لم یشھدوھا وإن لم یفتح باب قصرہ ولم یأذن لھم فی الدخول لا یجزئہ‘‘ترجمہ: جمعہ کی ادائیگی کی شرائط میں سے اذنِ عام ہونا ہے یہاں تک کہ اگر سلطان اپنی جاہ و حشمت کے ساتھ اپنے محل میں جمعہ ادا کرتا ہے، تو اگر اس نے دروازہ کھول دیا اور لوگوں کو آنے کی عام اجازت دے دی، تو اس کی نماز ہو جائے گی ، لوگ آئیں یا نہ آئیں ۔ اور اگر اس نے محل کا دروازہ نہ کھولا ، نہ انہیں داخل ہونے کی اجازت دی تو اس کا جمعہ نہیں ہوا ۔(3)
فتاویٰ رضویہ میں ہے: ’’جمعہ وعیدین دیہات میں ناجائز ہیں اور ان کا پڑھنا گناہ، مگر جاہل عوام اگر پڑھتے ہوں، تو ان کو منع کرنے کی ضرورت نہیں کہ عوام جس طرح اﷲ ورسول کا نام لے لیں غنیمت۔‘‘(4
واللہ اعلمعزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبــــــــــــــــــــــہ
مفتی محمد قاسم عطاری
21جمادی الثانی1437ھ/31مارچ2016ء
فتویٰ :57
مسافرکو جماعت مل جائےتوقصر بہتر ہے یا جماعت ؟نیز جمعہ و عیدین کاحکم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلے میں کہ اگرمسافرکوصحیح جماعت مل جائے،تواس کےلیےقصرکرنا بہتر ہے یا جماعت سے پڑھنا؟ جمعہ وعیدین کاکیاحکم ہے؟
بسمِ اﷲالرَّحمنِ ا لرَّحِیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
صورت مسئولہ میں اگرشرعی مسافررواروی کی حالت میں نہ ہو،بلکہ مطلوبہ مقام پر پہنچ گیا،تواس کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ باجماعت نماز پڑھے،لیکن اگر کوئی نہیں پڑھے، تو اسے ترک جماعت کی وجہ سے گنہگارنہیں کہاجائے گا کہ مسافرکے حق میں جماعت کا وہ تاکیدی حکم نہیں رہتا، جو مقیم کے حق میں ہے جیساکہ سنت مؤکدہ کا مسافر کے حق میں وہ تاکیدی حکم نہیں رہتا، جو مقیم کےلئےہے،ہاں جو مقتدا و پیشوا ہو اس کے لئے حد درجہ نامناسب بات ہے کہ مسافر ہونے کی وجہ سے وہ حاضری مسجد و جماعت ترک کرے۔
جیساکہ ابو البرکات محمد مصطفی رضا قادری نوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :”بلا وجہ شرعی جوتارک جماعت ومسجد ہو فاسق ہے،مگر جو نماز وہ گھر میں پڑھے گا ہوجائے گی، بےوجہ شرعی ترک جماعت و مسجد کا اس پر الزام ہوگا،مگر مسافر کہ اسے رخصت ہے ،بہتر اس کے لئے بھی حاضری مسجد وجماعت ہے،مگراس پر لازم نہیں، خصوصا ًمقتدی وپیشوا اصحاب کے لئے ان کا ترک مسجد وجماعت محض بر بنائے سفر ہر گز مناسب نہیں، حد درجہ نامناسب ہے۔“(5)
صدرالشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :”اگر سفر میں اطمینان نہ ہو جب تو سنتوں کے ترک میں کوئی قباحت ہی نہیں اور اطمینان ہو جب بھی سنن کا تاکد جو حضر میں ہے وہ سفر میں نہیں رہتا کہ سفر خود ہی قائم مقام مشقت کےہے۔ درمختارمیں ہے: ’’(و یأتی) المسافر(بالسنن )ان کان( فی حال امن وقراروالا)بان کان فی خوف وفرار (لا)یأتی بھاوھوالمختارلانہ ترک لعذر‘‘اور یہ حکم سنت فجر کے غیر کا ہے اور سنت فجر چونکہ قریب بوجوب ہے لہذا سفر کی وجہ سے اس کے ترک کی اجازت نہیں اور بعض ائمہ کا یہ قول بھی ہے کہ مغرب کی سنتیں بھی ترک نہ کرے، کیونکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر وحضر کہیں بھی اس کو ترک نہیں کیاہے۔(6)
اسی طرح جمعہ وعیدین مسافر شرعی پر فرض نہیں ہیں، لیکن اگرپڑھے گا،توثواب پائے گااور جمعہ پڑھنے کی صورت میں اس سے ظہر ساقط ہوجائے گی۔
چنانچہ مبسوط سرخسی میں ہے:’’اذامرالامام بمدینۃوھومسافرفصلی بھم الجمعۃ اجزأہ واجزأھم نقول قد اقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الجمعۃ بمکۃ وھو کان مسافر بھا وانمالا یجب الحضور علی المسافر لدفع الحرج فاذا حضر و ادی کان مفترضاکالمریض۔ ملخصا‘‘یعنی جب امام حالت سفر میں کسی شہر سے گزرے اور انہیں نماز جمعہ پڑھائے، تو امام اور لوگوں کو جمعہ کافی ہو گا، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکۃ المکرمہ میں جمعہ قائم فرمایا ،حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں مسافر تھے اور جو یہ کہا گیا ہے کہ مسافر پر جمعہ واجب نہیں ہے، اس کی وجہ مسافر سے حرج کو دور کرنا ہے، تو اگر وہ خود جمعہ کے لئے حاضر ہوگیا اور جمعہ ادا کرلیا، تو وہ مریض کی طرح فرض جمعہ ادا کرنے والاہوگا۔(7)
صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :” گاؤں میں رہنے والا شہر میں آیا اور جمعہ کے دن یہیں رہنے کا ارادہ ہے، تو جمعہ فرض ہے اور اسی دن واپسی کا ارادہ ہو تو زوال سے پہلے یا بعد، تو فرض نہیں مگرپڑھے تو مستحقِ ثواب ہے،یونہی مسافر شہر میں آیا اور نیتِ اقامت نہ کی تو جمعہ فرض نہیں ۔“(8)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
مفتی فضیل رضا عطاری
22ذوالحجۃالحرام1428ھ/02جنوری2008ء
فتویٰ :58
سفر میں سنتوں کا حکم ، نیز حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکی روایات میں تطبیق
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
(1)مسافرِ شرعی کے لیے نماز کی سنتوں کی ادائیگی کا کیا حکم ہے ؟
(2)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے ،آپ فرماتے ہیں:’’ لو أتيت بالسنن في السفر لأتممت الفريضة‘‘ یعنی : سفر میں اگر میں نے سنتیں ادا کرنی ہوتیں، تو میں فرض نماز ہی پوری پڑھ لیتا ‘‘اس فرمان کا کیا محمل ہے ؟برائے کرم رہنمائی فرمائیں ۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب
(1)مسافرِ شرعی کو حالتِ خوف و اضطرار میں سنتیں معاف ہیں اور حالتِ امن و قرار میں سنتیں پڑھی جائیں، اگرچہ سنتوں کا تاکد جو حضر میں ہے وہ سفر میں نہیں رہتا ،کہ سفر خود ہی مشقت کے قائم مقام ہے ،البتہ فجر کی سنتیں کہ یہ قریب بواجب ہیں، سفر کی وجہ سے انہیں ترک کرنے کی اجازت نہیں اور بعض ائمہ کا قول یہ بھی ہے کہ مغرب کی سنتیں بھی ترک نہ کرے ، کیونکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر و حضر کہیں بھی انہیں ترک نہیں کیا۔
تنویر الابصار و در مختار میں ہے :’’ (ويأتي) المسافر (بالسنن) إن كان (في حال أمن وقرار وإلا) بأن كان في خوف وفرار (لا) يأتي بها هو المختار لأنه ترك لعذر ‘‘ ترجمہ: مسافر اگر حالتِ امن و قرار میں ہے، تو سنتیں ادا کرے گا اور اگر حالتِ خوف و فرار میں ہے، تو سنتیں چھوڑ سکتا ہے یہی مختار ہے، کیونکہ اس صورت میں عذر کی وجہ سے سنتیں ترک کرنا ہے۔
اس کے تحت رد المحتار میں علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’وقيل الأفضل الترك ترخيصا، وقيل الفعل تقربا. وقال الهندواني: الفعل حال النزول والترك حال السير، وقيل يصلي سنة الفجر خاصة، وقيل سنة المغرب أيضاً بحر قال في شرح المنية والأعدل ما قاله الهندواني.قلت: والظاهر أن ما في المتن هو هذا وأن المراد بالأمن والقرار النزول وبالخوف والفرار السير لكن قدمنا في فصل القراءة أنه عبر عن الفرار بالعجلة لأنها في السفر تكون غالبا من الخوف تأمل‘‘ ترجمہ: اور کہا گیا ہے کہ افضل یہ ہے کہ سنتیں ترک کر دے رخصت پر عمل کرتے ہوئے ، اور ایک قول کے مطابق سنتیں ادا کرنا افضل ہے ثواب کے حصول کے لیے۔ اور ہندوانی نے کہا: حالتِ نزول میں سنتیں ادا کرے اور حالتِ سیر میں ترک کر دے، اور ایک قول کے مطابق بالخصوص سنتِ فجر ادا کرے، اور ایک قول کے مطابق سنتِ مغرب بھی ادا کرے ، بحر۔ شرح منیہ میں فرمایا: جو ہندوانی نے کہا وہ سب سے معتدل قول ہے ۔ میں کہتا ہوں : ظاہر یہ ہے کہ جو متن میں بیان ہوا وہ یہی ہے اور امن و قرار سے مراد نزول ہے اور خوف و فرار سے مراد سیر ہے، لیکن ہم نے قراءت کی فصل میں پہلے بیان کیا کہ فرار کو عجلت سےتعبیر کیا ہے، کیونکہ سفر میں عجلت خوف سے زیادہ ہوتی ہے ، غور کرو۔(9)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے :’’ولا قصر في السنن، كذا في محيط السرخسي، وبعضهم جوزوا للمسافر ترك السنن والمختار أنه لا يأتي بها في حال الخوف ويأتي بها في حال القرار والأمن، هكذا في الوجيز للكردري‘‘ ترجمہ: سنتوں میں قصر نہیں ایسا ہی محیط سرخسی میں ہے اور بعض فقہاء نے مسافر کے لیے سنتیں ترک کرنا ،جائز قرار دیا ہے اور مختار یہ ہے کہ حالتِ خوف میں مسافر سنتیں ادا نہ کرے اور حالتِ قرار و امن میں ادا کرے گا،ایسا ہی وجیز کردری میں ہے۔(10)
البحر الرائق میں ہے :’’ والمختار أنه إن كان حال أمن وقرار يأتي بها، لأنها شرعت مكملات والمسافر إليه محتاج، وإن كان حال خوف لا يأتي بها، لأنه ترك بعذر ‘‘ترجمہ: مختار یہ ہے کہ اگر مسافر حالتِ امن و قرار میں ہے، تو سنتیں ادا کرے گا، کیونکہ سنتیں نماز کو مکمل کرنے کے لیے مشروع ہوئی ہیں اور مسافر بھی اس کا محتاج ہے ، اور اگر مسافر حالتِ خوف میں ہو، تو سنتیں ادا نہ کرے کہ اس صورت میں اس نے عذر کی وجہ سے ترک کی ہیں۔ (11)
بہار شریعت میں ہے :’’ سنتوں میں قصر نہیں ،بلکہ پوری پڑھی جائیں گی ،البتہ خوف اور رواداری کی حالت میں معاف ہیں اور امن کی حالت میں پڑھی جائیں۔‘‘(12)
صدر الشریعہ ، حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ سے سفر میں سنتیں پڑھنے کے بارے میں سوال ہوا، تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جوابا فرمایا: ’’اگر سفر میں اطمینان نہ ہو جب تو سنتوں کے ترک میں کوئی قباحت ہی نہیں اور اطمینان ہو جب بھی سنن کا تاکد جو حضر میں ہے وہ سفر میں نہیں رہتا کہ سفر خود ہی قائم مقام مشقت کے ہے۔۔۔ اور یہ حکم سنت فجر کے غیر کاہے اور سنت فجر چونکہ قریب بوجوب ہے، لہذا سفر کی وجہ سے اسے ترک کی اجازت نہیں اور بعض ائمہ کا قول یہ بھی ہے کہ مغرب کی سنتیں بھی ترک نہ کرے، کیونکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر و حضر کہیں بھی اس کو ترک نہیں کیاہے۔واللہ تعالیٰ اعلم‘‘(13)
(2)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سفر میں سنتیں پڑھنے اور نہ پڑھنے کے حوالے سےدونوں طرح کی روایات مروی ہیں، بعض میں سنتیں پڑھنے کا ذکر ہے اور بعض میں نہ پڑھنے کا، جن میں دو طرح سے تطبیق دی گئی ہے ۔
تطبیق کی پہلی صورت:
جن روایات میں پڑھنے کا ذکر ہے ان میں عزیمت کا بیان ہے اور جن میں نہ پڑھنے کا ذکر ہے، ان میں رخصت کا بیان ہے، لہٰذا اگر کوئی سفر میں سنتیں ادا کرتا ہے، تو اجر و ثواب کا مستحق ہے اور اگر کوئی سنتیں ادا نہیں کرتا، تو رخصت پر عمل کرنے والا ہے ۔
سنن ترمذی میں ہے :’’وروي عن ابن عمر أن النبي صلى اللہ عليه وسلم كان لا يتطوع في السفر قبل الصلاة ولا بعدهاوروي عنه عن النبي صلى اللہ عليه وسلم أنه كان يتطوع في السفر‘‘ترجمہ :حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسفر میں نماز سے پہلے اور نماز کے بعد نفل نماز ادانہیں فرماتے تھے۔اور انہی سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسفر میں نفل ادا فرماتے تھے ۔
ان دو روایتوں کو نقل کرنے کے بعد امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ ثم اختلف أهل العلم بعد النبي صلى اللہ عليه وسلم، فرأى بعض أصحاب النبي صلى اللہ عليه وسلم، أن يتطوع الرجل في السفر، وبه يقول أحمد، وإسحاق ولم تر طائفة من أهل العلم أن يصلى قبلها ولا بعدها، ومعنى من لم يتطوع في السفر قبول الرخصة، ومن تطوع فله في ذلك فضل كثير، وهو قول أكثر أهل العلم يختارون التطوع في السفر‘‘ترجمہ :نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اہل علم کا اس معاملے میں اختلاف ہوا بعض صحابہ کی رائے یہ ہوئی کہ انسان سفر میں نفل ادا کرے، یہ امام احمد و اسحاق کا قول ہے اور اہل علم کا ایک گروہ یہ رائے نہیں رکھتا کہ مسافر فرض سے پہلے یا بعد نفل ادا کرے اور نفل نہ پڑھنے کا مطلب رخصت کو قبول کرنا ہے، اور جو نفل ادا کرے اس کے لیے اس میں فضلِ کثیر ہے، اور یہی اکثر اہل علم کا قول ہے کہ وہ سفر میں نوافل کی ادائیگی کو اختیار کرتے ہیں ۔(14)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اس بارے میں مروی مزید دو روایات:
سنن ترمذی میں ہے :’’حدثنا علي بن حجر قال: حدثنا حفص بن غياث، عن الحجاج، عن عطية، عن ابن عمر قال: صليت مع النبي صلى اللہ عليه وسلم الظهر في السفر ركعتين وبعدها ركعتين: هذا حديث حسن، وقد رواه ابن أبي ليلى عن عطية، ونافع، عن ابن عمر۔
عن ابن عمر، قال: صليت مع النبي صلى اللہ عليه وسلم في الحضر والسفر ، فصليت معه في الحضر الظهر أربعا وبعدها ركعتين، وصليت معه في السفر الظهر ركعتين وبعدها ركعتين، والعصر ركعتين ولم يصل بعدها شيئا، والمغرب في الحضر والسفر سواء ثلاث ركعات، لا ينقص في حضر ولا سفر، وهي وتر النهار، وبعدها ركعتين ترجمہ:حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں : میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر میں ظہر کی دو رکعتیں اور ظہر کے بعد دو رکعتیں ادا کیں ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر و حضر میں نماز ادا کی ہے ، پس حضر میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ظہر کی چار رکعتیں اور ان کے بعد دو رکعتیں ادا کیں ، اور سفر میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ظہر کی دو رکعتیں اور ان کے بعد دو رکعتیں ادا کیں ، اور عصر کی دو رکعتیں ادا کیں، جن کے بعد مزید کوئی نماز نہ پڑھی، اور مغرب حضر و سفر میں تین رکعتیں ادا کیں ، ان میں حضر و سفر میں کوئی کمی نہیں کی، اور یہ دن کے وتر ہیں ، اور ان کے بعد دو رکعتیں ادا کیں ۔
اس روایت کے بارے میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’هذا حديث حسن، سمعت محمدا، يقول: ما روى ابن أبي ليلى حديثا أعجب إلي من هذا، ولا أروي عنه شيئا ‘‘ ترجمہ:یہی حدیث حسن ہے ، میں نے امام محمد بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو فرماتے ہوئے سنا : ابن ابی لیلی کی روایت کردہ حدیث میرے نزدیک اس حدیث سے زیادہ پسندیدہ ہے اور میں ان سے کچھ بھی روایت نہیں کرتا۔(15)
تطبیق کی دوسری صورت:
جس روایت میں یہ ذکر ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر میں سنتیں ادا نہ فرمائیں اسے عمومی عمل پر محمول کریں گےاور جس روایت میں پڑھنے کا ذکر ہے،اسے بیانِ استحباب پر محمول کریں گے یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر میں بیانِ استحباب کے لیے سنتیں ادا فرمائی ہیں ،لہٰذا دونوں طرح کی روایتوں میں کوئی تعارض نہیں۔
صحیح بخاری میں ہے :’’ حدثنا مسدد قال حدثنا يحيى عن عيسی بن حفص بن عاصم قال حدثني أبي أنه سمع ابن عمر يقول: صحبت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم فكان لا يزيد في السفر على ركعتين وأبا بكر وعمر وعثمان كذالك رضي اللہ تعالى عنهم‘‘ ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہمافرماتے ہیں : میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار کی ۔آپ علیہ الصلوۃ والسلام سفر میں دو رکعتوں پر زیادتی نہ فرماتے اور حضرت ابو بکر و عمر و عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ایسا ہی کرتے۔(16)
اس حدیث پاک کے تحت عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں علامہ بد ر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ بالا جامع ترمذی کی آخری روایت نقل کرنے کے بعد سوال قائم کرتے ہیں کہ ان دونوں روایتوں میں کیا تطبیق ہو گی؟ پھر جواباً فرماتے ہیں :’’ أما وجه التوفيق فقد قال شيخنا زين الدين، رحمه اللہ: الجواب أن النفل المطلق وصلاة الليل لم يمنعهما ابن عمر ولا غيره، فأما السنن الرواتب فيحمل حديثه المتقدم، يعني حديث الباب، على الغالب من أحواله في أنه لا يصلي الرواتب، وحديثه في هذا الباب أي: الذي رواه الترمذي، على أنه فعله في بعض الأوقات لبيان استحبابها في السفر، وإن لم يتأكد فعلها فيه كتأكده في الحضر، أو أنه كان نازلا في وقت الصلاة ولا شغل له يشتغل به عن ذلك، أو سائرا وهو على راحلته، ولفظه في الحديث المتقدم: يعني حديث الباب، هو بلفظ: كان، وهي لا تقتضي الدوام بل ولا التكرار على الصحيح، فلا تعارض بين حديثيه ‘‘ ترجمہ: بہر حال تطبیق کی صورت تو ہمارے شیخ زین الدین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جواب یہ ہےکہ مطلقاً نفل اور صلوٰۃ اللیل کی ادائیگی سے حضرت ابن عمر یا کسی اور نے منع نہیں کیا ، بہر حال سنن رواتب تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی متقدم حدیث یعنی جو اس باب میں ہے اسے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غالب احوال پر محمول کیا جائےگا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام سفر میں سنن رواتب ادا نہ فرماتے تھے، اور اس باب میں جو امام ترمذی کی روایت ہے اسے اس پر محمول کریں گے کہ بعض اوقات بیانِ استحباب کے لیے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے سفر میں سنتیں ادا فرمائیں، اگرچہ سفر میں سنتوں کی ادائیگی کا تاکد حضر میں ادائیگی کے تاکد کی طرح نہیں ، یا پھر اس پر محمول کریں گے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نماز کے لیے سواری سے اترے اور کوئی کام انہیں مشغول کرنے والا نہ تھا، اس لیے سنتیں بھی ادا فرمائیں ،یا اس پر محمول کریں گے کہ سواری پر چلتے ہوئے ہی سنتیں ادا کیں۔اور صحیح بخاری کے اس باب کی حدیث میں جو لفظ ’’ کان ‘‘ہے یہ دوام بلکہ صحیح قول کے مطابق تکرار کا بھی تقاضا نہیں کرتا، لہذا دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض نہیں۔(17)
رہی بات سوال میں مذکور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے فرمان کی،تو فقہائے کرام نے اس کا محمل حالتِ خوف کو بیان فرمایا ہے کہ جب مسافر کے لیے سنتیں ادا کرنے کے لیے رکنا ممکن نہ ہو، تو اب سنتیں معاف ہیں۔
بدائع الصنائع میں ہے :’’ وروي عن بعض الصحابة أنه قال: " لو أتيت بالسنن في السفر لأتممت الفريضة " وذلك عندنا محمول على حالة الخوف على وجه لا يمكنه المكث لأداء السنن ‘‘ ترجمہ: اور جو کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: اگر میں نے سفر میں سنتیں ادا کرنی ہوتیں، تو میں فرض ہی مکمل پڑھ لیتا ۔ ہمارے نزدیک یہ حالتِ خوف میں ایسی صورت پرمحمول ہو گا کہ جس صورت میں اس کے لیے سنتیں ادا کرنے کے لیے رکنا ممکن نہ ہو ۔(18)
واللہ اعلمعزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبــــــــــــــــــــــہ
مفتی محمد ہاشم خان عطاری
07رجب المرجب1444ھ/30جنوری2023ء
متفرقات
فتویٰ :59
بس میں سفر کرتےہوئےنماز کا وقت آجائے توکیا حکم ہے
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض اوقات بس میں نماز کا ٹائم ہوجاتا ہے، تو کیا بس میں نماز پڑھ کر شرعی مسافر اپنے مقام پر پہنچ کر اس نماز کو ادا کرسکتا ہے ؟
بسمِ اﷲالرَّحمنِ ا لرَّحِیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
عموماً نماز کے ٹائم میں بسیں کسی مخصوص مقام پر روکی جاتی ہیں ،لہٰذا جہاں بس رکے وہاں نماز ادا کرلیں اور اگر بس نہ رکے اور نماز کا وقت بھی ختم ہورہا ہو، تو بس ڈرائیور کو نماز کا کہہ کر بس رکوا لیں اور نماز ادا کرلیں اس طرح اپنے مقام پر جاکر دوبارہ اس نماز کو ادا کرنے کی حاجت نہیں کہ جب سفر کرنے والے مسلمان ہیں ، ڈرائیور مسلمان ہیں ، یہ ملک مسلمانوں کا ہے، تو کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ نماز کے لیے چند منٹ کے لیے کسی جگہ گاڑی روک کر نماز ادا نہیں کی جاسکتی ؟ اگر نہ رکنے کا شبہ ہو، تو پہلے بات کرلیں کہ فلاں نماز کا وقت آئےتو آپ کو گاڑی روکنی ہوگی۔
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبــــــــــــــــــــــہ
مفتی فضیل رضا عطاری
16محرم الحرام 1429ھ/26جنوری2008ء
فتویٰ : 60
جمعہ والے دن زوال کے بعد جمعہ ادا کیے بغیر سفر کے لیے نکلنا گناہ ہے
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ حید ر آباد زید کا وطن اصلی ہے، لیکن کراچی میں وہ گورنمنٹ ملازم ہے ،نوکری کے سلسلے میں وہ تین چار دن کراچی اور تین چار دن حیدر آباد رہتا ہے ،پوچھنا یہ ہے کہ ایسے شخص پر جمعہ فرض ہے یا نہیں ؟ نیز بقیہ فرائض کو وہ حید ر آباد یا کراچی میں قصر کیساتھ ادا کرے گا یا پھر دونوں جگہوں پر پوری نمازیں ادا کرے گا ؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
حیدر آباد چونکہ زید کا وطن اصلی ہے ،لہٰذا حیدر آباد میں زید پر جمعہ فرض اور جمعہ والے دن زوال کے بعد جمعہ ادا کیے بغیر سفر کے لیے نکلنا باعث گناہ ہے ،ہاں البتہ زوال سے پہلے سفر شروع کرنے میں کوئی حرج نہیں اور دیگر فرائض کو مکمل ادا کرنا لازم ہے ،چاہے حیدر آباد میں زیدکا قیام ایک دن کے لیے ہو یا ایک گھنٹہ کے لیے، البتہ آتے جاتے وقت راستہ میں اور کراچی میں پندرہ دن سے کم کی نیت سے جب بھی قیام کا ارادہ ہوگا ،زید شرعی اعتبار سے مسافر قرار پائے گا ،مسافر پر جمعہ فرض نہیں ہوتا اور مسافرپر نمازوں میں قصر کرنا (یعنی چار رکعت والی نمازوں کو دو ،دو رکعت کی صورت میں ادا کرنا ) لازم ہے اور پوری پڑھنے کی صورت میں گنہگار قرار پائے گا اور دو پر قعدہ نہیں کیا ،تو فرض ہی ادا نہ ہوں گے ۔
چنانچہ ہدایہ شریف میں ہے:’’و فرض المسافر فی الرباعیۃ رکعتان لا یزید علیھما ،ولا یزال علی حکم السفر حتی ینوی الاقامۃ فی بلدۃ او قریۃ خمسۃ عشر یوما او اکثر وان نوی الاقل من ذلک قصر‘‘ یعنی چار رکعت والی نمازوں میں مسافر پر دو رکعتیں فرض ہیں ان دو سے زیادہ نہیں کرے گااور مسافر حکم سفر میں رہے گا جب تک کہ کسی شہر یا گاؤں میں پندرہ دن یا اس سے زائد کے رہنے کی نیت نہ کرلے اگر اس سے کم کی نیت کرے گا،تو قصر کرتا رہے گا ۔(19)
اسی کے آگے ہے: ’’واذا دخل المسافر فی مصرہ اتم الصلاۃ وان لم ینو المقام فیہ‘‘ یعنی جب مسافر اپنے شہر میں داخل ہو گا پوری نماز ادا کرے گا، اگرچہ وہ اس میں رہنے کی نیت نہ کرے ۔(20)
ہدایہ میں ہے :’’ولا تجب الجمعۃ علی مسافر ولا امراۃ ولا مریض ولا عبد ولا اعمی‘‘ یعنی مسافر ،عورت ،غلام ،اندھے و مریض پر جمعہ واجب نہیں ۔(21)
یاد رہے کہ جمعہ واجب نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اگر مسافر نے جمعہ کی نماز میں شرکت نہ کی تو گنہگار نہ ہوا، بلکہ اس کے بدلے میں ظہر ادا کرے گا اگر آسانی سے میسر ہو ،تو ہرگز جمعہ کی سعادت کو نہ چھوڑا جائے اور جمعہ ادا کرلینے کی صورت میں ظہر کی ادائیگی اس سے ساقط ہو جائے گی ۔
علامہ علاؤالدین حصکفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جمعہ کے فرض ہونے کی شرائط لکھنے کے بعد فرماتے ہیں :’’ان اختار العزیمۃ وصلاھا وھو مکلف بالغ عاقل وقعت فرضا عن الوقت ‘‘ اگر اس نے عزیمت کو اختیار کیا اور جمعہ پڑھ لیا درآنحالیکہ وہ مکلف ہو یعنی عاقل بالغ ہو،تو وقت سے فرض ہی ادا ہوگا ۔
علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں :’’ ای صلاۃ الجمعۃ لانہ رخص لہ فی ترکھا الی الظھر فصارت الظھر فی حقہ رخصۃ والجمعۃ عزیمۃ ‘‘ یعنی عزیمت سے مراد یہ ہے کہ اس نے جمعہ پڑھ لیا، کیونکہ ظہر کی ادائیگی پر اس کے لئے جمعہ چھوڑنے کی رخصت تھی، تو ظہر اس کے حق میں رخصت ہے اور جمعہ عزیمت ۔(22)
سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ مقیم کے لیے جمعہ ادا کرنے سے قبل سفر کے لیے نکلنے کا حکم شرعی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اگر وہ ٹھیک دوپہر ہونے سے پہلے شہر کی آبادی سے نکل جاتا ہے،تواس پر اصلاً کچھ الزام نہیں اور اگر اسے شہر ہی میں وقت جمعہ ہوجاتا ہے اس کے بعد بے پڑھے چلاجاتا ہے، تو ضرور گنہگار ہے۔‘‘(23)
واللہ اعلمعزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
الجواب صحیح کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
مفتی فضیل رضا عطاری محمد سجادعطاری مدنی
24رجب المرجب1431ھ/07جولائی2010ء
1۔ بحر الرائق ، کتاب الصلاۃ، باب المسافر ، جلد2، صفحہ 229-230،مطبوعہ کوئٹہ۔
2۔ فتاوی امجدیہ ، جلد1، صفحہ 284، مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، کراچی
3۔ المبسوط للسرخسی ، کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ الجمعۃ، جلد2، صفحہ 27، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی۔
4۔ فتاوی رضویہ ،جلد8، صفحہ 387، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاہور۔
5۔ فتاوی مصطفویہ ،صفحہ456،مطبوعہ شبیربرادرز لاہور۔
6۔ فتاوی امجدیہ ،جلد 1،صفحہ284،مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی۔
7۔ المبسوط للسرخسی ،جلد 1،صفحہ247،مطبوعہ دار احیاء التراث العربی۔
8۔ بہارشریعت، جلد 1، صفحہ 763،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی
9۔ رد المحتار علی الدر المختار،جلد 2، صفحہ 737،مطبوعہ کوئٹہ۔
10۔ فتاوی عالمگیری ، جلد 1،صفحہ153، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت۔
11۔ البحر الرائق ،جلد 2، صفحہ 230،مطبوعہ کوئٹہ۔
12۔ بہار شریعت ، ج 1 ، صفحہ 744، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی۔
13۔ فتاوی امجدیہ، ج 1، صفحہ 284، مطبوعہ کراچی۔
14۔ سنن الترمذی ، باب ما جاء فی التطوع فی السفر ، صفحہ 162۔163،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت۔
15۔ سنن الترمذی ، باب ما جاء فی التطوع فی السفر ، صفحہ 163،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت۔
16۔ صحیح بخاری ، کتاب الاذان، باب من لم یتطوع فی السفر۔۔۔الخ، صفحہ 207، دار الکتب العلمیہ۔
17۔ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، جلد 07، صفحہ 210،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ۔
18۔ بدائع الصنائع ،جلد 1، صفحہ 466، مطبوعہ کوئٹہ۔
19۔ ہدایہ مع بنایہ، جلد3 ، صفحہ 246 ،مطبوعہ ملتان۔
20۔ ہدایہ مع بنایہ، جلد3 ،صفحہ 269 ،مطبوعہ ملتان۔
21۔ ہدایہ مع بنایہ، جلد3 ، صفحہ 319 ،مطبوعہ ملتان۔
22۔ درمختار مع رد المحتار، جلد 03، صفحہ33، مطبوعہ کوئٹہ
23۔ فتاوی رضویہ ،جلد 8،صفحہ 459، رضا فاؤنڈیشن لاہور۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع