30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
سبق نمبر27 امام مسجد کو کیسا ہو نا چاہئے؟
اِمَامَت کا مَنْصَب،ذمّہ داری اور اس مَنْصَب کی نَزاکَت ہر شعبہ سے جُدا ہے، ائمہ کرام کا کردار و گفتار ، رَہَن سَہَن، اخلاق ، اندازِ زِنْدَگی، حُسنِ مُعَاشَرْت غَرَض یہ کہ ہر اُٹھنے والا قَدَم مَسْجِد، مِنْبَر و مِحْرَاب ، دینِ اسلام اور اسلامی اقدار کا مُحافِظ ہونا چاہئے۔امام نمازِ باجماعت میں بندے اور خالِق کے درمیان واسطہ ہوا کرتا ہے،واسطہ جس قدرقَوی(یعنی مضبوط)ہوگا اُسی قدرمفیدہوگا۔لِہٰذا امام مَسْجِدکو چاہئے کہ اپنے عِلْم و عمل ، کردار،گفتار،اندازِتکلم،رہن سہن،لِباس،لوگوں سے مُعَامَلات و دیگر اُمُور میں خود کو دوسروں سے ممتاز و نُمایَاں رکھے۔ایک مثالی امام مَسْجِد کو کونسے اعلیٰ و عُمْدَہ اوصاف کاحامل ہونا چاہئے،آیئے مُلَاحَظہ کیجئے۔
امام صاحب کا کردار وگفتار مثالی ہونا چاہئے۔اندازِ گفتگو اور بول چال ایک انسان کی شَخْصِیَّت کی پہچان ہوتی ہے،امام صاحب کو چاہئے کہ گفتگو میں ہر اس طریقے سے بچے جو گفتگو کو عیب دار کردے یعنی بَدکلامی،گالی گلوچ،جُھوٹ، غیبت اور چُغلی سے بہت دور رہے،اسی طرح بولنے میں نَرْمی،مَحبَّت اور اپنائیت کا اِظْہَار کرے۔چُونکہ ایک امام کا واسطہ مَسْجِد میں مختلف ذہن وسوچ رکھنے والے لوگوں سے پڑتا ہے،کسی کا لہجہ سَخْت کسی کا نَرْم،کوئی بہت زِیادَہ اَدَب کرنے والا تو کسی کو بولنے کا سلیقہ نہیں آتا ۔ کوئی حُصُول عِلْم دین کیلئے مسائل پوچھتا ہے تو کوئی جان بوجھ کرتنقید برائے تنقید کرتا ہے۔ اس لئے امام صاحب کو اپنے حوصلہ و ہِمَّت کو بلند رکھتے ہوئے سب کے ساتھ نَرْمی وشفقت و مَحبَّت بھرا رویہ رکھنا چاہیئے۔
یو ں ہی مَسْجِد میں کسی مُقْتَدِی سے دورانِ نَماز یا ویسے ہی غلطی سَرزَدْ ہوجانے پربھی سب کے سامنے جھاڑنے اور ڈانٹ پلانے کے بجائے نرمی سے سمجھایئے۔ کیونکہ بعض اَوقات انسان ضد کی وجہ سے اپنے فائدے کی بات بھی ٹھکرا دیتا ہے۔آیئے!مَسْجِد میں غلطی کرنے والے کو نرمی سےسمجھانے کی دو بہترین مثالیں حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کے عَمَل مبارک سے مُلَاحَظہ کیجئے۔
(1) حضرتِ سَیِّدُنا اَنَس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ مسجِد میں موجودتھے کہ ایک اَعرابی(یعنی دیہاتی)آیا اور مَسْجِد میں کھڑے ہو کر پَیشاب کرنا شُروع کر دیا۔ صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اُس کے درپے ہوئے تو حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَاد فرمایا:اِسے چھوڑ دو۔صَحابۂِ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان خاموش ہو گئے حتّٰی کہ اُس نے پیشاب کر لیا۔پھر مبلّغِ اَعْظَم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم نے اُسے بُلا کر (نَرْمی و شَفْقَت)سے فرمایا:یہ مَسَاجِد پَیشاب اور گندَگی کیلئے نہیں،یہ تو صِرف اللہ پاک کے ذِکر،نَماز اور تِلاوتِ قرآن کیلئے ہیں۔پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم نے کسی کو پانی لانے کا حُکم دیا،وہ پانی کا ڈول لایا اور اُس(یعنی پیشاب کی جگہ)پر بہا دیا۔ (1)
مَشْہُور مُحَدِّث، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس حدیثِ مبارَکہ کے تَحت فرماتے ہیں:اِس میں مبلِّغین کو طریقۂ تبلیغ کی تعلیم ہے کہ تبلیغ اَخلاق اور نَرْمی سے ہونی چاہیئے۔(2)
(2) حضرتِ سَیِّدُنا ابوبکرہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نَماز کے لئے آئے۔ اس وَقْت آپ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نَماز پڑھا رہے تھے اور رُکُوع کی حَالَت میں تھے۔حضرتِ ابو بکرہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے صف میں شامل ہونے سے پہلے ہی رُکُوع کر دیا، پھر(حَالَت نَماز ہی میں)چل کر صف میں شامِل ہوئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نَماز مُکَمَّل کی تو فرمانے لگے:آپ لوگوں میں سے کس نے صف میں شامِل ہونے سے پہلے ہی رُکُوع کر لیا تھا اور پھر بعد میں صف میں آملا تھا؟حضرتِ ابوبکرہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نےعرض کی:میں نے۔تو آپ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم نے اِرشَادفرمایا: اللہ پاک پر تمہاری حِرْص میں اضافہ فرمائے ، آئندہ ا یسا نہ کرنا۔(3)
تقویٰ و پرہیزگاری تو ہرمؤمن کا وَصْفِ عظیم ہے لہٰذا ایک امام میں یہ لازمی وَصْف ہونا چاہئے کہ یہ نَمازوں کی قبولِیَّت کا اہم ذَرِیْعَہ بھی ہے، فرمانِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے: اگرتم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری نَمازیں قبول ہوں تو تمہارے بھلے لوگ تمہارے امام ہونے چاہئیں۔(4)
نَماز کی اِمَامَت نبیِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نِیابَت(یعنی نائب ہونے) کا ایک حِصّہ ہے ،چونکہ نبیِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تمام اوصافِ حمیدہ کے جامِع ہیں اس لئے امام کو بھی چاہئے کہ عُمْدَہ اَوصَاف کو اپنانے کی کوشش کرے اور تمام بُری عادات و خلا ف شَریعت کاموں سےبچے،بِالْخُصُوص ایسےمُعَامَلات جن کی وجہ سے نَماز کی ادائیگی پر فرق پڑتا ہو،ان سے بچنا تو بہت ضروری ہے، جیسے علانیہ فِسق و فجور والے کام کرنا مثلاً داڑھی کو ایک مٹھی سے کم کروانا ،سرِعام گالی گلوچ کرنا وغیرہ۔
امام صاحب کو ایسی عادات اور باتوں سے اِجتناب کرنا چاہئے جو مروّت کے خلاف تَصَوُّر کی جاتی ہیں،جیسے راستے میں عامیانہ طریقے سے کھانا،عوامی مقامات پر روڈ کنارے اِسْتِنجاء کرنا، تھوکتے رہنا،گٹکا اور سگریٹ نوشی ، ہر دوسرے شخص سے اُدھار مانگنا وغیرہ۔
ایک رِوایت میں ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے قبلہ کی طرف منہ کرکے تھوکا ہے تو اِرشَاد فرمایا:یہ تمہاری جَمَاعَت نہ کرائے ۔ اُس نے پھر جَمَاعَت کرانے کا اِرَادہ کیا تو لوگوں نے اس کو منع کیا اور اس کو خَبَر دی کہ رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تمہارے پیچھے نَماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ پھر حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خِدْمَت میں یہ واقعہ پیش ہوا تو آپ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ہاں ( میں نے منع کیا ہے)کیونکہ تونے (قبلہ کی طرف تھوک کر) اللہ پاک اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ایذا دی۔(5)
مَشْہُور مُحَدِّث،حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس حدیثِ مُبارَکہ کی شرح میں لکھتے ہیں:کیونکہ یہ کعبہ کا بے اَدَب ہے اس لیے حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم نے اس سے خطاب بھی نہ کیا کہ وہ خطاب کے لائق ہی نہ رہا۔جب کہ کعبہ کا بے اَدَب اِمَامَت کے لائق نہیں توحضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کابے اَدَب اور آپ کی شان میں بکواس کرنے والا اِمَامَت کے لائق کیسے ہو سکتا ہے۔اس سے وہ لوگ عِبْرَت پکڑیں جو بلاتحقیق ہر فاسِق و بے اَدَب کو امام بنا لیتے ہیں۔خَیال رہے کہ یہ امام صحابی تھے،مگر اتفاقًا ان سے یہ خطا ہو گئی پھر توبہ کرلی کیونکہ کوئی صحابی فاسِق نہیں،جب اتفاقًا خطا پر اِمَامَت سے مَعْزُول کر دیا گیا تو جان بوجھ کر بے ادبی کرنے والا ضرور مَعْزُول کر دیا جائے گا۔حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کا یہ فرمانا کہ ہر نیک و فاسِق کے پیچھےنَماز پڑھ لو اس موقعہ کے لئے ہے جب وہ امام بن گیا ہو اور ہم اسے مَعْزُول کرنے پرقادِر نہ ہوں۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قوم و سلطان امام کو اِمَامَت سے علیحدہ کر سکتے ہیں۔(6)
لَین دَین اور کاروبار کے معاملات ہر انسان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ، یوں تو کسی کے لئے بھی ناجائز یا دھوکا دہی پر مشتمل کاروبار کرنا جائز نہیں ہے اور لین دین کے معاملات میں فراڈ کرنے کی اجازت بھی نہیں ہے لیکن امام صاحب کا ایسے ناجائز معاملات سے دور رہنا بہت زیادہ ضروری ہے،کیونکہ امام صاحب ایک دینی تشخص رکھتے ہیں اور عام مسلمانوں کے لئے مشعلِ راہ ہوتے ہیں،امام صاحب کےغلط کاروبار یا لین دین کے معاملات میں غلط راہ چلنے کی صورت میں یا تو لوگ علما سے بدظن ہوں گے یا پھر جائز سمجھ کر خود بھی غلط راہ چلیں گے،اس لئے امام صاحب کوئی بھی سببِ تہمت بننے والا کام نہ کریں اور نہ ہی اُدھار اورقرض وغیرہ کے لین دین میں نامناسب انداز اِختیارکریں۔
ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے اہلِ خانہ کی دینی تَرْبِیَت کا خاص اِہتِمام کرےلیکن ایک امام مَسْجِد کو اس حوالے سے بھی بہت زِیادَہ اِحْتِیاط کی ضَرورت ہے،امام صاحب کی اَہلیہ اور بچّوں کا دینی سانچے میں ڈھلا ہونا اور بَداَخلاقی والے تمام مُعَامَلات سے دور رہنے کی بھرپور کوشش کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ امام صاحب کو نیکی کی دعوت دینے اور بُرائی سے منع کرنے میں کسی رُکاوٹ کا سامنا نہ ہو۔
امام صاحب کا لِباس اور رَہن سَہن بھی نَمازیوں اور اہلِ علاقہ پر بہت اَثَر انداز ہوتا ہے اس لئے امام صاحب کو طرزِ زِنْدَگی بھی رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جیسا ہی اپنانا چاہئے اور اسی میں عزّت ہے،لِباس میں سادگی بھی ہو،وقار بھی ہو اور صفائی بھی۔ زَرْق بَرْق اور قِسْم قسم کی تَراش خَراش والے فیشن ایبل کپڑے پہننے سے چند جوان اور شوخ طبع نَمازیوں کی واہ وا ہ تو مل جائے گی لیکن سنجیدہ لوگوں کی نَظَر میں امام صاحب قابلِ قدر حَیْثِیّت نہ بناسکیں گے۔ اور پھر خود زَرْق بَرْق لباس پہنے ہوئے امام صاحب ، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سادگی کا بیان کس طرح کریں گے۔ امام صاحب کو چاہئے کہ حَتَّی الْاِمْکَان عزّت کا تاج عِمامہ شریف سر پر سجائے رکھیں۔
بعض آئمہ حضرات کی عادَت ہوتی ہے کہ کوئی بھی چیز منگوانی ہو تو کسی کو بھی روک کر بول دیتے ہیں کہ”فلاں سے بو لو ، امام صاحب یہ چیز منگوا رہے ہیں“اس عادَت سے بچنا چاہئے کہ بعض شریر لوگ امام صاحب کا نام اِسْتِعمال کر کے اپنے مَطْلَب نکالنا شروع کر دیتے ہیں جبکہ بَدنامی امام صاحب کی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
موجودہ دورسوشل میڈیا ،اسمارٹ فونز اور انٹرنیٹ کا دور ہے ، کئی امام صاحبان بھی سوشل میڈ یا اِسْتِعمال کرتے ہیں، یاد رکھئے! سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے کہ آپ کا ایک کِلک یا لکھا ہوا ایک جملہ لمحہ بھر میں لاکھوں اپنوں اور بیگانوں تک پہنچ جاتاہے،اس لئے اولاً تو سوشل میڈیا سے دوری ہی اِخْتِیار کیجئے اور اگر اِسْتِعمال کرنا بھی ہو تو صرف دینی کام کیلئے اِسْتِعمال کیجئے،سوشل میڈیا پر جاری سیاسی و غیر سیاسی کسی طرح کی ابحاث کا حصّہ نہ بنئے،سوال: دَرْ سوال: ، اِعْتِراض در اِعْتِراض سوشل میڈیا پر موجود آپ کے مقتدیوں اور اہلِ علاقہ کو آپ سے مُتَنَفِّربھی کر سکتا ہے۔ لہذا اِحْتِیاط ہی میں عَافِیَّت ہے ۔
آج ہمارے مُعَاشَرے میں بدنگاہی کا فتنہ اس قدر عام ہو گیا ہے کہ عوام و خواص اس میں مبتلانظر آتے ہیں۔ بدنگاہی ابلیس کا زہر آلود تیر ہے، اس کے ذَرِیْعَہ وہ بہت سے دِین دار اور شریعت کے پابند مسلمانوں کے اِیمان پر حملہ آور ہوتا ہے اور اس کے اَخلاق و کردار پر مَنفی اَثَر ڈالتا ہے ، امام مَسْجِد کو چاہئے کہ شیطان کے اس مُہْلِک ہتھیار سے بہت ہوشیار رہے،مَسَاجِد میں بسا اَوقات خواتین بچّوں کو دَم کروانے یا بچّوں کا نام رکھوانے وغیرہ کے لئے آ جاتی ہیں یا بعض لوگ ایصالِ ثواب کے لئے امام صاحب کو گھر پر بلاتے ہیں،ایسے میں امام صاحب کو چاہئے کہ اپنی نگاہوں کی حِفَاظَت کریں اور اگر کسی گھر میں فاتحہ خوانی کے لئے جائیں تو ہمیشہ اس گھر کے مرد کے ساتھ ہی جائیں۔(7)
امام صاحب کو چاہئے کہ جمعہ کے بیان کے عِلاوہ بھی مَوْقَع بموقع درس و بیان کا سلسلہ جاری رکھیں بِالْخُصُوص طَہَارَت،نَماز اور مہینوں کے اِعْتِبار سے معلومات و عقائد کے حوالے سے درس دیتے رہنا چاہئے ، کبھی سجدۂ سہو واجِب ہو جائے تو بعدِ سلام وجہ اور مسئلہ آسان انداز میں سمجھا کر بیان کر دینا چاہئے نیز جس وجہ سے سجدۂ سہو واجِب ہوا اس مَوْقَع پرلقمہ دینا ہے یا نہیں؟یہ بھی سمجھا دینا چاہئے۔ ربیعُ الاول میں سیرت و شانِ مصطفےٰ کا بیان،ربیعُ الآخر میں حُضور غوثِ اَعْظَم اور دیگر اولیا کا ذِکْر، رَمَضان میں روزوں کے مسائل،عیدین کےقریب عید کے مسائل اَلْغَرَضْ جیسے دن چل رہے ہوں ویسے ہی موضوعات پر درس و بیان کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے۔
آئمہ مَسَاجِد سے مُقْتَدِی بڑی اُمِّید سے سوال پوچھتے ہیں،انہیں چاہئے کہ لوگوں کے سوالات کا مناسب انداز میں جواب دیں، نہ تو خود پر یہ لازم کریں کہ ہر ہر سوال کا جواب دینا ہی دینا ہے اور نہ ہی ہر سوال کے جواب میں” لَااَدْرِی یعنی میں نہیں جانتا “کہنے کو اپنا وظیفہ بنالیں،جو معلوم ہو اس کا مُناسِب جواب دیں اور جو نہ پتا ہو اس کے بارے میں سیکھیں،معلوم کریں،مُطَالَعَہ کریں اور اگلے وَقْت میں جواب: دے دیں ،یہ انداز جہاں امام صاحب کے عِلْم میں اضافہ کا سَبَب بنے گا وہیں اندازے سے جواب: دینے سے بچائے گا اور لوگوں کی نَظَر میں عزّت بڑھائے گا۔ ہمیشہ یاد رکھئے کہ جب امام صاحب ہر بات پر ”معلوم نہیں،میں نہیں جانتا،پتا نہیں“ جیسے اَلْفَاظ کہتے ہیں تو لوگوں کی امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں،ہو سکے تو کبھی بھی کسی کو اندھیرے میں نہ چھوڑیں کوئی نہ کوئی مناسب جواب اور راستہ بتا دیں، اسے ایک مِثال سے سمجھئے:کسی نے امام صاحب سے پوچھا کہ”کاتِبینِ وحی(وحی لکھنے والوں) کی تعداد کتنی ہے نام کیا کیا ہیں؟“اس سوال کے جواب چارطرح ہوسکتے ہیں: (1)معلوم نہیں(2)تفصیل تو یاد نہیں البتہ آپ سیرت کی کتاب مدارج النبوۃ مترجم یا سیرتِ مصطفےٰمیں دیکھ لیں اس میں لکھے ہوئے ہیں(3)ابھی یاد نہیں کتاب سے دیکھ کر شام میں یا کل بتاتا ہوں (4) مُکَمَّل تفصیل بتا دی جائے۔ چوتھا جواب اگرچہ اَحْسَن ہے لیکن مُشکِل ہے جبکہ دوسرا اور تیسرا جواب بہت مناسب ہے ، کم از کم ہر امام کو اس انداز پر تو لازمی ہونا چاہئے۔
کچھ لوگوں کی عادَت ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی مُخالِف پر اِعْتِراض کرنے ،اپنے مَوْقِف کی تائید لینے یا اپنا کوئی مَذمُوم مَقْصَد پورا کرنے کے لئے امام صاحب سے گُھما پِھرا کر سوال کرتے ہیں،امام صاحب کو اس حوالے سے بیدار مغز ہونا چاہئے کہ علاقے یا ملک میں چلنے والے اختلافات وغیرہ سے کچھ نا کچھ آگاہ رہیں تاکہ رائے کے اِظْہَار میں محتاط رہ سکیں۔ سیاسی شخصیات کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کے جواب دینے سے پرہیز کریں،کسی بھی سیاسی پارٹی وغیرہ کا نہ تو حِصّہ بنیں اور نہ ہی کسی قسم کی جانبداری سے کام لیں۔ کبھی بھی کسی سیاسی پارٹی یا گروپ وغیرہ کو سپورٹ کرنے کی بات نہ کریں کہ ایسا کرنے سے بعض لوگ تو امام صاحب کے قریب آ جائیں گے لیکن بَقِیَّہ سب مُخالَفَت کا نشانہ بنا ئیں گے، خطابات میں مُلکی اور علاقائی حالات کو پیشِ نَظَر رکھتے ہوئے ہی گفتگو کریں۔
ایک نمازی کسی دوسرے نمازی کے بارے میں اعتراضانہ بات کرے تو ہاں میں ہاں نہ ملائیں،سابقہ امام یا کمیٹی کے بارے میں یا موجودہ کمیٹی کے بارے میں کسی بھی اِعْتِراض یا چال کا حِصّہ نہ بنیں،کوئی اِعْتِراض کرے تو جھڑکنے کے بجائے پیار سے جواب دیں،بے جا اِعْتِراض ہو تو مناسب انداز سے بات کو ٹال دیں۔مُؤَذِّن، خادم اورمَسْجِد کے دیگر عملے کے بارے میں بھی کسی اِخْتِلاف کا حِصّہ نہ بنیں۔
کبھی کوئی کسی سُنّی عالم یا سابقہ امام یا کسی مفتی وغیرہ کا نام لے کر کوئی مسئلہ بیان کرے اور وہ مسئلہ غلط ہو تو بجائے کسی پر بھی اِعْتِراض کرنے کے صرف دُرُسْت مسئلہ بتا دیں اور پوچھنے والے کو یہی کہیں کہ آپ کو سننے میں خطا ہوئی ہو گی، مسئلہ یوں نہیں یوں ہے، کسی سنی مفتی ، عالم یا سابقہ امام صاحب پر اعتراضات و تنقید کا حِصّہ نہ بنیں۔(8)
شَیْخِ طَرِیْقَت،اَمِیْرِ اَہلِ سُنَّت، حضرت علامہ مولانا محمدالیاس عطارقادری دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں:اِمام کو خُوش اُسْلُوبی کے ساتھ اپنے مَنْصَب کو نبھانا اور اپنے آپ کو خود پسندی کی آفت سے بچانا چاہیے کیونکہ اِمَامَت کا مُسْتَحِق سب سے زِیادَہ وہ شخص ہے جو قوم میں افضل ہو،اس لِحَاظ سے امام قوم سے افضل ہوتا ہے مگر اسے اِحساسِ بَرتری کا شِکار نہیں ہونا چاہیے کہ میں سب سے افضل ہوں۔ ہمارے صَحابۂِ کِرَام و بُزُرْگانِ دِیْن رِضْوَانُ اللّٰہ ِ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ایسی باتوں سے دُور رہتے اور اگر ان کے دِلوں میں اس قسم کا کوئی خَیال پیدا ہوتا تو وہ اِمام بننے سے ہی اِنْکَار کر دیتے۔
چُنَانْچِہ حضرتِ سَیِّدُنا حُذیفہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے ایک جَمَاعَت کو نَماز پڑھائی،جب سلام پھیرا تو فرمایا: کوئی دوسرا اِمام تلاش کرو یا اکیلے اکیلے نَماز پڑھو،اس لئے کہ میرے دِل میں یہ خَیال پیدا ہو گیا ہے کہ مجھ سے افضل کوئی نہیں ہے۔(9)
حضرتِ سَیِّدُنا محمد بِن اَبُو تَوْبہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:ایک مرتبہ حضرتِ سَیِّدُنا مَعروف کَرْخی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ نے نَماز کے لئے اِقَامَت کہی اور مجھ سے نَماز پڑھانے کو کہا ۔ میں نے کہا :یہ نَماز تو میں پڑھا دیتا ہوں اس کے عِلاوہ کوئی نہیں پڑھاؤں گا۔یہ سُن کر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ نے فرمایا:تم نے یہ خَیال دِل میں بسا رکھا ہے کہ تمہیں دوسری نَماز بھی پڑھنے کو ملے گی؟ہم لمبی اُمّید سے اللہ پاک کی پناہ چاہتے ہیں کیونکہ یہ عملِ خیر میں رُکاوٹ بنتی ہے۔(10)
اِسی طرح شہزادۂ اعلیٰ حضرت، حضور مفتیٔ اَعْظَم ہند مولانا مصطفٰے رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ بھی خود اِمام بننے کے بجائے حَتَّی الْاِمْکَان کسی دوسرے کو اِمَامَت کا حکم اِرشَاد فرماتے تھے۔میرے پیر و مُرشد سیِّدی قُطبِ مدینہ، شیخ الفضیلت حضرت مولانا ضیاءُ الدِّین اَحمد مَدَنی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ جنھوں نے عمر کا بیشتر حِصّہ گنبدِ خضرا کے جوار میں گزارا اور پھر جنَّتُ البقیع کو تااَبد اپنا مَسکن بنا لیا۔ مدینۂ مُنَوَّرہ میں آپ کے آستانۂ عالیہ پر روزانہ محفلِ میلاد کا اِنعقاد ہوتا تھا،اِس قدر عزَّت و شان کے باوُجُود آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کی عاجزی و اِنْکِسَارِی کا یہ عالَم تھا کہ مَحْفِل کے اِخْتِتام پر خود دُعا کروانے کے بجائے کسی دوسرے کو دُعا کروانے کا حکم اِرشَاد فرماتے تھے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ مجھے بھی ان کے حکم پر مَحْفِلِ میلاد کے اِخْتِتام پر دُعا کروانے کا شَرف حاصِل ہوا ہے۔
مَسْجِد کی آبادکاری میں امام صاحب کا کردار اور اہلِ علاقہ و انتظامیہ کے ساتھ امام صاحب کا انداز “کے حوالے سے بھی چند مَدَنی پھول مُلَاحَظہ کیجئے۔
یاد رکھئے!مَسْجِد میں نمازِ باجماعت پڑھانے کے بعد امام مَسْجِد کا سب سے اہم اور بڑا مَقْصَد مَسْجِد کی آباد کاری ہونا چاہئے اور مَسْجِد کی آباد کاری نمازیوں سے ہوتی ہے اس لئے امام صاحب کو چاہئے کہ اپنے درس و بیان اور مُلَاقَات میں نَماز کا ذِکْر کرنے کی کوشش کریں، دعوتِ اسلامی کے جامعۃ المدینہ سے فارغُ التّحصیل ایک مَدَنی اسلامی بھائی جو کراچی کی ایک جامع مَسْجِد میں اِمَامَت و خطابت کی خِدْمَت سر اَنْجَام دیتے ہیں،ان کا بیان ہے کہ ہماری مَسْجِد میں نمازیوں کی تعداد بہت کم تھی، فَجْرمیں بمشکل ایک صف ہوتی جبکہ دیگر نمازوں میں ایک سے ڈیڑھ صف تک نمازی ہوتے تھے، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میں نے ربیعُ الاوّل کے مبارک مہینے میں جہاں جہاں بیان کا مَوْقَع ملا ، نَماز کو عشقِ رسول کی تکمیل کے طور پر بیان کیا ، اسلامی بھائیوں کو نمازِ باجماعت کی ترغیب دلائی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ! ہماری مَسْجِد میں فَجْر کے نمازی تین سے چار صفوں تک ہونے لگے اور عام نمازوں میں بھی تین گنا سے زِیادَہ اضافہ ہوا ہے۔ بانی ِدعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادری دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کو اُن کی اس کارکردگی کا عِلْم ہوا تو بہت حَوْصَلہ افزائی فرمائی۔
امام صاحب کی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ علاقے میں دینی شعور بیدار کرنے کی تدبیریں کریں اور عملی طور پر بھی لوگوں میں شوق و جذبہ پیدا کرنے کے لئے کوشاں رہیں۔ اگر آئمہ مَسَاجِد چاہیں تو اپنے مَنْصَب کو اِسْتِعمال کرتے ہوئے علاقے میں دینی ہلچل پیدا کر سکتے ہیں،گلی محلے میں کھلم کھلا ہونے والے گناہوں کو روک سکتے ہیں،وہ بچّوں کو اپنی اولاد کے درجے میں رکھ کر شَفْقَت کا مُعَامَلہ کریں،نوجوانوں کو بھائی سمجھ کر نَرْمی وخیر خواہی کا پہلو اپنائیں،بوڑھوں کو باپ کا درجہ دیتے ہوئے اِکرام کریں ، اس مَنْصَب کا تقاضا یہ ہے کہ اِمامت کو محض نوکری کی نظر سے نہ دیکھیں ، بلکہ یہ اہم دینی ذمّہ داری ہے ، ملنساری اور ہمدردانہ رویّہ کا ایسا نمونہ پیش کریں کہ لوگ ان کے گرویدہ ہوجائیں۔
اے عاشقان ِ رسول !نَماز پڑھانے کا انداز بھی نمازیوں کو قریب لانے یا مُتَنَفّر کرنے کا سَبَب بن سکتا ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مبارک فرامین اور اسلافِ اُمّت کے ملفوظات سے ایسی رہنمائی ملتی ہے کہ اِمامت میں کیا انداز ہونا چاہئے۔ امام کو چاہئے کہ نمازیوں کی طبیعت،صحّت اور عمر کا لازمی لحَاظ رکھے،اگر کوئی ضعیف یا بیمارنَماز میں شامِل ہو تو نَماز کو کچھ مُخْتَصَرکرے یعنی قرأت کم کرے،اگر کسی نمازی کے لئے زِیادَہ دیر بیٹھنا دُشْوَار ہو تو قَعْدَہ میں تَشَہُّد اور دُرود شریف وغیرہ بہت زِیادَہ آہستہ رفتار سے نہ پڑھے بلکہ کچھ ایسے جلدی پڑھے کہ تَلَفُّظ بھی دُرست ادا ہو جائیں اور نمازی کو زِیادَہ دیر بیٹھنے کی دشواری بھی نہ ہو،اس سلسلے میں امام الانبیاء صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے عمل مبارک پیش نظر رکھئے کہ تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نَبوت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرض نَماز میں دوسرے اَئمَّہ کو مُخْتَصَر نَماز پڑھانے کی تلقین کرتے تھے اور خود بھی مُخْتَصَر نَماز ہی پڑھاتے تھے ،جیسا کہ حضرتِ سَیِّدُنا اَنَس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ فرماتے ہیں:حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بڑی ہلکی مگر پوری نَماز پڑھایا کرتے تھے۔(11)
اے عاشقانِ رسول!آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے زِیادَہ پُر اثر اور خوبصورت قِرأ ت کس کی ہوسکتی تھی؟ اس کے باوُجُود آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نمازیوں کا خَیال رکھا کرتے تھے،پیارے آقا،مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے:جب تم میں سے کوئی ایک اوروں کو نَماز پڑھائے تو مُخْتَصَرکرے کہ ان میں بیمار، کمزور اور بوڑھے ہوتے ہیں اور جب اپنی پڑھے تو جس قدر چاہے لمبی کرے۔(12)
نَماز میں تخفیف سے مراد ایسی نَمازہے جو مُخْتَصَربھی ہو اور اس کے ارکان، واجبات اور سُنَن مُکَمَّل بھی ہوں،یہ مَطْلَب نہیں کہ مَعَاذَ اللہ نَماز کے ارکان ہی پورے ادا نہ ہوں جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: ہلکی نَماز سے یہ مراد نہیں کہ سنتیں چھوڑ دیں یا اچّھی طرح ادا نہ کریں بلکہ مراد یہ ہے کہ نَماز کے ارکان دراز نہ کرے بَقَدْرِ كِفَایَت ادا کرے جیسے رُکُوع سجدے کی تسبیحیں تین بار کہے۔(13)
حضرتِ سَیِّدُنا ابو مَسْعُود اَنْصَاری رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں :ایک شخص نے عَرْض کی: یَا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !ہو سکتا ہے کہ میں نَماز میں شامل نہ ہو سکوں کیونکہ فلاں ہمیں بہت لمبی نَماز پڑھاتے ہیں۔ (راوی فرماتے ہیں کہ) میں نے نصیحت کرنے میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اس دن سے زِیادَہ کبھی ناراض نہیں دیکھا تھا۔آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم نے اِرشَاد فرمایا:اے لوگو!تم مُتَنَفِّرکرتے ہوتم میں سے جو لوگوں کو نَماز پڑھائے وہ مُخْتَصَر کرے کیونکہ ان میں بیمار، کمزور اور حاجَت مند بھی ہوتے ہیں۔(14)
مفتی احمد یار خاں نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں:اس سے معلوم ہوا کہ امام کے قصور کی بنا پر اگر کوئی شخص جَمَاعَت چھوڑ دے تو گنہگار وہ نہیں ہے بلکہ امام،نیز حاکم یا بزرگ کے سامنے امام کی شِکایَت کر دینا جائز ہے،نہ یہ غیبت ہے اور نہ امام کی سرتابی۔درازیِ نَماز اگرچہ عِبَادَت ہے مگر جب کہ اس سے کوئی خرابی نہ پیدا ہو۔(15)
امام صاحب کو چاہئے کہ مَسْجِد کے انتظامی مُعَامَلات میں غیر ضروری مُدَاخَلَت نہ کریں،مَسْجِد انتظامیہ کسی پہلو سے شَرْعِی راہنمائی طَلَب کریں تو بیان کر دیں یا کوئی خلافِ شَریعَت کام ہوتا ہوا دیکھیں تو سمجھا دیں ، ہر مُعَامَلے میں دَخْل دینے یا بات نہ مانے جانے کی صُورَت میں ہرگز نہ اُلجھیں۔
محافل،بڑی راتوں،اِعْتِکَاف اور دیگر مواقع پر مَسْجِد ، انتظامیہ اور نمازیوں کو وَقْت دینے کی عادَت ہونی چاہئے ، ہر مَوْقَع پر ”میرے پاس وَقْت نہیں“کا پہاڑا پڑھنے والے امام صاحبان مَسَاجِد میں بہت کم کامیاب ہوتے ہیں۔
امام صاحب اگرچہ غیر حاضریوں کی صُورَت میں اپنی تنخواہ سے کٹوتی کرواتے ہوں لیکن یاد رکھئے کہ جو کٹوتی انتظامیہ اور مُقتدیوں کے دِلوں میں ہوتی رہتی ہے اس کا مُداوا ہونا بہت مُشکِل ہوتا ہے ، نمازوں میں غیر حاضر رہنے والے امام صاحب سے اکثر مُقْتَدِی نالاں ہوتے ہیں اور پیٹھ پیچھے چہ مگوئیاں بھی جاری رہتی ہیں،نتیجۃً امام صاحب کو اَلْوَدَاع کر دیا جاتا ہے۔
امام اور مقتدیوں کے درمیان مَحَبّت و پیار کی فضا ضروری ہے تاکہ نیکی و تقوٰی میں بَاہَم تَعَاوُن ہو۔ خواہش پرستی اور شیطانی اغراض کی اِتّباع میں اگر کینہ و بُغض پیدا ہو گیا ہو تو اسے خَتْم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے مقتدیوں کے جائز مطالبات کا اِحْتِرام کرے۔ اگر مُقْتَدِی اپنے گھر مَحْفِل میں شِرْکَت کرنے، ایصالِ ثواب کرنے، کسی مثبت مَوْضُوْع پر درس و بیان کرنے کا مُطالبہ کریں تو مناسب انداز میں قبول کر لینا چاہئے، اسی طرح مقتدیوں کی ذمّہ داری ہے کہ وہ امام کےحُقُوق کا خَیال رکھیں اور ان کی عزّت و اِحْتِرام دوسروں سے بڑھ کر کریں۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو امام صاحبان کے ساتھ بہت ہمدردی دکھاتے ہیں ، ہر بات میں تائید کرتے ہیں،بات بات پر امام صاحب کی تعریفیں کرتے ہیں اور کچھ ہی عَرْصَہ بعد امام صاحب سے پیسے ادھار مانگتے ہیں،ایک دو بار تو پیسے مانگ کر لوٹا دیں گے ، اس کے بعدعموماًنَظَر نہیں آتے۔ ایسوں سے محتاط رہنا چاہئے۔
مُقْتَدِی حضرات اکثر خوشی و غمی کے مَوْقَع پر امام صاحب کی شِرْکَت سے خوش ہوتے ہیں اس لئے چاہئے کہ اگر کوئی کسی خوشی کے مَوْقَع پر دَعْوَت سے تو مناسب صُورَت میں ضرور جائے،کوئی نمازی بیمار ہو جائے تو عِیادَت کیلئے جائے ، اسی طرح اگر علاقے میں کوئی میّت ہو جائے بِالخصوص کسی نمازی یا اس کے رشتے دار کا اِنْتِقَال ہوجائے تو نمازِ جنازہ اور کفن دَفْن کے مُعَامَلات میں ضرور شِرْکَت کرنی چاہئے،یہ عَمَل جہاں سوگواروں کیلئے دِلجوئی کا سَبَب ہو گا وہیں امام صاحب کی قدر بھی لوگوں کی نَظَر میں بڑھے گی۔
رسولِ اکرم ، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بھی بہت سی دیگر مصروفیات کے باوُجُود نماز کے بعد مقتدیوں سے ان کے حالات وغیرہ کی خبرگیری فرماتےخصوصاً نمازِ فجر کے بعدطُلُوعِ آفتاب تک مصلائے اِمَامَت پر تشریف فرما رہتے اور اس دوران صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے محوِ گفتگو بھی ہوتے۔ جیساکہ حضرتِ سَیِّدُنا جابر بن سَمُرَہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ سے مَرْوِی ہے کہ ایک دن حضرتِ سَیِّدُنا سَمَّاک بن حَرب رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے ان سے پوچھا:کیا آپ رسولُ اللہصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مَجْلِس میں بیٹھا کرتے تھے؟ وہ کہنے لگے:بہت زِیادَہ۔آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تو فَجْر کی نَماز سے لے کر طُلُوعِ آفتاب تک مصلا ئے اِمَامَت پر تشریف فرما رہتے تھے۔ اس دوران صحابۂِ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے گفت و شنید کرتے اور جاہلیت کی باتیں بھی کرتے، پھر وہ ہنستے بھی۔ اس دوران آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسکرا رہے ہوتے۔(16)
نمازِ باجماعت کے بعد کئی لوگ بچّوں کو دَم کروانے کے لئے آ جاتے ہیں۔امام صاحب اگر باقاعدہ اَوراد و وَظائف اور عملیات نہ بھی کرتے ہوں تو بھی مُخْتَصَر اَوراد جیسے”دُرودِ پاک“،” یا سَلامُ “یا” سْوْرَۃُ الْفَلَق اور سُوْرَۃُ النَّاس “پڑھ کر دَم کر دینا چاہئے۔(17)
سبق نمبر28 قضا نمازیں
سوال:جان بوجھ کر نماز قضاء کرنے والوں کے لئے کیا وعید ہے؟
جواب:قرآنِ پاک میں اِرشاد ہوتا ہے: ﴿فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَۙ(۴). الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَۙ(۵)﴾(پ30،الماعون:5،4) تَرْجَمَۂ کنز الایمان :’’تو ان نمازیوں کی خرابی ہے جو اپنی نماز سے بھولے بیٹھے ہیں۔‘‘حدیثِ پاک میں ہے :اس سے مراد وہ ہیں جو نماز کا وقت گزار کر پڑھیں۔(18)
سوال:کیا قضا ءنمازکے لئےکوئی وقت مُعَیَّن ہے اور کب قضاءنماز پڑھنا جائز نہیں؟
جواب:قضاءکے ليے کوئی وقت معین نہیں عمر میں جب پڑھے گا بَرِیُٔ الذِّمَّہ ہوجائے گا مگر طلوع و غروب اور زوال کے وقت کہ ان وقتوں میں نماز جائز نہیں۔(19)
سوال:وہ کون سی نماز ہے جسے لوگوں پر ظاہر کرنا گناہ ہے؟
جواب:قضاء نماز کا لوگوں پر ظاہر کرنا گناہ ہے کیونکہ نماز کا ترک کرنا گناہ ہے اور گناہ کا ظاہر کرنا بھی گناہ ہے۔(20)
سوال:قضا ء نمازوں میں تاخیر کرنے کا گناہ کیسے معاف ہوگا؟
جواب:قضاء نمازوں میں تاخیر کرنے کا گناہ توبہ یا حجِ مقبول سے معاف ہوجائے گااور جو نماز چھوٹ گئی ہے اس کی قضاء ضروری ہے۔(21)
سوال:کس اندیشہ کی وجہ سے نماز قضاء کرنا جائز ہے؟
جواب:مسافر کو چور اور ڈاکوؤں کا صحیح اندیشہ ہے، یونہی دائی کو نماز پڑھنے کی وجہ سے بچے کے مرجانے کا اندیشہ ہے تو نماز قضاء کرنا جائز ہے۔(22)
سوال:وہ کونسا تندرست مسلمان ہےجس سے نمازیں فوت ہوجائیں تو اُس پر قضاء واجب نہیں؟
جواب:دارُ الحرب میں کوئی مسلمان ہوا اور اُسے اَحکامِ شَرْعِیَّہ نماز،روزہ اور زکوٰۃ وغیرہ کی اِطلاع نہ ہوئی تو جب تک وہاں رہا اُن دِنوں کی قضاء اُس پر واجب نہیں۔(23)
سوال:وہ کون سا مریض ہے جس سے نمازیں فوت ہوجائیں تو اس پر قضاء نہیں؟
جواب:ایسا مریض کہ اشارہ سے بھی نماز نہیں پڑھ سکتا اگر یہ حالت پورے چھ وقت تک رہی تو اس حالت میں جو نمازیں فوت ہوئیں ان کی قضاء واجب نہیں۔(24)
سوال:جس پر قضاء نمازیں ہوں کیا وہ انہیں چھوڑ کر سُنَن ونَوافل پڑھ سکتا ہے؟
جواب:قضاء نمازیں نوافل سے اہم ہیں یعنی جس وقت نفل پڑھتا ہے انھيں چھوڑ کر ان کے بدلے قضائیں پڑھے کہ بَرِیُٔ الذِّمَّہ ہو جائے۔البتہ تراویح اور بارہ رَکعتیں سُنّتِ مُؤکَّدہ کی نہ چھوڑے۔(25)
سوال:نمازِ فجر قضاء ہونے کا اندیشہ ہو توبلاضرورتِ شَرْعِیَّہ رات دیر تک جاگنا کیسا؟
جواب:نمازِ فجرقضاء ہونے کا اندیشہ ہو تو بلاضرورتِ شرعیہ رات دیر تک جاگنا ممنوع ہے۔(26)
سوال:ایک دن کی قضاء نمازوں کی کتنی رکعتیں ہیں؟
جواب:ایک دن کی قضاء نمازوں کی 20رکعتیں ہیں۔ دورکعتیں فجرکی ،چار ظہر،چار عصر،تین مغرب ،چار عشاء کی اور تین وتر۔(27)
سوال:جس نے کبھی نمازیں ہی نہ پڑھی ہوں وہ قضائے عمری کیسے پڑھے؟
جواب:جس نے کبھی نمازیں نہ پڑھی ہوں اور اب توفیق ہوئی اور قضائے عمری پڑھنا چاہتا ہے وہ جب سے بالغ ہوا ہے اُس وقت سے حساب لگائے اور تاریخِ بلوغ بھی نہیں معلوم تو احتیاط اسی میں ہے کہ عورت نوسال کی عمرسے اور مرد بارہ سال کی عمر سے نمازوں کا حساب لگائے۔(28)
سوال:جس کے ذمہ قضاء نمازیں ہوں وہ کیا کرے؟
جواب:جس کے ذمہ قضاء نمازیں ہوں اُن کا جلد سے جلد پڑھنا واجب ہے مگر بال بچوں کی پرورش اور اپنی ضروریات کی فراہمی کے سبب تاخیرجائز ہے۔ لہٰذا کاروبار بھی کرتا رہے اور فُرصَت کا جو وقت ملے اُس میں قضاء پڑھتا رہے یہاں تک کہ پوری ہوجائیں۔(29)
سوال:ادا اور قضا کی تعریف بیان کیجئے؟
جواب:جس چیز کابندوں کوحکم ہے اسے وقت میں بجا لانے کو ادا کہتے ہیں اور وقت کے بعد عمل میں لانا قضا کہلاتاہے۔(30)
سوال:قضا نمازوں کے گناہ سے توبہ کے لیے کیا چیز ضروری ہے ؟
جواب:بہارشریعت،جلد1،صفحہ700پرمذکورحکم کاخلاصہ ہے:توبہ اسی وقت صحیح ہےجب قضا بھی پڑھ لے۔ قضا نمازوں کو تو ادا نہ کرے فقط توبہ کئے جائے تو یہ توبہ نہیں ہے کیونکہ وہ نماز جو اس کے ذمہ تھی اس کا نہ پڑھنا تو اب بھی باقی ہے۔جب گناہ سے ہی باز نہ آیاتو پھر توبہ کہاں ہوئی۔(31)
سوال:کون سی نمازوں میں وقت کے اندر اندر سلام پھیرلینا ضروری ہے؟
جواب:فجر ،جمعہ اورعید ین کی نمازوں میں سلام سے پہلے اگر وقت نکل گیا تو نماز نہ ہوگی ان کے علاوہ نمازوں میں اگر وقت میں تحریمہ باندھ لیا تو نماز قضا نہ ہوئی بلکہ ادا ہے۔(32)
سوال:جس شخص کے ذمے بہت زیادہ نمازیں ہوں شریعت مطہرہ میں اس کیلئے کوئی آسانی کی صورت ہو تو بتائیے؟
جواب:جس پر بکثرت قضا نمازیں ہوں وہ آسانی کے لیے ہررکوع اور سجدہ میں ’’ سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْعَظِیْم ‘‘اور’’ سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی ‘‘صرف ایک بار کہے اور فرضوں کی تیسری اور چوتھی رکعت میں اَلْحَمْدُ شریف کی جگہ فقط ” سُبْحٰنَ اللہ “تین بار کہہ کر رکوع کرلے، تیسری تخفیف یہ کہ قعدۂ اخیرہ میں اَلتَّحِیَّات کے بعد دونوں درودوں اور دعا کی جگہ صرف ’’ اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ ‘‘ کہہ کر سلام پھیر دے چوتھی تخفیف یہ کہ وتر کی تیسری رکعت میں دعائے قنوت کی جگہ فقط ایک یا تین بار ’’ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ ‘‘ کہے۔(33)
سوال:اگر فجر کی سنتیں قضا ہوجائیں تو ان کو کب پڑھا جائے؟
جواب:فجر کی سنت قضا ہوگئی اور فرض پڑھ ليے تو اب سنتوں کی قضا نہیں البتہ امام محمد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ طلوعِ آفتاب کے بعد پڑھ لے تو بہتر ہے۔(34) اور طلوع سے پیشتر(یعنی سورج نکلنے سے پہلے) بالاتفاق ممنوع ہے۔(35) آج کل اکثر عوام فرض کے بعد فوراً پڑھ لیا کرتے ہیں یہ ناجائز ہے، پڑھنا ہو تو آفتاب بلند ہونے کے بعدزوال سے پہلے پڑھیں۔(36)
سوال:سفر میں چار رکعت والی نماز قضا ہوئی تو اقامت میں کتنی رکعت ادا کرے؟
جواب:جو نماز جیسی فوت ہوئی اس کی قضا ویسی ہی پڑھی جائے گی، مثلاً سفر میں نماز قضا ہوئی تو چار رکعت والی دو ہی پڑھی جائے گی اگرچہ اقامت کی حالت میں پڑھے اور حالتِ اقامت میں فوت ہوئی تو چار رکعت والی کی قضا چار رکعت ہے اگرچہ سفر میں پڑھے۔(37)
سوال:کیا قضا نماز باجماعت پڑھی جاسکتی ہے ؟
جواب:اگر کسی امرِ عام کی وجہ سے جماعت بھر کی نماز قضا ہوگئی تو جماعت سے پڑھیں، یہی افضل ومسنون ہے اور مسجد میں بھی پڑھ سکتے ہیں اور جہری نمازوں میں امام پر جہر واجب ہے اگرچہ قضا ہواوراگر کسی خاص وجہ سے بعض افراد کی نماز جاتی رہی تو گھر میں تنہا پڑھیں کہ معصیت کا اظہاربھی معصیت ہے۔(38)
سوال:کیا جمعۃ الوداع میں باجماعت قضائے عمری پڑھنے سے عمر بھر کی قضا ادا ہوجاتی ہے؟
جواب:نہیں،رمضان المبارک کے آخری جمعہ میں بعض لوگ باجماعت قضائے عمری پڑھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ عمر بھر کی قضائیں اسی ایک نماز سے ادا ہو گئیں یہ باطل محض ہے ۔(39)
سوال:پاگل پن یا بیہوشی کی حالت میں رہ جانے والی نمازوں کا کیا حکم ہے ؟
جواب:جنون یابے ہوشی اگر پورے چھ وقت کو گھیرلے تو ان نمازوں کی قضابھی نہیں،اگرچہ بے ہوشی آدمی یا درندے کے خوف سے ہو اور اس سے کم ہو تو قضا واجب ہے۔(40)
سوال:نمازوں میں ترتیب سےکیا مراد ہے اور ترتیب کس پر فرض ہے کس پر نہیں؟
جواب:پانچوں فرضوں میں باہم اور فرض و وتر میں ترتیب ضروری ہے کہ پہلے فجر پھرظہر پھر عصر پھر مغرب پھر عشا پھر وتر پڑھے،خواہ یہ سب قضاہوں یابعض ادا بعض قضا،مثلاً ظہر کی قضا ہوگئی تو فرض ہے کہ اسے پڑھ کر عصر پڑھےاگر یاد ہوتے ہوئے عصر پڑھ لی تو ناجائز ہے۔(41) البتہ جس کی چھ نمازیں قضا ہوگئیں کہ چھٹی کا وقت ختم ہوگیا اس پر ترتیب فرض نہیں،اب اگرچہ وقت میں گنجائش ہو اور وہ پچھلی نمازادا کئے بغیر وقتی نماز پڑھے تو ہوجائے گی۔(42)
سبق نمبر 29 مسافر کی نماز
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ﳓ (پ5،النساء:101) تَرْجَمَۂ کنز الایمان : اور جب تم زمین میں سفر کر و تو تم پر گُناہ نہیں کہ بعض نَمازیں قَصر سے پڑھو
اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتنا عائِشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا رِوایت فرماتی ہیں : نَماز دورَکعَت فرض کی گئی پھرجب سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہجرت فرمائی تو چار فرض کی گئی اور سفر کی نَماز اُسی پہلے فرض پر چھوڑی گئی ۔(43)
سوال:شرعی سفر کی مسافت کیا ہے؟
جواب:شرعا ًمسافر وہ شخص ہے جو ساڑھے 57میل (تقریباً 92کلو میٹر )کے فاصلے تک جانے کے ارادے سے اپنے مقامِ اِقامت(ٹھہرنے کی جگہ،وطن) مثلا ًشہر یا گاؤں سے باہر ہو گیا۔(44)
سوال:کیا سفر کی نیت کرتے ہی بندہ شرعاً مسافر بن جائے گا؟
جواب:محض نیتِ سفر سے مسافر نہ ہوگا بلکہ مُسافر کا حکم اُس وقت ہے کہ بستی کی آبادی سے باہر ہوجائے،شہر میں ہے تو شہر سے،گاؤں میں ہے تو گاؤں سے۔(45)
سوال:نمازِ قَصر کسے کہتے ہیں ؟
جواب:سفر میں چار فرضوں کو دو پڑھناقصرکہلاتا ہے۔(46)
سوال:کیا مسافر کے لئے قصر کرنا ضروری ہے ؟
جواب:جی ہاں مسافر پر نماز میں قصر کرنا واجب ہے۔(47)
سوال:کیا مُسافر سنتیں بھی قصر کرکے پڑھے گا؟
جواب:سُنّتوں میں قصر نہیں بلکہ پوری پڑھی جائیں گی۔ البتّہ خوف اور رَوارَوی (گھبراہٹ) کی حالت میں معاف ہیں اور امن کی حالت میں پڑھی جائیں۔(48)
سوال:اگر کوئی شخص تین دن کی راہ پر جارہا ہے لیکن اس کا دورانِ مَسافت دودن کی راہ پر کسی کام کے حوالے سے رُکنے کا ارادہ ہے توکیا وہ بھی نماز قصر پڑھے گا؟
جواب:جی نہیں وہ مسافر نہیں ہوا نماز پوری پڑھے گا،قصر نماز کے لئے اس مسافت کا تین دن پورا اور راہ کا مُتَّصِل(ملا ہوا،لگاتار) ہونا ضروری ہے۔(49)
سوال:وطنِ اصلی کسے کہتے ہیں؟
جواب:وہ جگہ جہاں اس کی پیدائش ہوئی ہے یا اس کے گھر کے لوگ وہاں رہتے ہیں یا وہاں سُکونت کرلی اور یہ ارادہ ہے کہ یہاں سے نہ جائے گا۔(50)
سوال:نیتِ اِقامَت صحیح ہونے کے ليےکتنی شرائط ہیں؟
جواب:نیتِ اقامت صحیح ہونے کے ليے چھ شرطیں ہیں:(1)چلنا ترک کرے اگرچلنے کی حالت میں اقامت کی نیت کی تو مقیم نہیں۔ (2)وہ جگہ اقامت کی صلاحیت رکھتی ہو جنگل یا دریا غیر آباد ٹاپُو (جزیرہ، خشکی کے ٹکرے)میں اقامت کی نیت کی مقیم نہ ہوا۔ (3)پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت ہو اس سے کم ٹھہرنے کی نیت سے مقیم نہ ہوگا۔ (4)یہ نیت ایک ہی جگہ ٹھہرنے کی ہو اگر دو موضعوں(جگہوں) میں پندرہ دن ٹھہرنے کا ارادہ ہو، مثلاً ایک میں دس دن دوسرے میں پانچ دن کا تو مقیم نہ ہوگا۔(5)اپنا ارادہ مستقل رکھتا ہو یعنی کسی کا تابع نہ ہو۔(6)اس کی حالت اس کے ارادہ کے مُنافی نہ ہو۔(51)
سوال:وطنِ اقامت کی تعریف بتائیں؟
جواب:وطنِ اقامت وہ جگہ جہاں مسافِر نے15دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ کیا ہو۔(52)
سوال:مسافر کسی کام کے لئے یا ساتھیوں کے انتظار میں دو چار روز یا تیرہ چودہ دن کی نیت سے ٹھہرا اور یہ ارادہ ہے کہ کام ہوجائے گاتو چلا جائے گا اگر اس صورت میں ’’آج کل آج کل کرتے‘‘ زیادہ دن گزر جائیں تو نماز قصر پڑھے یا پوری ؟
جواب:اس صورت میں اگر آج کل آج کل کرتے کئی برس گزر جائیں جب بھی مسافر ہی ہے، نماز قصر پڑھے۔(53)
سوال:مسافر نے چار رکعت کی نیت کر لی تو اب کیا حکم ہو گا ؟
جواب:مسافر نے قصر کی بجائے چار رکعت فرض کی نیت باندھ لی پھر یاد آنے پر دو پر سلام پھیر دیا تو نماز ہو جائے گی۔(54)
سوال:مسافر کو کس صورت میں چار رکعت فرض پڑھنا ضروری ہے؟
جواب:مسافر جبکہ مقیم کی اِقتدا کرے تو اس کو چار رکعت فرض پڑھنا ضروری ہے۔(55)
1… مسلم،كتاب الطہارة،باب وجوب غسل وغيره من…الخ، ص133،حدیث:660
2… مرآۃ المناجیح،1/326
3… ابو داود، كتاب الصلٰوة ، باب الرجل يركع دون الصف، 1/270،حدیث:674
4… مستدرک،کتاب معرفۃ الصحابۃ رضي الله عنہم،باب ان سركم ان تقبل،4/237 ،حدیث:5034
5… ابو داود، كتاب الصلٰوة ، باب في كراہیۃ البزاق في المسجد،1/203،حدیث:481
6… مرآۃ المناجیح،1/459
7… ماہنامہ فیضان مدینہ،شوال المکرم 1441 ھ بمطابق جون 2020ء،ص19 تا 20،قسط:01
8… ماہنامہ فیضان مدینہ،ذوالقعدۃ الحرام 1441 ھ بمطابق جولائی 2020 ء،ص17تا 18،قسط:02
9… احیاء العلوم،کتاب ذم الکبر والعجب ،الشطر الاول من الکتاب فی الکبر، بیان ما بہ التکبر،3/428
10…منہاج القاصدین،باب فی ذکر الموت وما بعدہ وما یتعلق بہ،ص451 دار ابن کثیر بیروت
11…بخاری کتاب الاذان ،باب الایجاز فی الصلٰوة و اکمالہا،1/253،حدیث:706
12…بخاری،کتاب الاذان،باب اذا صلى لنفسہ فليطول ما شاء،1/252، حدیث: 703
13… مرآۃ المناجیح ،2/203
14… بخاری،کتاب العلم، باب الغضب فی الموعظۃ … الخ،1/50،حدیث:90
15… مرآۃ المناجیح،2/204
16… مسلم،كتاب الفضائلِ، باب تبسمہ حسنِ عشرتہ،ص976،حدیث:6035
17… ماہنامہ فیضان مدینہ ،ذوالحجۃ الحرام 1441ھ بمطابق اگست 2020،ص21تا 23،قسط:03
18…سنن کبری للبیہقی،کتاب الصلوۃ ، باب الترغیب فی حفظ…الخ ، 2/304 ، حدیث : 3163
19…بہار شریعت،1/ 702،حصہ: 4
20…در مختار مع رد المحتار، کتاب الصلوٰۃ، باب قضاء الفوائت، مطلب اذا اسلم المرتد ہل تعود حساناتہ ام لا، 2/650
21…رد المحتار،کتاب الصلوٰۃ،باب قضاء الفوائت ،2/627
22… بہار شریعت ، 1/700،حصہ :4 ملخصا
23…رد المحتار،کتاب الصلوٰۃ،باب قضاء الفوائت ،2/647
24…بہار شریعت ، 1/702، حصہ :4
25…بہار شریعت، 4/ 706، حصہ :1
26… رد المحتار،کتاب الصلوٰۃ،مطلب فی طلوع الشمس من مغربہا ،2/33
27… فتاوی رضویہ،8/157
28…فتاوی رضویہ،8/154ماخوذا
29…درمختار مع ردالمحتار،کتاب الصلوٰۃ،باب قضاء الفوائت،2/646
30…درمختار، کتاب الصلٰوة ، باب قضاء الفوائت، 2/632،627ملخصا
31…ردالمحتار، کتاب الصلٰوة ، باب قضاء الفوائت، 2/ 627
32…درمختار، کتاب الصلٰوة ، باب قضاء الفوائت، 2/ 628، بہار شریعت، 1/ 701، حصہ:4 ماخوذ ا
33… فتاوی رضویہ،8/157تا 158ملخصا
34…حلبی کبیر ، فصل فی النوافل، ص397
35…ردالمحتار، کتاب الصلٰوة ، باب الوتر والنوافل،مطلب فی السنن والنوافل، 2/ 550
36…بہار شریعت، 1/ 665،664، حصہ:4
37… فتاوی ہندیہ، کتاب الصلٰوة ، الباب الحادی عشر فی قضاء الفوائت، 1/ 121
38…فتاوی رضویہ، 8/ 162
39… فتاوی رضویہ،8/154تا 155بتغیر
40…درمختار، کتاب الصلٰوة ، باب صلٰوة المریض،2/ 692
41…فتاوی ہندیہ، کتاب الصلٰوة ، الباب الحادی عشر فی قضاء الفوائت، 1/ 121
42…درمختار مع ردالمحتار، کتاب الصلٰوة ، باب قضاء الفوائت،مطلب فی تعریف الاعادۃ،2/ 637
43… بخاری ،کتاب مناقب الانصار ،باب 48،2/604حدیث:3935
44… فتاوی رضویہ، 8/270ملخصا
45…در مختار مع رد المحتار، کتاب الصلوٰۃ، باب صلاۃ المسافر، 2/722
46… فتاوی ہندیہ، کتاب الصلوٰۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، 1/139 مفہوما
47…فتاوی ہندیہ، کتاب الصلوٰۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، 1/139
48…بہارشریعت،1/ 744،حصہ: 4
49…فتاوٰی رضویہ، 8/ 270 ملخصا
50…فتاوی ہندیہ، کتاب الصلوٰۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، 1/142، بہارِ شریعت، 1/750، حصہ :4
51…بہارشریعت،1/745،744،حصہ:4
52…فتاوی ہندیہ، کتاب الصلوٰۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، 1/142
53… فتاوی ہندیہ، کتاب الصلوٰۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر ،1/139
54…فتاوی ہندیہ ، کتاب الصلوٰۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، 1/139ماخوذا
55…فتاوی ہندیہ ، کتاب الصلوٰۃ، الباب الخامس عشر فی صلاۃ المسافر، ومما یتصل بذلک… الخ، 1/142
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع