30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
سبق نمبر 10 تبرّکات کی تعظیم
تَبَرُّک سےمراد(انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام ، صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ) بزرگانِ دِین کی وہ چیزیں جو برکت کےطور پر رکھی جائیں۔(1) پیارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جسم سے مَسّ (Touch) ہونے والی اور نسبت رکھنے والی ہر ہر چیز بھی مُتَبَرَّک ہے، اسی طرح صحابَۂ کرام و بزرگانِ دین رِضْوَانُ اللہِ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کے مبارک اجسام سے چُھو جانےوالی (اور نسبت رکھنے والی)ہر چیز بھی مُتَبَرَّک ہے۔ (2) قرآنِ پاک کی کئی آیات میں تبرکات کی اہمیت اور پچھلی اُمّتوں کے تبرکات سے فیض پانےکے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔تابوتِ سکینہ ( وہ متبرک صندوق جس میں انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے تبرکات رکھے جاتے تھے) سے بنی اسرائیل کابرکتیں لینا،محرابِ مریم میں حضرت سیدنازکریا عَلَیْہِ السَّلَام کادُعا مانگنااور اس کا قبول ہونا۔ جیساکہ
اللہ کریم ارشاد فرماتاہے:
وَ قَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ اٰیَةَ مُلْكِهٖۤ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ التَّابُوْتُ فِیْهِ سَكِیْنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ بَقِیَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰى وَ اٰلُ هٰرُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلٰٓىٕكَةُؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۠(۲۴۸) (پ2،البقرۃ:248) تَرْجَمَۂ کنز الایمان : اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں معزز موسیٰ اور معزز ہارون کے ترکہ کی اٹھاتے لائیں گے اسے فرشتے بےشک اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے لیے اگر ایمان رکھتے ہو
سوال:انبیاءِ کرام عَـلَـيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام و اولیاءِ کرام رَحِمَهُمُ الـلّٰـهُ طرف منسوب اشیاء سے برکت وفائدہ حاصل کرنا کیسا ہے؟
جواب :انبیاءِکرام عَـلَـيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام و اولیاءِ کرام رَحِمَهُمُ الـلّٰـهُ کی طرف منسوب اشیاء سے برکت وفائدہ حاصل کرنا جائز ہے۔
سوال :اس کا کیا ثبوت ہے؟
جواب :اس کے ثبوت میں قرآن و حدیث کی بکثرت نُصوص پیش کی جاسکتی ہیں، چُنا نچہ
(1) تابوتِ سکینہ جس میں حضرت موسیٰ و ہارون عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کےتبرکات تھے ان سے بنی اسرائیل کا برکت و فائدہ حاصل کرنے کا ذکر دوسرے پارے میں موجود ہے۔
(2) حضرت یوسف عَـلَيْـهِ الصَّلٰوۃُ وَ الـسَّـلَام کی قمیض مبارک سے حضرت یعقوب عَـلَيْـهِ الصَّلٰوۃُ وَ الـسَّـلَام کی آنکھوں کا صحیح ہوجانا سورۂ یوسف میں مذکور ہے۔
(3)حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کےبال مبارک،وضوکے بچے ہوئے پانی، ناخنوں کے تراشے، چادر مبارک، تہبند مبارک،پیالہ مبارک،انگوٹھی مبارک سے صحابۂ کرام کا برکت حاصل کرنا بکثرت احادیث سے ثابت ہے ۔
سوال :کیا قبر میں تبرکات وغیرہ رکھ سکتے ہیں؟
جواب :جی ہاں!قبر کے اندر تبرکات وغیرہ رکھنا جائزوباعثِ ثواب اور میّت کیلئے دفعِ عذاب کا سبب بنتا ہے اور یہ صحابۂ کرام عَـلَيْهِمُ الرِّضْوَان و سلف صالحین کےعمل سے ثابت ہے۔(3) حضرت امیرمُعاویہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کی وصیّت تھی کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کی قمیص مبارکہ میرے کفن کے نیچے بدن سےمتصل رکھنا اور موئے مبارک و ناخن ہا ئے مقدّسہ کو میرے منہ اور آنکھوں اور پیشانی وغیرہ مواضعِ سجود پر رکھ دینا۔(4)
سوال :اس ضمن میں اگر کوئی واقعہ ہو تو بیان فرمادیں ؟
جواب :صحیح بخار ی کی حدیثِ پاک میں ہے حضرت عبداللہبن مسلمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت سہل رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے حدیث بیان کی کہ ایک عورت حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں ایک خوبصورت چادر لائی اور عرض کیا: آپ کو پہننے کیلئے پیش کر رہی ہوں،آپ اس کو تہبند کی صورت میں پہن کر باہر تشریف لائے تو ایک صحابی نے اس چادر کی تحسین کی اور سوال بھی کر لیا تو صحابۂ کرام عَـلَيْهِمُ الرِّضْوَان نے اسے کہا کہ تو نے اچھا نہیں کیا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نےاسے اپنے لئے پسند فرمایا ہےاور یہ بھی تمہیں معلوم ہے کہ آپ سائل کو محروم نہیں فرماتے اس کے باوجود سوال کر لیاتو اس صحابی نے کہا کہ میں نےاس کو پہننے کے لئے نہیں طلب کیا بلکہ اپنے کفن کیلئے سوال کیا ہے، حضرت سہل رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ وہ چادر اس سائل کا کفن بنی۔(5)
سوال :تبرکات کی بے ادبی کرنے کا نقصان بیان کیجئے ؟
جواب :یادرہے! جس طرح تبرکات کی تعظیم اور اِحترام کرنے سےکئی فائدے ملتےہیں اور برکتیں نصیب ہوتی ہیں، اسی طرح اگر ان کی تعظیم نہ کی جائے اور ان کی بے ادبی اور توہین کی جائے تو بسا اوقات دنیا میں ہی اس کی سزا بھی مل جاتی ہے۔ اس کی سب سے واضح مثال تابوتِ سکینہ ہے،چنانچہ
مکتبۃ المدینہ کی کتاب ” عجائب القرآن مع غرائب القرآن“کےصفحہ نمبر 52 -53 پر ہے:(تابوتِ سکینہ)شمشاد کی لکڑی کا ایک صندوق تھا جو حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلام پر نازل ہوا،آپ عَلَیْہِ السَّلام کی آخرِ زندگی تک آپ کے پاس ہی رہا،پھر بطورِ میراث یکے بعد دیگرے آپ عَلَیْہِ السَّلام کی اولاد کو ملتا رہا،یہ بڑا ہی مُقَدَّسْ اور بابرکت صندوق (Box)تھا۔بنی اسرائیل میں جب کوئی اختلاف پیدا ہوتا تھا تو لوگ اسی صندوق سے فیصلہ کراتے تھے، صندوق سے فیصلے کی آواز اور فتح کی بشارت سُنی جاتی تھی،بنی اسرائیل اس صندوق کو وسیلہ بنا کر دعائیں مانگتے تھے تو ان کی دعائیں مقبول ہوتی تھیں،بلاؤں کی مصیبتیں اور وباؤں کی آفتیں ٹل جایا کرتی تھیں،الغرض یہ صندوق بنی اسرائیل کے لئے تابوتِ سکینہ،برکت و رحمت کا خزینہ اور نصرتِ خداوندی کے نزول کا نہایت مُقَدَّسْ اور بہترین ذریعہ تھا۔ مگر جب بنی اسرائیل طرح طرح کے گناہوں میں ملوث ہوگئے اور ان لوگوں میں معاصی و طُغیان اور سرکشی و عصیان کا دور دورہ ہو گیا تو ان کی بداعمالیوں کی نحوست سے ان پر خدا کا یہ غضب نازل ہوگیا کہ قومِ عَمَالِقَہ کے کفار نے ایک لشکرِ جرار کے ساتھ ان لوگوں پر حملہ کردیا، ان کافروں نے بنی اسرائیل کا قتلِ عام کر کے ان کی بستیوں کو تباہ و برباد کرڈالا۔عمارتوں کو توڑ پھوڑ کر سارے شہر کو تہس نہس کرڈالا اور اس متبرک صندوق کو بھی اُٹھا کر لے گئے۔ اس مقدس تبرک کو نجاستوں کے کوڑے خانہ میں پھینک دیا۔ لیکن اس بے ادبی کا قومِ عَمَالِقَہ پر یہ وبال پڑا کہ یہ لوگ طرح طرح کی بیماریوں اور بلاؤں کے ہجوم میں جھنجھوڑ دیئے گئے۔ چنانچہ قوم عَمَالِقَہ کے 5 شہر بالکل برباد اور ویران ہو گئے۔ یہاں تک کہ ان کافروں کو یقین ہو گیا کہ یہ صندوق ِرحمت کی بے ادبی کا عذاب ہم پر پڑ گیا ہے تو ان کافروں کی آنکھیں کھل گئیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس مقدس صندوق کو ایک بیل گاڑی پر لاد کربیلوں کوبنی اسرائیل کی بستیوں کی طرف ہانک دیا۔(6)
سبق نمبر 11اذان و اقامت سے قبل درودِ پاک پڑھنا
سوال :اذان و اقامت سے پہلے یا بعد میں درودِ پاک پڑھنا کیساہے؟
جواب :اذان واقامت سے پہلے یا بعد میں درود و سلا م پڑھنا بالکل جائز اور مستحب ہے۔
سوال :اس کا کیا ثبوت ہے؟
جواب :قرآنِ پاک میں فرمانِ باری ہے:
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ22،الاحزاب:56) ترجمۂ کنزالایمان : بیشک اللّٰہ اور اس کےفرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے(نبی)پر اے ایمان والو، ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔
قرآنِ پاک کی اس آیتِ مبارکہ میں اللّٰہ کریم نے درودِ پاک پڑھنے کاحکم دیا اور اس میں نہ تو کوئی الفاظ مقرّر فرمائے کہ انہیں الفاظ کے ساتھ درود پڑھو اور نہ ہی کسی وقت کی قید لگائی ہے کہ اِس وقت پڑھو اور اُس وقت نہ پڑھو ۔
حدیث شریف میں ہے :’’جس نے اسلام میں ایک اچھا طریقہ ایجادکیا تو اس کے لیے اس کا اجر ہے اور جو اس پر عمل کریگا اس کااجر ایجاد کرنے والے کو بھی ملے گا۔‘‘(7)
اَلْحَمْدُ للہ! اذان سےقبل درود شریف پڑھنا بھی مسلما نو ں کے اندر رائج ہے اور اگر یہ کسی حدیث شریف سے ثابت نہ بھی ہو تب بھی کارِ ثواب ہےکہ دینِ اسلا م میں جس نے اچھا کام شروع کیا اللّٰہ پاک اسے نیک عمل کاثواب عطافرمائے گا اور جتنے لوگ اس پرعمل کریں گے ان کے برابربھی اس شخص کو ثواب عطا کیا جائے گا ۔(8)
سوال :کِن مواقع پر درود شریف پڑھنا مستحب ہے؟
جواب :حضرت علامہ سیّد ابنِ عابدین شامی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ درود شریف پڑھنے کےمستحب مواقع بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : علماءِ کرام نے بعض مواقع پر درودِ پاک پڑھنے کے مستحب ہونے پر نص فرمائی ہے ان میں سے چند یہ ہیں: روزِ جمعہ اور شبِ جمعہ، ہفتہ اتوار اور سوموار کےدن،صبح و شام،مسجد میں جاتے او ر نکلتے وقت ، بوقتِ زیارت روضۂ اطہر،صفا و مروہ پر،خطبۂ جمعہ کے وقت ، جوابِ اذان کے بعد ،بوقت ِاقامت ،دعا کے اوّل آخِر اور بیچ میں،دعائے قنوت کے بعد،تَلْبِیَہ کہنے کے بعد، کان بجنے کے وقت اور کسی چیز کے بھول جانے کے وقت۔ (9)
سوال :بعض لوگ کہتے ہیں کہ اذان و اقامت سے قبل درود شریف نہ پڑھاجائے کہ عوامُ النّاس کہیں درود شریف کو اذان و اقامت کا حصّہ نہ سمجھ لیں،کیا یہ بات درست ہے؟
جواب :اس کا حل یہ نہیں کہ ایک مستحسن کام بند کردیاجائے،علماءِ کرام نے اس کا حل یہ پیش فرمایا ہے کہ اذان واقامت سے پہلے درود میں یہ احتیاط کرنی چاہئے کہ درود شریف پڑھنے کے بعد کچھ وقفہ کرے پھر اذان یا اقامت کہے تاکہ درود شریف اور اذان واقامت کے درمیان فاصلہ ہو جائے یا درود شریف کی آواز اذان و اقامت کی آواز سے پَست رہے تاکہ دونوں کے درمیان فرق رہے اور درود شریف کو اقامت کا جُزء نہ سمجھیں۔اس طرح اذان واقامت پڑھنے والا خوش نصیب صلوٰۃ و سلام کی برکتوں سے بھی مستفید ہوتا رہے گا۔(10)
سبق نمبر 12 انگوٹھے چومنا
سوال :اذان میں حضورنبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کےاسمِ گرامی محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کوسُن کر اپنےانگوٹھے چوم کر اپنی آنکھوں سے لگانا کیسا ہے؟
جواب :جائزومستحسن و موجبِ اجروثواب ہےاورسرکارِ دوجہاں،رحمتِ عالمیاں،شفیعِ مُذ نِباں صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کی محبت کی علامت ہے۔(11)
سوال :اس کا کیا ثبوت ہے؟
جواب :علامہ ابنِ عابدین شامی رَحْمَۃُ اﷲِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں:’’مستحب یہ ہےکہ جب پہلی شہادت سنے تو کہے: صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اور جب دوسری سُنے تو دونوں انگوٹھے اپنی دونوں آنکھوں پر لگانے کے بعدکہے: قَرَّتْ عَیْنِیْ بِکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ پھر یہ کہے: اَللّٰھُمَّ مَتِّعْنِیْ بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ تو حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم جنّت کی طرف اس کے قائد ہونگے جیسا کہ کَنْزُ الْعِباد اور الفتاوی الصُّوفیۃ میں ہے اور کتابُ الفردوس میں ہے کہ جس نے اذان میں اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ سننے کے بعد اپنے دونوں انگوٹھوں کو بوسہ دیا توجنّت کی صفوں میں،میں اس کاقائد اور داخل کرنے والا ہوں گا۔(12)
سوال :انگوٹھے چومنے کے بارے میں کوئی واقعہ ہو تو وہ بیان فرمادیں ؟
جواب :اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مسندُالفردوس کےحوالے سے فرماتے ہیں:’’حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے مَروی ہے کہ جب آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے مؤذّن کو اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ کہتے سُنا یہ دُعا پڑھی اور دونوں کلمےکی انگلیوں کے پورے جانبِ زیریں سے چُوم کر آنکھوں سے لگائے،اس پرحضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:جو ایسا کرے جیسا میرے پیارے نے کیا اس کے لئے میری شفاعت حلال ہوجائے۔(13)
سوال :اگر یہ دلائل نہ ہوتے تو کیا پھر بھی ایسا کرناجائز ہوتا؟
جواب :جی ہاں !اگر اس کے لئے کوئی خاص دلیل نہ بھی ہوتو شریعت کی طرف سے اس کی ممانعت نہ ہونا ہی اس کے جائز ہونے کے لئےکافی ہےکیونکہ یہ چیزیں اصل کے اعتبار سے جائز ہیں جب تک کہ شریعت منع نہ کردے۔ یہی وجہ ہے کہ اذان کے علاوہ بھی محبت و تعظیم کی وجہ سے حضورسرورِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کا نامِ مبارک سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگانا جائز ومستحسن ہے۔(14)
سبق نمبر 13 قبر پر اذان
قبر پر اذان دینے کا جواز یقینی ہے کیونکہ شریعتِ مطہرہ نے اس سے منع نہیں فرمایا اور جس کام سے شرع مطہرہ منع نہ فرما ئے اصلا ً ممنوع نہیں ہوسکتا۔نیز احادیث سے ثابت ہے کہ جب مُردے کو قبر میں اتارنے کے بعدمنکر نکیر ا س کے پاس آکرسوالات کرتے ہیں توشیطان جوکہ انسان کا اَزَلی دشمن ہے، مسلمان کو بہکانے کیلئے وہاں بھی آپہنچتا ہے اور یہ بات بھی احادیث سے ثابت ہے کہ شیطان قبر میں آتا اور مسلمان کو سوالات کے جوابات دینے میں پریشانی میں مبتلا کرتا ہے تاکہ یہ سوالات کے جوابات نہ دے کر خائب و خاسِر ہواور جب اذان دی جاتی ہے تو شیطان بھا گ کھڑا ہوتا ہے۔(15)
چُنانچہ روایت میں ہے:’’جب مُردے سے سوال ہو تاہےکہ تیرا رب کون ہے؟ شیطان اس پرظاہر ہوتا ہے اور اپنی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی میں تیرا رب ہوں۔‘‘ اس لئے حکم آیا کہ میّت کیلئے جواب میں ثابت قدم رہنے کی دعا کریں۔(16)
اور یہ اَمر بھی احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ اذان دینے سے شیطان بھاگتا ہے جونہی اذان کی آواز اس کے کان میں پڑتی ہےجس جگہ اذان دی جارہی ہو وہاں سے کوسوں دور بھاگ جاتا ہے چُنانچہ صحیح مسلم میں جابر رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے مروی کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں:’’شیطان جب اذان سنتا ہےاتنی دور بھاگتا ہے جیسے روحا۔‘‘اور روحا مدینہ سے 36 میل کے فاصلہ پر ہے۔(17)
سوال :کیا اذان نماز کے ساتھ خاص ہے؟
جواب :نہیں، ایسا نہیں کہ اذان نماز کے ساتھ خاص ہے ۔ بعض لوگوں کواذانِ قبر کے ناجائز ہونے کا شیطانی وَسْوَسَہ شاید اس بنا پر آتا ہے کہ لوگ اذان کو نماز کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ شریعتِ مطہرہ نے نماز کے علاوہ کثیرمقامات پر اذان کو مستحسن جانا ہے جیسے نو مولود کے کان اور دفعِ وبا و بلا وغیرہ مواقع میں۔(18)
سبق نمبر 14 بڑی راتوں میں عبادت کابیان
بڑی راتوں میں جمع ہوکر عبادت کرنا جائز ومستحسن ہے۔فتاوی رضویہ میں بحوالہ لَطائِفُ المعارِف ہے:’’اہلِ شام میں آئمہ تابعین مثل خالد بن مَعدان و امام مکحول و لقمان بن عامر وغیرہُم ( رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْھِم ) شبِ براءت کی تعظیم اور اس رات عبادت میں کوششِ عظیم کرتے اور انہیں سے لوگوں نے اس کا فضل ماننا اور اس کی تعظیم کرنا اَخذ کیا ہے۔‘‘ (19)
سوال :ان راتوں میں مساجد کو سجانا کیسا ہے ؟
جواب :جائز ومستحسن ہے، کیونکہ اس سے مقصود اس رات کی تعظیم ہوتا ہے اور بحوالہ لطائِفُ المعارف گزر چکا کہ ائمہ تابعین اس رات کی تعظیم کیا کرتے تھے۔
سوال:سال میں کتنی راتیں افضل راتیں ہیں؟
جواب:یوں تو ہروہ رات ہی جس میں نیکیاں کی جائیں وہ افضل رات ہے،لیکن عارِف بِاللہ شیخ عَبدُالعزیز دیرینی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:سال کی راتوں میں افضل راتیں انتیس ہیں کہ سلف صالحین ان راتوں میں عبادت کرنا پسند کرتے اور فضل و کرم کےامید وار ہوتے تھے۔ ان اُنتیس راتوں میں شعبانُ المعظم کی پندرہویں رات بھی ہے۔وہ اُنتیس راتیں یہ ہیں: رمضانُ المبارک کے آخری عشرے کی دس راتیں اور اس کی سترہویں رات کہ جس کی صبح کو غزوۂ بدر تھا، ماہِ ذوالحج کے پہلےعشرے کی دس راتیں،عیدُ الفطر کی رات،عیدُ الاضحی کی رات،محرّمُ الحرام کی پہلی رات،عاشوراء (10محرّمُ الحرام)کی رات،رجَبُ المرجّب کی پہلی،پندرہویں اور ستائیسویں رات جس میں نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کومعراج کرائی گئی اور شعبانُ المعظم کی پندرہویں رات۔(20)
سوال :شبِ براءت کی فضیلت و اہمیت کیاہے؟
جواب :اس کی فضیلت میں مُتعدَّ د احادیث مَروی ہیں حضرت علی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایاکہ جب شعبان کی پندرھویں رات ہوتو رات کو جاگا کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو جب سورج غروب ہوتا ہے تو اس وقت سے اللّٰہ کریم آسمانِ دنیا کی طرف نُزولِ رحمت فرماتاہے اور اعلان کرتا ہے کہ ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا تاکہ میں اس کوبخش دوں ، ہے کوئی رِزق طلب کرنے والا تاکہ میں اس کورِزق دوں ،ہے کوئی مصیبت زَدہ تاکہ میں اس کواس سے نجات دوں ۔یہ اعلان طلوعِ فجر تک ہوتا رہتا ہے۔(21)
اسی طرح امُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضور کو اپنے بستر پر نہ پایا تو میں حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کی تلاش میں نکلی میں نے حضو ر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جنّتُ البقیع میں پایا،حضور سرورِ کائنات صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’ اللّٰہ کریم نصف شعبان کی رات کو آسمانِ دنیا کی طرف نُزولِ رحمت فرماتاہے اور قبیلۂ بنی کَلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔‘‘ (22)
سوال: کیا شب براءت میں کوئی بخشش سے محروم بھی رہتا ہے ؟
جواب:شبِ براءت بے حد اَہم رات ہے، اسے کسی صورت غفلت میں نہ گزارا جائے، اِس رات رَحمتوں کی خوب برسات ہوتی ہے۔ اِس مبارَک شب میں اللہ پاک”بنی کلب“کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے۔ کِتابوں میں لکھا ہے:’’قبیلۂ بنی کلب‘‘قبائلِ عرب میں سب سےزیادہ بکریاں پالتا تھا۔آہ ! کچھ بدنصیب ایسے بھی ہیں جن پر شبِ بَراءَت یعنی چھٹکارا پانے کی رات بھی نہ بخشے جانے کی وَعید ہے۔حضرت سیِّدُنا امام بیہقی شافعی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ ’’ فَضائِلُ الْاَوقات ‘‘میں نقل کرتے ہیں: رسول ُالله صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:چھ آدمیوں کی اس رات بھی بخشش نہیں ہوگی:(1)شراب کا عادی(2)ماں باپ کا نافرمان(3)زِنا کا عادی (4)قَطْع تعلق کرنے والا(5)تصویر بنانے والا اور(6)چغل خور۔اِسی طرح کاہن ،جادوگر،تکبُّر کے ساتھ پاجامہ یا تہبندٹخنوں کے نیچے لٹکانے والے اور کسی مسلمان سے بلا اجازتِ شرعی بُغض و کینہ رکھنے والے پر بھی اِس رات مغفِرت کی سعادت سے محرومی کی وعید ہے،چنانچہ تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ مُتَذَکَّرَہ (یعنی بیان کردہ) گناہوں میں سے اگر مَعَاذَ اللہ کسی گناہ میں ملوث ہوں تو وہ بالخصوص اُس گناہ سے اور بالعموم ہر گناہ سے شبِ براءت کے آنے سے پہلے بلکہ آج اور ابھی سچی توبہ کرلیں اور اگربندوں کی حق تلفیاں کی ہیں تو توبہ کے ساتھ ساتھ ان کی مُعافی تلافی کی ترکیب فرما لیں ۔(23)
لیلۃ القدر کے فضائل
سوال:لیلۃ القدر کو لیلۃ القدر کیو ں کہتے ہیں ؟
جواب:لیلۃ القدر انتہائی بَرَکت والی رات ہے اِس کو لیلۃ القدر اِس لئے کہتے ہیں کہ اِس میں سال بھر کے اَحکام نافذ کئے جاتے ہیں اور فرشتوں کو سال بھر کے کاموں اور خدمات پر مامور کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس رات کی دیگر راتوں پرشرافت وقدر کے باعث اس کو لیلۃ القدر کہتے ہیں اور یہ بھی منقول ہے کہ چونکہ اس شب میں نیک اَعمال مقبول ہوتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں ان کی قَدر کی جاتی ہے اس لئے اس کو لیلۃ القدر کہتے ہیں۔(24)
اور بھی مُتَعَدِّد شر افتیں اِس مبارَک رات کو حاصِل ہیں۔
سوال:لیلۃ القدر میں عبادت کرنے کی کیا فضیلت ہے ؟
جواب :بخاری شریف میں ہے، فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ ِوَسَلَّمَ : ’’ جس نے لیلۃ القدر میں ایمان اور اِخلاص کے ساتھ قیام کیا (یعنی نماز پڑھی) تو اُس کے گزشتہ(صغیرہ) گناہ معاف کردئیے جائیں گے ۔‘‘ (25)
اِس مقدس رات کو ہرگز ہرگز غفلت میں نہیں گزارنا چاہئے،اِس رات عبادت کرنے والے کو ایک ہزار ماہ یعنی تراسی سال چار ماہ سے بھی زیادہ عبادت کا ثواب عطا کیا جاتا ہے اور اِس ’’زیادہ ‘‘ کا علم اللہ پاک جانے یا اُس کے بتائے سے اُس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ ِوَسَلَّمَ جانیں کہ کتنا ہے۔اِس رات میں حضرتِ سَیِّدُنا جبریل علیہ السّلام اور فرشتے نازِل ہوتے ہیں اور پھر عبادت کرنے والوں سے مصافحہ کرتے ہیں۔ اس مبارک شب کا ہر ایک لمحہ سلامتی ہی سلامتی ہے اور یہ سلامتی صبحِ صادِق تک برقرار رہتی ہے۔یہ اللہ پاک کا خاص الخاص کرم ہے کہ یہ عظیم رات صرف اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ ِوَسَلَّمَ کو اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ ِوَسَلَّمَ کے صدقے میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ ِوَسَلَّمَ کی اُمت کو عطا کی گئی ہے۔ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے :
اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚۖ(۱) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ(۲) لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ(۳) تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْۚ-مِنْ كُلِّ اَمْرٍۙۛ(۴) سَلٰمٌ ﱡ هِیَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ۠(۵) (پ30،القدر) تَرْجَمَۂ کنز الایمان : بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا اور تم نے کیا جانا کیا شب قدر شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر اس میں فرشتے اور جبریل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک۔
حضرتِ سیِّدُنا امام مجاہد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: بنی اسرائیل کا ایک شخص ساری رات عبادت کرتا اور سارا دن جہاد میں مصروف رہتا تھا اور اس طرح اس نے ہزار مہینے گزارے تھے ،تو اللہ پاک نے یہ آیتِ مبارَکہ نازِل فرمائی : ’’ لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ(۳) ‘‘ تَرْجَمَۂ کنز الایمان :)شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر) یعنی شب ِ قدر کا قیام اس عابد(یعنی عبادت گزار) کی ایک ہزارمہینے کی عبادت سے بہتر ہے۔(26)
اور’’ تفسیرعزیزی‘‘ میں ہے:حضراتِ صحابۂ کرام عَلَیْھِمُ الرِّضْوَان نے جب حضرتِ شمعون رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی عبادات وجہاد کا تذکرہ سنا تو انہیں حضرتِ شمعون رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ پر بڑا رَشک آیا اور مصطَفٰے جانِ رَحمت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ ِوَسَلَّمَ کی خدمتِ بابرکت میں عرض کیا: ’’یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ ِوَسَلَّمَ !ہمیں تو بہت تھوڑی عمریں ملی ہیں، اِس میں بھی کچھ حصہ نیند میں گزرتا ہے تو کچھ طلب معاش میں ، کھانے پکانے میں اور دیگر اُمورِ دُنیوی میں بھی کچھ وَقت صرف ہوجاتا ہے۔لہٰذا ہم تو حضرتِ شمعون رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی طرح عبادت کرہی نہیں سکتے ، یوں بنی اِسرائیل ہم سے عبادت میں بڑھ جائیں گے۔‘‘ اُمت کے غمخوار آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ ِوَسَلَّمَ یہ سن کر غمگین ہوگئے۔ اُسی وَقت حضرتِ سَیِّدُنا جبرئیل اَمین علیہ السّلام لے کر حاضر خدمت بابرکت ہوگئے اور تسلی دے دی گئی کہ پیارے حبیب( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ ِوَسَلَّمَ ) رَنجیدہ نہ ہوں، آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ ِوَسَلَّمَ کی اُمت کو ہم نے ہر سال میں ایک ایسی رات عنایت فرمادی کہ اگر وہ اُس رات میں عبادت کریں گے تو (حضرتِ) شمعون رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی ہزار ماہ کی عبادت سے بھی بڑھ جائیں گے۔ (27)
سوال:شب قدررمضان المبارک کی کون سی رات ہے ؟
جواب :اگرچہ بزرگانِ دین اور مفسرین و محدّثین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِم اَجْمَعِیْن کا شبِ قدر کے تعین میں اِختلاف ہے، تاہم بھاری اکثریت کی رائے یہی ہے کہ ہر سال ماہِ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب ہی شب قدر ہے۔ سیّد الانصار، سیِّدُالقراء، حضرتِ ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے نزدیک ستائیسویں شبِ رَمضان ہی’’ شب قدر‘‘ ہے۔(28)
حضرتِ سَیِّدُنا شاہ عبد العزیز محدّث دِہلوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بھی فرماتے ہیں کہ شب قدر رَمضان شریف کی ستائیسویں رات ہوتی ہے۔ اپنے بَیان کی تائید کیلئے اُنہوں نے دو دلائل بَیان فرمائے ہیں :
(1) ’’ لیلۃ القدر ‘ ‘ میں نو حروف ہیں اور یہ کلمہ سورۃ قدر میں تین مرتبہ ہے، اِس طرح ’’تین ‘‘کو ’’نو‘‘ سے ضرب دینے سے حاصلِ ضرب ’’ستائیس ‘‘ آتا ہے جو کہ اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شبِ قدر ستائیسویں رات ہے۔
(2) اِس سورۂ مبارَکہ میں تیس کلمات (یعنی تیس الفاظ) ہیں۔ ستائیسواں کلمہ ’’ھِیَ‘‘ہے جس کا مرکز لیلۃ القدر ہے۔ گویا اللہ پاک کی طرف سے نیک لوگوں کیلئے یہ اشارہ ہے کہ رمضان شریف کی ستائیسویں شبِ قَدر ہوتی ہے۔(29)
رِضائے الٰہی کے خواہشمندو! ہوسکے تو سارا ہی سال ہر رات اہتمام کے ساتھ کچھ نہ کچھ نیک عمل کرلینا چاہیے کہ نہ جانے کب شب قدر ہوجائے ۔ ہر رات میں دو فرض نَمازیں آتی ہیں، دیگر نَمازوں کے ساتھ ساتھ مغرب و عشا کی نمازوں کی جماعت کابھی خوب اِہتمام ہونا چاہئے کہ اگر شب قدر میں ان دونوں کی جماعت نصیب ہوگئی تو ان شاء اللہ بیڑا ہی پارہے ، بلکہ اسی طرح پانچوں نمازوں کے ساتھ ساتھ روزانہ عشا و فجر کی جماعت کی بھی خصو صِیَّت کے ساتھ عادت ڈال لیجئے۔ دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلہ ِوَسَلَّمَ ملاحظہ ہوں:
(1)جس نے عشا کی نماز باجماعت پڑھی اُس نے گویا آدھی رات قیام کیااور جس نے فجر کی نماز باجماعت ادا کی اُس نے گویا پوری رات قیام کیا۔(30)
(2) جس نے عشا کی نماز باجماعت پڑھی تحقیق اُس نے لیلۃ القدر سے اپنا حصہ حاصل کرلیا۔ (31)
1 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
2 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
3 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
4 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
5 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
6 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
7 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
8 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
9 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
10 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
11 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
12 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
13 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
14 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
15 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
16 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
17 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
18 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
19 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
20 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
21 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
22 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
23 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
24 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
25 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
26 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
27 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
28 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
29 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
30 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
31 …. معجم کبیر ، 6/185، حدیث:5942
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع