30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
پیشِ لفظ
سفر انسانی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔شاید ہی دنیا میں کوئی شخص ایسا ہو جسے زندگی میں کبھی سفردرپیش نہ ہوا ہو ۔ اللہ کریم نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر کئی احکام میں آسانی فرمائی ہے اور انہی احکام میں سے مسافر کےلیے نماز میں قصر کرنے کا حکم بھی ہے جو کہ اختیاری نہیں بلکہ وجوبی ہے ،لہٰذا فی زمانہ اگر چہ پہلے اَدوار کے مقابلے میں سفر نہایت آسان وآرام دہ ہوچکا ہے اور جدیدذرائع آمد ورفت کی بدولت دنوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوجاتا ہے، مگر اس کی وجہ سے قصر کے حکم میں تبدیلی نہیں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ جب بعض صحابہ کرام کو یہ اِشکال پیش آیا کہ قرآن مجید میں تو فرمایا گیا ہے کہ” نمازیں قصرسےپڑھو،اگر خوف ہوکہ کافر تمہیں فتنہ میں ڈالیں گے“جبکہ اب لوگ امن میں ہیں ،توکیا اب بھی قصر کا حکم برقرار رہے گا؟تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےارشاد فرمایا:”یہ صدقہ ہے،جواللہ نے تم پر تصدق فرمایا، تو اس کا صدقہ قبول کرو۔“
چنانچہ اللہ کریم نے مسافر کو قصر نماز کاحکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:﴿وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْس عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ﴾ ترجمہ کنزالعرفان:’’اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر گناہ نہیں کہ بعض نمازیں قصر سے پڑھو‘‘(1)
مذکورہ آیت مبارکہ کے تحت امام ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”القصر عزيمة غير رخصة ولا يجوز الاكمال “نماز میں قصر کرناعزیمت ہے ، رخصت نہیں اورمکمل چار رکعت ادا کرنا، جائز نہیں ۔(2)
صحيح مسلم شریف میں ہے:”عن يعلى بن أميّة، قال: قلت لعمربن الخطاب:﴿لَیۡسَ عَلَیۡکُمْ جُنَاحٌ اَنۡ تَقْصُرُوۡا مِنَ الصَّلٰوۃِ ٭ۖ اِنْ خِفْتُمْ اَنۡ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا﴾ فقد أمن الناس، فقال: عجبت مماعجبت منه، فسألت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلّم عن ذلك، فقال صدقة تصدق اللہ بها عليكم، فاقبلوا صدقته “حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہسےعرض کی(اللہ پاک نے تو یہ فرمایا) تم پر گناہ نہیں کہ بعض نمازیں قصرسےپڑھو،اگر خوف ہوکہ کافرتمہیں فتنہ میں ڈالیں گے، اب تو لوگ امن میں ہیں۔فرمایا:جس چیز سےتمہیں تعجب ہوا ہے، مجھےبھی اس سے تعجب ہوا تھا،تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا،تو ارشاد فرمایا:یہ صدقہ ہے،جو اللہ نے تم پر تصدق فرمایا، تو اس کا صدقہ قبول کرو۔ (3)
قرآن و حدیث کی روشنی میں نماز کی اہمیت واضح ہے ،جا بجا اس کی تاکید آئی ،نمازیوں کےلیے بے بہا فضائل اور نماز چھوڑنے والوں کےلیے سخت وعیدات ارشاد فرمائی گئیں۔نماز کی اہمیت کو پیش نظر رکھتےہوئےفقہائے کرام نے اس کے حوالے سے ہر طرح کے مسائل کو تفصیلاً بیان فرمایا ہے ۔مثلاً دشمن سےخوف کی حالت میں کیسے نمازپڑھی جائے؟ اس پر باقاعدہ باب قائم کیا گیا،مریض شخص کیسے نماز پڑھے گا؟ اسے بھی مستقل حیثیت سے بیان کیا گیاہے ،یونہی سفر میں نماز کے احکام پر بھی مستقلاً گفتگو فرمائی گئی ہے، جیسا کہ کتبِ فقہ سے شغف رکھنے والے سے مخفی نہیں ہے کہ فقہائے کرام صلوٰۃ المسافر کے عنوان کے تحت بالتفصیل اس حوالے سے احکام بیان فرماتے ہیں ۔
پھر ان مسائل میں کافی تفصیلات اور باریکیاں ہیں ۔الحمد للہ دار الافتاء اہلسنت سے جس طرح زکوٰۃ ، حج، روزہ ،نکاح ،طلاق ،وقف ،کاروبار و تجارت و وراثت اور دیگر عبادات و معاملاتِ زندگی پر فتاویٰ جاری ہوتے رہتے ہیں اور ان میں سے کئی فتاویٰ موضوعاتی لحاظ سے مرتب ہوکر کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں ۔ اسی طرح مسافر کی نماز کے حوالے سے کئی فتاویٰ جاری ہوچکے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں ، چونکہ اس کی حاجت تھی کہ مسافر کی نماز کے حوالے سے مختلف مسائل پرمشتمل ایک کتاب ہو جس میں سفر کے اندر نماز کے حوالے سے پیش آنے والے کثیر مسائل یکجا موجود ہوں ،تاکہ ان مسائل کو سیکھنے میں آسانی ہو، لہٰذا اس ضرورت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے استاذ محترم ، شیخ الحدیث والتفسیر مفتی محمدقاسم عطاری صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے حکم فرمایا کہ مسافر کی نماز کے حوالے سے جاری شدہ فتاویٰ مرتب کرکے اسے تصنیفی صورت میں منظر عام پر لائیں ، چنانچہ مفتی صاحب مُدَّ ظِلُّہُ الْعَالِیْ کے حکم پر دار الافتاء اہلسنت کی طرف سے مختلف اوقات میں اس حوالے سے جاری شدہ فتاویٰ شعبہ ریکارڈ سے حاصل کر کے ، مزید کچھ نئے فتاویٰ شامل کر کے یہ مجموعہ تیار کیا ہے اور اس سلسلے میں دار الافتاء اہلسنت ملتان کے چند علمائے کرام کا بھرپور تعاون شامل رہا ۔
ایک انمول تحفہ:
پاکستان بھر اور بیرون ممالک سے کیے گئے مختلف نوعیت کےسوالات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے آپ اس کتاب میں مسائل کے لحاظ سے تنوع اور وسعت پائیں گے۔ نیزچونکہ اس میں فقط احکام پرمشتمل فتاویٰ ہی نہیں ہیں بلکہ بہت سارے شرعی احکام کی وجوہات کے حوالے سے کیے گئے سوالات کے جوابات بھی موجود ہیں ۔مثلاً تین دن کی مسافت ہی مسافت شرعی کیوں ہے ؟ اس کے برخلاف واردبعض احادیث کا معنی و مفہوم کیا ہے؟ وطن اقامت کےلیے پندرہ دن کی مدت مقرر کیے جانے کی وجہ کیا ہے ؟ یونہی کئی احکام کی تفہیم سے متعلق کیے گئے سوالات بھی اس کتاب کا حصہ ہیں، مثلاً جائے پیدائش کے وطن اصلی ہونے سے کیا مراد ہے؟ اور اس قسم کے دیگر فتاویٰ موجود ہیں جو کہ معلومات افزا ہونےکے ساتھ ساتھ نہایت دلچسپی کا باعث بھی ہیں، لہٰذا یہ کتا ب شرعی مسائل سیکھنےسکھانے والوں کےلیے ایک انمول تحفہ ہے، جس کی اہمیت کا اندازہ اسے پڑھ کر ہی لگایا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہےکہ ہماری اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ، اس دوران جو خطا ہوئی اس سے درگزر فرمائے ، اور اس کام کے محرک اور کرنے والوں کو دنیا وآخرت میں صلہ عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
ابو محمد محمد سرفراز اختر عطاری
29 جمادی الاولی 1445 ھ/ 14 دسمبر 2023
سفر کرنے والا شرعی مسافر کب کہلائے گا ؟
فتویٰ1:
شرعی سفر کی حد کیا ہے؟ یہ کتنے کلو میٹر کا ہوتا ہے؟
کیا فرماتے ہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ شرعی سفر کی حد کیا ہے؟ یہ کتنے کلو میٹر کا ہوتا ہے؟ میں جہاں جاتا ہوں میرے گھر سے وہ تیس سے پینتیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے کیا یہ شرعی سفر ہے یا نہیں؟
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب
شرعی سفر کی مقدار آج کل کے حساب سے بانوے کلو میڑہے، اگر بانوے کلو میٹر یا اس سے زیادہ دورمتصل جانے کاارادہ ہو تو اپنے شہر سے باہر نکلتے ہی سفر کے اَحکام شروع ہو جائیں گے۔جس جگہ جارہے ہیں وہ وطن اصلی یا وطن اقامت نہیں ،تو وہاں بھی قصر کرنی ہوگی ،مسافر ہی رہیں گے ۔
آپ نے سوال میں جو صورت ذکر کی ہے اس سے آپ شرعی مسافر نہیں بنتے، لہٰذا آپ پر مسافر والے اَحکام بھی نافذ نہیں ہوں گےکہ یہ شرعی سفر نہیں۔
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
الجواب صحیح المتخصص فی الفقہ الاسلامی
مفتی فضیل رضا عطاری محمد نوید چشتی
03محرم الحرام 1430ھ/31 دسمبر 2008ء
فتویٰ 2:
مسافت سفر 92کلومیٹرہونے پر دلائل اور تین میل والی حدیث کا جواب
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زیدکاکہناہے کہ نمازقصرکرنے کے لیے 92کلومیٹرپرکوئی حدیث نہیں ہے، بلکہ احادیث میں توتین میل کاذکرآتاہے ۔چنانچہ وہ اپنے مؤقف پردرج ذیل روایات بیان کرتاہے:
(الف)صحیح مسلم میں ہے :"عن يحيى بن يزيد الهنائي، قال: سألت أنس بن مالك، عن قصر الصلاة، فقال:كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم إذا خرج مسيرة ثلاثة أميال، أو ثلاثة فراسخ ، شعبة الشاك ، صلى ركعتين"ترجمہ:یحییٰ بن یزیدہنائی نے کہا: میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہسے نماز میں قصرکے متعلق سوال کیا، تو فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تین میل کی مسافت کے لیے تشریف لے جاتے یا تین فرسخ کی مسافت کے
لیے (شعبہ کو شک ہوا) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو رکعات ادافرماتے۔
(ب)سنن ابی داؤدمیں ہے:"عن منصور الكلبي، أن دحية بن خليفة خرج من قرية من دمشق مرة إلى قدر قرية عقبةمن الفسطاط، وذلك ثلاثة أميال في رمضان،ثم إنه أفطر۔۔الحدیث"ترجمہ: منصورالکلبی سے مروی ہے کہ دحیہ بن خلیفہ ایک مرتبہ دمشق کی بستی سے فسطاط کی بستی عقبہ کی مقدار کے برابر مسافت پرتشریف لے گئے ، اور رمضان میں یہ تین میل کا سفر تھا توانہوں نے افطارکیا۔۔الحدیث۔
(ج)مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے :"حدثنا هشيم، عن أبي هارون، عن أبي سعيد : أن النبي صلى اللہ عليه وسلم كان إذا سافر فرسخا قصر الصلاة"ترجمہ:ہشیم نے ہمیں ابوہارون سے،انہوں نے ابوسعیدسے روایت بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمجب ایک فرسخ سفرفرماتے ،تونمازمیں قصرفرماتے۔
(د)مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے : "عن ابن عمر، قال:تقصر الصلاة في مسيرة ثلاثة أميال" ترجمہ:حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سےمروی ہے، فرمایا:تین میل کی مسافت میں نمازمیں قصرکی جائے گی ۔
(ہ)مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے: "عن اللجلاج، قال: كنا نسافر مع عمر رضي اللہ عنه ثلاثة أميال، فيتجوز في الصلاة، ويفطر"ترجمہ:لجلاج سے مروی ہے کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تین میل کاسفرکرتے تھے، تونمازمیں قصرکرتے تھے اور افطار کرتے تھے۔
(و)مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے: "عن البراء، أن علياخرج إلى النخیلة فصلى بها الظهر والعصر ركعتين، ثم رجع من يومه فقال: أردت أن أعلمكم سنة نبيكم " ترجمہ: حضرت براء سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نخیلہ کی طرف تشریف لے گئے تو ظہر و عصر دو رکعات ادا کیں ،پھر اسی دن واپس لوٹے، تو فرمایا: میں نے چاہا کہ تمہیں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سکھاؤں ۔
شرعی رہنمائی فرمائیں کہ :
(1)کیازید کامذکورہ بالااحادیث سے کیاجانے والااستدلال درست ہے؟
(2)نیزہمارامؤقف جو92کلومیٹرکاہے ،اس پرکیادلائل ہیں ؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب
(1)زیدکامذکورہ بالاروایات سے استدلال درست نہیں کہ یہ روایات قابل احتجاج نہیں ہیں ،جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
(الف)مسلم شریف کی روایت کی ایک توجیہ تویہ بیان کی گئی ہے کہ یہ خاص واقعہ کا
کاذکر ہے یہ واقعہ حقیقت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طویل سفرکا واقعہ ہے اور سفرمیں قصر کہاں سے شروع کی یہ اس کابیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب مدینہ شریف سے اتنے میل سفرکرلیا،تونمازمیں قصرکی ۔
اوردوسرا اس کا جواب یہ دیاگیاکہ احتمال ہے کہ یہ روایت منسوخ ہوچکی ہو،کیونکہ اس کے برعکس مقدارکے متعلق روایات موجودہیں ۔
علامہ ابن عبدالبررحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ اس روایت کے راوی یحییٰ نے یہ روایت جمہورصحابہ وتابعین کے برخلاف روایت کی ہے اوراس کے حفظ پراعتمادبھی نہیں ہوسکتا، لہٰذا یہ
روایت قابل اعتبارنہیں ۔
نیز اس روایت میں مقدارکے متعلق راوی کوشک ہے کہ تین میل فرمایا،یا تین فرسخ اور ایک فرسخ میں تین میل ہوتے ہیں، تو یوں راوی کو شک ہے کہ تین میل فرمایا یا نو میل، پس اس بنا پر تین میل کا اس سے استدلال درست نہیں ۔
چنانچہ مسلم شریف کی روایت کے متعلق علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں :"وإنما يحمل هذا الحديث على أحد شيئين: أحدهما: أن يكون رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم خرج بنية السفر الطويل فلما سار ثلاثة أميال قصر، ثم عاد من سفره، فحكى أنس ما رأى. والثاني: أن يكون منسوخا"ترجمہ:اس روایت کودومیں سے ایک احتمال پرمحمول کیاجائے گا:ایک احتمال تویہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمطویل سفرکی نیت سے باہرتشریف لے گئے پھرجب تین میل سفرکرلیا،توقصرفرمائی،پھرجب سفرسے واپس تشریف لائے،توحضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جوملاحظہ فرمایا اس کی حکایت بیان فرمادی۔اور دوسرایہ کہ یہ منسوخ ہو۔(4)
عمدۃ القاری میں اسی روایت کے متعلق ہے: "قال أبو عمر: هذا عن يحيى بن يزيد الهنائي ۔۔۔ ويحيى شيخ بصري ليس لمثله أن يروي مثل هذا الذي خالف فيه جمهور الصحابة والتابعين، ولا هو ممن يوثق به في مثل ضبط هذا الأمر، وقد يحتمل أن يكون أراد سفرا بعيدا، ثم أراد ابتداء قصر الصلاة إذا خرج ومشى ثلاثة أميال، فيتفق حضور صلاة فيقصر"ترجمہ:ابوعمرو(علامہ ابن عبدالبر)رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:یہ روایت یحییٰ بن یزیدہنائی سے مروی ہے اوریحییٰ بصری شیخ ہیں ان جیسے کایہ حق نہیں کہ وہ ایسی روایت بیان کرے ،جوجمہورصحابہ وتابعین کے خلاف ہو اور ایسے معاملے کومحفوظ کرنے میں اس پراعتمادبھی نہیں ہوسکتا اور احتمال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طویل سفر کا ارادہ فرمایا ہو، پھر جب تین میل سفرطے فرما لیا، تو اتفاقاً نمازادا فرماناچاہی، تو نماز میں قصر فرمائی ۔(5)
شرح الزرقانی علی الموطا میں اسی روایت کے متعلق ہے : "ورده القرطبي بأنه مشكوك فيه فلا يحتج به "ترجمہ: اور علامہ قرطبی نے اس کاردکیاہے کہ یہ مشکوک ہے، تو اس سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی۔(6)
(ب)حضرت دحیہ بن خلیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی روایت پرسندکے اعتبارسے کلام ہے۔چنانچہ میزان الاعتدال میں ہے: "منصور الكلبيس عن دحية بن خليفة ما روى عنه سوى مرثد اليزنى حديثه: فطر المسافر على ثلاثة أميال ،لم يصححه عبد الحق" ترجمہ:منصورالکلبی ، ابوداؤدشریف کاراوی ہے ،جس نے دحیہ بن خلیفہ سے روایت کی ہے ،اس سے مرثد الیزنی کے سواکسی نے روایت نہیں کی ، اس کی حدیث جس میں مسافرکے تین میل پر روزہ افطارکرنے کا ذکرہے ،اسے عبدالحق نے صحیح قرارنہیں دیا۔(7)
علامہ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہاس روایت کے راوی منصورالکلبی کومستور قرار دیتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں :"منصور ابن سعيد أو ابن زيد ابن الأصبغ الكلبي المصري مستور " منصور بن سعید یا منصور بن زید بن اصبغ کلبی مصری مستور ہیں۔(8)
(ج)حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ والی روایت کے بعض راویوں پرشدیدطعن کیا گیا ہے پس یہ روایت ضعیف ہے اور احتجاج کےقابل نہیں ۔چنانچہ علامہ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 463 ھ) الاستذکارمیں حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی روایت کی سندکے متعلق تحریر فرماتے ہیں:"وأبو هارون العبدي اسمه عمارة بن جوين منكر الحديث عند جميعهم متروك لا يكتب حديثه وقد نسبه حماد بن زيد إلى الكذب قال وكان يروي بالغداة شيئا وبالعشي شيئاوقال عباس عن ابن معين قال أبو هارون العبدي كانت عنده صحيفة يقول فيها هذه صحيفة الوصي وكان عندهم لا يصدق في حديثه، وقال عبد اللہ بن أحمد بن حنبل سألت أبي عن هارون العبدي فقال ليس بشيء" ترجمہ:اورابوہارون عبدی کانام عمارہ بن جوین ہے یہ منکرالحدیث ہے،سب کے نزدیک متروک ہے ،جس کی حدیث نہیں لکھی جائے گی اوراسے حمادبن زیدنے کذب کی طرف منسوب کیاہے، فرمایا :اور وہ صبح کو کچھ روایت کرتا تھا اور شام کو کچھ اورعباس نے ابن معین سے روایت کیاہے کہ انہوں نے کہا:ابوہارون عبدی کے پاس ایک صحیفہ تھا، جس کے متعلق وہ کہتا تھا کہ یہ وصی کاصحیفہ ہے اورمحدثین کے نزدیک اس کی حدیث کے متعلق اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی۔اورعبداللہ بن احمدبن حنبل نے کہا:میں نے اپنے باپ(امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ)سے ہارون عبدی کے متعلق سوال کیا،توفرمایا:وہ کچھ نہیں۔(9)
(د)حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہماسے مروی وہ قول جو سوال میں ذکر کیا
گیا ہے ، اس سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی، کیونکہ ان سے مختلف مقادیرکے متعلق کئی اقوال مروی ہیں جو آپس میں متعارض ہیں ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما والی روایت کے جواب میں بعض روایات ذکر کرنے کے بعد علامہ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :" وما رواه محمد بن زيد بن خليد عن ابن عمر أنه كان يقصر الصلاة في مسيرة ثلاثة أميال ۔۔۔ فكيف نقبلها عن ا بن عمر مع ما ذكرنا من رواية سالم ونافع عنه بخلافها من حديث أهل المدينة "ترجمہ:اورجومحمدبن زید بن خلیدنے حضرت ابن عمررضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کیاہے کہ وہ تین میل کی مسافت پرنمازمیں قصرفرماتے تھے ،توہم اسے کیسے قبول کریں، جبکہ جوروایات ہم نے سالم اورنافع کی روایت سےاس کے برخلاف ان کی ذکرکی ہیں، وہ اہل مدینہ کی حدیث میں سے ہیں ۔(10)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی مختلف مقدار والے اقوال ذکر کرنے کے بعد علامہ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں :" وهذه أقوال متغايرة جدا" ترجمہ:اوریہ آپس میں بہت زیادہ متعارض اقوال ہیں ۔(11)
(ہ)حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی روایات راویوں کے مجہول وضعیف ہونے کی بناء پرقابل حجت نہیں۔ نیزاس میں یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے طویل سفر کا ارادہ فرمایا اور جب قصرکرنے لگے ،تواس وقت آپ نے تین میل مسافت طے کرلی تھی، تو یہ حقیقت میں تین میل کی وجہ سے قصرنہیں فرمائی، بلکہ طویل سفرکی بنا پرقصرفرمائی ہاں قصرکی ابتداتین میل کی مسافت پرفرمائی۔
چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے متعلق علامہ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ
علیہ تحریرفرماتے ہیں :"فإن اللجلاج وأبا الورد مجهولان ولا يعرفان في الصحابة ولا في التابعين واللجلاج قد ذكر عن الصحابة ولا يعرف فيهم ولا في التابعين وليس في نقله حجة وأبو الورد أشر جهالة وأضعف نقلا ولو صح احتمل ما وصفنا قبل واللہ أعلم"ترجمہ:(حدیث عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہکے راوی)لجلاج اور ابوالورد مجہول ہیں نہ تو ان کا صحابی ہونا معلوم ہے اور نہ تابعی اور لجلاج نے صحابہ سے روایت بیان کی ہے اور اس کا نہ صحابی ہونا معلوم اور نہ تابعی اور اس کی بیان کردہ روایت میں حجت نہیں، اور ابوالورد تو بہت زیادہ مجہول اور روایت بیان کرنے میں بہت زیادہ ضعیف ہے اور اگریہ روایت صحیح بھی ہو،تواس میں وہ احتمال ہے جوہم نے پہلے بیان کیا(یعنی طویل سفروالا)۔(12)
(و)حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی روایت کی سندبھی ضعیف ہونے کی بنا پرقابل حجت نہیں ،نیزاس سفرکے متعلق معروف یہ ہے کہ یہ سفرآپ کا طویل تھا، تو قصر اس وجہ سے فرمائی کہ سفرطویل تھا، ہاں ابتداتین میل سے فرمائی ۔
چنانچہ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے متعلق علامہ ابن عبدالبررحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں :"وهذا إسناد فيه من الضعف والوهن ما لا (خفاء) به وجويبر متروك الحديث لا يحتج به لإجماعهم على ضعفه وخروج علي رضي اللہ عنه إلى النخيلة معروف أنه كان مسافرا سفرا طويلا"ترجمہ: اور اس اسناد میں وہ ضعف اور کمزوری ہے جومخفی نہیں اورجویبرمتروک الحدیث ہے، اس سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی، کیونکہ اس کے ضعف پرسب کااتفاق ہے اورحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہکانخیلہ کی طرف جانے کے متعلق معروف ہے کہ
اس میں وہ طویل سفرکے مسافرتھے ۔(13)
(2)ہمارے مؤقف پردلیل وہ روایت ہے جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری شریف میں اس عنوان کے تحت روایت کیاہے"باب في كم يقصر الصلاة "یعنی باب اس کے متعلق کہ کتنی مسافت کے سفرپرقصرہے۔روایت یہ ہے :" عن ابن عمر رضي اللہ عنهما: أن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال: لا تسافر المرأة ثلاثة أيام إلا مع ذي محرم "ترجمہ:حضرت ابن عمررضی اللہ تعالی عنہماسے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عورت تین دن کاسفربغیرمحرم کے نہیں کرسکتی ۔(14)
اس سے امام بخاری نے اور احناف نے یہی ثابت کیاہے کہ شرعی سفرجس پر احکام مرتب ہوتے ہیں وہ تین دن رات کاسفرہے ۔
اس بات کی دوسری دلیل یہ ہے کہ احادیث میں مسافرکوتین دن رات تک موزوں پرمسح کی اجازت دی گئی ہے، جس سے ثابت ہوتاہے کہ شرعی احکام جس سفرپرمرتب ہوتے ہیں، وہ تین دن رات کاسفرہے،چنانچہ مسلم شریف میں ہے:"عن شريح بن هانئ، قال: أتيت عائشة أسألها عن المسح على الخفين، فقالت: عليك بابن أبي طالب، فسله فإنه كان يسافر مع رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم فسألناه فقال: جعل رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ثلاثة أيام ولياليهن للمسافر، ويوما وليلة للمقيم" ترجمہ: شریح بن ہانی سے مروی ہے کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہاکی بارگاہ میں موزوں پرمسح کے متعلق سوال کرنے کے لیے حاضرہوا،توانہوں نے فرمایا:حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کے پاس جاکرپوچھو،کیونکہ وہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفرکیاکرتے تھے ، پس ہم نے ان سے پوچھا،توانہوں نے فرمایا:رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسافرکے لیے تین دن اورتین راتیں مقررفرمائی ہیں اورمقیم کے لیے ایک دن اورایک رات۔(15)
عمدۃ القاری میں علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں :"ذكر المسافة التي تقصر فيها الصلاة: اختلف العلماء فيها، فقال أبو حنيفة وأصحابه والكوفيون: المسافة التي تقصر فيها الصلاة ثلاثة أيام ولياليهن بسير الإبل ومشي الأقدام ۔۔۔وإلى ثلاثة أيام ذهب عثمان بن عفان وابن مسعود وسويد بن غفلة والشعبي والنخعي والثوري وابن حيي وأبو قلابة وشريك بن عبد اللہ وسعيد بن جبير ومحمد بن سيرين، وهو رواية عن عبد اللہ بن عمر"ترجمہ:اس مسافت کا ذکر جس میں نماز میں قصرکی جائے گی ،اس کے متعلق علماء کااختلاف ہے ،پس ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب اورکوفیوں نے کہا: جس مسافت میں نمازمیں قصرکی جائے گی وہ تین دن رات کی مسافت ہے اونٹ اورپیدل کی رفتار کے ساتھ ،اورتین دن کاہی موقف ہے، حضرت عثمان بن عفان،حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرات سویدبن غفلہ،شعبی ،نخعی،ثوری،ابن حیی،ابوقلابہ ،شریک بن عبداللہ ،سعیدبن جبیر اور محمدبن سیرین کااوریہی ایک روایت ہے، حضرت عبداللہ
بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھماسے۔(16)
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہما کی جس روایت کی طرف علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ کیا وہ یہ ہے، جسے امام محمد رحمۃ اللہ علیہنے آثار میں روایت فرمایا:"عن علي ابن ربيعة الوالبي قال: سألت عبد اللہ ابن عمر رضي اللہ عنهما إلى كم تقصر الصلاة؟ فقال: " أتعرف السويداء؟ قال: قلت لا، ولكني قد سمعت بها، قال: هي ثلاث ليال قواصد، فإذا خرجنا إليها قصرنا الصلاة " قال محمد: وبه نأخذ، وهو قول أبي حنيفة رضي اللہ عنه"ترجمہ:علی بن ربیعہ الوالبی سے مروی ہے کہ میں نےحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے سوال کیاکہ کتنی مسافت تک نمازمیں قصرکی جائے گی ؟توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا تو سویداء کو جانتاہے؟ کہتے ہیں ، میں نے کہا: نہیں لیکن میں نے اس کے متعلق سن رکھاہے ، فرمایا:
وہ تین رات کی مسافت ہے ، تو جب ہم وہاں جاتے تو نماز میں قصر کرتے۔
امام محمدرحمۃ اللہ علیہنے فرمایا:اوراسی کوہم اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہکاقول ہے ۔(17)
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہماسے مروی تمام اقوال سے سب سے محتاط قول یہی ہے اور اسی پراحناف کا عمل ہے اور علامہ ابن عبدالبر(المتوفی 463ھ)الاستذکارمیں تحریر فرماتے ہیں:"ومن احتاط فلم يقصر إلا في مسيرة ثلاثة أيام كاملة"ترجمہ:اورجس نے احتیاط سے کام لیااس نے تین دن کامل کی مسافت میں ہی نمازمیں قصرکی ۔(18)
اورتین دن رات کی مسافت کی مقدارکلومیٹرکے حوالے سے 92کلومیڑ بنتی ہے۔ جدالممتار میں امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہتحریرفرماتے ہیں : "والمعتاد المعھود فی بلادنا ان کل مرحلۃ ۱۲کوس، وقد جربت مرارا کثیرۃ بمواضع شھیرۃ ان المیل الرائج فی بلادنا خمسۃ اثمان کوس المعتبر ھاھنا فاذا ضربت الاکواس فی ۸ و قسم الحاصل علی۵کانت امیالافاذن امیال مرحلۃ واحدۃ ١٩، ٥/١ وامیال مسیرۃ ثلاثہ ایام۵۷، ٥/٣ اعنی ۶ء ۵۷" ترجمہ:ہمارے بلادمیں معتادومعہودیہ ہے کہ ہرمنزل بارہ کوس کی ہوتی ہے ، میں نے بار باربکثرت مشہورجگہوں میں آزمایاہے کہ اس وقت ہمارے بلادمیں جومیل رائج ہے وہ ۸/۵کوس ہے، جب کوسوں کو۸میں ضرب دیں اورحاصل ضرب کو۵پرتقسیم کریں،توحاصل قسمت میل ہوگا،اب ایک منزل ١٩، ٥/١ میل کی ہوئی اورتین دن کی مسافت ۵۷،۵/۳میل یعنی ۵۷-۶ میل۔(19)
نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری میں حضرت علامہ مولانامفتی محمدشریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:"احناف کاصحیح مذہب یہ ہے کہ تین منزل کی دوری پرجانے کاقصدہو،تووہ مسافر ہے مگراب منزلیں ختم ہوگئیں ،ہوائی جہازپرسفرہونے لگا، اس لیے اس زمانے میں میلوں سے اس کی تعیین ضروری ہوئی ۔اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قدس سرہ نے مختلف منازل کے فاصلوں کو سامنے رکھ کرحساب لگایا،تو اوسطاتین منزل کی مسافت ستاون میل ہوئی جوموجودہ اعشاریہ پیمانے سے بانوے کلومیٹرہے۔"(20)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبــــــــــــــــــــــــــہ
الجواب صحیح المتخصص فی الفقہ الاسلامی
مفتی محمدہاشم خان عطاری محمدعرفان مدنی
08شعبان المعظم 1439ھ/25اپریل2018ء
فتویٰ :3
مسافر کا شرعی سفر کب شروع ہوتا ہے اور کب ختم ہوتا ہے؟
کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ قادر پور راواں ،ملتان کے نواح میں واقع ایک شہر ہے،دونوں میں چند کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔میری رہائش قادر پور راواں کی ہے اورکام کے سلسلے میں کراچی وغیرہ مختلف شہروں میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ میرے سفر کی ابتدا و اختتام کے متعلق کیا حکم ہوگا یعنی میں کب مسافر بنوں گا اور کب میرا سفر اختتام پر پہنچے گا؟کیونکہ ٹرین وغیرہ کے ذریعے عموما سفر کی ابتداو انتہا ملتان سے ہوتی ہے تو ملتان میں مجھے قصرکرنی ہوگی یا پوری نماز پڑھنی ہوگی؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب
مسافر بننے نہ بننے کے لئے اپنے شہر کی حدود سے نکلنے ،نہ نکلنے کا اعتبار ہے یعنی سفر کا ارادہ
رکھنے والا شخص اپنے شہر کی آبادی سے باہر ہوجائے اور اگر فنائے شہر(یعنی آبادی سے باہر ایسی جگہ جوشہر کی ضروریات و مصالح کے لئے بنی ہوتی ہے ،جیسے کوڑا پھینکنے کی جگہ ،قبرستان وغیرہ،یہ جگہ )بھی آبادی سے متصل یعنی ملی ہوئی ہو ،تو اس سے باہر ہونا بھی ضروری ہے۔سفر کا ارادہ رکھنے والا شخص اس تفصیل کے مطابق شہر کی حدود سے جب باہر چلا جائے گا، تو مسافر ہوجائے گا اور اسے نماز میں قصر کرنی ہوگی اور جب اسی تفصیل کے مطابق اپنے شہر کی حدود میں دوبارہ داخل ہوگا، تو مسافر کے اَحکام ختم ہوجائیں گے اور پوری نماز پڑھنی ہوگی۔
مذکورہ بالا تفصیل سے آپ کے سوال کا جواب واضح ہوگیا کہ آپ کا شہر چونکہ قادر پور راواں ہے،ملتان نہیں ہے،لہذا کراچی وغیرہ 92 کلو میٹر یا اس سے زائد سفر کے ارادے سے جب آپ اپنے شہر کی حدود سے باہر چلے جائیں گے، تو مسافر کہلائیں گے اور نماز میں قصر کرنی ہوگی، یوں آپ ملتان میں بھی قصر نماز ادا کریں گے۔یونہی واپسی پر جب آپ اپنے شہر کی حدود میں داخل ہوں گے،تب مسافر کے احکام ختم ہوں گے،لہٰذا واپسی پر بھی آپ ملتان میں مسافر ہی ہوں گے اور قصر نماز ادا کریں گے۔
ملتقی الابحر و درمنتقی میں ہے:’’(ولا یزال علی حکم السفر)من القصر و جواز القصر ( حتی یدخل وطنہ)‘‘اور مسافر قصر کرنے اور قصر کے جائز ہونے میں مسافر کے حکم میں رہے گا یہاں تک کہ اپنے وطن (گاؤں یا شہر)میں داخل ہوجائے۔(21)
رد المحتار میں ہے:’’اما الفناء وھو المکان المعد لمصالح البلد کربض الدواب و دفن الموتی والقاء التراب ،فان اتصل بالمصر اعتبر مجاوزتہ‘‘رہا فنائے شہر تو وہ ایسی جگہ ہے،جو شہر کی مصالح کے لئے ہوجیسے گھوڑ دوڑ کا میدان،قبرستان اور مٹی ڈالنے کی جگہ،پس اگر یہ شہر سے متصل ہو تو (مسافر بننے کے لئے)اس سے نکل جانے کا بھی اعتبار ہوگا۔(22)
بہار شریعت میں ہے:"مسافر اس وقت تک مسافر ہے جب تک اپنی بستی میں نہ پہنچ جائے۔"(23)
بہار شریعت میں ہے:"فنائے شہر یعنی شہر سے باہر جو جگہ شہر کے کاموں کے لئے ہو مثلاً قبرستان گھوڑ دوڑ کا میدان ،کوڑا پھینکنے کی جگہ اگر یہ شہر سے متصل ہو تو اس سے باہر ہوجانا ضروری ہے۔اور اگر شہر و فناء کے درمیان فاصلہ ہو تو نہیں۔"(24)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
الجواب صحیح المتخصص فی الفقہ الاسلامی
مفتی فضیل رضا عطاری ابو محمد محمدسرفراز اخترعطاری
23 ربیع الآخر 1445 ھ/08نومبر23 20 ء
فتویٰ :4
92کلومیٹر کا فاصلہ کہاں سے شمار ہوگا ، جہاں سے چلا ہے ، یا شہر سے نکل کر ؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مسافر کا 92 کلومیٹر والا فاصلہ کہاں سے شمار ہوگا،جہاں سے چلا ہے وہاں سے یا شہر سے نکل کر؟یونہی اگر گھر سے لے کر دوسرے مقام تک 92کلو میٹر سفر بنتا ہے، جبکہ دونوں شہروں کے درمیان کا فاصلہ 92کلومیٹر نہیں تو اب مسافر بنے گا یا نہیں؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
فاصلہ شہر سے نکل کرشمارکیا جائے گاکیونکہ
اولاً:وہ شہر(اورفنائے شہر) سے نکل کرہی مسافر شمار ہوتاہے ، اس سے پہلے مسافر نہیں ہوتا۔
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں: ’’فلایصیر مسافرا قبل ان یفارق عمران ماخرج منہ من الجانب الذی خرج حتی لوکان ثمۃ محلۃ منفصلۃ عن المصر وقد کانت متصلۃ بہ لایصیر مسافر ا مالم یجاوز ھا ‘‘تو مسافرکا حکم اس وقت سے ہے کہ بستی کی آبادی سے اس جانب سے باہر ہوجا ئے جس جانب سے وہ نکلے حتی کہ اگر وہ ایسے محلہ میں ہے کہ جو شہر سے جدا ہے حالانکہ وہ پہلے شہر سے متصل تھا تو جب اس سے بھی باہر ہوگا تو مسافر ہوگا ۔(25)
محیط برھانی میں ہے:’’مادام فی عمرانات المصر فھو لایعد مسافراً ‘‘جب تک شہرکی آبادی میں رہے گا تب تک مسافر شمار نہیں ہوگا۔(26)
بدائع الصنائع میں ہے:’’فعل السفر لایتحقق الابعد الخروج من المصر‘‘ سفر کا فعل شہر سے نکلنے کے بعد ہی ثابت ہوگا۔(27)
ثانیاً:مسافر کی تعریف ہی اس طرح کی ہے کہ مسافر وہ ہے جوکہ تین دن(مسافت کی مقدار) کے ارادے سے موضع اقامت(شہر یا قریہ) سے نکلے۔
علامہ شمس الدین تمرتاشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’من خرج من عمارۃ موضع اقامتہ قاصداًمسیرۃ ثلاثۃ ایام ولیالیھا‘‘جو شخص تین دن اور تین راتوں کی راہ تک جانے کے ارادہ سے اپنی اقامت والی آبادی سےباہر ہوا۔(28)
اس کے تحت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’(قاصداً)اشار بہ مع قولہ ’’خرج ‘‘ الی انہ لوخرج ولم یقصد اوقصد ولم یخرج لایکون مسافراً ‘‘ماتن رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے قول(خارج ہو) کے ساتھ( قصد سے) کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ اگر نکلے مگر قصد نہ ہو یا قصد ہو مگر خارج نہ ہو تو مسافر نہیں ہوگا۔(29)
ثالثاً:مسافر ہونے کے احکام بھی شہر سے نکلنے کے بعد لگتے ہیں۔
شیخ محمد بن علی بن محمد رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں: ”من جاوز بیوت مصرہ من جانب خروجہ مریدا سیر اوسطا ثلاثۃ ایام قصر الفرض الرباعی‘‘یعنی جو اپنے شہر کے گھروں سے اپنے نکلنے کی جانب سےتین دن کی راہ کے ارادہ سے باہر ہوا تو وہ چاررکعتی نمازمیں قصر کرے گا۔(30)
رابعاً:فقہاء جب مسافتِ شرعی کا ذکر کرتے ہیں تو اس طرح کرتے ہیں کہ یہ مسافرجس شہر میں جارہا ہے وہ شہر تین دن کے فاصلے پرہے تو مسافرہوگا ورنہ نہیں۔یعنی پہنچنے میں شہر کا اعتبار کرتے ہیں تو چلنے میں بھی شہر کا اعتبار ہونا چاہیے۔
بحر الرائق میں ہے:’’ذکر الاسبیجابی المقیم اذا قصد مصراً من الامصار وھو مادون مسیرۃ ثلاثۃ ایام لایکون مسافراً،ولو انہ خرج من ذلک المصر الذی قصد الی مصر آخر وھو ایضاً اقل من ثلاثۃ ایام فانہ لایکون مسافراً وان طاف آفاق الدنیا علی ھذا السبیل لایکون مسافراً‘‘ترجمہ:اسبيجابی نے ذکر کیا ہے کہ مقیم جب کسی شہر کا قصد کرے اور وہ شہر تین دن سے کم فاصلے پر ہو تو یہ مسافر نہیں ہوگا ،اور اگر اس مقصود شہر سے (پھرآگے کے لیے)نکلا اور وہ بھی تین دن سے کم فاصلے پر ہے، تو وہ مسافر نہیں ہوگا اگرچہ اس طور پر پوری دنیا گھوم لے۔(31) خامساً: فقہاء نے بھی دوشہروں کے فاصلے کو معیار بنایا۔
بنایہ میں سفر کی مقدار کے بارے میں مختلف اقوال نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:’’عن أبي وائل شقيق بن سلمة أنه سئل عن القصر من الكوفة إلى واسط، فقال: لا يقصر الصلاة في ذلك، وبينهما مائة وخمسون ميلا، وعن الحسن بن حي في رواية: لا قصر في أقل من اثنين وثمانين ميلا ‘‘ حضرت ابو وائل بن شقیق بن سلمہ سے کوفہ سے لے کر واسط تک کی مسافت میں قصر کرنے کے متعلق سوا ل ہوا ،تو فرمایا: اس میں نماز قصر نہیں اور ان کے درمیان ایک سو پچاس میل ہیں اور حسن بن حی سے ایک روایت میں ہے:بیاسی میل سے کم میں قصر نہیں ،جیسا کہ کوفہ سےبغداد۔(32)
سادساً:امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کرتے ہوئے ایک سائل نے وطن سے فاصلہ شمار فرمایا اور امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے اسے برقرار رکھا۔
چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہواکہ’’زید کے وطن سے ایک مقام تیس کوس کے فاصلے پر واقع ہے اور زید نے ایسی راہ سے سفر کیا کہ اس مقام تک چالیس کوس مسافت طے کرنی ہوئی ،تو زید پر نماز کا قصر ہے یا نہیں؟‘‘تو جواباً ارشاد فرمایا:’’ہے جبکہ قصد دو جگہ پر منقسم نہ ہو۔‘‘(33)
سابعاً: بلکہ قدوری کے اندر صراحت ہے کہ تین دن کا فاصلہ(شرعی مسافت) شہر سے شمار ہوگا۔
چنانچہ اس میں لکھا ہے:’’ان یقصد الانسان موضعاً بینہ وبین مصرہ مسیرۃ ثلاثۃ ایام فصاعداً‘‘انسان ایسی جگہ کا قصد کرے کہ اس جگہ اور انسان کے شہر کے درمیان تین دن یا اس سے زائد کی مسافت ہو۔(34)
لہذا اگر گھر سے دوسرے مقام تک تو 92کلومیٹر ہے ، لیکن دونوں شہروں کے مابین 92 کلو میٹر نہیں، تو شرعی مسافر نہیں بنے گا۔
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
مفتی محمد ھاشم خان عطاری
23 ذوالقعدۃ الحرام 1431ھ/10 نومبر 2010ء
فتویٰ 5:
شرعی سفر کی حد گھر سے شروع ہو گی یا شہر سے؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ شرعی مسافر کے لیے جو فاصلہ بیان کیا جاتا ہے کہ 92 کلومیٹر یا زیادہ کا سفر ہو، تو وہ مسافر کہلائے گا۔ یہ فاصلہ سفر کرنے والے کے گھر سے لے کر جس گھر جانا ہے ، ان دونوں کے درمیان کا ہے یا دونوں شہروں کی حدود کے درمیان کا ہے ؟ ہر صورت میں اس کا حوالہ کیا ہے ؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
شرعی مسافر کہلانے کے لیے جو فاصلہ درکار ہوتا ہے یہ دوشہروں کی حدود کا درمیانی فاصلہ ہوتا ہے،نہ کہ اپنے گھر سے دوسرے کے گھر تک کا۔
تفصیل کچھ یوں ہے کہ آدمی جب تک اپنے شہر یا گاؤں کی آبادی سے نہیں نکلتا اس وقت تک اس کا سفر ہی شروع نہیں ہوتا،یہی وجہ ہے کہ آدمی اپنے گھر سے شہر کی آخری حدتک جو فاصلہ ہے اس دوران وہ نماز قصر نہیں کر سکتا،اگرچہ سینکڑوں کلو میٹر دور جانے کا ارادہ ہو۔ یونہی جس شہر یا بستی میں جاناہوتا ہے، اس کی آبادی جہاں سے شروع ہوتی ہے اعتبار اسی جگہ کا کیا جاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص سینکڑوں کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر میں سفر کرتے ہوئے آیا اور یہاں اس نے 15دن سے زیادہ رہنا ہے ،تو اس شہر کی آبادی میں داخل ہوتے ہی قصر نماز کا حکم ختم ہوجائے گا اور اسے پوری نماز پڑھنی ہوگی، اگرچہ وہ شہر کے اندر اس گھر میں نہ پہنچا ہو جس میں اس نے قیام کرنا تھا ۔ یہی مسئلہ اس وقت بھی ہوتا ہے کہ جب آدمی سفر سے واپس اپنے شہر آتا ہے، تو شہر کی آبادی میں داخل ہوتے ہی قصر کا حکم ختم ہو جاتا ہے ،اگرچہ وہ اپنے گھر نہ پہنچا ہو۔ ان مسائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سفر میں جو فاصلہ لیا جاتا ہے،یہ دومختلف شہر وں یابستیوں کی حدود کا درمیانی فاصلہ ہوتا ہےاور ان مسائل میں پورا شہر یا پورا گاؤں، اگرچہ کتنا ہی بڑا ہو وہ ایک ہی جگہ کے حکم میں ہوتا ہے۔
جزئیات درج ذیل ہیں:
حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب مدینہ شریف سے سفرِحج شروع کیا، تو ظہر کی نماز مدینہ شریف کی حدود میں چار رکعت ہی ادا کی اور پھر مدینہ شریف کی حدود سے نکلنے کے بعد ذوالحلیفہ کے مقام پر عصر کی نماز قصر ادا کی۔چنانچہ بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ، فرمایا:”أن النبي صلى اللہ عليه وسلم صلى الظهر بالمدينة أربعا، وصلى العصر بذي الحليفة ركعتين “ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں اور ذو الحلیفہ میں عصر کی دو رکعتیں ادا کیں۔(35)
علامہ کاسانیرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:”إذا نوى المسافر الإقامة خمسة عشر يوما في موضعين فإن كان مصرا واحدا أو قرية واحدة صار مقيما، لأنهما متحدان حكما، ألا يرى أنه لو خرج إليه مسافرا لم يقصر “ترجمہ: مسافر نے دو جگہوں پر 15 دن ٹھہرنے کے نیت کی،تو اگر وہ ایک ہی شہر یا ایک ہی گاؤں کی دو جگہیں ہیں ،تو یہ شخص مقیم ہو جائے گا، کیونکہ یہ دونوں جگہیں حکماً ایک ہی ہیں ۔ کیا نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص ان میں سے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے ہوئے جائے تو وہ قصر نہیں کرتا۔(36)
بنایہ میں ہے :”وفي المفيد، و التحفة: المقيم إذا نوى السفر ومشى أو ركب لا يصير مسافرا ما لم يخرج عن عمران المصر “ترجمہ: مفید اور تحفہ میں ہے: مقیم شخص جب سفر کی نیت کرے یا چلنا شروع کر دے یا سوار ہو جائے، تو وہ مسافر نہیں ہو گا جب تک شہر کی آبادی سے نہ نکل جائے۔(37)
ہدایہ میں ہے : ”(وإذا فارق المسافر بيوت المصر صلى ركعتين)‘‘لأن الإقامة تتعلق بدخولها فيتعلق السفر بالخروج عنها. وفيه الأثر عن علي رضي اللہ عنه ، لو جاوزنا هذا الخص لقصرنا “ترجمہ: اور مسافر جب شہر کے گھروں سے نکل جائے، تو وہ دو رکعت پڑھے گا، کیونکہ اقامت کا تعلق شہر کے گھروں میں داخل ہونے سے ہوتا ہے ،تو سفر کا تعلق ان گھروں سے نکل جانے سے ہوگا اور اس بارے میں حضرت علیرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ایک اثر وارد ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر ہم اس خص(بانس سے بنے ہوئے گھر)سے آگے نکل جائیں، تو ہم قصر کریں گے۔(38)
علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوری روایت مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے یوں لکھی ہے : ”روى ابن أبي شيبة عن علی رضي اللہ عنه أنه خرج من البصرة فصلى الظهر أربعا ثم قال: إنا لو جاوزنا هذا الخص لصلينا ركعتين“ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ بصرہ سے نکلے اور ظہر کی نماز چار رکعت ادا کی پھر فرمایا :اگر ہم اس خص(بانس سے بنائے ہوئے گھر)سے آگے نکل جائیں تو ہم قصر کریں گے۔(39)
امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہسے سوال ہوا: ”زید اپنے وطن سے ستر یا اسی کو س کے فاصلے پر کسی شہر میں ملازم ہے وہاں سے سال دو سال کے بعد آٹھ دس روز کے واسطے اپنے مکان پر آیا اور پھر چلا گیا اس آمد ورفت میں اس کو نماز قصر پڑھنا چاہئے یا نہیں ۔ “
اس کے جواب میں آپ لکھتے ہیں:”جب وہاں سے بقصد وطن چلے اور وہاں کی آبادی سے باہر نکل آئے اس وقت سے جب تک اپنے شہر کی آبادی میں داخل نہ ہو ، قصر کرے گا، جب اپنے وطن کی آبادی میں آگیا،قصر جاتا رہا، جب تک یہاں رہے گا ،اگر چہ ایک ہی ساعت ، قصر نہ کرسکے گا کہ وطن میں کچھ پندرہ روز ٹھہر نے کی نیت ضرور نہیں، پھر جب وطن سے اُس شہر کے قصد پرچلا اور وطن کی آبادی سے باہر نکل گیا اس وقت سے قصر واجب ہوگیا، راستے بھر تو قصر کرے گا ہی اور اگر اُس شہر میں پہنچ کر اس بار پندرہ روز یا زیادہ قیام کا ارادہ نہیں، بلکہ پندرہ دن سے کم میں واپس آنے یا وہاں سےاور کہیں جانے کا قصد ہے،تووہاں جب تک ٹھہرے گا اس قیام میں بھی قصر ہی کرے گا اور اگر وہاں اقامت کا ارادہ ہے ،تو صرف راستہ بھر قصر کرے، جب اس شہر کی آبادی میں داخل ہوگا قصر جاتا رہے گا۔ واﷲ تعالیٰ اعلم“(40)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
الجواب صحیح المتخصص فی الفقہ الاسلامی
مفتی فضیل رضا عطاریمحمد ساجد عطاری مدنی
30 رجب المرجب1439ھ/17اپریل2018ء
1۔ پارہ5 سورۃ النساء،آیت 101۔
2۔ تفسیر نسفی،سورۃ النساء ، تحت الایۃ 101 ، جلد1، صفحہ390، مطبوعہ لاہور۔
3۔ صحیح مسلم ،کتاب صلوۃ المسافر ،صفحہ250،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت۔
4۔ کشف المشکل من حدیث الصحیحین،جلد 03، صفحہ 316،317، مطبوعہ ریاض۔
5۔ عمدۃ القاری،باب الصلوۃ بمنی،جلد 07، صفحہ 173،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت۔
6۔ شرح الزرقانی علی الموطاء،باب مایجب فیہ قصرالصلوۃ،جلد 1، صفحہ 515،مطبوعہ قاہرۃ۔
7۔ میزان الاعتدال،جلد 04، صفحہ 189،مطبوعہ دارالمعرفۃ،بیروت،لبنان۔
8۔ تقریب التہذیب، صفحہ 546، مطبوعہ دارالرشید،سوریا۔
9۔ الاستذکار،باب مایجب فیہ قصرالصلوۃ،جلد 02، صفحہ 239،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت۔
10۔ الاستذکار،باب مایجب فیہ قصرالصلوۃ،جلد 02، صفحہ 234،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت۔
11۔ فتح الباری،باب فی کم یقصرالصلوۃ،جلد 02، صفحہ 567،مطبوعہ مصر۔
12۔ الاستذکار،باب مایجب فیہ قصرالصلوۃ،جلد 02، صفحہ 241،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت۔
13۔ الاستذکار،باب مایجب فیہ قصرالصلوۃ،جلد 02، صفحہ 241،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت۔
14۔ صحیح البخاری،ابواب تقصیرالصلوۃ،باب فی کم یقصرالصلوۃ ، صفحہ 205، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت ۔
15۔ صحیح مسلم،باب التوقیت فی المسح علی الخفین، صفحہ 120،مطبوععہ دارالکتب العلمیہ،بیروت۔
16۔ عمدۃ القاری،باب الصلوۃ بمنی،جلد 07، صفحہ 172، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت۔
17۔ الآثارلمحمدبن حسن،باب الصلوۃ فی السفر،جلد 1، صفحہ 500، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت۔
18۔ الاستذکار،باب مایجب فیہ قصرالصلوۃ،جلد 02، صفحہ 242،مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،بیروت۔
19۔ جدالممتار،باب صلاۃ المسافر،جلد 03، صفحہ 562-563، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ۔
20۔ نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری،جلد2،صفحہ535،مطبوعہ فریدبک سٹال،لاہور۔
21۔ ملتقی الابحر و درمنتقی مع مجمع الانہر،جلد 1، صفحہ 240،مطبوعہ کوئٹہ۔
22۔ رد المحتار،جلد 2، صفحہ 722،مطبوعہ کوئٹہ۔
23۔ بہار شریعت،جلد 1،صفحہ 744،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی۔
24۔ بہار شریعت،جلد 1،صفحہ 742،مطبوعہ:مکتبۃ المدینہ کراچی۔
25۔ ردالمحتار، جلد 2،صفحہ723 ،مطبوعہ کوئٹہ ۔
26۔ المحیط البرہانی،جلد02، صفحہ 387،مطبوعہ ادارۃ التراث الاسلامی لبنان ۔
27۔ بدائع الصنائع،جلد01، صفحہ 477، مطبوعہ کوئٹہ ۔
28۔ تنویر الابصار،جلد02، صفحہ 722تا724،مطبوعہ کوئٹہ ۔
29۔ ردالمحتار ،جلد02، صفحہ 723،مطبوعہ کوئٹہ ۔
30۔ ملتقی الابحر مع مجمع الانہر،جلد01،صفحہ 237-238،مطبوعہ کوئٹہ ۔
31۔ بحر الرائق،جلد2، صفحہ 228، مطبوعہ کوئٹہ ۔
32۔ البنایۃ فی شرح الہدایۃ،جلد3، صفحہ 242،مطبوعہ ملتان ۔
33۔ فتاوی رضویہ،جلد8،صفحہ 254، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاہور۔
34۔ قدوری مع الجوہرۃ،جلد 1،ص215،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ، بیروت۔
35۔ الصحیح البخاری،صفحہ205،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت۔
36۔ بدائع الصنائع، جلد01، صفحہ483، مطبوعہ کوئٹہ۔
37۔ بنایہ شرح ہدایہ، جلد02، صفحہ 253، مطبوعہ ملتان۔
38۔ ہدایہ مع بنایہ، جلد 1، صفحہ253تا 255، مطبوعہ ملتان۔
39۔ فتح القدیر، جلد02، صفحہ 33، مطبوعہ کوئٹہ۔
40۔ فتاوی رضویہ، جلد8، صفحہ258،رضا فاؤنڈیشن ،لاہور۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع