30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
{۲۴} خاموش نیکی کی دعوت
حضرت سیِّدُناابوبکر صدِّیق رضی اللہ عنہ نے اِبتِدائے اسلام میں اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنائی تھی، جہاں قراٰنِ کریم کی تلاوت کرتے اور نماز پڑھا کرتے تھے۔ لوگ آپ کے اس روح پرور منظر کودیکھ کر آپ کے آس پاس اکٹّھے ہوجاتے، آپ کی تلاوتِ قراٰن، عبادت وریاضت اور خوفِ خدا میں آپ کا رونا لوگوں کو بہت مُتأَثِّر کرتاتھا۔آپ کے اس عمل کے سبب کئی لوگ اسلام میں داخِل ہوئے۔ (فیضانِ صدیق اکبر ص ۶۲)
{۲۵}دُعا کی بَرَکت سے مغِفرت
اے عاشقانِ نماز! معلوم ہوا کہ اللّٰہ کے نیک بندوں کی نیکیوں ، ان کی صحبتوں اور ان کی دُعاؤں سے دوسروں کو نفع پہنچتا ہے۔ چنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا یزید بن ہارون رَحْمَۃُ اللہِ علیہ کہتے ہیں : میں نے حضرتِ سیِّدُناابواسحق محمدبن یزید واسطی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ کو خواب میں دیکھا تو پوچھا: اللّٰہ کریم نے آپ کے ساتھ کیا مُعامَلہ کیا؟تو اُنہوں نے فرمایا: میری مغفرت کر دی۔ میں نے پوچھا: مغفرت کا کیا سبب بنا؟ فرمایا: ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا ابو عمرو بصری رَحْمَۃُ اللہِ علیہ جُمعہ کے دن ہمارے پاس تشریف فرما ہوئے اور دُعا کی تو ہم نے اٰمین کہی، بس اِسی لئے مغفرت ہو گئی۔(شَرْحُ الصُّدُور ص ۲۸۲ ، کتابُ المَنامات مع موسوعۃ ابن اَبِی الدُّنْیا ج ۳ ص ۱۵۶رقم ۳۳۷)
نیک بندوں کے طفیل اے میرے پیارے کرد گار!
بخش دے بس بخش دے تو بخش دے پروردگار!
حاجی مشتاق کی انفرادی کوشش
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!علم ِ دین سیکھنے سکھانے کا ثواب پانے کے لئے فیضانِ سنّت کے روزانہ کم از کم دو درس دینے یا سننے کا معمول بنالیجئے، اِنْ شَآءَ اللہ آپ کی معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر برکتیں بھی نصیب ہونگی، دَرسِ فیضانِ سنّت کی ایک ’’مَدَنی بہار‘‘ ملاحظہ ہو: چنانچِہ اورنگی ٹاؤن، کراچی کے مقیم اسلامی بھائی’’ دعوتِ اسلامی‘‘ کا مدنی ماحول ملنے سے پہلے گناہوں بھری زندگی گزار رہے تھے، گانے باجے سننا، ڈانس پارٹیوں میں ڈانس کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔ رَحْمَۃُ اللہِ علیہ کریم کا ایسا کرم ہواکہ ان کے علاقے کے ایک اسلامی بھائی نے انہیں ترغیب دلائی کہ عشا کی نماز پڑھنے کے بعدمدرسۃ المدینہ (بالغان) میں قراٰنِ کریم پڑھنے آیا کریں ۔ اسلامی بھائی کامحبت بھرا انداز دیکھ کر ان سے انکا ر نہ ہوسکا۔ جب انہوں نے عشا کی نمازپڑھنے کے بعد مدرسۃالمدینہ (بالغان) میں پڑھنا شروع کیا تو وہاں کا ماحول بہت اچھا لگا اور یہ باقاعد گی سے وہاں جانے لگے۔ وہاں قرانِ کریم پڑھایا جاتا ، وضو و غسل اور نماز کے مسائل سکھائے جاتے اور بہت ہی پیارے انداز میں اَخلاقی تربیت کی جاتی۔ مدرسۃ المدینہ (بالغان) میں پڑھنے کی برکت سے یہ ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع کے پابند ہوگئے، ’’مدنی انعامات‘‘ پر بھی عمل شروع کر دیا اوران کو نیک اعمال کی طرف رغبت بڑھنے لگی۔ ایک مرتبہ ’’دعو تِ اسلامی‘‘ کی مرکزی مجلس شورٰی کے مرحوم نگران حاجی مشتاق عطاری رَحْمَۃُ اللہِ علیہ ان کے علاقے میں تشریف لائے تو ان پر انفرادی کوشش کرتے ہوئے فرمایا: آپ فیضانِ سنت کا درس کیوں نہیں دیتے؟ انہوں نے عذر بیان کیا: ’’حضور! میری داڑھی نہیں ۔‘‘ حاجی مشتاق مرحوم نے کہا: ’’ اِنْ شَآءَ اللہ درس کی برکت سے داڑھی والے بن جائیں گے۔ ‘‘حاجی مشتاق کی کہی ہوئی بات پوری ہوئی اور اَلْحَمْدُ لِلہِ انہوں نے درس فیضانِ سنت بھی دیا اور اپنے چہرے پر سنت کے مطابق داڑھی بھی سجا لی۔
تو داڑھی بڑھا لے عمامہ سجا لے
نہیں ہے یہ ہرگز بُرا مَدنی ماحول
(وسائلِ بخشش(مرمّم) ص ۶۴۶)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد
{۲۶}پُراَسرار نوجوان
حضرت سیِّدُنا ابو عبدُاللّٰہ رَحْمَۃُ اللہِ علیہ ایک مسجد میں مُؤَذِّن تھے ۔آپ فرماتے ہیں : میرا ایک نوجوان پڑوسی تھا، جیسے ہی میں اذان دیتا وہ فورًا مسجِد میں آجاتا اور ہر نماز باجماعت پڑھتا ، نماز کے فوراً بعد اپنے گھر کی طر ف روانہ ہوجاتا۔ میری یہ خواہش تھی،اے کاش! یہ نوجوان مجھ سے گفتگو کرے یا مجھ سے اپنی ضرورت کی کوئی چیز مانگے۔ ایک دن وہ نوجوان میرے پاس آیا اور کہنے لگا: اے ابو عبدُاللّٰہ ! کیا آپ مجھے تِلاوت کیلئے وقتی طور پر قراٰنِ کریم دے سکتے ہیں ؟ میں نے اُسے قراٰنِ کریم دیا، اُس نے لے کر قراٰنِ کریم کو اپنے سینے سے لگایا اور کہنے لگا: ’’آج ہمیں ضَرور کوئی عظیم واقعہ پیش آنے والا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے گھر کی طر ف روانہ ہوگیا۔وہ سارا دن مجھے نظر نہ آیا۔ تو مجھے تشویش ہوئی۔ میں نمازِعشا کے بعداُس کے گھر پہنچا تو دیکھا کہ اس نوجوان کی میِّت رکھی ہوئی ہے، اور ایک طر ف بالٹی اور لوٹارکھا ہے اور قراٰنِ کریم اس کی گو د میں ہے۔ میں نے قراٰنِ کریم اٹھایا اور لوگو ں کو اس کی موت کی خبردی۔ پھر ہم نے اُسے اٹھا کر چار پائی پر رکھا۔ میں ساری رات یہ سوچتا رہا کہ اس کا کفن کس سے مانگوں !اسے کفن کون دے گا؟ جب نمازِ فجر کا وقت ہوا تو میں نے اذان دی اور پھر جیسے ہی مسجد میں داخل ہوا تو مجھے محراب میں ایک نور سا نظر آیا،جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک کفن رکھا ہوا ہے ، میں نے اسے اٹھایا اور اپنے گھر رکھ آیا اور اللّٰہُ ربُّ الْعِزَّت کا شکر ادا کیا کہ اس نے کفن کا مسئلہ حل فرمادیا پھر میں نے نما زِ فجر شروع کی جب سلام پھیرا تو دیکھا کہ میری دائیں (Right) طرف (اس دور کے مشہور اولیائے کرام) حضرت سیِّدُنا ثابِت بُنانی ، حضرت سیِّدُنا مالِک بن دینار، حضرت سیدنا حبیب فارسی اور حضرت سیدنا صالح المُرِّی رَحْمَۃُ اللہِ علیہم موجود ہیں ۔ میں نے ان سے پوچھا: اے میرے بھائیو! آج صبح صبح آپ لوگ یہاں کیسے تشریف لائے؟ وہ فرمانے لگے: کیا تمہارے پڑوس میں آج رات کسی کا انتقال ہوا ہے ؟ میں نے عرض کیا: ’’جی ہاں ! ایک نوجوان کا انتقال ہوا ہے جو میرے ساتھ ہی نماز پڑھا کرتا تھا۔‘‘ انہوں نے فرمایا: ہمیں اس کے پا س لے چلو۔ میں انہیں لے کر اس نوجوان کے گھر پہنچا تو حضرت سیدنا مالک بن دینار رَحْمَۃُ اللہِ علیہ نے اس کے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور اس کے سجدے والی جگہ کو بو سہ دینے لگے، پھر فرمایا: ’’اے حَجاج رَحْمَۃُ اللہِ علیہ ! میرے ماں باپ تجھ پر قربان! جہاں بھی تیرا حال لوگو ں پر ظاہر ہوا تو نے اُس جگہ کو چھوڑ دیا اور ایسی جگہ رِہائش اختیار کی جہاں کوئی تجھے جاننے والا نہ تھا ۔‘‘اس کے بعد ان بزرگوں نے اس نوجوان کو غسل دینا شروع کیا۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس ایک کفن تھا ، سب یہی فرما رہے تھے: اس نوجوان کومیں کفن دو ں گا۔ تو میں نے محراب میں ملنے والا کفن دکھا کر ان سے قصّہ عرض کیا: اس پرسبھی فرمانے لگے: ’’اس نوجوان کویہی کفن دیا جائے گا ۔‘‘ پھر ہم نے اُسے وُہی کفن دیا اور اسے لے کر قبرستان کی طر ف چل دیئے۔ اس نوجوان کے جنازے میں اتنے لوگ شریک ہوئے کہ ہمیں کندھا دینے کا بھی موقع نہ مل سکا، معلوم نہیں کہ اتنے زیادہ لوگ کہاں سے اس کے جنازے میں شرکت کے لئے آگئے تھے؟ (عیون الحکایات(اردو) ج ۱ ص۹۷ ) اللّٰہُ ربُّ الْعِزَّت کی ان پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نیکیاں چھپانے میں عافیت ہے
اے عاشقانِ رسول! سُبْحٰنَ اللہ ! دیکھا آپ نے !ایک عام سا نظر آنے والا نوجوان اللّٰہ کا مقبول بندہ نکلا! حبِّ جاہ و ریا سے خود کو بچانے کیلئے اُس نے اپنے آپ کو چھپا کر رکھا تھا!نیکیاں چھپانے کا مقصد ان کو ضائِع ہونے سے بچانا بھی ہوتا ہے کیونکہ نفس و شیطان انسان کے کھلے دُشمن ہیں جو انسان کو نیکیاں کرنے نہیں دیتے اور اگرہمت کر کے کوئی نیکی کر بھی لی تو یہ اسے پوشیدہ نہیں رہنے دیتے۔ شیطان کے بہکاوے میں آکر لوگوں کو خود سے مُتَأَثِّر کرنے کی غرض سے انسان کے دل میں اپنی نیکیوں کے اِظہار کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو وہ لوگوں کواپنے نیک اَعمال بتا کر ، نیک نامی کی داد پا کر تکبر، حُبِّ جاہ اور رِیاکاری کے گہرے غار میں جا گرتا ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی نیک عمل کرنے کی سعادت نصیب ہو تو اس نیک عمل کو کر لینے کے بعد چھپا کر رکھنے ہی میں عافیت ہے ۔
70گنا کا اضافہ مٹا دیا جاتا ہے
واقِعی اپنے نیک اَعمال کو پوشیدہ (یعنی چھپا کررکھنا) نیکیاں کرنے سے زیادہ مشکل ہے جیسا کہ حضرتِ سیِّدُنا ابودَردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مکرَّم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ معظَّم ہے: بے شک عمل کر کے اسے ریاکاری سے بچانا عمل کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ اور آدمی کوئی عمل کرتا ہے تو اس کے لیے ایسا نیک عمل لکھ دیا جاتا ہے جو تنہائی میں کیا گیا ہوتا ہے اور اس کے لیے ستّر(70) گنا ثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔ پھر شیطان اس کے ساتھ لگا رہتا ہے (اور اسے اُکساتا رہتا ہے) یہاں تک کہ آدمی اس عمل کا لوگوں کے سامنے ذِکر کر کے اسے ظاہر کر دیتا ہے تو اب اس کے لیے یہ عمل(پوشیدہ کے بجائے)علانیہ لکھ دیا جاتا ہے اور اَجر میں ستّر(70) گنا اضافہ مٹا دیا جاتا ہے۔ شیطان پھر اس کے ساتھ لگا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ دوسری مرتبہ لوگوں کے سامنے اس عمل کا ذِکر کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ بھی اس کا تذکرہ کر یں اور اس عمل پر اس کی تعریف کی جائے تو اسے علانیہ سے بھی مٹا کر ریاکاری میں لکھ دیا جاتا ہے۔ پس بندہ اللّٰہ پاک سے ڈرے،اپنے دین کی حفاظت کرے اور بے شک رِیاکاری شرکِ(اصغر)ہے۔ (الترغیب والترھیب ج ۱ص ۴۷ حدیث ۵۶) (نیکیاں چھپاؤ ص ۲۱ تا ۲۲)
عمل چھپانے میں کوئی نقصان نہیں
حضرت سَیِّدُنا علامہ عبدالغنی نابلسی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :جب رِیا و اِخلاص میں سے ہرایک میں شیطانی چالیں اور دھوکے بازیاں ہیں تو تجھے بیدار و خبردار رہنا لازِم ہے۔ پس! اگر تجھے پتا نہ چلے کہ تو مخلص ہے یا رِیا کار تو پھر تجھے اپنے نیک اَعمال چھپانا ہی بہتر ہے کہ اس میں تیرے لیے کسی قسم کا نقصان نہیں ۔ (حدیقۃ ندیۃ ج ۱ص ۵۱۷ ملخصاً ) (نیکیاں چھپاؤ ص ۲۰ تا ۲۲)
بعض صورتوں میں نیکی ظاہر کرنے پر ثواب ہے
یاد رہے! بعض صورَتوں میں نیکیاں ظاہر کرنے پر ثواب ملتا ہے مَثَلاً ایسا شخص کہ جس کی پیروی کی جاتی ہو وہ لوگوں کو رَغبت دِلانے کی نیت سے ایسا عمل ظاہر کر سکتا ہے جبکہ اِس اِظہار میں رِیا کی آمیزش (یعنی ملاوٹ) نہ ہو۔ اِس طرح اِخلاص کے ساتھ عمل کے اِظہار سے وہ ثوابِ عظیم کا حقدار ہے جیساکہ حدیث ِ پاک میں ہے: ’’جب علانیہ عمل کی پیروی کی جائے تو وہ(ظاہرکیا جانے والا عمل) چھپ کر کیے جانے والے عمل سے افضل ہے۔‘‘(شُعَبُ الایمان ج ۵ص ۳۷۶حدیث ۷۰۱۲)
بنا دے مجھ کو الٰہی خلوص کا پیکر
قریب آئے نہ میرے کبھی رِیا یارب
(وسائلِ بخشش(مُرمَّم) ص ۷۸)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد
تذکرۂ حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ
اے عاشقانِ صحابہ واہلِ بیت! پیچھے بیان کی گئی حدیثِ پاک کے راوی(یعنی بیان کرنے والے) صحابیِ رسول حضرتِ سیِّدُنا ابودردا رضی اللہ عنہ ہیں ۔ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی بڑی شان ہے، اللّٰہ پاک کے آخِری رسول صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں :’’اس مسلمان کو جہنَّم کی آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا مجھے دیکھنے والے (یعنی صحابہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ) کو دیکھا۔‘‘ ( ترمذی ج ۶ ص ۴۶۱ حد یث ۳۸۸۴ ) اللّٰہ پاک نے جن خوش نصیبوں پر فہم و فراست( یعنی عقل و سمجھ) کے دَروازے کھولے اور جن کی زَبان پر علم و حکمت کے چشمے جاری کئے ان خوش نصیبوں میں ایک نام عالمِ بے مثال، قاریِ باکمال، عابد بااخلاص، مشہور صَحابیِ رسول حضرتسیِّدُنا ابودردا رضی اللہ عنہ کا ہے۔ شہنشاہ مدینہ، سرکار مکہ مکرمہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’میری اُمّت کے حکیم عُوَیْمَر (ابودردا) ہیں ۔‘‘ (مسند الشامیین ج ۲ص ۸۸)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع