my page 27
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Farz Uloom Sikhiye | فرض عُلوم سیکھئے

book_icon
فرض عُلوم سیکھئے
            

سبق نمبر 15 نفقہ کا بیان

اللہ پاک قرآن مجید میں نفقے کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖؕ-وَ مَنْ قُدِرَ عَلَیْهِ رِزْقُهٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّاۤ اٰتٰىهُ اللّٰهُؕ-لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَاؕ-سَیَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا۠(۷) (پ28، الطلاق:7) تَرْجَمَۂ کنز الایمان :مقدوروالا(مال دار شخص) اپنے مقدور (وسعت) کے قابل نفقہ دے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا وہ اس میں سے نفقہ دے جو اسے اللہ نے دیا اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں رکھتا مگر اسی قابل جتنا اُسے دیا ہے قریب ہے اللہ دشواری کے بعد آسانی فرمادے گا۔ حضور نبیِ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمايا: جب خدا کسی کو مال دے تو خود اپنے اور گھر والوں پرخرچ کرے۔(1)حضور نبیِ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمايا: مسلمان جو کچھ اپنے اہل پر خرچ کرے اور نیت ثواب کی ہو تو یہ اُس کے ليے صدقہ ہے۔(2) رَسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمايا: آدمی کو گنہگار ہونے کے ليے اتنا کافی ہے کہ جس کا کھانا اس کے ذمہ ہو، اُسے کھانے کو نہ دے۔(3) نفقہ سے مراد کھانا، کپڑا اور رہنے کا مکان ہے۔(4) نفقہ واجب ہونے کے تین سبب ہیں: (1)زوجیت یعنی میاں بیوی کا رشتہ (2) نَسب(3)مِلک۔زوجیت اور نسب کی وجہ سے نفقہ واجب ہونے کے چند اہم مسائل بیان کئے جاتے ہیں۔(5) جس عورت سے نکاحِ صحیح ہوا، اس کا نفقہ شوہر پر واجب ہے اگرچہ وہ نابالغہ ہو۔ مگر نابالغہ میں شرط یہ ہے کہ جماع کی طاقت رکھتی ہو یا مُشتہاۃ ہو یعنی حدِ شہوت کو پہنچ جائے۔ اور شوہر کی جانب کوئی شرط نہیں کتنا ہی عمر میں چھوٹا ہو اُس پر نفقہ واجب ہے اُس کے مال سے دیا جائے گا۔ اگر مرد و عورت دونوں مال دار ہوں تو نفقہ مال دار کا سا ہوگا اور دونوں محتاج ہوں تو محتاجوں کا سا ۔ اور ایک مال دار ہے اور دوسرا محتاج تو درمیانہ درجے کا نفقہ واجب ہوگا۔ یعنی محتاج جیسا کھاتے ہوں اس سے عمدہ اور مال دار جیسا کھاتے ہوں اس سے کم۔ ❀ عورت جب رخصت ہوکر آئی تو اس وقت سے شوہر کے ذمہ اس کا لباس ہے۔ اگرچہ عورت کے پاس کتنے ہی جوڑے ہوں۔ لباس میں اس کے شہر کا اعتبار ہے۔ سردی گرمی میں جیسے کپڑوں کا وہاں کا چلن ہے وہ دے ۔ ❀ سال میں کم از کم دو جوڑے واجب ہیں۔ ہر ششماہی پر ایک جوڑا۔ مگر اس کا لحاظ ضروری ہے کہ اگر دونوں مال دار ہوں تو مال داروں کے سے کپڑے ہوں اور محتاج و غریب ہوں تو غریبوں کے سے اور ایک مال دار ہو اور ایک محتاج تو درمیانے ہوں۔ (6) نابالغ اولاد کا نفقہ باپ پر واجب ہے جبکہ اولاد کی ملک میں مال نہ ہو۔ اور بالغ بیٹا اگر اپاہج یا مجنون یا نابینا ہو، کمانے سے عاجز ہو اور اس کے پاس مال نہ ہو تو اس کا نفقہ بھی باپ پر ہے۔ اور لڑکی جبکہ کے مال نہ رکھتی ہو اور شادی شدہ بھی نہ ہو تو اس کا نفقہ بھی باپ پر ہے۔ اگرچہ لڑکی کے اعضاء درست ہوں۔ شادی کے بعد اس کا نفقہ شوہر پر واجب ہوگا باپ پر نہیں۔ ❀ اگر باپ مُفلس ہے تو کمائے اور بچوں کو کھلائے اور کمانے سے بھی عاجز ہے مثلاً اپاہج ہے تو دادا کے ذمہ (بچوں) کا نفقہ ہے۔ اس صورت میں باپ کا نفقہ بھی دادا کے ذمہ ہے۔ (7) .باپ اور ماں دونوں محتاج ہوں تو دونوں کا نفقہ بیٹے پر ہے۔ .ماں اگر بیوہ ہو وہ اپاہج نہ بھی ہوتب بھی بیٹے پر اس کا نفقہ ہے۔ .اگر اس نے شادی کرلی تو پھر شوہر کے ذمہ اس کا نفقہ ہے۔ .بیٹااگر ماں باپ دونوں کو نفقہ نہیں دے سکتا مگر ایک کا دے سکتا ہے تو ماں زیادہ مستحق ہے۔ اور اگر والدین میں سے کسی کا پورا نفقہ نہ دے سکتا ہو تو دونوں کو اپنے ساتھ کھلائے، جو وہ خود کھاتا پیتا، پہنتا ہو اسی میں سے انہیں بھی کھلائے پلائے اور پہنائے۔ (8)

سبق نمبر 16 قسم کا بیان

وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَیْكُمْ كَفِیْلًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ(.۱) (پ14، النحل: 91) تَرْجَمَۂ کنز الایمان :اور اللہ کا عہد پورا کرو جب قول باندھو اور قسمیں مضبوط کرکے نہ توڑو اور تم اللہ کو اپنے اوپر ضامن کرچکے ہو بےشک اللہ تمہارے کام جانتا ہے۔ اس آیت میں سب سے پہلے عہد پورا کرنے کا ذکر کیا کیونکہ اس حق کو ادا کرنے کی تاکید بہت زیادہ ہے۔ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے(بیعتِ رضوان کے موقع پر) رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اسلام پر بیعت کی تھی، انہیں اپنے عہد پورے کرنے کا حکم دیا گیا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ عہد ہے جسے انسان اپنے اختیار سے اپنے اوپر لازم کرلے اور اس میں وعدہ بھی داخل ہے کیونکہ وعدہ عہد کی قسم ہے۔حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں: وعدہ عہد ہی کی ایک قسم ہے۔ حضرت میمون بن مہران رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں: تم جس شخص سے بھی عہد کرو تو اسے پورا کرو ، خواہ وہ شخص مسلمان ہو یا کافر،کیونکہ تم نے اس عہد پر اللہ پاک کا نام لیا (اور اسے ضامن بنایا)ہے۔(9) رَسولُ الله صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں: اللہ کریم تم کو باپ کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے، جو شخص قسم کھائے تو اللہ کی قسم کھائے یا چپ رہے۔(10) رَسولُ الله صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں: جو شخص قسم کھائے اور دوسری چیز اُس سے بہتر پائے توقسم کا کفارہ دے دے اور وہ کام کرے۔(11) قسم کو عَرَبی زَبان میں ’’یَمِین‘‘ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے:’’ دا ہنی(یعنی سیدھی)جانِب‘‘،چُونکہ اہلِ عَرَب عُمُومًا قسم کھاتے یا قسم لیتے وَقت ایک دوسرے سے داہنا(یعنی سیدھا)ہاتھ مِلاتے تھے اِس لئے قسم کو’’ یمین ‘‘کہنے لگے،یا پھر یَمِین ’’یُمْن‘‘ سے بنا ہے جس کے معنیٰ ہیں ’’بَرَکت وقُوَّت ‘‘،چُونکہ قسم میں اللہ پاک کا بابَرَکت نام بھی لیتے ہیں اور اس سے اپنے کلام کو قُوَّت دیتے ہیں اِس لئے اِسے یمین کہتے ہیں یعنی بَرَکت وقُوَّت والی گفتگو۔(12)شَرعی اِعتِبار سےقسم اُس عَقد(یعنی عَہد وپَیماں)کو کہتے ہیں جس کے ذَرِیعے قسم کھانے والا کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کاپُختہ(پکّا)اِرادہ کرتاہے۔(13) مَثَلًا کسی نے یوں کہا:’’ اللہ کریم کی قسم !میں کل تمہارا سارا قَرض ادا کردوں گا ‘‘ تو یہ قسم ہے۔ قسم کھانا جائز ہے مگر جہاں تک ہو کمی بہتر ہے اور بات بات پر قسم کھانی نہ چاہیے اور بعض لوگوں نے قسم کو تکیہ کلام بنا رکھاہے کہ قصد و بے قصدزبان سے جاری ہوتی ہے اور اس کابھی خیال نہیں رکھتے کہ بات سچی ہے یا جھوٹی یہ سخت معیوب ہے۔(14) قسم کی تین قسمیں ہیں: (1) یمینِلغو، (2) یمینِ غموس، (3) یمینِمنعقدہ یمینِ لغو یہ ہے کہ کسی گزرے ہوئے یا موجودہ اَمر (یعنی معاملے )پر اپنے خیال میں (یعنی غلط فہمی کی وجہ سے )صحیح جان کر قسم کھائےاور درحقیقت وہ بات اس کے خلاف(یعنی الٹ ) ہو۔(15) یمینِلغو معاف ہے اوراس پر کَفّارہ نہیں۔ (16) یمینِ غموس یہ ہے کہ کسی گزرے ہوئے یا موجودہ اَمر (یعنی معاملے )پر دانِسْتَہ (یعنی جان بوجھ کر )جھوٹی قسم کھائے۔(17) یمینِ غمو س کھا نے والا سخت گنہگار ہوا ، اِستِغفار و توبہ فرض ہے مگر کَفّارہ لازم نہیں۔(18) یمینِ منعقدہ یہ ہے کہ مُستَقْبِل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھائی۔(19) یمینِ مُنْعَقِدَہ میں اگر قسم توڑے گا کفّارہ دینا پڑے گا اور بعض صورتوں میں گنہگار بھی ہوگا۔(20) قسم کا کفارہ. غلام آزاد کرنا ،.یا دس مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا، .یا ان کومُتَوسِّط درجے کے کپڑے پہنانا ہے ۔ یعنی یہ اختیار ہے کہ ان تین باتوں میں سے جو چاہے کرے ۔ اورجن مساکین کو صبح کے وقت کھلایا انھیں کو شام کے وقت بھی کھلائے ۔ .اگر غلام آزاد کرنے یادس مسکین کو کھانا یا کپڑے دینے پر قادر نہ ہو توپے درپے ( یعنی لگاتار) تین روزے رکھے۔ (21) قسم کے (کفارہ کے)لئے چند شرطیں ہیں کہ اگر وہ نہ ہوں تو کفارہ نہیں۔ قسم کھانے والا ( 1) مسلمان ( 2) عاقل ( 3) بالغ ہو ( 4) جس کی قسم کھائی وہ چیزعقلاً ممکن ہو یعنی (واقع) ہوسکتی ہو ( 5) قسم اور جس چیز کی قسم کھائی دونوں کو ایک ساتھ کہا ہو ، درمیان میں فاصلہ ہوگا تو قسم نہ ہوگی مثلاً کسی نے اس سےکہلایا کہ کہو : خدا کی قسم ۔ اس نے کہا : خدا کی قسم ۔ اُس نے کہا کہو : فلاں کام کروں گا ۔ اس نے کہا تو یہ قسم نہ ہوئی ۔(22)

سبق نمبر 17 مَنّت کا بیان

اللہ پاک نے قرآن کریم میں منت پوری کرنے والوں کی تعریف میں ارشاد فرمایا: یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا(۷) (پ29، الدہر: 7) تَرْجَمَۂ کنز الایمان :اپنی منتیں پوری کرتے ہیں اور اُس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی پھیلی ہوئی ہے۔ اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک کے نیک بندوں کے وہ اعمال ذکر فرمائے جارہے ہیں جن کی وجہ سے انہیں یہ ثواب حاصل ہوا۔پہلا عمل : اللہ پاک کے نیک بندے طاعت و عبادت اور شریعت کے واجبات پر عمل کرتے ہیں حتّٰی کہ وہ عبادات جو واجب نہیں لیکن مَنّت مان کر انہیں اپنے اوپر واجب کرلیا تو انہیں بھی ادا کرتے ہیں ۔(23) حضرت سعد بن عُبادہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے نبیِ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فتویٰ پوچھا کہ اُن کی ماں کے ذمہ منّت تھی اور پوری کرنے سے پہلے اُن کا انتقال ہوگیا۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فتویٰ دیا کہ یہ اُسے پورا کریں۔ (24) یاد رہے کہ عرف میں ہدیہ اور پیش کش کونذر (منت)کہتے ہیں۔ جیسے کسی بڑے کو کوئی چیز پیش کریں تو کہتے ہیں کہ جناب یہ آپ کی نذر کی۔(25) نذر (منت )کی دو قسمیں ہیں :(1)نذرِ شرعی (2)نذرِ عرفی شرع میں نذر عبادت اور قربتِ مقصودہ ہے۔ اسی لئے اگر کسی نے گناہ کرنے کی نذر مانی تو وہ صحیح نہیں ہوئی۔ نذر خاص اللہ پاک کے لیے ہوتی ہے اور یہ جائز ہے کہ اللہ پاک کے لیے نذر کرے اور کسی ولی کے آستانہ کے فُقراء کو نذر کے صَرف کرنے کی جگہ مقرر کرے۔ مثلاً کسی نے یہ کہا یارب ! میں نے نذر مانی کہ اگر تو میرا فلاں مقصد پورا کردے کہ فلاں بیمار کو تندرست کردے تو میں فلاں ولی کے آستانہ کے فقراء کو کھانا کھلاؤں یا وہاں کے خدام کو روپیہ پیسہ دوں یا ان کی مسجد کے لیے فلاں سامان مہیا کروں گا تو یہ نذر جائز ہے۔ شرعی نذر صرف اللہ پاک ہی کے لئے ہوسکتی ہے کیونکہ اس کےمعنی ہیں غیر لازم عبادت کو لازم کرلینا، ہاں اس نذر کا مَصرَف اَولیاءُ اللہ کے غریب مُجاوِر بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔(26) لغوی نذر جسے عرفی نذر بھی کہتے ہیں۔ جو نذرانہ کے معنیٰ میں ہے۔ وہ مخلوق کے لئے بھی ہوسکتی ہے۔ جیسے بزرگانِ دین کیلئے نذر و نیاز کی جاتی ہے، مزارات پر چادر چڑھانے کی نذر مانی جاتی ہے۔ اس طرح کی نذروں کا پورا کرنا ضروری نہیں البتہ بہتر ہے۔(27) شرعی منّت جس کے ماننے سے شرعاً اس کا پورا کرنا واجب ہوتا ہے، اس کے لئے چند شرطیں ہیں۔ 1) ایسی چیز کی منّت ہو کہ اس کی جنس سے کوئی واجب ہو، عیادتِ مریض اور مسجد میں جانے اور جنازہ کے ساتھ جانے کی منت نہیں ہو سکتی۔ 2) وہ عبادت خود بالذات مقصود ہو کسی دوسری عبادت کے لئے وسیلہ نہ ہو، لہٰذا وضو و غسل و نظرِ مصحف کی منّت صحیح نہیں۔ 3) اس چیز کی منّت نہ ہو جو شرع نے خو د اس پر واجب کی ہو، خواہ فی الحال یا آئندہ مثلاً آج کی ظہر یا کسی فرض نماز کی منّت صحیح نہیں کہ یہ چیزیں تو خود ہی واجب ہیں۔ 4) جس چیز کی منّت مانی وہ خود بذاتہٖ کوئی گناہ کی بات نہ ہو اور اگر کسی اور وجہ سے گناہ ہو تو منّت صحیح ہوجائے گی۔ مثلاً عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے، اگر اس کی منّت مانی تومنّت ہو جائے گی اگرچہ حکم یہ ہے کہ اُس دن نہ رکھے، بلکہ کسی دوسرے دن رکھے کہ یہ ممانعت عارضی ہے یعنی عید کے دن ہونے کی وجہ سے، خود روزہ ایک جائز چیز ہے۔ 5) ایسی چیز کی منت نہ ہو جس کا ہونا محال ہو، مثلاً یہ منت مانی کہ کل گزشتہ میں روزہ رکھوں گا یہ منت صحیح نہیں۔(28) شرعی منّت ماننے سے شرعاً اس کا پورا کرنا واجب ہوتا ہے۔(29)

سبق نمبر 18 امانت کا بیان

امانت ادا کرنے کی اہمیت کے بارے میں اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۷) (پ9، الانفال: 27) تَرْجَمَۂ کنز الایمان :اے ایمان والوں اللہ و رسول سے دغا نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں دانستہ خیانت۔ رسولُ الله صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےفرمایا: منافق کی علامت میں سے یہ ہے کہ جب اُس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔(30) دوسرے شخص کو اپنے مال کی حفاظت پر مقرر کردینے کو ایداع کہتے ہیں اور اُس مال کو ودیعت کہتے ہیں جس کو عام طور پر امانت کہا جاتا ہے۔ امانت رکھنے کی دو شرطیں ہیں: (1)وہ مال اِس قابل ہو جو قبضہ میں آسکے لہٰذا بھاگے ہوئے غلام کے متعلق کہہ دیا میں نے اُس کو وَدِیْعَت (امانت میں)رکھایا ہوا میں پرندہ اُڑ رہا ہے اُس کو وَدِیْعَت رکھا ان کا ضمان (ہلاک ہونے کی صورت میں قیمت ادا کرنا)واجب نہیں۔ (2)جس کے پاس امانت رکھی جائے وہ مُکلّف ہو تب حفاظت واجب ہوگی۔اگر بچہ کے پاس کوئی چیز امانت رکھ دی، اُس نے ہلاک کردی ضمان واجب نہیں۔ (31) وَدِیْعَت (امانت) کا حکم یہ ہے کہ وہ چیز مُودَع (جس کے پاس امانت رکھی گئی ہے اُس)کے پاس امانت ہوتی ہے۔ اُس کی حفاظت مُودَع پر واجب ہوتی ہے۔ اور مالک کے طلب کرنے پر دینا واجب ہوتا ہے۔ ودیعت (امانت)کا قبول کرنا مستحب ہے۔ ودیعت ہلاک ہوجائے تو اس کا ضمان (امانت کی قیمت ادا کرنا)واجب نہیں۔ ہاں اس کی کوتاہی سےہلاک ہوئی تو ضمان واجب ہے ،ودیعت کو نہ دوسرے کے پاس امانت رکھ سکتا ہے نہ عاریت یا اجارہ پر دے سکتا ہے نہ اس کو رہن رکھ سکتا ہے اس میں سے کوئی کام کرے گا تو تاوان دینا ہوگا۔ (32) امانت رکھوانے کی دو صورتیں ہیں۔ (1) کبھی صراحۃً (واضح طور پر)کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم نے یہ چیز تمہاری حفاظت میں دی۔ (2)اور کبھی دلالۃً (بغیر وضاحت کے)بھی امانت رکھوائی جاتی ہے۔ مثلاً کسی کی کوئی چیز گرگئی اور مالک کی غیر موجودگی میں لے لی۔ یہ چیز لینے والے کی حفاظت میں آگئی۔ (33)

سبق نمبر 19 عاریت کا بیان

منافقین مسلمانوں سے روز مرہ کی استعمال کی چیز خود تو لیتے تھے مگر مسلمانوں کو نہیں دیتے تھے تو اللہ پاک نے ان کی مذمت میں فرمایا: وَ یَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ۠(۷) (پ30، الماعون:7) تَرْجَمَۂ کنز الایمان :اور برتنے کی چیز مانگے نہیں دیتے۔ حضرت علی بن ابو طالب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رَسولُ الله صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےفرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، جب وہ اُسے ملے تو وہ السلام علیکم کہے اور وہ اس سے بہتر الفاظ کے ساتھ جواب دے۔ اور وہ اس سے ماعون یعنی روز مرہ کے استعمال کی چیز نہ روکے۔میں نے عرض کی: یَارسُولَ اللہ !ماعون کیا ہیں؟ توآپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: پتھر، لوہا، پانی اور ان کی طرح دیگر چیزیں۔(34) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ رَسولُ الله صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ماعون کے بارے میں فرمایا: اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کے ساتھ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ مثلا کلہاڑی، ہنڈیا، ڈول اور ان کی طرح دیگر چیزیں۔(35) دوسرے شخص کو چیز کی منفعت (نفع)کا بغیر عوض مالک کردینا عاریت ہے۔ جس کی چیز ہے اُسے مُعیر (عاریت دینے والا)کہتے ہیں اور جس کو دی گئی مُستَعِیر (عاریت لینے والا)ہے اور (جو چیز استعمال کے لئے دی گئی اس )چیز کو مُستَعار کہتے ہیں۔(36) عاریت کی دو شرطیں ہیں : (1) شئے مُستَعار اِنتفاع کے قابل ہو (یعنی جو چیز استعمال کے لئے لی ہے اس سے نفع حاصل کرنا ممکن ہو) ۔(2) عوض لینے کی اس میں شرط نہ ہو اگر معاوَضہ شرط ہو تو اجارہ ہوجائے گا۔(37) .عاریت کے لیے ایجاب وقبول ہونا ضروری ہے۔ .اگر کوئی ایسا فعل کیا جس سے قبول معلوم ہوتا ہو تو یہ فعل ہی قبول ہے۔ مثلاً کسی سے کوئی چیز مانگی اُس نے لاکر دے دی اور کچھ نہ کہا عاریت ہوگئی۔ .اور اگر وہ شخص خاموش رہا کچھ نہیں بولا تو عاریت نہیں۔(38) عاریت کا حکم یہ ہے کہ چیز ، مُسْتَعِیر (عاریت لینے والے)کے پاس امانت ہوتی ہے۔ اگر مُسْتَعِیر (عاریت لینے والے) نے تعدّی نہیں کی ہے اور چیز ہلاک ہوگئی توضمان واجب نہیں۔(39)
1… مسلم، کتاب الامارۃ، باب الناس تبع لقریش… الخ، ص781 ، حدیث: 4711 2…بخاری، کتاب النفقات، باب فضل النفقۃ علی الاہل… الخ ، 3/511، حدیث: 5351 3… مسلم، کتاب الزکاۃ، باب فضل النفقۃ علی العیال… الخ ، ص388، حدیث: 2312 4… بہار شریعت، 2/260، حصہ:8 5…بہار شریعت، 2/260، حصہ:8، سنی بہشتی زیور، ص 443 6… سنی بہشتی زیور، ص 444 ملتقطا 7…سنی بہشتی زیور، ص 446 تسہیلا 8…سنی بہشتی زیور، ص446 ملتقطا 9…تفسیر صراط الجنان، پ14، النحل ،تحت الآیۃ:91،5/373 10… بخاری،کتاب الایمان والنذور، باب لا تحلفوا بآبائکم، 4/287-286، حدیث: 6646 11… مسلم،کتاب الایمان، باب ندب من حلف یمینا…الخ، ص 694، حدیث: 4271 12… مرآۃ ُالمناجیح ،۵ /۱.۴ 13… درمختار ،کتاب الایمان ،5/488 14…بہار شریعت، 2/298، حصہ:8 15… فتاوی ہندیۃ، کتاب الأیمان، الباب الثانی فیما یکون یمینا ۔۔۔الخ، 2/52 16…بہارِ شریعت، 2/299، حصہ:9ملخصا 17… فتاوی ہندیہ، کتاب الایمان، الباب الثانی فیما یکون یمینا …الخ، 2/52 18… فتاوی ہندیہ، کتاب الایمان، الباب الثانی فیما یکون یمینا …الخ، 2/52 19… فتاوی ہندیہ، کتاب الایمان، الباب الثانی فیما یکون یمینا…الخ، 2/52 20… بہارِ شریعت، 2/299،حصہ:9 21…بہارشریعت ، 2/ 305 ، 308 ، حصہ:9 ملتقطا 22…فتاوی ہندیہ، کتاب الایمان ، الباب الاول …الخ ، 2 / 51 ، ملتقطا، بہارشریعت ، حصہ:9، / 301-302ماخوذا 23…تفسیر صراط الجنان، پ29، الدہر، تحت الآیۃ:7، 10/473تا474 24…بخاری، کتاب الایمان و النذور، باب من مات وعلیہ نذر،4/302، حدیث: 6698 25… تفسیر صراط الجنان، پ3،البقرۃ،تحت الآیۃ: 1،270/406 26… تفسیر صراط الجنان، پ3،البقرۃ،تحت الآیۃ: 1،270/406 27…تفسیر صراط الجنان، پ3،البقرۃ،تحت الآیۃ: 1،270/407 28…بہار شریعت، 1/1015، حصہ:5 29…بہار شریعت، 1/1015، حصہ:5 30…بخاری،کتاب الایمان،باب علامۃ المنافق،1/24، حدیث:33 31…بہار شریعت، 3/32، حصہ:14 ملتقطا 32…بہار شریعت، 3/32، حصہ:14 33…بہار شریعت، 3/31، حصہ:14 34…تفسیر در منثور،پ 30،الماعون، تحت الآیۃ:8،7/644 35… تفسیر در منثور،پ 30،الماعون، تحت الآیۃ:8،7/644 36…بہار شریعت، 3/54، حصہ:14 37…بہار شریعت، 3/54، حصہ:14 38…بہار شریعت، 3/54، حصہ:14 39…بہار شریعت، 3/54، حصہ:14

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن