30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
امام صاحِب نیکی کی دعوت دیا کریں
شارحِ بخاری حضرت علامہ بدر الدین عینی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ حدیثِ مبارَکہ سے حاصل ہونے والے فوائد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : امام کو چاہیے کہ جب وہ کسی شخص کو کسی دینی معاملے میں کوتاہی کرتا یا اسے ناقص(Imperfect) ادا کرتا دیکھے تواُسے اُس فعل (یعنی حرکت )سے منع کرے اور اُسے وہ کام کرنے پر اُبھارے جس میں زیادہ ثواب ہے ۔ (عمدۃ القاری ج ۳ ص ۴۰۴ تحت حدیث ۴۱۸) شارحِ بخاری مفتی شریف الحق اَمْجَدِی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : امام پر لازِم ہے کہ اگر مقتدیوں کی نماز میں کوئی خامی دیکھے تو انہیں خبردار کردے۔ (نزہۃ القاری ج۲ص۱۳۱)
پیچھے سے دیکھنا کیا نماز کے ساتھ خاص تھا؟
علامہ بدرُالدین عینی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : امام مجاہِد رَحْمَۃُ اللہِ علیہ سے منقول ہے کہ آپ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ دیکھنا (نماز ہی کیلئے خاص نہ تھا، یہ دیکھنا) تمام اوقات میں تھا۔ (عمدۃ القاری ج ۳ص ۴۰۵)
دل مبارک پر دو آنکھیں اور دوکان
غزالیِ زماں علامہ سیِّداحمد سعیدکاظِمِی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے شقِّ صدر ِمبارَک (یعنی مبارک سینہ چاک کرنے)کے بعد پاکیزہ دل کو جب زمزم کے پانی سے دھویا تو فرمانے لگے: قَلْبٌ سَدِیدٌ فِیہِ عَیْنَانِ تُبْصِرَانِ وَاُذُنَانِ تَسْمَعَانِ (یعنی)قلْبِ مبارَک ہر قسم کی کجی (یعنی ٹیڑھے پن )سے پاک ہے اور بے عیب ہے، اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جو سنتے ہیں ۔ (فتح الباری ج ۱۳ص ۴۱۰) مبارَک دل کے یہ کان اور آنکھیں دنیا کی وہ چیزیں جو محسوس کی جاسکیں ان سے بہت ہی آگے کی حقیقتوں کو دیکھنے اور سننے کے لیے ہیں جیسا کہ خود حضور صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اِنِّیْ اَرٰی مَا لَا تَرَوْنَ وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُونَ یعنی ’’میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سن سکتے۔‘‘جب اللّٰہ پاک نے خلافِ عادت حضور صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دل مبارک میں آنکھیں اور کان پیدا فرمادیئے ہیں تو اب یہ کہنا کہ دنیا کی وہ چیزیں جو محسوس کی جا سکیں ان سے بہت ہی آگے کی حقیقتوں کو حضور صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دیکھنا اور سننا کبھی کبھی ہے دائمی(یعنی ہمیشہ کیلئے) نہیں ، بالکل غلط ہوگیا۔ جب ظاہری آنکھوں اور کانوں کا دیکھنا اور سننا دائمی (یعنیPermanent) ہے تو دل مبارَک کے کانوں اور آنکھوں کا سننااوردیکھنا کیونکر عارِضی (یعنی Temporary) اور کبھی کبھی ہو سکتا ہے؟ البتہ
حکمت خدواندی کی بِنا پر کسی خاص معاملے کی طرف حضور صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دِھیان شریف نہ رہنا اور توجُّہ شریف ہٹ جانا دوسرا معاملہ ہے جس کا کوئی (بڑے سے بڑا عالم بھی) مُنْکِر (یعنی انکار کرنے والا) نہیں اور وہ (یعنی خیال نہ رہنا) علم کے خلاف بھی نہیں ہے ،لہٰذا اس حدیثِ پاک کی روشنی میں یہ حقیقت بالکل واضح ہوگئی کہ حضور صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا باطنی طور پر سننا اور دیکھنا عارِضی(یعنی وقتی طور پر) نہیں بلکہ دائمی (یعنی ہمیشہ کے لئے) ہے۔ (مقالاتِ کاظمی ج۱ ص ۱۶۰ تسہیلاً)
سرِ عرش پر ہے تِری گزر، دلِ فرش پر ہے تری نظر
ملکوت و مُلک میں کوئی شے، نہیں وہ جو تجھ پہ عِیاں نہیں
(حدائقِ بخشش ص۱۰۹)
شَرح کلامِ رضاؔ: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم !عرشِ اعظم پر آپ کا آنا جانا ہے اور اللّٰہ کریم کی عنایت سے زمین کے اندر تک کے راز جانتے ہیں ، زمینوں اور آسمانوں کی کوئی بھی چیز ایسی نہیں جسے اللّٰہ پاک کے کرم سے آپ نہ جانتے ہوں ۔
دور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
کانِ لعلِ کرامت پہ لاکھوں سلام
(حدائقِ بخشش ص۳۰۰)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد
غفلت کے ساتھ رات کا قیام
حضرت سیِّدُناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللّٰہ پاک کے سچے نبی صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بہت سے (رات میں ) قیام کرنے والے ایسے ہیں جنہیں قِیام سے صرف جاگناملتا ہے۔ (شعب الایمان ج ۳ص ۳۱۶ حدیث ۳۶۴۲)
سرکار مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ نصیحت نشان ہے: ’’ اللّٰہ پاک اس عمل کو قبول نہیں فرماتا جس میں بندہ اپنے بدن کے ساتھ اپنا دل حاضر نہ کرے۔‘‘ (الترغیب والترہیب ج ۱ص ۲۰۳حدیث ۲۴)
غافل کی ساری رات کی عبادت سے بہتر عمل
صحابی ابنِ صحابیحضرتِ سیِّدُنا عبداللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’غور وفکر کے ساتھ دو رَکعت نماز پڑھنا غافل دل کے ساتھ پوری رات قیام (یعنی عبادت) کرنے سے بہتر ہے۔‘‘(مجموع رسائل ابن رجب ج ۱ص ۳۵۲)
جتنا خُشوع اُتنا ثواب
حضرت سیِّدُنا عماربن یاسر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :میں نے اللّٰہ پاک کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سناکہ ’’آدَمی نماز سے فارغ ہو کر لوٹتا ہے لیکن اُس کے لیے (نماز کا) صرف دسواں ، نواں ، آٹھواں ، ساتواں ، چھٹا، پانچواں ، چوتھا، تیسرا یا نصف (یعنی آدھا ) حصَّہ ثواب لکھا جاتا ہے۔‘‘ (ابو داوٗد ج ۱ص ۳۰۶حدیث ۷۹۶)
علامہ عبد الرء وف مناوی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :حدیث ِ پاک کی مراد یہ ہے کہ خشوع اورغوروفکر وغیرہ نماز کو کامل (یعنی مکمل )بنانے والی چیزوں کے اعتبار سے نماز کا ثواب ملتا ہے جیسا کہ باجماعت نماز میں ہوتا ہے کہ کسی کو پچیس درَجہ ثواب ملتا ہے اور کسی کو ستائیس دَرَجہ۔ (فیض القدیر ج ۲ص ۴۲۲،۴۲۳ ملخصًا )
تذکِرۂ حضرتِ عَمار بن یاسِر رضی اللہ عنہما
اے عاشقانِ صحابہ واہلِ بیت! ابھی آپ نے جو حدیث پاک سنی اسے بیان کرنے والے صحابیِ رسول حضرت سیّدنا اَبُو الْیَقظان عمار بن یاسررضی اللّٰہ عنہما ہیں ۔ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی بڑی عظمت ہے ، مکی مدنی آقا صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے : میری امت میں میرے صحابہ کی مثال کھانے میں نمک کی سی ہے کہ کھانابغیر نمک کے دُرُسْت نہیں ہوتا۔ (شرح السنہ ج ۷ ص ۱۷۴حدیث ۳۷۵۶) اس حدیث پاک کی شرح یہ ہے :یعنی جیسے نمک ہوتاہے تھوڑا، مگر سارے کھا نے کو دُرُسْت کردیتا ہے، ایسے ہی میرے صحابہ میری اُمت میں ، ہیں تھوڑے مگر سب کی اِصلاح اِنہی کے ذریعے سے ہے ۔
ریل کا پہلا ڈَبّہ جواِنجن سے متصل(یعنی ملا ہوا) ہے، وہ ساری ریل کو اِنجن کا فیض پہنچاتا ہے، اِنجن سے وہ(پہلاڈبّا) کھنچتا ہے اور سارے ڈَبّے اُس کے ذریعے کھنچتے ہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح ج۸ص۳۴۳) عرب کی سرزمین جب اسلام کی نورانی کرنوں سے منور ہوئی تو حضرت سیِّدُنا عمار بن یاسررضی اللّٰہ عنہما کے ساتھ ساتھ والدماجد حضرت سیِّدُنا یاسر اور والدۂ ماجدہ حضرت سیِّدُتُنا بی بی سُمَیَّہ اور بھائی حضرت سیِّدُنا عبدُاللّٰہ رضی اللّٰہ عنہم بھی ایمان کی دولت سے مالا مال ہوئے۔ (طبقات ابن سعد ج ۳ص ۱۸۶)
دینِ اسلام کی خاطر قربانیاں
چونکہ یہ مقدس گھرانا غلامی کی زندگی بسر کررہا تھا اس لئے کفارِ قریش پورے گھرانے کو طرح طرح کی تکلیفیں دینے لگے،حضرت سیِّدُنا عمار رضی اللّٰہ عنہ کے سینے پر کبھی بھاری پتھررکھ دیتے تو کبھی پانی میں غوطے دے کر بے حال کردیتے اور کبھی آگ سے جسم داغ دار کرکے نڈھال کر دیتے تھے۔(الکامل فی التاریخ ج ۱ص ۵۸۹)یہاں تک کہ آپ کی پیٹھ مبارک ان زخموں سے بھر گئی۔ کسی نے آپ کی پیٹھ شریف کو دیکھا تو پوچھا: یہ کیسے نشانات ہیں ؟ ارشاد فرمایا: کفارِ قریش مجھے مکۂ مکرمہ کی تپتی ہوئی پتھریلی زمین پر ننگی پیٹھ لٹاتے اور سخت اَذیتیں اور تکلیفیں پہنچاتے تھے، یہ ان زخموں کے نشانات ہیں ۔ (طبقات ابن سعدج ۳ص ۱۸۸)
جنَّت عمار کی مُشتاق ہے
حضرت سیِّدُنا عمار بن یاسر رضی اللّٰہ عنہما کی قربانیوں کے صِلے میں بارگاہِ رسالت سے آپ کو یہ اعزاز ملا کہ سرکار مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جنت عمار کی مشتاق(یعنی آرزو مند) ہے۔‘‘ (ترمذی ج ۵ص ۴۳۸ حدیث ۳۸۲۲)’’جس نے عمّار سے بغض رکھا اللّٰہ پاک اس سے ناراض ہو۔‘‘(مسند امام احمد ج ۶ص ۶حدیث ۱۶۸۱۴) سرورِ کائنات صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ آپ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ (تاریخ ابن عساکرج ۴ص ۳۵۶)
وفات شریف
حضرت سیّدنا عمار بن یاسر رضی اللّٰہ عنہما نے امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کے دورِ خلافت میں 21مہینے تک کوفہ کی گورنری کے فرائض سر انجام دئیے اور بروز بدھ 7 صفرُالْمظفّر سن 37ہجری میں جنگ ِ صفِّین میں حضرتِ مولا علی شیرخدا رضی اللّٰہ عنہ کی حمایت میں لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا، اس وقت آپ کی عمر مبارک 93سال تھی۔ (تاریخ ابن عساکر ج ۴۳ ص ۳۵۹ ، ۴۴۹) اللّٰہ کی ان پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
الٰہی! رحم فرما از پئے عَمّار بن یاسِر
مجھے ہر حال میں رکھنا خدا یا صابِر و شاکر
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد
ابھی آپ نے حضرتِ سیّدنا عمار بن یاسر رضی اللّٰہ عنہما کا ذِ کر خیر سنا۔سارے ہی صحابۂ کرام شان والے ہیں ، آئیے! شانِ صحابۂ کرام سنتے ہیں :
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع