my page 33
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Farz Uloom Sikhiye | فرض عُلوم سیکھئے

book_icon
فرض عُلوم سیکھئے
            

سبق نمبر10 تَوَکُّل کا بیان

اللہ پاک قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗؕ- (پ28، الطلاق:3 ) تَرْجَمَۂ کنز الایمان : اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔ اللہ پاک پر تَوَکُّل کرنا عظیم کام ہے ۔ لہٰذا بندے کو چاہئے کہ وہ اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ کریم پر تَوَکُّل کرے اور اسی پر بھروسہ رکھے اور اپنا معاملہ اسی کے سپرد کر دے کیونکہ جو اللہ پاک پر تَوَکُّل کرتا ہے تو اللہ پاک اس کے تمام دُنیوی اور اُخروی امور میں اسے کافی ہوتا ہے۔(1 ) تَوَکُّل کی تعریف یوں ہے کہ اسباب وتدابیر کو اختیار کرتے ہوئے فقط اللہ پاک پر اِعتماد وبھروسہ کیاجائے اور تمام کاموں کو اُس کے سپرد کر دیا جائے۔ اللہ پر (مطلق)توکل کرنا فرضِ عین ہے۔ (2 ) واضح رہے کہ اَسباب اور تدابیر کو ترک کرکے گوشی نشینی اِختیارکرلینے اور کسب (یعنی رِزقِ حلال کمانا) ترک کردینے کی شرعاً اِجازت نہیں ہے۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’توکل ترکِ اَسباب کا نام نہیں بلکہ اِعتماد علی الاسباب کا ترک (توکل) ہے۔‘‘(3 ) یعنی اَسباب کو چھوڑ دینا توکل نہیں بلکہ اسباب پر اعتماد نہ کرنے (ربّ پر اعتماد کرنے)کا نام توکل ہے۔ تَوَکُّل کی معلومات حاصل کیجئے۔ اس کے لئے مکاشفۃ القلوب اور احیاء العلوم کا مطالعہ کریں۔ تَوَکُّل کے فوائد اور فضائل پر غور کیجیے۔ تَوَکُّل کرنے والوں کے واقعات کا مطالعہ کیجئے۔ تَوَکُّل کرنے والوں کی صحبت اختیار کیجئے۔ ربِّ ِکریم کی بارگاہ میں تَوَکُّل کے حصول کی دعا کیجئے۔ ربّ ِ کریم کی قدرت ِ کاملہ پر یقین رکھیے۔بندہ رِزق اور دیگر ضروریات کے متعلق اللہ پاک کے ضامن اور کفیل ہونے کا تصور رکھے اور اللہ پاک کے کمالِ علم، اس کی کمالِ قدرت کا تصور کرے ۔ ❀ مخلوق کی محتاجی سے بچنے کا عز م کرلیجیے کہ اس طرح بندہ مخلوق سے بے نیازہوکر فقط خالق ہی پر بھروسہ کرے گاکیونکہ تَوَکُّل کی بے شمار برکتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ مخلوق کی محتاجی سے بچ جاتا ہے۔ ❀ پرسکون اور خوشحال زندگی پر نظر رکھیے۔ہماری کامیابی میں ذہنی اورقلبی سکون کا بہت بڑا کردارہے، ذہنی اورقلبی طور پر مطمئن شخص عموماً پرسکون اور خوشحال زندگی گزارتا ہے اور تَوَکُّل سے ذہنی وقلبی سکون اور راحت حاصل ہوتی ہے۔ ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ میرے شیخ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اکثرمجلس میں فرمایا کرتے تھے: اپنی تدبیر اُس ذات کے سپرد کردے جس نے تجھے پیدا فرمایا ہے (یعنی فقط اللہ رَبّ العزت پر تَوَکُّل کر) توراحت پائے گا۔ ( 4 )

سبق نمبر11 خوفِ خدا کا بیان

اللہ پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ(۴۶) (پ27،الرحمن:46) تَرْجَمَۂ کنز الایمان : اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔ اس آیت کاایک معنی یہ ہے کہ جسے دنیا میں قیامت کے دن اپنے ربّ کے حضور حساب کی جگہ میں حساب کے لئے کھڑے ہونے کا ڈر ہو اور وہ گناہوں کو چھوڑ دے اور فرائض کی بجا آوری کرے تو ا س کے لئے آخرت میں دو جنتیں ہیں ۔(5 ) حضور نبیِ رحمت، شفیع ِاُمّت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ ِوَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: حکمت کی اصل اللہ پاک کا خوف ہے۔ (6 ) سرکارِ مدینہ راحت قلب وسینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ ِوَسَلَّمَ نے حضرت عبدُاللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے فرمایا: اگر تم مجھ سے ملنا چاہتے ہو تو میرے بعد بھی اللہ پاک سے بہت ڈرتے رہنا۔ (7 ) خوف سے مرادہ وہ قلبی کیفیت ہے جو کسی ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، مثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہوجانے کا ڈر۔ جبکہ خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضگی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہو جائے۔(8 ) خوفِ خدا تمام نیکیوں اور دنیا وآخرت کی ہر بھلائی کی اصل ہے، خوفِ خدا نجات دلانے اور جنت میں لے جانے والا عمل ہے۔ ربّ ِ کریم کی بارگاہ میں سچی توبہ کرلیجئے۔ خوفِ خدا کے حصول لیے بارگاہ ربّ العزت میں دعا کیجئے۔ خوفِ خدا کے فضائل پیش نظر رکھیے۔ جہنم کے عذابات پر غوروتفکر کیجئے۔خوفِ خدا کے بارے میں بزرگانِ دِین کے اَحوال کا مطالعہ کیجئے۔ خوفِ خدا رکھنے والوں کی صحبت اِختیار کیجئے۔خود اِحتسابی کی عادت اپناتے ہوئے فکرمدینہ کیجئے:اپنی ذات کا محاسبہ کرلینےکی عادت اپنا لینے سے بھی خوفِ خدا کے حصول کی منزل پر پہنچنا قدرے آسان ہوجاتا ہے۔

سبق نمبر 12 امیدوں کی کمی بیان

اللہ پاک قرآنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے: ذَرْهُمْ یَاْكُلُوْا وَ یَتَمَتَّعُوْا وَ یُلْهِهِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(۳) (پ14، الحجر: 3) تَرْجَمَۂ کنز الایمان : انہیں چھوڑو کہ کھائیں اوربرتیں اور امید انہیں کھیل میں ڈالے تو اب جانا چاہتے ہیں۔ تفسیر خزائن العرفان میں ہے: اس میں تنبیہ ہے کہ لمبی امیدوں میں گرفتار ہونا اور لذاتِ دنیا کی طلب میں غرق ہو جانا ایماندار کی شان نہیں ۔ حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے فرمایا :لمبی امیدیں آخرت کو بُھلاتی ہیں اور خواہشات کا اِتباع حق سے روکتا ہے۔ (9 ) سرکارِ دوعالم نورِ مجسم شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ ِوَسَلَّمَ نے ایک بار صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے دریافت فرمایا: کیا تم سب جنت میں داخل ہونا پسند کرتے ہو؟صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نےعرض کی: جی ہاں! یارَسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ ِوَسَلَّمَ ارشاد فرمایا: امیدیں کم کرو اوراپنی موت اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو اور اللہ پاک سے حیا کرو جیسےاس سے حیا کرنے کا حق ہے۔ (10 ) نفس کی پسندیدہ چیزوں یعنی لمبی عمر،صحت اور مال میں اضافے وغیرہ کی امید نہ ہونا ’’اُمیدوں کی کمی“ کہلاتاہے۔(11 )اگر لمبی عمر کی خواہش مستقبل میں نیکیوں میں اضافے کی نیت کے ساتھ ہوتو اب بھی ’’اُمیدوں کی کمی‘‘ہی کہلائے گی۔ (12 ) اُمیدوں کی کمی دنیا سے بے رغبتی اور فکرِآخِرت میں مشغول رکھنے، نجات دلانے اور جنّت میں لے جانے والا عمل ہے۔ چھوٹی امید سے متعلق روایات کا مطالعہ کیجئے۔ لمبی امیدوں کی ہلاکتوں پر غور کیجئے۔ اُمیدوں کی کمی سے متعلق اَقوالِ بزرگانِ دِین کا مطالعہ کیجئے۔ امیدوں کی کمی وزیادتی، فوائد ونقصانات کی معلومات حاصل کیجئے۔ ہر وقت موت کو پیش نظررکھیے۔ موت کی یاد اُمیدوں کی کمی کا بہت بڑا سبب ہے۔ نزع وقبر کے وحشت ناک ماحول کا تصور کیجئے۔ حشریعنی قیامت کی ہولناکیوں کا تصور کیجئے۔ ❀ اپنے اندر خوفِ خدا پیدا کیجئے۔ امیدوں کی کمی کا یہ ایک بہترین علاج ہے، کیونکہ جس کا دل خوف خدا سے معمور ہوتا ہے وہ لمبی لمبی امیدیں لگانے کی بجائے اپنے ربّ ِ کریم کی عبادت واطاعت میں مصروف ہوجاتا ہے۔ ❀ دل کو حب دنیا سے پاک کیجئے۔ لمبی امیدوں کا ایک بہت بڑا سبب دنیا کی محبت بھی ہے، جب بندے کے دل میں دنیا کی محبت گھرکرجاتی ہے تو وہ لمبی لمبی امیدیں لگانے کی آفت میں مبتلا ہوجاتا ہے، اس کے اندر طویل عرصے تک زندہ رہنے کی خواہش پیدا ہوجاتی ہے۔

سبق نمبر 13 صدق (سچ بولنے)کا بیان

اللہ پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتاہے: وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳) (پ24، الزمر: 33) تَرْجَمَۂ کنز الایمان : اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں ۔ اس آیت مبارکہ میں سچ لے کر تشریف لانے والے سے مراد حضور نبیِ رحمت شفیعِ اُمت صَلَّی اللہ ُعَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہیں اور تصدیق کرنے والے سے مُراد امیر المؤمنین حضرتِ سَیّدنا صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ یا تمام مؤمنین ہیں۔(13 ) اللہ پاک کے پیارے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ ِوَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بے شک صدق (سچ)نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور بےشک آدمی سچ بولتا رہتاہے یہاں تک کہ وہ اللہ پاک کے ہاں صدیق (بہت بڑا سچا)لکھ دیا جاتا ہے اور بے شک کِذب (جھوٹ) گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے اور بے شک آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ پاک کے ہاں کَذَّاب(بہت بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘ (14 ) حضرت علامہ سید شریف جرجانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ صدق یعنی سچ کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’صدق کا لغوی معنی واقع کے مطابق خبر دینا ہے۔‘‘(15 ) ہرمسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے دِینی ودُنیوی تمام معاملات میں سچ بولے کہ سچ بولنا نجات دلانے اور جنت میں لے جانے والا کام ہے۔ سچ کے فضائل کا مطالعہ کیجئے۔ سچ سے متعلق بزرگانِ دِین کے اَقوال کا مطالعہ کیجئے۔ سچ کے دُنیوی واُخروی فوائد پر غور کیجئے۔ جھوٹ بولنے کی وعیدوں کو پیش نظر رکھیے۔ جھوٹ بولنے کے دُنیوی واُخروی نقصانات پر غور کیجئے۔ اپنے دل میں خوفِ خدا پیدا کیجئے۔ اُخروی فائدے کو دُنیوی نقصان پر ترجیح دیجئے۔ بسا اوقات بظاہر تھوڑے سے دُنیوی فائدے کے پیش نظر بھی بندہ جھوٹ بول لیتا ہے لیکن اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جھوٹ بولنا فقط پہلی بار آسان ہوتا ہے اس کے بعد اس میں مشکل ہی مشکل ہوتی ہے، نقصان ہی نقصان ہوتا ہے، جبکہ سچ بولنا فقط پہلی بار مشکل ہوتا ہے بعد میں اس میں آسانیاں ہی آسانیاں ہوتی ہیں۔

سبق نمبر 14 رجا کا بیان

اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ (پ24، الزمر:53) تَرْجَمَۂ کنز الایمان : تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ۔ اس آیت میں اللہ پاک نے بندوں پر اپنی کامل رحمت،فضل اور احسان کا بیان فرمایا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ فرما دیں کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اے میرے وہ بندو! جنہوں نے کفر اور گناہوں میں مبتلا ہو کر اپنی جانوں پر زیادتی کی، تم اللہ پاک کی رحمت سے مایوس نہ ہونا اور یہ خیال نہ کرناکہ ایمان قبو ل کر لینے کے بعد سابقہ کفر و شرک پر تمہارا مُؤاخذہ ہو گا، بیشک اللہ پاک اُس کے سب گناہ بخش دیتا ہے جو اپنے کفر سے باز آئے اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر لے ،بیشک وہی گناہوں پر پردہ ڈال کربخشنے والا اور مصیبتوں کو دور کر کے مہربانی فرمانے والا ہے۔(16 ) حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رَسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ ِوَسَلَّمَ کوآپ کی وفات سےتین دن پہلے یہ فرماتے سناکہ: تم میں سے کوئی نہ مرے مگر اس طرح کہ اللہ پاک سے اچھی اُمید رکھتا ہو۔ (17 ) آئندہ کے لئے بھلائی اور بہتری کی اُمید رکھنا’’ رَجَا‘‘ہے۔مثلاً اگر کوئی شخص اچھا بیج حاصل کرکے نرم زمین میں بودے اور اس زمین کو گھاس پھوس وغیرہ سے صاف کردے اور وقت پر پانی اور کھاد دیتا رہے پھر اس بات کا امیدوار ہوکہ اللہ پاک اس کھیتی کو آسمانی آفات سے محفوظ رکھے گا تو میں خوب غلہ حاصل کروں گا تو ایسی آس اور امید کو ’’رَجَا‘‘ کہتے ہیں۔(18 ) اللہ پاک سے اچھا گمان رکھنا واجب ہے۔(19 ) حضرت سیدنا ابنِ خُبَیق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:رَجا تین طرح کی ہے: (1)کوئی شخص اچھا کام کرے اس کی قبولیت کی اُمید رکھے۔ (2)کوئی شخص بُرا کام کرے پھر توبہ کرے اور وہ مغفرت کی اُمید رکھتا ہو۔ (3)جھوٹا شخص جو گناہ کرتا چلا جائے اور کہے میں مغفرت کی اُمید رکھتا ہوں۔ (20 ) پہلی دوقسم کی رَجا محمود جبکہ آخری قسم کی رجا مذموم ہے جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے: اَلْاَ حْمَقُ مَنْ اَ تْبَعَ نَفْسَہٗ ھَوَاھَا وَ تَمَنّٰی عَلَی اللہِ الْجَنَّةَ یعنی احمق وہ ہے جو اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرے پھر اللہ پاک سے جنت کی تمنّا رکھے۔ (21 ) رجا کے فضائل میں غوروفکر کیجئے۔ رجا سےمتعلق بزرگانِ دِین کے اَحوال کا مطالعہ کیجئے۔ رجا سےمتعلق روایات اور بزرگانِ دِین کے اَقوال میں غور کیجئے۔
1تفسیر صراط الجنان،پ28،الطلاق،تحت الآیۃ:3، 10/202 2فضائل دعا، ص287 3 فتاوی رضویہ‏،24/379 4 منہاج العابدین ،ص113 5 تفسیر صراط الجنان، پ27، الرحمن ،تحت الآیۃ: 46 6شعب الایمان، باب فی الخوف من اللہ تعالی،1/ 470، حدیث: 743 7احیاء العلوم،4/ 472 8 احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، باب بیان حقیقۃ الخوف،4/ 190 ماخوذا 9 تفسیر خزائن العرفان،پ14،الحجر، تحت الآیۃ:3 10موسوعۃابن ابی دنیا،کتاب قصر الامل،3/ 310، حدیث: 31 11فیض القدیر، 2/ 709، تحت الحدیث: 2550 ماخوذا 12 الحدیقۃالنديۃ،2/ 383ماخوذا 13 تفسیر خزائن العرفان، پ24، الزمر، تحت الآیۃ: 33 14مسلم، کتاب البروالصلۃ والآداب، باب قبح الکذب …الخ، ص1077، حدیث: 6637 15التعریفات للجرجانی، باب الصاد، ص95 16تفسیر صراط الجنان، پ24، الزمر تحت الایۃ: 53، 8/486 17مسلم، کتاب الجنۃ، وصفۃ نعیمہا، باب امر بحسن الظن باللہ عند الموت، ص 1177،حدیث: 7229 18احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان حقیقۃالرجا، 4/ 174، 175ملخصا 19تفسیر خزائن العرفان، پ26،الحجرات،تحت الآیۃ: 12 20 الرسالۃ القشیریۃ، باب الرجا، ص168 -169 21احیاء العلوم، 4/ 415

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن