my page 17
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Farz Uloom Sikhiye | فرض عُلوم سیکھئے

book_icon
فرض عُلوم سیکھئے
            

سبق نمبر 20 صفیں دُرست کرنے کا بیان

اللّٰہ پاک نے قرآنِ مجید میں صَف باندھنے والوں کی قسم یاد فرمائی، اِرْشَاد ہوتا ہے: وَ الصّٰٓفّٰتِ صَفًّاۙ(۱) (پ23،الصّٰفّٰت:1) تَرْجَمَۂ کنز الایمان : قسم ان کی کہ باقاعدہ صَف باندھیں۔ ”تفسیر ماوردی“ میں ہے: یہاں صَفّ باندھنے والوں سے مراد *فرشتے ہیں* یا مسلمان کہ صف باندھ کر نماز پڑھتے ہیں یا *مجاہدین جو صف باندھ کر جہاد کرتے ہیں۔(1) یہاں صف باندھنے والوں کی قسم ارشاد فرمانے سے معلوم ہو اکہ صف باندھنا بہت اہمیت اور فضیلت کا باعث ہے۔ (2) سوال:حدیثِ پاک میں نماز کا حسن کس کو کہا گیا؟ جواب:نماز میں صف باندھنےکے بارے میں حضرت سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ سے روایت ہے،مالکِ جنت، رسولِ رحمت صَلَّی اللّٰہ ُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:(اے لوگو!) نماز میں صف کو قائم کرو کیونکہ صف کو قائم کرنا نماز کے حُسْن میں سے ہے۔ (3) سوال:صفیں درست کرنے کا کیا مطلب ہے؟ جواب:صَفْ کے واجبات پورے کرنا (صَفْ سیدھی رکھنا، پوری کرنا اور خوب ملے ملے کھڑے ہونا) صَفْ دُرُست کرنا ہے۔ سوال:صفیں درست کرنے کے متعلق چند احکام بیان کیجئے؟ جواب :(1):نماز میں صَفْ سے متعلق تین باتیں واجِب ہیں:*تَسْوِیَۂ صَفْ: صَفْ سیدھی کرنا یعنی تمام صَفْ والوں کا اپنی گردنیں، کندھے اور ٹخنے ایک سیدھ میں رکھنا(گردنوں کا قدرتی طور پر اونچا نیچا ہونا مُعَاف ہے کہ بعض لمبے اور بعض پستہ قَدْ ہوتے ہیں) ۔(4)*اِتْمامِ صَفْ: صَفْ پوری کرنا کہ جب تک اگلی صَفْ پوری نہ ہو، دوسری صَفْ شروع نہ کریں۔*تُرَاصِّ صَفْ: خوب مِل کر کھڑا ہونا کہ کندھے سے کندھا مس (Touch) ہو۔(5) (2):سُنّت یہ ہے کہ اِمام پہلے صفیں سیدھی کروائے پھر تکبیرِ تحریمہ کہے۔(6) سوال:صفیں دُرُست کرنے کے فائدے اور ثوابات بتائیے؟ جواب:*صَفْ سیدھی رکھنا نماز کا حُسْن ہے۔(7)* اگلی صفوں سے ملنے والوں پر اللّٰہ پاک اور فرشتے دُرود بھیجتے ہیں۔(8)* صَفْ پوری کرنے کے لئے اُٹھنے والے قدم اللّٰہ پاک کو محبوب (پیارے) ہیں۔ (9)*صَفْ پوری کرنا مغفرت پانے، جنت حاصِل کرنے اور درجات کی بلندی کا سبب ہے، دو۲ فرامینِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہ ُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم :*جو صف کی خالی جگہ پُر کرے، اس کی مغفرت ہو جائے گی۔ (10)*جو صَفْ کی خالی جگہ پُر کرے، اللّٰہ پاک اس کا ایک درجہ بلند فرمائے گا اور اُس کے لئے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ (11) * صَفْ مِلانے سے زیادہ نیکیوں کی توفیق ملتی ہے، حدیثِ پاک:” جو صَفْ ملائے، اللّٰہ پاک اسے مِلائے“ اس کے تحت فیض القدیر میں ہے:یعنی اللّٰہ پاک اس کی نیکی میں اِضَافہ فرماتا اور اسے اپنی رَحْمت میں داخِل فرماتا ہے۔(12) *صَفْ پوری کرنا وَسْوَسوں سے بچاتا ہے۔(13)*صَفْ سیدھی کرنا دِلوں کو سیدھا رکھتا ہے۔ (14)*صَفْ میں مِل کر کھڑے ہونے سے دِل ملتے، اِتِّحاد بڑھتا اور شیطان سے حِفَاظت ملتی ہے۔ سوال:صفیں درست نہ کرنے کے نقصان کیا ہیں؟ جواب:*صفیں دُرست نہ کرنا تَرْکِ واجِب، ناجائِز اور گُنَاہ ہے۔(15)*صَفْ دُرُست نہ کرنے سے نماز ناقص رِہ جاتی ہے۔(16)*صَفْ درست نہ کرنا نماز میں وسوسے آنے کا سبب ہے، حدیثِ پاک میں ہے:کشادگی بھرو! کیونکہ شیطان تمہارے درمیان بھیڑ کے بچے کی طرح گُھس جاتا ہے۔(17)*صَفْ سیدھی نہ کرنے میں چہرہ بگڑنے کا اندیشہ ہے،حضرت سَیِّدُنا ابو امامہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ سے روایَت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہ ُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ضرور تم صفیں سیدھی کرو گے یا تمہاری شکلیں بگاڑ دی جائیں گی یاآنکھیں اُچَک لی جائیں گی۔ (18) *صفیں درست نہ کرنا رَحْمَت سے دوری کا سبب ہے، حدیثِ پاک:جو صَفْ توڑے، اللّٰہ پاک اسے توڑے، اس کے تحت فیض القدیر میں ہے:یعنی اللّٰہ پاک اسے ثواب اور رَحْمت سے دور کر دیتا ہے یا اسے مزید نیکی کی توفیق نہیں ملتی۔(19) *صَفْ ٹیڑھی ہونے سے دِل ٹیڑھے ہوتے، اِخْتِلاف بڑھتا اور لڑائی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں،دو۲ فرامینِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہ ُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم : *سیدھے رہو، الگ الگ نہ رہو ورنہ تمہارے دِل الگ ہو جائیں گے۔ (20)* اللّٰہ کے بندو! اپنی صفیں سیدھی کرو! ورنہ اللّٰہ پاک تمہارے درمیان اختلاف ڈال دے گا۔(21) سوال :بعض جگہ مسجد کی ایک صف کے درمیان دو سُتون آتے ہیں جس کی وجہ سے قَطعِ صف لازم آتا ہے۔ ایسی صف میں نَمازیوں کا صف بنانا کیسا؟ جواب :بِلا ضرورت سُتونوں کے درمیان صف بنانا مکروہ و ناجائز ہے کہ اس سے قَطعِ صف لازم آتا ہے جو کہ نا جائز ہے۔ ہاں اگر کوئی عُذر ہو کہ نَمازیوں کی کثرت کی وجہ سے جگہ تنگ ہو یا باہَر بارش ہو تو سُتونوں کے درمیان کھڑے ہو سکتے ہیں۔(22) سوال :بچوں کو مسجد کی صَف میں کھڑا نہیں کیا جاتا اس کا شرعی مسئلہ کیا ہے ؟ جواب :وہ بچے جوعَقل مَند اور نماز کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، ایسے بچوں کے مُتعلق شرعی حکم یہ ہے کہ ان کی صَف مردوں کی صَف کے بعد عَلیحدہ سے بنائی جائے۔ ہاں اگر بچہ صِرف ایک ہے تو اس کے لئے الگ سے صَف بنانے کی ضرورت نہیں،بلکہ وہ مَردوں کی صَف میں بھی کھڑا ہو سکتا ہے،چاہے صَف کے درمیان میں کھڑا ہو یا کونے میں ، دونوں میں کوئی حَرج نہیں۔ اوروہ بچےجو اتنے چھوٹے ہیں کہ ان کونماز کی بھی سمجھ بوجھ نہیں تو ان کو صف میں کھڑا نہیں کر سکتے، چاہے ایک ہو یا زیادہ کیونکہ ایسے بچوں کی نماز ہی مُعتبر نہیں اور صف میں جہاں ایسا بچہ کھڑا ہوگاگویا وہاں سے صَف خالی رہے گی اور یہ شرعاً ممنوع و ناجائز ہے۔ نوٹ: یہ بھی واضح رہے کہ ایسے چھوٹے بچے جو نماز کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے،مسجد میں آکر اُلٹی سیدھی حَرکَتیں کرتے، بھاگتے دوڑتے اور شور مَچاتے ہیں ان کو مسجد میں لانے کی بھی شرعاً اِجازت نہیں ۔ حدیثِ پاک میں حکم دیا گیا ہے کہ مَساجدکو بچوں اور پاگلوں سے بچاؤ۔(23)

سبق نمبر 21نماز میں لقمہ دینے کے مسائل379

سوال :نماز میں لقمہ دینے اور امام کو لقمہ لینے سے متعلق شریعت کے کیا احکام ہیں؟ جواب:قوانینِ شریعت کے مطابق نمازمیں اپنے امام کو لقمہ دینا بعض صورتوں میں فرض ہے، بعض صورتوں میں واجب اور بعض صورتوں میں جائز ہے ۔ یوں ہی بعض صورتوں میں حرام ہے ،بعض صورتوں میں مکروہ ۔بسا اوقات لقمہ کا تعلق امام کی قراءت کے ساتھ ہوتا ہے تو بسا اوقات انتقالاتِ امام کے ساتھ ۔ (1) امام جب ایسی غلطی کرے جو مُوجبِ فسادِ نماز ہو(وہ غلطی جس سے نماز ٹوٹ جاتی ہو) تو اس کا بتانا اور اصلاح کرانا ہر مقتدی پر فرض کفایہ ہے ان میں سے جو بتادے گا سب پر سے فرض اتر جائے گا اور کوئی نہ بتائے گا تو جتنے جاننے والے تھے سب مرتکبِ حرام ہوں گے اور سب کی نماز باطل ہو جائے گی کیونکہ غلطی جب مفسد نماز ہو تو اس کی اصلاح کرنے کے بجائے خاموش رہنا نماز کو باطل کر دے گا اور نماز باطل کر دینا حرام ہے اللہ پاک کے اس فرمان کی وجہ سے کہ”اپنے اعمال باطل نہ کرو۔ “ (24) (2) اگر غلطی ایسی ہے جس سے واجب ترک ہو کر نماز مکروہ تحریمی ہو تو اس کا بتانا ہر مقتدی پر واجب کفایہ ہو گااور اگر ایک بتادے گا اور اس کے بتا نے سے کارروائی ہو جائے توسب پرسے واجب اتر جائے گا ورنہ سب گنہگار رہیں گے۔(25) محیط و عالمگیری میں ہے:اگر امام کو کچھ بھول واقع ہوئی اور مقتدی نے لقمہ دیتے ہوئے سُبْحانَ اللّٰہ کہا تو کوئی حرج نہیں۔(26) (4) امام غلطی کر کے خود متنبّہ(باخبر) ہو گیا اور یاد نہیں آتا ،یاد کرنے کے لئے رُکا، اگر تین بار سُبْحانَ اللّٰہ کہنے کی مقداررکے گا تو نماز مکروہ تحریمی ہو جائے گی اور سجدہ سہو واجب ہوگا،تو اس صورت میں جب اسے رکا دیکھيں ،مقتدیوں پر بتانا واجب ہو گا کہ خاموشی قدرِ ناجائز تک نہ پہنچے۔ یعنی امام کو تین مرتبہ سُبْحانَ اللّٰہ کی مقدار خاموش رہنے کا موقع نہ دیا جائے۔(27) (5) بعض ناواقفوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب غلطی کرتے ہیں یادنہیں آتا تو اضطراراً ان سے بعض کلمات بے معنی صادر ہو جاتے ہیں کوئی” اوں اوں“کہتا ہے کوئی کچھ اور، اس سے نماز باطل ہوجاتی ہے تو جس کی یہ عادت معلوم ہے جب رکنے پر آئے مقتدیوں پر واجب ہے کہ فوراً بتاديں قبل اس کے کہ وہ اپنی عادت کے حروف نکال کر نماز تباہ کرے۔(28) (6) امام تراویح میں اٹکے اور آگے نہ پڑھ پائے یا ایسا ہو کہ روانی میں پڑھتے ہوئے کوئی آیت یا آیت کا حصہ چھوڑ کربغیر رکے یا اٹکے آگے نکل جائے اور ناجائز مقدار تک خاموش رہنا بھی نہ پایا جائے ،نہ ہی معنی فاسد ہوتے ہوں تب بھی مقتدی کو بتانا چاہیے کیونکہ امام کے نہ ٹھہرنے یا فساد معنی نہ ہونے کے سبب اگرچہ نماز پر اثر نہیں پڑے گالیکن چونکہ تراویح میں پورے قران عظیم کا ختم کرنا مقصود ہوتا ہے اور کچھ حصہ رہ جانے سے یہ مقصود پورا نہیں ہو گا۔چنانچہ امامِ اہل سنت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں: تراویح میں ختمِ قرآن عظیم ہو تو مقتدی کو بتانا چاہے جبکہ امام سے نہ نکلے یا وہ آگے رواں ہو جائے اگرچہ اس غلطی سے نماز میں کچھ خرابی نہ ہو کہ مقصود ختمِ کتابِ عزیز ہے اور وہ کسی غلطی کے ساتھ پورا نہ ہو گا۔(29) (7) بالغ مقتدیوں کی طرح تمیز دار بچہ بھی لقمہ دے سکتا ہے ۔(30) جبکہ نماز آتی ہو۔ (8) جسے سامع مقرر کیا گیا اس کے علاوہ دوسرا مقتدی بھی لقمہ دے سکتا ہے جیسا کہ امام اہل سنت احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فتاوی رضویہ شریف میں ارشاد فرماتے ہیں:قوم کا کسی کو سامع مقرر کر دینے کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ اس کے غیر کو بتانے کی اجازت نہیں اور اگر کوئی اپنے جاہلانہ خیالات سے یہ قصد کرے بھی تو اس کی ممانعت سے وہ حق کہ شرع مطہرہ نے عام مقتدیوں کو دیا کیونکر سلب (ختم)ہو سکتا ہے۔ “ (31) (9) جو شخص بھی لقمہ دے اس کو چاہیے کہ لقمہ دیتے وقت وہ قراء ت کی نیت نہ کرے بلکہ لقمہ دینے کی نیت سے وہ الفاظ کہے جیسا کہ فتاوی عالمگیری میں ہے:لقمہ دینے والا قراء ت کی نیت نہ کرے بلکہ لقمہ دینے کی نیت سے وہ الفاظ کہے۔ (10) دیکھا گیا ہے کہ ایک تراویح پڑھانے والے کے پیچھے کئی کئی حافظ کھڑے لقمے دے رہے ہوتے ہیں انھیں اپنی نیت کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے اگر ان کی نیت حافظ صاحب کو پریشان کرنے کی ہوئی تو ایسا کرنا حرام ہو گاامامِ اہلِ سنّت، مجددِ دین وملت، الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں ”قاری(پڑھنے والے) کو پریشان کرنے کی نیت حرام ہے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ ِوَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:” بَشِّرُوْا وَ لَاتُنَفِّرُوا وَیَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا “یعنی لوگوں کو خوشخبریاں سناؤ نفرت نہ دلاؤ ،آسانی پیدا کرو تنگی نہ کرو۔اور بے شک آج بہت سے حفاظ کا یہ شیوہ ہے، یہ بتانا نہیں بلکہ حقیقۃً یہود کے اس فعل میں داخل ہے۔(جس کا ذکر قران پاک میں ہوا ،فرمایا گیا) وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَ الْغَوْا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ(۲۶) (پ24،حم السجدہ:26) ترجمہ کنزالایمان: ( کافر کہتے ہیں) یہ قرآن نہ سنو اور اس میں بے ہودہ غُل (شور)کرو۔ (32) (11) اپنے مقتدی کے سوا دوسرے کا لقمہ لینا بھی مفسدِ نماز ہے البتہ اگر اس کے بتاتے وقت اسے خود یاد آگیا اس کے بتانے سے نہیں یعنی اگر وہ نہ بتاتا جب بھی اسے یاد آجاتا اس کے بتانے کو دخل نہیں تو اس کا پڑھنا مفسد نہیں۔ فتاوی شامی میں ہے: ایسی صورت میں اگر امام کو لقمے کی وجہ سے یاد آیا تو مطلقاً نماز فاسد ہو جائے گی خواہ امام نے لقمہ ختم ہونے سے پہلے تلاوت شروع کر دی ہو یا لقمہ ختم ہونے کے بعد شروع کی ہو ، تعلّم کے پائے جانے کی وجہ سے اور اگراسے خود ہی یاد آگیا ہونہ کہ لقمے کی وجہ سے یعنی اگر لقمہ نہ آتا تب بھی اسے یاد آجاتاتو ایسی صورت میں مطلقاً نماز نہ ٹوٹے گی۔یہ بات ظاہر ہے کہ جب یہ ثابت ہو جائے کہ لقمہ ازخود آیا ہے تو لقمہ کا آنا نماز پر اثر نہیں ڈالے گااور از خود یا د آنے یا نہ آنے کا معاملہ دیانت پر موقف ہے نہ کہ قضاء پر کہ ظاہر پر حکم لگائیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ کیا تو نہیں دیکھتاکہ اگر کوئی اپنے امام کے علاوہ غیر کو تلاوت کی نیت کرتے ہوئے لقمہ دے تو اس کی نماز فاسد نہ ہوگی اگرچہ کہ ظاہری حالت عمل تعلیم کو ظاہر کرتی ہے۔ (33) (12) مقتدی کو شبہ ہوا کہ امام کچھ چھوڑ گیا ہے مگر اسے یقین حاصل نہیں اس شبہ کی کیفیت میں اُس وقت لقمہ دیناجائز ہوگاکہ جب اسے یہ گمان ہو کہ امام نے جو چھوڑا ہے اگر نہ بتایا گیا تو نماز فاسد ہو جائے گی تو یقین نہ ہونے کے باوجود لقمہ دینا جائز ہوگااگر فساد نماز کا پہلو نہ ہو توپھر محض شبہ پر بتانا ہرگز جائز نہیں۔جیسا کہ امامِ اہلِ سنت رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فتاوی رضویہ شریف میں ارشاد فرماتے ہیں : جب غلطی مفسدِ نماز نہ ہو تو محض شبہ پر بتانا ہرگز جائز نہیں بلکہ صبر واجب ہے۔ آگے مزید ارشاد فرماتے ہیں حرمت کی وجہ ظاہر ہے کہ فتح(لقمہ)حقیقۃً کلام ہے اور نماز میں کلام حرام و مفسد نماز مگر بضرورت اجازت ہوئی جب اسے غلطی ہونے پرخود یقین نہیں تو مُبِیْح میں شک واقع ہوا اور محرم موجود ہے لہٰذا حرام ہوا جب اسے شبہ ہے ممکن کہ اسی کی غلطی ہواور غلط بتانے سے اس کی نماز جاتی رہے گی اور امام اخذ کریگا تو اس کی اور سب کی نماز فاسد ہوگی تو ایسے امر پر اقدام جائز نہیں ہو سکتا۔ (34) (13) مقتدی کو شک ہوا کہ امام نے کچھ چھوڑ دیا ہے حالانکہ امام نے درست پڑھا تھالہٰذا اس نے لقمہ دیااور امام نے لے لیا سب کی نماز جاتی رہی اگر امام نے نہ لیا توصرف لقمہ دینے والے کی گئی جیسا کہ اعلٰی حضرت امامِ احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: جب اسے شبہ ہو تو ممکن ہے کہ اسی کی غلطی ہو اور غلط بتانے سے اس کی نماز جاتی رہے گی اور امام اخذ کرے گا تو اس کی اور سب کی نماز فاسد ہو گی۔ (14) تراویح میں سہواً غلط بتانا مفسد نماز نہیں تیسیراً یہی حکم ہے۔ (35) (15) فوراً ہی لقمہ دینا مکروہ ہے بلکہ تھوڑا توقف چاہیے کہ شاید امام خود نکال لے۔(36) مگر جب کہ اس کی عادت اسے معلوم ہو کہ رُکتا ہے تو بعض ایسے حروف نکلتے ہیں جن سے نماز فاسد ہو جاتی ہے تو فوراً بتائے۔(37) (16) یوں ہی امام کو مکروہ ہے کہ مقتدیوں کو لقمہ دینے پر مجبور کرے بلکہ کسی دوسری سورت کی طرف منتقل ہو جائے یا دوسری آیت شروع کر دے بشرطیکہ اس کا وصل(ملانا) مفسدِ نماز نہ ہو اور اگر بقدر حاجت پڑھ چکا ہے تو رکوع کرے مجبور کرنے کے یہ معنی ہیں کہ بار بار پڑھے یا ساکت (خاموش)کھڑا رہے۔ جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے: امام کو چاہے کہ مقتدی کو لقمہ دینے کی طرف مجبور نہ کرے کیونکہ وہ ان کو اپنے پیچھے قرا ء ت کرنے پر مجبور کریگا اور یہ مجبور کرنا مکروہ ہے بلکہ اسے چاہیے کہ اگر اتنی قرأت کر چکا تھا جو نماز کے صحیح ہونے کیلئے کافی تھی تو رکوع کر لے یا کسی اور آیت کی طرف منتقل ہوجائے اور ان کو مجبور کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ بار بار آیت کی تکرار کرتا رہا یا پھر خاموش کھڑا رہا۔(38)

سبق نمبر 22 تراویح

سوال:تراویح کا حکم بیان کیجئے؟ جواب:رمضانُ المبارک کی خصوصی عبادت نمازِ تراویح ہے۔تَراویح ہرعاقِل و بالغ مرد وعورت کیلئےسُنَّت ِمُؤَکَّدہ ہے۔(39) اس کاتَرک جائز نہیں۔(40) سوال: تراویح کی کتنی رکعتیں ہیں ؟ جواب:حضرتِ عبدُ اللہ ابنِ عباس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا سے رِوایت ہے: نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم رَمَضانُ المبارک میں20 رَکعت (تَراویح)اور وتر پڑھا کرتے تھے۔(41) اَمِیْرُ الْمُؤمِنِیْن حضرتِ سَیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا اپنے دورِ خلافت میں 20 رکعت تَراویح کو رائج فرمانا،صحابہ و تابعین، ائمۂ مجتہدین اور ائمۂ محدثین رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کا 20 رَکعت تَراویح پر ہمیشہ عمل کرنا اور 20سے کم پر راضی نہ ہونا اس حدیث کو تقویت کے اعلیٰ مقام پر پہنچا دیتا ہے ۔ علّامہ علی قاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا اِس بات پر اِجماع(یعنی متفقہ فیصلہ) ہے کہ تَراویح کی 20 رَکعت ہیں۔(42) بیس رکعت تراویح کی حکمت یہ ہے کہ رات اور دن میں کل20 رکعت فرض وواجب ہیں۔ 17 رَکعت فرض اور تین وتر۔ لہٰذا رمضانُ المبارک میں20 رَکعت تراویح مقرر کی گئی تاکہ فرض وواجب کے مدارج اور بڑھ جائیں اور ان کی خوب تکمیل ہوجائے۔‘‘(43) سوال :تراویح کا کیا فائدہ ہے؟ جواب:تَراویح قرآنِ پاک کو یاد رکھنے اور اس کی حفاظت کرنے کاایک بہترین ذَریعہ ہے۔ اس کےذَریعےجہاں قرآنِ پاک کی دُہرائی ہو جاتی ہےوہاں قرآنِ پاک کی حفاظت کابھی اِہتمام ہوتا ہے۔ اگر تَراویح نہ ہوتی تو حفظِ قرآن کا رَواج بھی ختم ہوچکا ہوتا۔ سوال:تراویح پڑھنے ،پڑھانے والے کن باتوں کا خیال رکھیں؟ جواب:(1) تَراویح میں قرآنِ پاک پڑھاجاتاہےاور”قرآنِ مجید پڑھاجائےاسےکان لگاکرغور سےسننااورخاموش رہنافرض ہے۔“ (44) (2) تَراویح میں پورا قرآن پڑھنا اور سننا سُنَّتِ مُؤَکَّدَہ عَلَی الْکِفَایَہ ہے لہٰذا اگر چند لوگوں نے مل کر تَراویح میں ختمِ قرآن کا اِہتما م کرلیا تو بقیہ علاقے والوں کےلئے کفایت کرے گا۔ (3) سلام پھیرنے کےبعدسلام پھیرنے کے بعد بعض لوگ صَف میں بیٹھے رہتے ہیں، یا کھڑے کھڑے اِدھر اُدھردیکھتے یا پیچھے جا کر باتیں کرنے یا بِلاوجہ پانی پینے وغیرہ میں مشغول ہو جاتے ہیں جیسے ہی امام صاحب رکوع میں جاتے ہیں تو فوراً آ کر نیت باندھ لیتے ہیں انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ (4) یوں ہی بعض لوگ صحت مند اور تندرست ہونے کے باوجود كرسيوں پر بیٹھ کر،کچھ لوگ بعض رَکعتیں کھڑے کھڑے اور بعض زمین پر بیٹھے بیٹھے ادا کرتے ہیں ایسا بھی نہیں کرنا چاہئے۔ بِلاعُذر تَراویح بیٹھ کر پڑھنا مکروہ ہے بلکہ بعض فُقَہائے کِرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام کےنز د یک تو ہوتی ہی نہیں۔ (5) کچھ لوگ آٹھ یا دس تَراویح پڑھ کر چلے جاتے ہیں، اس طرح اگرچہ وہ اتنی رَکعتوں پر تو عمل کر بیٹھتے ہیں لیکن چونکہ تَراویح کی 20 رَکعت سُنَّتِ مُؤکَّدہ ہیں اس کے تَرک کرنے کے باعِث گناہ گار ہوتے ہیں۔ لہٰذا مکمل 20 تَراویح پڑھنے کی سعادت حاصِل کیجئے۔ (6) رَمَضان شریف میں وِتر جماعت سے پڑھنا افضل ہے،مگر جس نے عشا کے فرض بغیر جماعت کے پڑھے وہ وِتر بھی تنہا پڑھے۔البتہ اگرکسی نےنمازِ عشاء جماعت سےنہ پڑھی اوروترجماعت کےساتھ پڑھ لئےتوبھی اُس کے وتر ہوجائیں گے۔ (7) اِفطارپارٹیوں، دعوتوں، نیازوں اور نعت خوانیوں وغیرہ کی وجہ سے فرض نمازوں کی مسجِد کی جماعتِ اُولیٰ(یعنی پہلی جماعت)تَرک کرنے کی ہرگز اِجازت نہیں، یہاں تک کہ جو لوگ گھر یا ہال یا بنگلہ کے کمپاؤنڈ وغیرہ میں تَراویح کی جماعت قائم کرتے ہیں اورقریب مسجد موجود ہے تو ان پر بھی واجِب ہے کہ پہلے فرض رَکعتیں جماعتِ اُولیٰ کے ساتھ مسجد میں ادا کریں ۔ (8) ختمِ قرآن کے بعد رَمَضانُ المبارک کی بقیہ راتوں میں بھی تَراویح پڑھتے رہیے۔بعض لوگ تین روزہ، پانچ روزہ یا دس روزہ تَراویح پڑھ لیتے ہیں پھر اس کے بعد تَراویح نہیں پڑھتے اور کہتے سُنائی دیتے ہیں کہ ہم نے تو تین روزہ ، پانچ روزہ یا دس روزہ تَراویح پڑھ لی ہے تو ایسوں کی خِدمت میں مَدَنی اِلتجا ہے کہ تین روزہ ، پانچ روزہ یا دس روزہ تَراویح پڑھنے سے آپ کی تَراویح میں قرآنِ پاک پڑھنے اور سننے کی سُنَّت ادا ہوئی ہے،بقیہ رَمَضانُ المبارک کی راتوں کی تَراویح پڑھنا معاف نہیں ہوئی۔ (9) تَراویح پڑھانے والے کا حفظِ قرآن پکا ہونا چاہئے۔ (10) بعض حفاظ تَراویح کی اِبتدائی رَکعتوں میں بہت زیادہ پڑھتے ہیں اور آخری رَکعتوں میں اِنتہائی کم۔ اس سے بھی لوگ یہ سمجھ کر کہ بقیہ رَکعتیں بھی اتنی ہی بڑی ہوں گی وہ اَدھوری تَراویح چھوڑ کر چلے جاتے ہیں لہٰذا حفاظ کو چاہئے کہ تَراویح کی ہر رَکعت میں ایک رکوع پڑھيں ،ایسا کرنے سے رمضان كی ستائیسویں شب میں باآسانی قرآن ختم ہو جائےگا۔ (11) تَراویح کی نماز ہو یا کوئی اور نماز اس کے لئے ایسے شخص کا اِنتخاب کیا جائے جو اِمامت کا اَہل ہو۔ (12) تراويح کے لئےاِمامت کا مِعیار اچھی اور سریلی آواز نہیں بلکہ درست قِراءَت ہے۔ ہاں اچھی قِراءَت کے ساتھ ساتھ آواز بھی اچھی ہو تو سونے پہ سہاگا ہے،لہٰذا خوش اِلحانی دیکھنے کے ساتھ ساتھ دُرُست خوانی بھی ضَرور دیکھنی چاہئے۔ (13) بعض حفاظ ایسے ہوتے ہیں جو مَعَاذَ اللّٰہ داڑھی مُنڈاتے یا ایک مٹھی سے کم کراتے ہیں انہیں بھی ہرگز امام نہ بنایا جائے کہ ان کے پیچھے نماز پڑھنی گنا ہ اور اس نماز کو دوبارہ لوٹانا واجب ہوتا ہے۔ (14) اگرشرائط پرپورااترنے والاحافِظ نہ مل سکے یا کسی وجہ سے ختم نہ ہو سکے تو تَراویح میں کوئی سی بھی سورَتیں پڑھ لیجئے اگر چاہیں تو اَلَمْ تَرَ سے وَالنَّاس دو بار پڑھ لیجئے، اِس طرح بیس رَکعتیں یادرکھناآسان رہےگا۔ سوال:تراویح کے عوض لین دین کرنا کیسا؟ جواب: (1)تراویح کی اجرت کابھی لین دین نہ ہو۔طے کرنے ہی کو اُجرت نہیں کہتے بلکہ اگر یہاں تَراویح پڑھانے آتے اِسی لئے ہیں کہ معلوم ہے کہ یہاں کچھ ملتا ہے اگرچِہ طے نہ ہوا ہو ،تو یہ بھی اُجرت ہی ہے۔ اُجرت رقم ہی کا نام نہیں بلکہ کپڑے یا غلّہ(یعنی اناج) وغیرہ کی صورت میں بھی اُجرت،اُجرت ہی ہے۔ہاں اگر حافِظ صاحِب نیَّت کے سا تھ صاف صاف کہہ دیں کہ میں کچھ نہیں لوں گا یا پڑھوانے والا کہہ دے کہ کچھ نہیں دوں گا۔ پھر بعد میں حافِظ صاحِب کی خِدمت کر دیں تو حَرج نہیں۔ (2) مسجِدکمیٹی والے اُجرت طے کرکے حافِظ صاحِب کو ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں نَمازِ عشاکیلئے اِمامت پر رکھ لیں اور حافِظ صاحِب بالتبع یعنی ساتھ ہی ساتھ تَراویح بھی پڑھا دیا کریں کیوں کہ رَمَضانُ المبارَک میں تَراویح بھی نَمازِ عشا کے ساتھ ہی شامل ہوتی ہے۔(پہلے سے موجود امام صاحب دِل بَرداشتہ نہ ہوں اِس کا بھی خیال رکھا جائے ،پورے ماہِ رَمَضان میں نمازِ عشا کی اِمامت کی چھٹی کے سبب امام صاحب کو مسجد کے چندے سے اُس ماہ کی عشا کی نمازوں کی تنخواہ دے سکتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں اسی طرح کا عُرف یعنی معمول جاری ہے ۔) (3) یوں کریں کہ ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں روزانہ دو یا تین گھنٹے کیلئے (مَثَلاً رات8تا11)حافِظ صاحِب کو نوکری کی آفر کرتے ہوئے کہیں کہ ہم جو کام دیں گے وہ کرنا ہو گا،تنخواہ کی رقم بھی بتا دیں، اگر حافِظ صاحِب منظور فرما لیں گے تووہ ملازم ہو گئے۔اب روزانہ حافِظ صاحِب کی ان تین گھنٹوں کے اندر ڈیوٹی لگادیں کہ وہ تَراویح پڑھا دیا کریں۔ (4) حافِظ صاحِب کو مُطالَبے کے بِغیر اپنی مَرضی سے طے شدہ سے زائد مسجدکے چندے سے نہیں بلکہ اپنے پلّے سے یا اسی مقصد کے لیے جمع کی ہوئی رقم دے دیں تب بھی جائز ہے۔جو حافِظ صاحِبان ،یانعت خوان بِغیر پیسوں کے تَراویح ، قرآن خوانی یا نعت خوانی میں حصّہ نہیں لے سکتے وہ شرم کی وجہ سے ناجائز کام کا اِرتِکاب نہ کریں۔بچنا اور دُعائے اِخلاص کرتے رہنا ایسے مَواقع پر مُفید ہوتا ہے۔ تفسیرصِراط الجنان میں ہے:فی زمانہ حُفّاظ کا تو جو حال ہو چکا ہے وہ تو ایک طرف عوام اور مَساجِد کی اِنتظامیہ کا حال یہ ہو چکا ہے کہ تَراویح کے لئے اس حافظ کو منتخب کرتے ہیں جو قرآنِ پاک تیزی سے پڑھے اور جتنا جلدی ہو سکے تَراویح ختم ہو جائے اور اس امام کے پیچھے تَراویح پڑھنے سے جو تجوید کے مُطابق قرآن پڑھتا ہے ا س لئے دُور بھاگتے ہیں کہ یہ دیر میں تَراویح ختم کرے گا اور بعض جگہ تو یوں ہوتا ہے کہ تَراویح پڑھانے والے کو مسجد اِنتظامیہ کی طرف سے ٹائم بتا دیا جاتا ہے کہ اتنے منٹ میں آپ کو تَراویح ختم کرنی ہے اور اگر اس وقت سے 5 منٹ بھی لیٹ ہو جائے تو حافظ صاحب کوسُنا دیا جاتا ہے کہ حضرت آج آپ نے اتنے منٹ لیٹ کر دی آئندہ خیال رکھئے گا۔اے کاش کہ مسلمان اپنےوقت کاخیال کرنےکی بجائےاپنی نماز کی حفاظت کی فِکر کریں ۔ اللہ پاک مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے۔آمین۔(45) سوال:باقاعدہ طور پر تراویح کی جماعت کب سے شروع ہوئی؟ جواب:حضرت سَیِّدُنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے دَورِ خلافت میں۔(46) سوال:مولائے کائنات شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اس مبارک کام پر کیا دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے؟ جواب:” اللہ پاک حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی قبر کو روشن و مُنَوَّر فرمائے جیسے انہوں نے ہماری مسجدوں کو مُنَوَّر کر دیا۔“(47) سوال:تراویح میں پورا قرآن مجید پڑھنے یا سننے کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ جواب:تراویح میں پورا کلامُ اللہ شریف پڑھنا اور سننا سُنّتِ مُؤکَّدَہ ہے ۔(48) سوال:اُن پہلے حافظِ قرآن کا نام بتائیں جنہوں نےتراویح میں قرآنِ پاک کی تلاوت فرمائی؟ جواب:حضرت سیِّدُنا اُبَی بن کعب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ۔(49) سوال:کیا بالغ افراد نابالغ امام کے پیچھے تراویح پڑھ سکتے ہیں؟ جواب:جی نہیں! نابالغ کے پیچھےبالغ افرادکی تراویح (بلکہ کوئی بھی نماز) نہیں ہوگی۔(50) سوال:تراویح میں” بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ “بلند آواز سے پڑھنا چاہئے یا آہستہ؟ جواب:تراویح میں” بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ “ ایک بار اونچی آ واز سے پڑھنا سُنَّت ہے اور ہر سورۃ کی ابتدا میں آہستہ پڑھنا مُسْتَحَب ہے۔(51) سوال:کیا تراویح بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں ؟ جواب:جی نہیں ! تراویح بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا مکروہِ(تنزیہی )ہے،بلکہ بعض فقہائے کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے نزدیک تو (بلا عذر بیٹھ کر ) تراویح ہوتی ہی نہیں۔(52) سوال:عشاء کے فرضوں سے پہلے تراویح ادا کرلی تو ہوجائے گی؟ جواب:تراویح کا وقت عشاء کے فرض پڑھنے کے بعد سے صبحِ صادق تک ہے۔اگر عشاء کے فرض ادا کرنے سے پہلے پڑھ لی تو نہ ہو گی ۔(53) سوال:کیا نمازِوتر پڑھنے کے بعد تراویح پڑھی جاسکتی ہے؟ جواب:عام طور پر تراویح وِتروں سے پہلے پڑھی جاتی ہے لیکن اگر کوئی وتر پہلے پڑھ لے تو تراویح بعد میں بھی پڑھ سکتا ہے۔(54) سوال:ختمِ قرآن میں سورۂ بقرہ کی ابتدائی پانچ آیات کیوں پڑھی جاتی ہیں ؟ جواب:بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: اللہ پاک کوسب سےمحبوب عمل کیا ہے؟ حضور نبیِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: منزل پر پہنچنا اور کوچ کرنا۔ عرض کی : منزل پر پہنچنااور کوچ کرنا کیا ہے؟ ارشاد فرمایا:یہ کہ بندہ قرآنِ کریم کو شروع سے آخر تک پڑھے اورہر بار ختم کرتے ہی پھر شروع کر دے۔(55) سَیِّدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: جب وہ ایک پارہ پڑھ چکتا ہے شیطان کہتا ہے اب شاید رک جائے نہ پڑھے۔جب دوسرا پارہ ختم کرتا ہے تو کہتا ہے اب شاید نہ پڑھے۔ اسی طرح ہر پارہ پر کہتا ہے ، یہاں تک کہ جب تیسوں پارے ختم ہوجاتے ہیں کہتا ہے اب نہ پڑھے گا اب ختم کرچکا۔ پھر” اَلْمُفْلِحُوۡنَ “ تک پڑھتا ہے۔کہتا ہے:یہ نہ مانے گا پڑھتا ہی رہے گا۔ مایوس ہوجاتا ہے، اس کی امید ٹوٹ جاتی ہے۔(56) سوال:ایک ہی حافظ صاحب کا دو مسجدوں میں تراویح پڑھانا کیسا ہے؟ جواب:ایک امام دو مسجدوں میں تراویح پڑھاتا ہے اگر دونوں میں پوری پوری پڑھائے تو ناجائز ہے اور اگر گھر میں تراویح پڑھ کر مسجد میں آیا اور امامت کی تو مکروہ ہے۔(57) سوال:امام کے سلام پھیرنے کے بعدرکعتوں کی تعداد میں شک ہوجائے تو کیا حکم ہے؟ جواب:سلام پھیرنے کے بعد کوئی کہتا ہے دو ہوئیں کوئی کہتا ہے تین تو امام کے علم میں جو ہو اُس کا اعتبار ہے اور امام کو کسی بات کا یقین نہ ہو تو جس کو سچا جانتا ہو اُس کے قول پراعتبار کرے۔ اگر اس میں لوگوں کو شک ہو کہ بیس ہوئیں یا اٹھارہ تو دو رَکعت تنہا تنہا پڑھیں۔(58) سوال:قعدہ میں سوگیا اور امام اگلی دو رکعتوں کے قعدہ میں پہنچ گیاتو اب کیاحکم ہے؟ جواب:قعدہ میں مقتدی سو گیا، امام سلام پھیر کر اور دو رکعت پڑھ کر قعدہ میں آیا اب یہ بیدار ہوا تو اگر معلوم ہوگیا تو سلام پھیر کر شامل ہو جائے اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد جلد پوری کر کے امام کے ساتھ ہو جائے۔(59) سوال :کیا مُقتدا (پیشوا)شخص تنہا تراویح کی نماز پڑھ سکتا ہے؟ جواب:جو شخص مقتدا ہو کہ اس کے ہونے سے جماعت بڑی ہوتی ہے اور چھوڑ دے گا تو لوگ کم ہو جائیں گے اسے بلا عذر جماعت چھوڑنے کی اجازت نہیں۔(60) سوال :تراویح کی 20 رکعتیں ایک ہی سلام کے ساتھ پڑھنا کیسا ہے ؟ جواب:تراویح کی 20رکعتیں دس سلام کے ساتھ پڑھے یعنی ہر دو رکعت پر سلام پھیرے اور اگر کسی نے 20 پڑھ کر آخر میں سلام پھیرا تو اگر ہر دو رکعت پر قعدہ کرتا رہا تو ہو جائے گی مگر کراہت کے ساتھ اور اگر قعدہ نہ کیا تھا تو دو رکعت کے قائم مقام ہوئیں۔(61) سوال:اگر تراویح فوت ہو گئی تو اس کی قضا کب کرے ؟ جواب :تراویح اگروقت میں نہ پڑھی اورفوت ہو گئی تو اس کی قضا نہیں ،نہ جماعت سے نہ تنہا اور اگر کوئی قضا کر بھی لیتا ہے تو یہ جداگانہ نفل ہو جائیں گے، تراویح سے ان کا تعلق نہ ہو گا ۔(62) سوال:نمازِ تراویح فاسد ہوجانے پر اُس میں کی گئی تلاوت کا کیا حکم ہے؟ جواب:اگر کسی وجہ سے نمازِ تراویح فاسد ہو جائے تو جتنا قرآن مجید ان رکعتوں میں پڑھا ہے اُسے دوبارہ پڑھا جائے تاکہ ختمِ قرآن میں کمی نہ رہے۔(63) سوال:حافظ سجدۂ تلاوت بتانا بھول جائے تو کیا کرے ؟ جواب:قرآن پاک میں 14 آیاتِ سجدہ ہیں ۔ دَورانِ تَراویح جب کوئی آیتِ سجدہ آتی ہے تو حفاظِ کرام پہلے بتا دیتے ہیں کہ فُلاں رَکعت میں آیتِ سجدہ ہے ۔ بسااوقات حفاظِ کرام بتانا بھول جاتے ہیں اور نماز شروع کر دیتے ہیں ، اب جب آیتِ سجدہ پر پہنچتے ہیں تو شش و پنج میں پڑ جاتے ہیں کہ اب کیا کریں؟ بعض حفاظ تو آیتِ سجدہ پڑھتے ہی نہیں رکوع میں چلے جاتے ہیں ، اگر یہ دوسری رَکعت ہو تو فبہا ورنہ دوسری رَکعت میں کسی اور مقام سے چند آیات پڑھ کر اسے پورا کرتے ہیں ۔ کچھ حفاظ آیتِ سجدہ پڑھ کر سجدے میں چلے جاتے ہیں ، مقتدیوں کو معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کچھ رکوع میں ہوتے ہیں تو کچھ سجدہ میں ، ایک عجیب سا ماحول بن جاتا ہے ، حافظ صاحب کو بھی ندامت ہونے لگتی ہے ۔ ایسی صورتِ حال میں حافظ صاحب کو چاہیے کہ وہ آیتِ سجدہ پڑھ کر فوراً نماز کا رکوع کر لیں اور اس رکوع سے سجدۂ تلاوت کی نیت ہرگز نہ کریں ، پھر قومہ کے بعد سجدہ کریں اور اس میں سجدۂ تلاوت کی نیت کریں ، اب اس سجدہ سے سجدۂ نماز بھی ادا ہو جائے گا اور سجدۂ تلاوت بھی اورمقتدیوں نے سجدۂ تلاوت کی نیت نہ کی تو بھی ان کا سجدۂ تلاوت ادا ہو جائے گا ۔

سبق نمبر 23 شبینہ پڑھنے کے مَسائل

سوال:شبینہ کی شرعی حیثیت نیز شبینہ میں ممانعت یا کراہت کس صورت میں آئے گی ؟ جواب:اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : شبینہ فی نفسہٖ قطعاً جائز و رَوا ہے ۔ اکابر ائمہ دِین کا معمول رہا ہے ، اسے حرام کہنا شریعت پر اِفتراہے ۔ امامُ الائمہ سیِّدُنا امام اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے تیس برس کامل ہر رات ایک رَکعت میں قرآن مجید ختم کیا ہے ۔ علمائے کرام نے فرمایا ہے : سلف صالحین میں بعض اکابر دِن رات میں دو ختم فرماتے بعض چار بعض آٹھ ۔ امام عبدُالوہَّاب شعرانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی میزانُ الشریعہ میں ہے : سیدی علی مَرصَفی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ایک رات دن میں تین لاکھ ساٹھ ہزار ختم فرمائے ۔ آثار میں ہے : اَمِیْرُ الْمُؤمِنِیْن مولیٰ علی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بایاں پاؤں رکاب میں رکھ کر قرآن مجید شروع فرماتے اور دَہنا پاؤں رکاب تک نہ پہنچتا کہ کلام شریف ختم ہو جاتا بلکہ خود حدیث میں اِرشاد ہے کہ داؤد عَلَیْہِ السَّلَام اپنے گھوڑے کی زین کرنے کو فرماتے اور اتنی دیر سے کم میں زبور یا توراۃ مقدس ختم فرما لیتے ۔ توراۃ شریف قرآن مجید سے حَجْم( یعنی ضحامت ) میں کئی حصے زائد ہے ۔ فی نفسہٖ یہ فعل( یعنی شبینہ پڑھنا ) حسن ہے۔ کراہت یا ممانعت اگر آئے گی تو عوارض سے اور وہ یہاں پانچ ہیں : اوّل : عَدمِ تفقّہ یعنی جلدی کی وجہ سے معانیٔ قرآن کریم میں تفکر وتدبر نہ ہو سکے گا ۔ دُوم : کَسل۔ نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں : بیشک اللّٰہ پاک ثواب دینے میں کمی نہیں فرماتا جب تک تم نہ اکتاؤ ۔(64) (اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ) میں کہتا ہوں : یہ وجہ عام عوام کو عام ہے اور احکامِ فقہیہ میں غالب ہی کا اِعتبار ہوتا ہے۔ مگر اس وجہ کا مفاد صرف کراہتِ تنزیہی ہے اور مکروہِ تنزیہی جواز و اباحت رکھتا ہے نہ کہ گناہ و حرمت ۔سِوم : ہَذرَمَہ گھاس کاٹنا ۔ بعض لوگ ایسا جلد پڑھتے ہیں عَلِیْم یا حَکِیْم ، یَعْقِلُوْن ، تَعْلَمُوْن غرض لفظ ختمِ آیت کے سِوا کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ نفسِ سُنَّت کا فانی ( یعنی سُنَّت کو مٹانے والا ) اور بِدعتِ شنیعہ ( بُری بدعت ) اور اِسَاءَت ہے ۔ چہارم : قرأت کے واجبات مثلاً مَدِّ متصل وغیرہ کا ترک کرنا ۔ یہ صورت گناہ و مکروہِ تحریمی ہے ۔ پنجم : وہ حروف جو آواز میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں مثلاً ث س ص ، ت ط ، ز ذ ظ وغیرہا میں فرق نہ کرنا ۔ یہ خود حرام و مفسدِ نماز ہے ۔(65) سوال: شبینہ کے متعلق مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا کیا فرمان ہے؟ جواب: مشہورمُفَسّرِ حکیمُ الاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ہمیشہ سے صالح مسلمانوں کا دَستور ہے کہ رَمَضانُ المبارک میں شبینہ کرتے ہیں ، کبھی ایک رات میں ، کبھی دو میں اور کبھی تین راتوں میں پورا قرآن شریف تَراویح میں ختم کرتے ہیں ۔ بعض بزرگوں سے منقول ہے کہ وہ رَمَضان کے علاوہ بھی روزانہ ایک قرآن شریف پڑھ لیتے تھے ۔ یہ سب کچھ جائز اور ثواب ہے ، بشرطیکہ اتنی جلدی نہ پڑھے کہ حُروف ِ قرآن دُرُست ادا نہ ہوں ، نہ سُستی اور کَسل سے پڑھے ۔(66) سوال:مُرَوَّجَہ شبینہ کے بارے میں صدرُ الشَّریعہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے کیا فرمایا ہے؟ جواب:صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :شبینہ کہ ایک رات کی تراویح میں پورا قرآن پڑھا جاتا ہے، جس طرح آج کل رواج ہے کہ کوئی بیٹھا باتیں کر رہا ہے، کچھ لوگ لیٹے ہیں، کچھ لوگ چائے پینے میں مشغول ہیں، کچھ لوگ مسجد کے باہر حُقّہ نوشی کر رہے ہیں اور جب جی میں آیا ایک آدھ رکعت میں شامل بھی ہوگئے یہ ناجائز ہے۔(67)

سبق نمبر 24 سنتیں اور نوافل

سوال:سب سنّتوں میں قوی تر سُنّت کون سی ہے؟ جواب:سنتِ فجر۔(68) سوال:حدیثِ پاک میں فرض نماز کے بعد سب سے افضل نما ز کسے کہا گیا ؟ جواب:حدیثِ پاک میں فرض نماز کے بعد رات کی نماز کوسب سے افضل کہا گیا۔(69) سوال:فجر کی سنتوں میں کونسی سورتیں پڑھنا سُنّت ہے؟ جواب:سُنَّتِ فجر کی پہلی رَکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد قُلْ یٰۤاَیُّہَا الْکٰفِرُوۡنَ (سورۂ کافِرون) اور دوسری میں قُلْ ھُوَ اللّٰہ پڑھناسُنّت ہے۔(70) سوال:کس صورت میں ظہر کی دورکعت سنت کو ظہر کی چاررکعت سنّت سے پہلے پڑھنا افضل ہے؟ جواب:جبکہ ظہر کی چار رکعت سنّت کو فرض سے پہلے نہ پڑھ سکا ہو تو اس صورت میں ظہر کی دوسنّت کو ظہر کی چاررکعت سنّت سے پہلے پڑھنا افضل ہے۔(71) سوال:دن بھر میں کتنی رکعتیں سنتِ مُؤکَّدَہ ہیں؟ جواب:جمعہ کے دن جمعہ پڑھنے والے پر سولہ رَکعتیں اور علاوہ جمعہ کے باقی دنوں میں ہر روز بارہ رکعتیں سنتِ مُؤکَّدَہہیں:(1)دو رکعت نمازِ فجر سے پہلے،(2)چار ظہر سے پہلے، دو بعد ِ(ظہر)،(3)دو مغرب کے بعد، (4)دو عشاء کے بعد اور (5)چار جمعہ سے پہلے، چار بعدِ (جمعہ)۔ (72) سوال:سنتِ مؤکّدہ سے کیا مراد ہے اور اس کا حکم کیا ہے؟ جواب:جن سنتوں پر شریعت میں تاکید آئی ہے انہیں سنتِ مؤکّدہ کہتے ہیں،جو بغیر عذر ایک بار بھی ترک کرے وہ ملامت کا مستحق ہے اورترک کی عادت بنائے تو فاسق ہے ،اُس کی گواہی قبول نہیں اور وہ جہنم کاحق دار ہےاوربعض علما کے نزدیک گمراہ اور گنہگار ہے، اگرچہ اس کا گناہ واجب کے ترک سے کم ہے۔ تلویح میں ہے کہ اس کا ترک حرام کےقریب ہے اورترک کرنے والا اِس کامستحق ہے کہ مَعَاذَاللہ ! شفاعت سے محروم ہو جائے کیونکہ حضور اَقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ”جو میری سنّت کو ترک کرے گا اسے میری شفاعت نہ ملے گی۔“ سنّتِ مؤکّدہ کو سُنَنُ الْہُدیٰ بھی کہتے ہیں۔(73) سوال:تاکید کے اعتبار سےسنتِ مؤکّدہ کے درجات بیان کیجئے؟ جواب :سب سنتوں میں قوی تر سنّتِ فجر ہے، یہاں تک کہ بعض اس کو واجب کہتے ہیں۔سنتِ فجر کے بعد مغرب کی سُنّتوں کا درجہ ہے، پھر ظہرکے بعد کی، پھر عشا کے بعد کی، پھر ظہر سے پہلے کی سنتیں ہیں اورزیادہ صحیح قول کے مطابق سُنّتِ فجر کے بعد ظُہر کی پہلی سنتوں کا مرتبہ ہے کہ حدیث میں خاص ان کے بارے میں فرمایا کہ جو ان کو ترک کرے گااُسے میری شفاعت نہ پہنچے گی۔(74) سوال:وہ کونسی سنتیں ہیں جن کی مَشْرُوْعِیَّت کا جان بوجھ کر بلاشُبہہ انکار کرناکفر ہے؟ جواب:فجر کی سنتیں۔(75) سوال:ظہر کی سنتیں اور نوافِل ادا کرنے کی کیا فضیلت ہے؟ جواب :حدیثِ پاک میں ہے : جس نے ظہر سے پہلے چاراور بعد میں چار(رکعات) پر مُحافظت کی اللہ کریم اسے دوزخ پر حرام فرما دے گا ۔(76) حضرت سَیِّدُنا علامہ ابنِ عابدین شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی فرماتے ہیں:ایسےشخص کے لیے خوشخبری ہے کہ اس کا خاتمہ سعادت پر ہوگا اور دوزخ میں نہ جائے گا۔(77) سوال:وہ کونسی نماز ہے جو سواری پر پڑھی جائے تو اس میں قبلہ کو منہ کرنا شرط نہیں؟ جواب:وہ نفل نماز جو بیرونِ شہر(جہاں سے مسافر پر قَصر واجب ہوتا ہے )سواری پر ادا کی جائے۔(78) سوال:صَلَاۃُ الْاَوَّابین کسے کہتے ہیں؟ جواب:مغرب کے فرضوں کے بعد جو چھ رَکعتیں ادا کی جاتی ہیں انہیں صَلَاۃُ الْاَوَّابِیْن کہتے ہیں۔(79) سوال :صلوٰۃُ الْاوَّابین کی فضیلت بیان کیجئے؟ جواب:حضرت سَیِّدُناابوہُریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہےکہ حضور نبیٔ پاک، صاحبِ لولاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جوشخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اور درمیان میں کوئی بُری بات نہ کہے تو یہ چھ رکعتیں 12 سال کی عبادت کے برابر ہوں گی۔(80) اور ایک حدیث شریف میں ہے: جوبعدِ مغرب چھ رکعتیں پڑھے اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے اگرچہ سمندر کے جھاگ برابر ہوں۔(81) سوال:دن رات کے نوافل میں ایک سلام کے ساتھ کتنی رکعتیں پڑھی جاسکتی ہیں؟ جواب:دن کےنفل میں ایک سلام کے ساتھ چار رکعت سے زیادہ اور رات میں آٹھ رکعت سے زیادہ پڑھنا مکروہ ہے اور افضل یہ ہے کہ دن ہو یا رات ہو چار چار رکعت پر سلام پھیرے۔(82) سوال:کونسی چار رکعت والی نماز کی تیسری رکعت میں ثنا اور تَعَوُّذْ پڑھنے کا حکم ہے؟ جواب:فرض اور ظہر و جمعہ کی پہلی اور بعد کی چاررکعت والی سُنّت کے علاوہ ہر چار رکعت والی نماز کی تیسری رکعت میں ثنا اور تَعَوُّذ پڑھنے کا حکم ہے۔(83) سوال:نمازِ چاشت کا وقت کب تک ہے اور اس کی کتنی رکعتیں ہیں؟ جواب:نمازِ چاشْت کا وقت آفتاب بلند ہونے سے زوال یعنی نِصفُ النَّہار شرعی تک ہے ،اس کی کم سے کم دو اور زیادہ سے زیادہ بارہ رَکعتیں ہیں۔(84) سوال:صَلاۃُ اللَّیل کسے کہتے ہیں؟ جواب:نمازِ عشاء کے بعد جو نَوافل پڑھے جائیں ان کو صَلاۃُ اللَّیل کہتے ہیں۔(85) سوال:وہ کون سی نفل نماز ہے جس کےلئے سو نا ضروری ہے؟ جواب:وہ نمازِ تَہَجُّدہےجو عشاء کے بعد رات میں سونے کے بعد اُٹھ کر پڑھی جاتی ہے ۔ سوال:صَلوٰۃُ التَسبیح میں کون سی تسبیح پڑھی جاتی ہے ؟ جواب: سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ ۔(86) سوال:صلوٰۃُ التسبیح کی فضیلت بیان کیجئے؟ جواب:صَدرُالشّریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں: اس نماز میں بے اِنتہا ثواب ہے، بعض محققین فرماتے ہیں: اس کی بزرگی سن کر ترک نہ کرے گا مگر دین میں سُستی کرنے والا۔حضورتاجدارِ خَتمِ نَبوّت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت سَیِّدُنا عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے فرمایا:”اے چچا! کیا میں تم کو عطا نہ کروں، کیا میں تم کو بخشش نہ کروں، کیا میں تم کو نہ دوں، تمہارے ساتھ احسان نہ کروں، دس خصلتیں ہیں کہ جب تم کرو تو اللہ پاک تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اگلا پچھلا پُرانا نیا جو بھول کرکیا اور جو قصداً کیا چھوٹا اور بڑا پوشیدہ اور ظاہر۔ اس کے بعد صلوٰۃُ التسبیح کی ترکیب تعلیم فرمائی پھر فرمایا: کہ اگر تم سے ہو سکے کہ ہر روز ایک بار پڑھو تو کرو اور اگر روز نہ کرو تو ہر جمعہ میں ایک بار اور یہ بھی نہ کرو تو ہر مہینہ میں ایک بار اور يہ بھی نہ کرو تو سال میں ايک بار اور یہ بھی نہ کرو تو عمر میں ایک بارضرورپڑھو۔(87) سوال:صلوٰۃُ التسبیح ادا کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟ جواب:اِس نَماز کی ترکیب یہ ہے کہ تکبیرِ تحریمہ کے بعد ثنا پڑھے، پھر پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھے سُبْحٰنَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَاللهُ اَكْبَر ،پھرسورۂ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھ کر رُکوع سے پہلے دس باریہی تسبیح پڑھے پھر رُکوع کرے اور رُکوع میں سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْعَظِیْم تین بار پڑھ کر پھر دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے، پھر رُکوع سے سر اٹھائے اور سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ ۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الحَمْد کے بعد پھر کھڑے کھڑے دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے، پھر سجدے میں جائے اور سُبحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی تین بار پڑھ کرپھردس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے پھر سجدے سے سر اُٹھائے اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھ کر دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے ،پھر دوسرے سجدے میں جائے اور پہلے کی طرح سُبحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی تین بار پڑھ کر یہی تسبیح دس مرتبہ پڑھے، اسی طرح چار رَکعت پڑھے اور خیال رہے کہ کھڑے ہونے کی حالت میں سورۂ فاتحہ سے پہلے پندرہ مرتبہ اورباقی سب جگہ یہ تسبیح دس دس بارپڑھے یوں ہر رکعت میں75 مرتبہ تسبیح پڑھی جائے گی اور چار رَکعتوں میں تسبیح کی گنتی تین سو مرتبہ ہوگی۔(88) سوال:کب کب نوافل پڑھنا مستحب ہے؟ جواب:جب تیز آندھی آئے یا دن میں سخت تاریکی چھا جائے یا رات میں خوفناک روشنی ہو یا لگاتار کثرت سے بارِش برسے یا بکثرت اَولے پڑیں یا آسمان سُرخ ہو جائے یا بجلیاں گریں يابکثرت تارے ٹوٹیں یا طاعون وغیرہ وبا پھیلے یا زلزلے آئیں یادشمن کا خوف ہو یا اورکوئی دَہشت ناک اَمر پایا جائے ان سب کےلیے دو رَکعت نَما زمُستَحَب ہے۔(89) سوال:کونسے اوقات میں نوافل پڑھنا منع ہے؟ جواب:بارہ وقتوں میں نوافل پڑھنا منع ہے:(1) طُلوعِ فجر سے طلوع آفتا ب تک (2) اپنے مذہب (مثلا فقہِ حنفی والوں)کی جماعت کے ليے اِقامت ہوئی تو اِقامت سے ختمِ جماعت تک(البتہ اگر نمازِ فجر قائم ہو چکی اور جانتا ہے کہ سُنّت پڑھے گا جب بھی جماعت مل جائے گی اگرچہ قعدہ میں شرکت ہو گی تو حکم ہے کہ جماعت سے الگ اور دور سنتِ فجر پڑھ کر شریک ِجماعت ہو)(3) نمازِ عصر سے آفتاب زرد ہونے تک (4) غُروبِ آفتاب سے فرضِ مغرب تک(5)جس وقت امام اپنی جگہ سے خطبۂ جُمُعَہ کے ليے کھڑا ہوا اس وقت سے فرضِ جُمُعَہ ختم ہونے تک (6) عین خطبہ کے وقت اگرچہ جمعہ کا ہو یا خطبۂ عِیدَین یا کُسُوف واِسْتِسْقا و حج و نکاح کا(7) نمازِ عِیدَین سے پہلے (8)نما زِعِیدَین کے بعد جب کہ عید گاہ یا مسجد میں پڑھے، گھرمیں پڑھنا مکروہ نہیں(9) عَرَفات میں جو ظہر و عصر ملا کر پڑھتے ہیں، ان کے درمیان اور بعد میں بھی(10)مُزْدَلفہ میں جو مغرب و عشا جمع کیے جاتے ہیں، فقط ان کے درمیان، بعدمیں مکروہ نہیں(11)فرض کا وقت تنگ ہو تو ہر نماز یہاں تک کہ سُنّتِ فجر و ظہر مکروہ ہے (12)جس بات سے دل بٹے اور دفع کر سکتا ہو اسے بے دفع کیے ہر نماز مکروہ ہے ،کوئی ایسا امر درپیش ہو جس سے دل بٹے خُشُوع میں فرق آئے ان وقتوں میں بھی نماز پڑھنا مکروہ ہے۔(90)
1… تفسير ماوردى، پ23، الصافات، تحت الآيۃ:1، 5/36 2…تفسیر صراط الجنان، پ23، الصافات، تحت الآیۃ:1، 8/288 3… بخاری، کتاب الاذان، باب اقامۃ الصفّ من تمام الصلاة،1/ 257، حدیث:722 4…مرآۃ المناجیح،2/185 5…فتاوی رضویہ،7/219-222 6…مرآۃ المناجیح،2/187 7… بخاری، کتاب الاذان، باب اقامۃ الصف من تمام الصلاة،1/257، حدیث: 722 8…ابو داود، کتاب الصلاة، باب فى الصلاة تقام ولم يأت الامام…الخ،1/ 227، حدیث:543 9…ابو داود، کتاب الصلاة، باب فی الصلاة تقام ولم يأت الامام…الخ،1/ 227حدیث:543 10…مسند بزار، مسند ابى جحيفہ،10/ 160-159، حدیث:4232 11…معجم اوسط،4/ 225، حدیث:5797 12…فیض القدیر،6/ 306، تحت الحدیث: 9076 13…لواقح الانوارالقدسيہ فی بیان العہود المحمدیۃ،ص72ماخوذا 14…معجم اوسط،4/ 35، حدیث:5121 15… عمدة القاری، کتاب الأذان، باب تسويۃ الصفوف ...الخ،4/354،تحت الحدیث:718 ماخوذا 16…مرآۃ المناجیح،2/183 ملخصا 17… مسند احمد،مسند ابی امامۃ الباہلی،8/295،حدیث:22326 18… مسند احمد،مسند ابی امامۃ الباہلی،8/288،حدیث:22288 19…فیض القدیر،6/ 306، تحت الحدیث: 9076 20…مسلم، کتاب الصلاة، باب تسويۃ الصفوف و اقامتہا…الخ،ص182، حدیث:972 21…مسلم، کتاب الصلاة، باب تسويۃ الصفوف و اقامتہا…الخ،ص183، حدیث:979 22…مختصر فتاوی اہل سنت،ص44 23…مختصر فتاوی اہل سنت،ص45 24…فتاوی رضویہ ،7/280 25… فتاوی رضویہ ،7/280 26… عالمگیری،کتاب الصلوۃ،باب فیما یفسدالصلوۃوما یکرہ فیہا1/99 27… فتاوی رضویہ،7/281 ماخوذ ا 28…فتاوی رضویہ،7/281 29… فتاوی رضویہ ،7/282 30… فتاوی رضویہ،7/284۔ عالمگیری،کتاب الصلوۃ،باب فیما یفسدالصلوۃوما یکرہ فیہا،1/99 31… فتاوی رضویہ،7/284 32… فتاوی رضویہ،7/287 33… ردالمحتار،کتاب الصلوۃ،مطلب الموااضع التی لا یجب فیہا رد السلام،2/ 461 34… فتاوی رضویہ،7/287 35… فتاوی رضویہ،7/285ماخوذا 36… رد المحتار، کتاب الصلوۃ،مطلب الموااضع التی لا یجب فیہا رد السلام،2/462 37…بہار شریعت،1/607،حصہ:3 38…عالمگیری، کتاب الصلوۃ،باب فیما یفسدالصلوۃوما یکرہ فیہا، 1/99 39… درِمختار،کتاب الصلوۃ باب الوتر والنوافل، 2/597 40… بہارِشریعت،1/688حصہ:4 41…مصنف ابن ابی شیبۃ،کتاب الصلوۃ،باب فی صلوۃ رمضان،5/225،حدیث:7774 42…مرقاة المفاتیح ،3/382، تحت الحدیث:1303 43… فتاوی فیض الرسول،1/380 44… فتاوی رضویہ،23 /352 45… صراط الجنان ،10/415 46…بخاری،کتاب صلاة التراویح، باب فضل من قام رمضان، 1/ 658،حدیث:2010 مفہوما 47…تاریخ ابن عساکر،رقم:5206، عمر بن الخطاب ، 44/ 280 48…فتاوی رضویہ، 7/458 49…بخاری،کتاب صلاة التراویح، باب فضل من قام رمضان، 1/ 658،حدیث:2010 مفہوما 50…فتاوی ہندیہ، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس، 1/243 51…بہارِ شریعت، 1/694، حصہ: 4 52…در مختار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، 2/603 53…فتاوی ہندیہ، کتاب الصلاۃ، الباب التاسع، فصل فی التراویح، 1/115 54…تنویر الابصار مع در مختار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح ، 2/597 55…ترمذی، کتاب القراءات، باب ماجاء انزل القرآن علی سبعۃ احرف،تابع باب:13 ،4/437،حدیث:2957 56…ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، ص524 57…فتاوی ہندیہ، کتاب الصلاة، الباب التاسع فی النوافل، فصل فی تراویح، 1/ 116 58…فتاوی ہندیہ ، کتاب الصلاة، الباب التاسع فی النوافل، فصل فی تراویح، 1/ 117 59…فتاوی ہندیہ ، کتاب الصلاة، الباب التاسع فی النوافل، فصل فی تراویح، 1/ 119 60…فتاوی ہندیہ ، کتاب الصلاة، الباب التاسع فی النوافل، فصل فی تراویح، 1/ 116 61…درمختار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، 2/ 599 62…درمختار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، 2/ 598 63…فتاوی ہندیہ ، کتاب الصلاة، الباب التاسع فی النوافل، فصل فی تراویح، 1/ 118 64… مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین وقصرہا،باب امر من نعس فی صلوٰتہ،ص308،حدیث:1833 65… فتاوی رضویہ ، 7 / 476 تا 480 ملخصا 66… جاء الحق ، حصہ دوم ، ص454 67…بہار شریعت، 1/ 695، حصہ:4 68… درمختار،کتاب الصلوٰۃ،باب الوتر والنوافل،2/548 69…مسلم، کتاب الصیام، باب فضل صوم المحرم، ص 456، حدیث: 2755 70… مسلم، کتاب صلاة المسافرین وقصرھا، باب استحباب رکعتی سنۃ الفجر…الخ، ص286، حدیث: 1690 71… عمدۃ الرعایۃ،کتاب الصلاۃ، باب ادراک الفریضۃ، 1/214 72… در مختار،کتاب الصلاۃ،باب الوتر والنوافل ،2/545 73… بہار شریعت، حصہ:4، 1/ 662ماخوذ ا 74…درمختار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، 2/ 548۔فتاوی ہندیہ ، کتاب الصلاة،الباب التاسع فی النوافل، 1/ 112، بہار شریعت، ، 1/ 663، حصہ: 4ملخصا 75…بہار شریعت ، 1/663،حصہ: 1 76…نسائی، کتاب قیام اللیل وتطوع النہار، باب الاختلاف علی اسماعیل بن ابی خالد، ص310، حدیث: 1813 77…ردالمحتار، کتاب الصلاة، باب الوتروالنوافل، مطلب فی السنن والنوافل، 2/ 547 78…بہار شریعت ، 1/671،حصہ: 4 79… ردالمحتار، کتاب الصلاة، باب الوتروالنوافل، مطلب فی السنن والنوافل، 2/ 547 80…ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاة،باب ماجاء فی الست رکعات بعدالمغرب،2/ 45،حدیث: 1167 81…معجم اوسط، 5/ 255، حدیث: 7245 82…در مختار ،کتاب الصلاۃ،باب الوتر والنوافل ،2/550 83…درمختار مع ردالمحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل،2/ 552 84…فتاوی ہندیہ،کتاب الصلاۃ،الباب التاسع فی النوافل،1/ 112 ، بہار شریعت ،حصہ :4، 1/676، ملتقطا 85…بہار شریعت، 1/477، حصہ: 4 86…غنیۃ المتملی، صلاۃ التسبيح، ص431 87…ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاة، باب ماجاء فی صلاة التسبیح، 2/ 158-159حدیث: 1387 88…ترمذی، کتاب الوتر، باب ماجاء فی صلاة التسبیح، 2/ 24، حدیث: 481 89…فتاوی ہندیہ، کتاب الصلاة، الباب الثامن عشر فی صلاة الکسوف، 1/ 153 90…فتاوی ہندیہ، کتاب الصلاة، الباب الاول فی المواقیت، 1/ 52، 53-درمختار، کتاب الصلاة، 2/ 46 -51

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن