my page 24
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Farz Uloom Sikhiye | فرض عُلوم سیکھئے

book_icon
فرض عُلوم سیکھئے
            

سبق نمبر 1 نکاح کا بیان

قرآن میں نکاح کی اہمیت اسلام ایک ایسا کا مل اور اکمل دین ہے جس نے انسان کی ہر شعبے میں رہنمائی فرمائی ہے۔ اللہ کریم نے دُنیا میں بہت سی جاندار مخلوقات پیدا فرمائیں،اُن میں سے کسی کو نَر اور کسی کو مادَہ بنایا اور اُن میں فطری خواہشات بھی رکھیں،انسان بھی اللہ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے، لہٰذا اسے بھی شہوانی جذبہ دیاگیا لیکن انسان کو اللہ پاک نے چونکہ تمام مخلوقات میں اَشْرف و اَعْلیٰ بنایا ہے اِس لئے اُسے فطری خواہشات پوری کرنے کا ضابطہ بھی انتہائی اَشْرف و اَعْلیٰ نکاح کی صورت میں عطا فرمایا ہے ،لہٰذا نکاح ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو فطری تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے اسلام نے ہمیں عطا فرمایا اور اِس کے ذریعے ہمیں جانوروں سے ممتاز کردیا۔قرآن کریم میں بھی رب کریم نے نکاح کی ترغیب و اہمیت کو بیان کیا۔چنانچہ: ربِّ کریم نے پارہ نمبر 4، سورۂ نساء کی آیت نمبر 3 میں ارشاد فرمایا: فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَۚ-فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً (پ 4،النساء: 3) تَرْجَمَۂ کنز الایمان :تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں خوش آئیں دو دو اور تین تین اور چار چار ، پھر اگر ڈرو کہ دو بیبیوں کو برابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی کرو۔ تفسیر صراطُ الجنان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت ہے کہ لوگ یتیموں کی سرپرستی میں تو ناانصافی کرنے سے ڈرتے تھے لیکن بہت سے نکاح کرنے میں کچھ خطرہ محسوس نہیں کرتے تھے، اُنہیں بتایا گیا کہ جب زیادہ عورتیں نکاح میں ہوں تو اُن کے حق میں ناانصافی سے بھی ڈرو جیسے یتیموں کے حق میں ناانصافی کرنے سے ڈرتے ہو اور اُتنی ہی عورتوں سے نکاح کرو جن کے حقوق ادا کرسکو۔ .اِس آیت سے معلوم ہوا کہ آزاد مرد کے لئے ایک وقت میں چار عورتوں تک سے نکاح جائز ہے۔.تمام امّت کا اِجماع ہے کہ ایک وقت میں چار عورتوں سے زیادہ نکاح میں رکھنا کسی کے لئے جائز نہیں سوائے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اور یہ بات آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خصوصیات میں سے ہے۔.آیت میں چار تک شادیاں کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ . لیکن اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ اگر تمہیں اس بات کا ڈر ہو کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی صورت میں سب کے درمیان عدل نہیں کرسکو گے تو صرف ایک سے شادی کرو۔.اسی سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی چار میں عدل نہیں کرسکتا لیکن تین میں کرسکتا ہے تو تین شادیاں کرسکتا ہے اور تین میں عدل نہیں کرسکتا لیکن دو میں کرسکتا ہے تو دو کی اجازت ہے۔ .یہ بھی معلوم ہوا کہ بیویوں کے درمیان عدل کرنا فرض ہے، اس میں نئی، پرانی، کنواری یا دوسرے کی مُطَلَّقہ، بیوہ سب برابر ہیں۔ یہ عدل لباس میں ، کھانے پینے میں ، رہنے کی جگہ میں اوررات کوساتھ رہنے میں لازم ہے۔ ان امور میں سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو۔(1) رسولُ الله صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:اے جوانو! تم میں جو کوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے۔(2) رسولُ الله صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: جو میرے طریقہ کو محبوب رکھے، وہ میری سُنت پر چلے اور میری سُنت سے نکاح ہے۔ (3) نکاح اُس عقد کو کہتے ہیں جو اِس ليے مقرر کیا گیا کہ مرد کو عورت سے جماع وغیرہ حلال ہو جائے۔(4) مشہورمُفَسّر، حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نکاح کا معنی اور نکاح کو نکاح کہنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:نکاح کا مطلب ضَم ہونا یعنی مِلناہے،چونکہ نکاح کی وجہ سے دو شخص یعنی خاوندوبیوی دائمی مِل کر زندگی گُزارتے ہیں بلکہ نکاح سے عورت و مرد کے خاندان بلکہ نکاح سے کبھی دو مُلک مِل جاتے ہیں اِس لیے اِسے نکاح کہتے ہیں۔اِصْطِلاحِ شریعت میں یہ لفظ صحبت و عَقْد دونوں پر بولا جاتا ہے۔(5) نکاح کے ليے چند شرطیں ہیں: (1)عاقل ہونا،مجنوں یا ناسمجھ بچہ نے نکاح کیا تو منعقد ہی نہ ہوا۔(2)بلوغ، نابالغ اگر سمجھ دار ہے تو منعقد ہوجائے گا مگر ولی کی اجازت پر موقوف رہے گا۔ (3)گواہ ہونا، یعنی ایجاب و قبول دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے ہوں۔ گواہ آزاد، عاقل، بالغ ہوں اور سب نے ایک ساتھ نکاح کے الفاظ سُنے۔ بچوں اور پاگلوں کی گواہی سے نکاح نہیں ہوسکتا۔(6) صرف عورتوں یا خنثے کی گواہی سے نکاح نہیں ہوسکتا، جب تک ان میں کے دو کے ساتھ ایک مرد نہ ہو۔(7) .اعتدال کی حالت میں یعنی نہ شہوت کا بہت زیادہ غلبہ ہو نہ عِنِّین (نامَرد) ہو اورمَہر و نفقہ پر قدرت بھی ہو تو نکاح سُنّتِ مؤکدہ ہے کہ نکاح نہ کرنے پر اڑا رہنا گناہ ہے۔ .اور اگر حرام سے بچنا .یا اتباعِ سُنّت و تعمیلِ حکم .یا اولاد حاصل ہونا مقصود ہے تو ثواب بھی پائے گا۔ . اور اگر محض لذّت .یا قضائے شہوت منظور ہو تو ثواب نہیں۔ .شہوت کا غلبہ ہے کہ نکاح نہ کرے تو مَعَاذَ اللہ اندیشۂ زنا ہے اور مہر ونفقہ کی قدرت رکھتا ہو تو نکاح واجب۔.يوہيں جبکہ اجنبی عورت کی طرف نگاہ اُٹھنے سے روک نہیں سکتا .یا مَعَاذَ اللہ ہاتھ سے کام لینا پڑے گا تو نکاح واجب ہے۔ .یہ یقین ہو کہ نکاح نہ کرنے میں زنا واقع ہو جائے گا تو فرض ہے کہ نکاح کرے۔ .اگر یہ ا ندیشہ ہے کہ نکاح کرے گا تو نان نفقہ نہ دے سکے گا .یا جو ضروری باتیں ہیں اُن کو پورا نہ کرسکے گا تومکروہ ہے۔ .اور ان باتوں کا یقین ہو تو نکاح کرنا حرام مگر نکاح بہرحال ہو جائے گا۔(8) نکاح میں یہ امور مستحب ہیں :(1)علانیہ ہونا۔(2) نکاح سے پہلے خطبہ پڑھنا، کوئی سا خطبہ ہو اور بہتر وہ ہے جو حدیث میں وارد ہوا۔(3)مسجد میں ہونا۔(4) جمعہ کے دن۔(5)گواہانِ عادل کے سامنے۔(6)عورت عمر، حسب ، مال، عزّت میں مرد سے کم ہو اور چال چلن اور اخلاق و تقویٰ و جمال میں بیش (زیادہ)ہو۔ (7)جس سے نکاح کرنا ہو اُسے کسی معتبر عورت کو بھیج کر دکھوالے اور عادت و اطوار و سلیقہ وغیرہ کی خوب جانچ کرلے کہ آئندہ خرابیاں نہ پڑیں۔ (8)کنواری عورت سے اور جس سے اولاد زیادہ ہونے کی اُمید ہو نکاح کرنا بہتر ہے۔ (9)سِن رسیدہ (10)اوربدخُلق (11)اور زانیہ سے نکاح نہ کرنا بہتر۔ (12)عورت کو چاہيےکہ مرد دیندار، خوش خُلق، مال دار، سخی سے نکاح کرے، فاسق بدکار سے نہیں۔ (13)اور یہ بھی نہ چاہيے کہ کوئی اپنی جوان لڑکی کا بوڑھے سے نکاح کر دے۔ یہ مستحباتِ نکاح بیان ہوئے۔ اگر اِس کے خلاف نکاح ہوگا جب بھی ہو جائے گا۔(9) الفاظِ نکاح دو قسم ہیں: (1)ایک صریح (یعنی ایسا لفظ جس سے نکاح مراد ہونا ظاہر ہو) ، یہ صرف دو لفظ ہیں۔ نکاح و تزوّج، (2)باقی کنایہ ہیں(یعنی ایسا لفظ جس سے نکاح مراد ہوناتو ظاہر نہیں مگرقرینہ سے معنیٔ نکاح سمجھا جاتا ہو)۔ الفاظ کنایہ میں اُن لفظوں سے نکاح ہوسکتا ہے جن سے خود شے مِلک میں آجاتی ہے،مثلاً ہبہ، تملیک، صدقہ، عطیہ، بیع، شرا مگر ان میں قرینہ کی ضرورت ہے کہ گواہ اُسے نکاح سمجھیں۔(10) .ایجاب و قبول یعنی مثلاً ایک کہے میں نے اپنے کو تیری زوجیت میں دیا۔ دوسرا کہے میں نے قبول کیا۔ یہ نکاح کے رکن ہیں۔ .پہلے جو کہے وہ ایجاب ہے اور اُس کے جواب میں دوسرے کےالفاظ کوقبول کہتے ہیں۔ .یہ کچھ ضرور نہیں کہ عورت کی طرف سے ایجاب ہو اور مرد کی طرف سے قبول بلکہ اِس کا اُلٹا بھی ہوسکتا ہے۔ .ایجاب و قبول میں ماضی کا لفظ ہونا ضروری ہے، مثلاً یوں کہے کہ میں نے اپنا یا اپنی لڑکی یا اپنی مُؤَکِّلہ کا تجھ سے نکاح کیا یا اِن کو تیرے نکاح میں دیا، وہ کہے میں نے اپنے ليے یا اپنے بیٹے یا مُؤَکِّل کے ليے قبول کیا۔.یا ایک طرف سے امر کا صیغہ ہو دوسری طرف سے ماضی کا، مثلاً یوں کہ تو مجھ سے اپنا نکاح کر دے یا تو میری عورت ہوجا، اُس نے کہا: میں نے قبول کیا یا زوجیت میں دیا، (نکاح) ہوجائے گا۔.یا ایک طرف سے حال کا صیغہ ہو دوسری طرف سے ماضی کا، مثلاً کہے تُو مجھ سے اپنا نکاح کرتی ہے اُس نے کہا کیا، تو (نکاح)ہوگيا یا یوں کہ میں تجھ سے نکاح کرتا ہوں، اُس نے کہا میں نے قبول کیا، تو (نکاح)ہوجائے گا۔ .اِن دونوں صورتوں میں پہلے شخص کو اس کی ضرورت نہیں کہ کہے میں نے قبول کیا۔ اور اگر کہا تُو نے اپنی لڑکی کا مجھ سے نکاح کر دیا، اُس نے کہا کر دیا، یا کہا ہاں، تو جب تک پہلا شخص یہ نہ کہے کہ میں نے قبول کیا نکاح نہ ہوگا۔ .اور ان لفظوں سے کہ نکاح کروں گا یا قبول کروں گا نکاح نہیں ہوسکتا۔(11) چند اہم احکام ❀ (نکاح میں)یہ امر ضروری ہے کہ منکوحہ (جس لڑکی سے نکاح کیا جارہا ہے )گواہوں کو معلوم ہوجائے یعنی یہ کہ فلاں عورت سے نکاح ہوتا ہے۔ اس کے دو طریقے ہیں۔. ایک یہ کہ اگر وہ مجلسِ عقد میں موجود ہے توا س کی طرف نکاح پڑھانے والا اشارہ کر کے کہے کہ میں نے اِس کو تیرے نکاح میں دیا اگرچہ عورت کے منہ پر نقاب پڑا ہو،بس اشارہ کافی ہے۔ . اور اس صورت میں اگر اُس کے یا اُس کے باپ دادا کے نام میں غلطی بھی ہوجائے تو کچھ حرج نہیں، کہ اشارہ کے بعد اب کسی نام وغیرہ کی ضرورت نہیں اور اشارے کی تعیین کے مقابل کوئی تعیین نہیں۔. دوسری صورت معلوم کرنے کی یہ ہے کہ عورت اور اُس کے باپ اور دادا کے نام ليے جائیں کہ فلانہ بنت فلاں بن فلاں اور اگر صرف اُسی کے نام لینے سے گواہوں کو معلوم ہوجائے کہ فلانی عورت سے نکاح ہوا تو باپ دادا کے نام لینے کی ضرورت نہیں، پھر بھی احتیاط اِس میں ہے کہ اُن کے نام بھی ليے جائیں اور اس کی اصلاً ضرورت نہیں کہ اُسے پہچانتے ہوں بلکہ یہ جاننا کافی ہے کہ فلانی اور فلاں کی بیٹی فلاں کی پوتی ہے۔ . اور اِس صورت میں اگر اُس کے یا اُس کے باپ دادا کے نام میں غلطی ہوئی تو نکاح نہ ہوا۔ . اور ہماری غرض نام لینے سے یہ نہیں کہ ضرور اُس کا نام ہی لیا جائے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ تعیین ہو جائے، خواہ نام کے ذریعہ سے یا یوں کہ فلاں بن فلاں بن فلاں کی لڑکی۔ . اور اگر اُس کی چند لڑکیاں ہوں تو بڑی یا منجھلی یا سنجھلی یا چھوٹی غرض مُعَیَّن ہوجانا ضرور ہے۔ .اور چونکہ ہندوستان (پاک و ہند)میں عورتوں کا نام مجمع میں ذکر کرنا معیوب ہے، لہٰذا یہی پچھلا طریقہ یہاں کے حال کے مناسب ہے۔(12)

سبق نمبر 2 جن سے نکاح حرام ہے

حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآىٕكُمْ وَ رَبَآىٕبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآىٕكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ٘-فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ٘-وَ حَلَآىٕلُ اَبْنَآىٕكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْۙ-وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۙ(۲۳) (پ4، النساء:23) تَرْجَمَۂ کنز الایمان :حرام ہوئیں تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری مائیں جنہوں نے دودھ پلایا اور دودھ کی بہنیں اور عورتوں کی مائیں اور ان کی بیٹیاں جو تمہاری گود میں ہیں ان بیبیوں سے جن سے تم صحبت کرچکے ہو تو پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو ان کی بیٹیوں میں حرج نہیں اور تمہاری نسلی بیٹوں کی بیبییں اور دو بہنیں اکٹھی کرنا مگر جو ہو گزرا بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ محرمات وہ عورتیں ہیں جن سے نکاح حرام ہے اور حرام ہونے کے چند سبب ہیں۔ ان اسباب کی وجہ سے حرام ہونے والی عورتوں کی نو قسمیں ہیں۔ (1)حرمتِ نسب: پہلی قسم وہ عورتیں ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہیں۔ اس قسم میں سات عورتیں ہیں:(1)ماں،(2) بیٹی، (3)بہن، (4)پھوپی،(5) خالہ،(7) بھتیجی،(8) بھانجی۔(13) (2)حرمتِ مصاہرت یعنی سسرالی رشتے: دوسری قسم میں وہ عورتیں ہیں جو مصاہرت (سسرالی رشتے)کی وجہ سے حرام ہیں۔(1) زوجۂ موطؤہ کی لڑکیاں،(2) زوجہ کی ماں، (3)دادیاں، نانیاں، (4) باپ،دادا وغیرہ اصول کی بیبیاں، (5) بیٹے پوتے وغیرہ فروع کی بیبیاں۔(14) (3)وہ عورتیں جو نکاح میں جمع نہیں ہوسکتیں : وہ دو عورتیں کہ اُن میں جس ایک کو مرد فرض کریں، دوسری اس کے ليے حرام ہو (مثلاً دو بہنیں کہ ایک کو مرد فرض کرو تو بھائی، بہن کا رشتہ ہوا یا پھوپی ،بھتیجی کہ پھوپی کو مرد فرض کرو تو چچا، بھتیجی کا رشتہ ہوا اور بھتیجی کو مرد فرض کرو تو پھوپی ،بھتیجے کا رشتہ ہو ا یا خالہ ،بھانجی کہ خالہ کو مرد فرض کرو تو ماموں، بھانجی کا رشتہ ہوا اور بھانجی کو مرد فرض کرو تو بھانجے ،خالہ کارشتہ ہوا) ایسی دو عورتوں کو نکاح میں جمع نہیں کر سکتا بلکہ اگر طلاق دے دی ہو اگرچہ تین طلاقیں تو جب تک عدّت نہ گزرلے، دوسری سے نکاح نہیں کرسکتا۔(15) (4)حرمتِ ملک : چوتھی قسم میں وہ عورتیں ہیں جو اپنی ملک میں ہونے کی وجہ سے حرام ہیں۔.عورت اپنے غلام سے نکاح نہیں کرسکتی، خواہ وہ تنہا اسی کی مِلک میں ہو یا کوئی اوربھی اس میں شریک ہو۔ .مولیٰ (آقا)اپنی باندی سے نکاح نہیں کرسکتامگر متأخرین کے نزدیک احتیاط کی وجہ سے نکاح کرلینا اچھا ہے۔ (16) (5)حرمتِ شرک: پانچویں قسم میں وہ عورتیں ہیں جن کے ساتھ نکاح کرنا شرک کی وجہ سے حرام ہے۔.مسلمان کا نکاح مجوسیہ(آگ کی عبادت کرنے والی)،بت پرست،آفتاب پرست، ستارہ پرست عورت سے نہیں ہوسکتا خواہ یہ عورتیں حرّہ (آزاد)ہوں یا باندیاں، .غرض کتابیہ (یہودن اور عیسائی عورت)کےسوا کسی کافرہ عورت سے نکاح نہیں ہوسکتا۔ (6)حرمتِ ملک: حرّہ (آزادعورت )کے نکاح میں ہوتے ہوئے باندی سےنکاح کرنا۔ آزاد عورت نکاح میں ہےاور باندی سے نکاح کیا، صحیح نہ ہوا۔ (7)تعلقِ حقِ غیرکی وجہ سے حرمت: دوسرے کی منکوحہ سے نکاح نہیں ہوسکتا بلکہ اگر دوسرے کی عدّت میں ہو جب بھی نہیں ہوسکتا۔ عدّت طلاق کی ہو یا موت کی یا شبہ نکاح یا نکاح فاسد میں دخول کی وجہ سے۔ (8)زائد تعداد کی وجہ سے حرمت: آٹھویں قسم میں وہ عورتیں ہیں جو مقرر گنتی (یعنی چار) سے زیادہ ہونے کی وجہ سے حرام ہیں۔ آزاد شخص کو ایک وقت میں چار عورتوں اور غلام کو دو سے زیادہ نکاح کرنے کی اجازت نہیں۔ (17) (9)حرمتِ رضاعت: نویں قسم میں وہ عورتیں ہیں جو غیر کے بچے کو اپنا دودھ پلائیں۔ ❀ بچہ نے جس عورت کا دودھ پیا وہ اس بچہ کی ماں ہو جائے گی اور اس کا شوہر (جس کا یہ دودھ ہے یعنی اُس کی وطی سے بچہ پیدا ہوا جس سے عورت کو دودھ اترا) اس دودھ پینے والے بچہ کا باپ ہو جائے گا ۔.اور اس عورت کی تمام اولادیں اس کے بھائی بہن خواہ اسی شوہر سے ہوں یا دوسرے شوہر سے، اس کے دودھ پینے سے پہلے کی ہیں یا بعد کی یا ساتھ کی. اور عورت کے بھائی، ماموں اور اس کی بہن خالہ۔ .يوہيں اس شوہر کی اولادیں اس کے بھائی بہن اور اُس کے بھائی اس کے چچا اور اُس کی بہنیں، اس کی پھوپیاں خواہ شوہر کی یہ اولادیں اسی عورت سے ہوں یا دوسری سے۔ .يوہيں ہر ایک کے باپ ،ماں اس کے دادا دادی، نانا ،نانی۔(18) ❀ بچہ کو دو برس تک دودھ پلایا جائے، اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔ دودھ پینے والا لڑکا ہو یا لڑکی۔ . اور یہ جو بعض عوام میں مشہور ہے کہ لڑکی کو دو برس تک اور لڑکے کو ڈھائی برس تک پلا سکتے ہیں یہ صحیح نہیں۔ .یہ حکم دودھ پلانے کا ہے اور نکاح حرام ہونے کے ليے ڈھائی برس کا زمانہ ہے یعنی دو (2)برس کے بعد اگرچہ دودھ پلانا حرام ہے مگر ڈھائی برس کے اندر اگر دودھ پلا دے گی، حرمتِ نکاح ثابت ہوجائے گی۔. اور اس کے بعد اگر پیا، تو حرمتِ نکاح نہیں اگرچہ پلانا جائز نہیں۔ (19)

سبق نمبر 3 ولی کا بیان

ولی وہ ہے جس کا قول (بات)دوسر ے پر نافذ ہو دوسرا چاہے یا نہ چاہے۔ ولی کا عاقل بالغ ہونا شرط ہے، بچہ اور مجنون ولی نہیں ہوسکتا۔ مسلمان کے ولی کا مسلمان ہونا بھی شرط ہے کہ کافر کو مسلمان پر کوئی اختیار نہیں، متقی ہونا شرط نہیں۔ فاسق بھی ولی ہوسکتاہے۔(20) ولی کسی کے بنانے کا نہیں ہوتا، وہ شریعتِ مطہرہ نے ترتیب وار مقرر کئے ہیں۔ اور یہاں ولایت کی وہی ترتیب معتبر ہے جو وراثت میں معتبر ہے۔ مثلا سب میں پہلا ولی بیٹا ہے، پھر باپ، پھر سگا بھائی، پھر سوتیلا، پھر سگا بھتیجا، پھر سوتیلا، پھر سگا چچا، پھر سوتیلا، پھر سگے چچا کا بیٹا، پھر سوتیلے کا۔ دادا، پردادا کی اولاد کا، جو مرد عاقل بالغ قریب تر ہوگا وہی ولی ہےاور ان میں کوئی نہ ہو تو پھر ماں ولی ہے، پھر دادی، پھر نانی پھر ان کے بعد اور دوسرے لوگ۔(21) نابالغ اور مجنون اور لونڈی، غلام کے نکاح کے ليے ولی شرط ہے، بغیر ولی ان کا نکاح نہیں ہوسکتا۔. اور حرہ بالغہ عاقلہ (آزاد بالغہ عقلمند لڑکی)نے بغیر ولی، کفو سے نکاح کیا تو نکاح صحیح ہوگيا۔ .اور غیر ِکُفو سے کیا تو نہ ہوا، اگرچہ (ولی)نکاح کے بعد راضی ہوگيا۔ .البتہ اگر ولی نے سکوت کیا اور کچھ جواب نہ دیا اور عورت کے بچہ بھی پیدا ہوگيا تو اب نکاح صحیح مانا جائے گا۔(22)عورت عاقلہ بالغہ کا نکاح بغیر اس کی اجازت کے کوئی نہیں کرسکتا نہ باپ نہ کوئی اور، کنواری ہو یا بیاہی، .یونہی مرد عاقل بالغ آزاد کا نکاح ان کی مرضی کے برخلاف کوئی نہیں کرسکتا۔(23)

سبق نمبر 4 کفو کا بیان

مولیٰ علی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے مروی ہےکہ نبیِ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اے علی!تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو، نماز کا جب وقت آجائے، جنازہ جب موجود ہو، بے شوہر والی کا جب کفو ملے۔(24) کُفو کے یہ معنی ہیں کہ مرد، عورت سے نسب وغیرہ میں اتنا کم نہ ہو کہ اس سے نکاح عورت کے ولیوں کے ليے باعثِ ننگ و عار ہو، کفاء ت صرف مرد کی جانب سے معتبر ہے عورت اگرچہ کم درجہ کی ہو اس کا اعتبار نہیں۔(25) کفاء ت میں چھ چیزوں کا اعتبار ہے: (1) نسب، (2)اسلام، (3) حرفہ(پیشہ)، (4)حریت(آزادی)، (5)دیانت، (6) مال۔قریش میں جتنے خاندان ہیں وہ سب باہم کُفو ہیں، یہاں تک کہ قرشی غیر ہاشمی(وہ قرشی جو ہاشمی نہ ہو)، ہاشمی کا کُفو ہے اور کوئی غیر قرشی، قریش کا کُفو نہیں۔ .قریش کے علاوہ عرب کی تمام قومیں ایک دوسرے کی کفو ہیں۔ انصار و مہاجرین سب اس میں برابر ہیں۔ عجمی النسل (یعنی جو عربی نہیں ہے وہ )عربی کا کفو نہیں ۔ مگر عالمِ دین (کفو ہے )کہ اس کی شرافت، نسب کی شرافت پر فوقیت رکھتی ہے۔ (26)
1… تفسیر صراط الجنان، پ4، النساء : تحت الآیۃ:3، 2/144-145 2… بخاری،کتاب النکاح،باب من لم یستطع الباء ۃ فلیصم،3/422، حدیث:5066 3… کنزالعمال ،کتاب النکاح،الباب الاول فی الترغیب فیہ،جز8،16/116،حدیث:44406 4… بہار شریعت، 2/4، حصہ:7 5…مرآۃ المناجیح،5/2ملتقطا 6… بہار شریعت، 2/11، حصہ:7 7… بہار شریعت، 2/12، حصہ:7 8… بہار شریعت، 2/4تا5، حصہ:7 9… بہار شریعت، 2/5تا6، حصہ: 7ملتقطا 10… بہار شریعت، 2/8تا 9، حصہ:7 11… بہار شریعت، 2/7، حصہ:7 12… بہار شریعت، حصہ2/16-15 حصہ:7 13… قانونِ شریعت،ص275 14… قانونِ شریعت ،ص275 15… بہار شریعت، حصہ2/27، حصہ:7 16… بہار شریعت، حصہ2/30، حصہ:7 17… بہار شریعت، 2/34، حصہ:7ملتقطا 18…بہار شریعت، 2/38-37 حصہ:7 19…بہار شریعت، 2/36، حصہ:7 20…بہار شریعت، 2/42، حصہ:7 21…سنی بہشتی زیور، ص 398 22…بہار شریعت، حصہ2/46، حصہ:7 23…سنی بہشتی زیور، ص 399 24… ترمذی، ابواب الجنائز،باب ماجاء فی تعجیل الجنازۃ،2/339 حدیث:1077 25…بہار شریعت، 2/53، حصہ:7 26…بہار شریعت، حصہ2/53، حصہ:7

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن