my page 76
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Faizan-e-Namaz (New) | فیضان نماز

book_icon
فیضان نماز
            

ربُّ الْعٰلمین کی توہین کرنے والا

فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:جس نے لوگوں کے سامنے اچھے طریقے سے اور تنہائی میں برے طریقے سے نمازادا کی، بے شک اس نے اپنے رب کی توہین کی۔(مسند ابویعلیٰ ج ۴ص ۳۸۰ حدیث ۵۰۹۵) یہاں توہین سے مراد بارگاہِ الٰہی میں اَدَب کی کمی ہے ، کفریہ توہین مراد نہیں ۔

گمنام بندے کی فضیلت

امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں تشریف لے گئے، سیِّدُنا معاذ رضی اللہ عنہ کو مدینے کے تاجدار،محبوبِ پروردگار صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مزارِ پرانوار کے پاس اشکبار یعنی روتا ہوا پایا۔ حضرت سیِّدُنا عمر فاروق اعظم(رضی اللہ عنہ ) نے فرمایا: کیوں روتے ہو؟ حضرت سیِّدُنا معاذ (رضی اللہ عنہ )نے عرض کیا: ایک بات میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سنی تھی، وہ مجھے رُلاتی ہے۔ میں نے حضور (صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کو یہ فرماتے سنا: ’’تھوڑا سا ریا بھی شرک ہے اور جو شخص اللہ پاک کے ولی سے دشمنی کرے، وہ اللہ پاک سے لڑائی کرتا ہے۔ اللہ پاک نیکوں ، پرہیزگاروں ، چھپے ہوؤں کو دوست رکھتا ہے وہ کہ غائب ہوں تو ڈھونڈے نہ جائیں ، حاضر ہوں تو بلائے نہ جائیں اور ان کو نزدیک نہ کیا جائے، ان کے دل ہدایت کے چَراغ ہیں ، ہر غبار آلود تاریک سے نکل جاتے ہیں ۔ (مستدرک ج ۴ص ۳۰۶حدیث ۵۲۳۱ ، ابن ماجہ ج ۴ص ۳۵۱حدیث ۳۹۸۹) یعنی مشکلات اور بلاؤں سے الگ ہوتے ہیں۔‘‘ (بہارِ شریعت ج۳ ص ۶۳۲) ’’مراٰۃُ المناجیح‘‘ میں حدیثِ پاک کے اس حصے( ہر غبار آلود تاریک سے نکل جاتے ہیں )کے تحت ہے:یعنی یہ اولیاءُ اللّٰہ تاریک (یعنی اندھیرے) گھروں ، غیر مشہور محلوں ، نامعلوم بستیوں سے پیدا ہوتے رہیں گے۔ یا یہ مطلب ہے کہ وہ حضرات تاریک گردو غبار والے عقائد و اعمال و شبہات(یعنی غلط عقیدوں ،برے عملوں اورشک شُبہے والے اُمور) سے نکل جائیں گے کبھی اس میں پھنسیں گے نہیں ۔ ( مراٰۃ ج ۷ص ۱۴۰)

شہید ، عالم اور سخی جہنّم میں

حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ دوجہان صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عِبْرت نشان ہے: ’’قِیامت کے دن سب سے پہلے ایک شہید کا فیصلہ ہوگا، جب اُسے لایاجائے گا تو اللہ پاک اُسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا تو وہ اُن نعمتوں کا اِقرار کرے گا ،پھر اللہ پاک ارشاد فرمائے گا: ’’تو نے اِن نعمتوں کے بدلے میں کیا عمل کیا؟‘‘ وہ عرض کرے گا : ’’میں نے تیری راہ میں جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔‘‘ اللہ پاک ارشاد فرمائے گا: ’’تو جھوٹا ہے، تو نے جہاد اس لئے کیا تھا کہ تجھے بہادُر کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا‘‘ (یعنی تیرے جہاد اور شہادت کا عوض (یعنی بدلہ )یہ ہوگیا کہ لوگوں نے تیری واہ وا کردی کیونکہ تو نے اِسی نیت سے جہاد کیا تھا نہ کہ خدمت ِ اسلام کے لیے)۱؎، پھر اس کے بارے میں جہنم میں جانے کا حکم دے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔ (یعنی نہایت ذلت کے ساتھ مرے ہوئے کتے کی طرح ٹانگ سے گھسیٹ کر کنارہ ٔ جہنم سے نیچے پھینکا جائے گا۔ جہنم کی گہرائی آسمان و زمین کے فاصلہ سے کروڑوں گنازیادہ ہے۔ اللہ (پاک)کی پناہ!) ( ۱؎ : مرْاٰۃ المناجیح ج ۱ص۱۹۱)

ریاکار قاری و عالم کا انجام

پھر اُس شخص کو لایا جائے گا جس نے علم سیکھا، سکھایا اور قراٰنِ کریم پڑھا ، وہ آئے گا تو اللہ پاک اسے بھی اپنی نعمتیں یاد دلائے گا تو وہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کرے گا، پھر اللہ پاک اس سے دریافت فرمائے گا :’’تو نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کِیا؟‘‘ وہ عرض کرے گا کہ ’’میں نے علم سیکھا اور سکھایا اور تیرے لئے قراٰنِ کریم پڑھا۔‘‘ اللہ پاک ارشاد فرمائے گا: ’’تو جھوٹا ہے تو نے علم اِس لئے سیکھا تاکہ تجھے عالِم کہا جائے اور قراٰنِ کریم اس لئے پڑھا تاکہ تجھے قاری کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا۔‘‘ ( یعنی تیری یہ ساری محنت خدمت ِدین کے لیے نہ تھی بلکہ علم کے ذریعے عزت اور مال کمانے کی تھی وہ تجھے حاصل ہوگئے(اب) ہم سے کیا چاہتا ہے؟ اسی حدیث کو دیکھتے ہوئے بعض علما نے اپنی کتابوں میں اپنا نام بھی نہ لکھا اور جنہوں نے لکھا ہے وہ ناموری کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کی دعا حاصل کرنے کے لیے لکھا ہے۔)۱؎ پھر اُسے بھی جہنم میں ڈالنے کا حکم ہو گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ ( ۱؎ : مرْاٰۃ المناجیح ج ۱ص۱۹۱)

ریاکار مال دار کا انجام

پھر ایک مال دار شخص کو لایا جائے گا جسے اللہ پاک نے کثرت سے مال عطا فرمایا تھا، اُسے لاکر نعمتیں یاد دلائی جائیں گی وہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کرے گا ،تو اللہ پاک ارشاد فرمائے گا: ’’تو نے ان نعمتوں کے بدلے کیا کیا؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’میں نے تیری راہ میں جہاں ضرورت پڑی وہاں خرچ کیا۔‘‘ تو اللہ پاک ارشاد فرمائے گا: ’’تو جھوٹا ہے، تو نے ایسا اس لئے کیا تھا تا کہ تجھے سخی کہا جائے اور وہ کہہ لیا گیا۔‘‘ پھر اس کے بارے میں جہنم کا حُکْم ہوگا، چنانچِہ اُسے بھی منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘ (مسلم ص ۸۱۳ حدیث ۴۹۲۳)

ریا والی نیکی جہنَّم میں داخلے کا سبب ہے

حضرت مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ علیہ بیان کی ہوئی حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : معلوم ہوا کہ جیسے اِخلاص والی نیکی جنت ملنے کا ذَرِیعہ ہے ایسے ہی رِیا والی نیکی جہنم اورذِلَّت حاصل ہونے کا سبب ۔ یہاں ریا کار شہید، عالم اور سخی ہی کا ذِکْر ہوا، اس لئے کہ انہوں نے بہترین عمل کئے تھے جب یہ عمل ریا سے برباد ہوگئے تو دیگر اعمال کا کیا پوچھنا! رِیا کے حج و زکوۃ اور نماز کا بھی یہی حال ہے۔ (مِرْاٰۃ المناجیح ج۷ص۱۹۱،۱۹۲)

اِخلاص کی بھیک مانگ لیجئے

اے جنت کے طلب گارو! دیکھا آپ نے! رِیاکاری جو کہ خطرناک باطِنی بیماری ہے اس نے اِن بد نصیبوں کو کہیں کا نہ چھوڑا!غور تو کیجئے کہ جہاد جیسا نیک کام، شہادت جیسی عظیم نعمت ، قراٰنِ کریم وعلمِ دین پڑھنے پڑھانے جیسا پاکیزہ عمل، صدقہ و خیرات جیسا بہترین کام مٹی ہوگیا کیونکہ کرنے والے کی نیّت اللہ کریم کو راضی کرنے کے بجائے دُنیا کی عزت و شہرت حاصل کرنے کی تھی۔ میدانِ جنگ میں اپنی جان قربان کردینے والا بھی جنت کی نعمتوں کو نہ پاسکا کیونکہ اُس کے دل میں ’’بہادُر‘‘ کہلوانے کی نیت تھی، مال دار اپنی پیاری شے یعنی مال خرچ کر کے بھی نقصان میں رہاکیونکہ اس کی ’’سخی‘‘ پُکارے جانے کی نیت تھی، اور رات دن ایک کرکے علم و قرائَ ت سیکھنے والے عالِم وقاری کے ہاتھ بھی کچھ نہ آیاکیونکہ اس نے شہرت کیلئے سب کچھ کیا تھا۔ ان ریاکاروں کی کوششیں بے کار گئیں اور اپنی واہ وا کروانے کی غلط نیت نے انہیں جنتی عمل کرنے کے باوجود جہنم میں جھونک دیا۔پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک کی بے نیازی سے لرز جائیے اور اس کے حضورگڑ گڑا کر اِخلاص کی بھیک مانگ لیجئے ۔ مِرا ہر عمل بس ترے واسطے ہو کر اِخلاص ایسا عطا یاالٰہی (وسائلِ بخشش (مُرمَّم) ص۱۰۵)

رِیا کی تعریف

رِیا کی تعریف یہ ہے: ’’ اللہ پاک کی رِضا کے علاوہ کسی اور اِرادے سے عبادت کرنا۔‘‘ جیسا کہ عبادت سے یہ غرض ہو کہ لوگ اس کی عبادت پر آگاہ ہوں تاکہ وہ ان لوگوں سے مال بٹورے یا لوگ اس کی تعریف کریں یااسے نیک آدَمی سمجھیں یا اسے عزت وغیرہ دیں ۔ (اَلزّواجر ج ۱ص ۸۶)

اِخلاص کی تعریف

مکتبۃُ الْمدینہ کی 312صفحات کی کتاب ’’نجات دلانے والے اعمال ‘‘ صفحہ25 پر ہے:’’کسی بھی نیک عمل میں محض (یعنی صرف )رضائے الٰہی حاصل کرنے کا ارادہ کرنا اِخلاص کہلاتا ہے۔‘‘ (احیاء العلوم ج ۵ ص ۱۰۷)

لوگ خود بخود تعریف کریں تو؟

حضرت سیِّدُنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا: یہ فرمائیے کہ آدمی اچھا کام کرتا ہے اور لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں (یہ ریا ہے یا نہیں )؟ فرمایا: ’’یہ مومن کے لیے جلد یعنی دنیا میں بشارت ہے۔‘‘(مسلم ص ۱۰۸۹حدیث ۶۷۲۱) (یعنی یہ ریا نہیں ہے بلکہ قبولیت کی علامت ہے کہ لوگوں کے منہ سے خود بخود اس کی تعریف نکلتی ہے ۔ غر ض یہ کہ ریا کا تعلق عامل (یعنی عمل کرنے والے) کی نیت سے ہے کہ وہ دکھلاوے (اور)شہرت کی نیت سے نیکی کرے، یہ ہے ریا۔ (مِرْاٰۃ المناجیح ج ۷ص ۱۲۹ملخصًا )

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن