30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
موت کو20 بار یاد کرنے کی فضیلت
حضرت سیِّدَتُناعائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! کیا شہیدوں کے ساتھ کسی اور کو بھی اٹھایا جائے گا؟ ارشاد فرمایا: ’’ہاں ! اسے جو دن رات میں 20مرتبہ موت کو یاد کرے۔‘‘ (قوت القلوب ج ۲ص ۴۳) اس فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ موت کی یاد اس دھو کے باز دنیا سے دور کرکے آخرت کی تیاری کا مطالبہ کرتی ہے جبکہ موت کو یاد نہ کرنادنیاوی خواہشات میں مشغول کردیتا ہے۔ (احیاء العلوم ج ۵ص ۱۹۳) (احیاء العلوم (اردو )ج ۵ص ۴۷۷)
موت مسلمان کیلئے کفّارہ ہے
اَ لْمَوْتُ کَفَّارَۃٌ لِّــکُلِّ مُسْلِمٍ یعنی موت ہر مسلمان کے لئے کفّارہ ہے۔ (شعب الایمان ج ۷ص ۱۷۱حدیث ۹۸۸۶) یہاں پکاسچا مسلمان مراد ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دیگر مسلمان محفوظ رہتے ہوں نیز اس میں مومنانہ اخلاق موجود ہوں اور گناہوں کا میل کچیل نہ ہویعنی کبیرہ(بڑے بڑے) گناہوں سے بچتا ہو اور فرائض کی ادائیگی کا خیال رکھتاہوکہ اگر گناہِ صغیرہ (یعنی چھوٹے گناہ )ہوئے تو موت ان گناہوں کومٹاکراسے پاک صاف کردیتی ہے۔ (احیاء العلوم ج ۵ص ۱۹۳)( احیاء العلوم (اردو )ج ۵ص ۴۷۸)
خوش گوارمجلس
حضور نبیِّ کریم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا گزر ایسی مجلس کے پاس سے ہوا جس سے ہنسی کی آوازیں بلند ہورہی تھیں ، ارشاد فرمایا: اپنی مجلسوں (یعنی بیٹھکوں ) میں لذَّتوں کو بے مزہ کردینے والی کابھی ذکرکیاکرو۔ انہوں نے عرض کی: لذتوں کو بے مزہ کرنے والی کیا چیز ہے؟ ارشاد فرمایا: موت۔ ( ذکر الموت مع موسوعہ للامام ابن ابی دنیا ج ۵ص ۴۲۳حدیث ۹۵)
پھر اُس کا درجہ یہ نہیں
رسول اَکرم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک شخص کا ذِکر ہواتو لوگوں نے اس کی خوب تعریف کی۔آپ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ موت کو کس طرح یاد کرتا ہے؟ لوگوں نے عرض کی: ہم نے تو نہیں سناکہ وہ موت کو یاد کرتا ہو۔ ارشاد فرمایا: پھر اس کا درجہ یہ نہیں ہے۔ (احیاء العلوم ج ۵ص ۱۹۴) (احیاء العلوم (اردو )ج ۵ص ۴۷۹)
موت کے بارے میں انبیا و اولیا کے بعض واقِعات و ارشادات
{۱} اللہ پاک کے عظمت والے نبی حضرت سیِّدُنا عیسٰیٰ رُوحُ اللّٰہ عَلَیْہِ السَّلَام کے سامنے جب موت کا ذکر کیا جاتاتو ان کی جلدمبارک (Blessed skin)سے خون کے قطرے بہ نکلتے۔
{۲} اللہ پاک کے عظیم نبی حضرت سیِّدُنا داوٗد عَلَیْہِ السَّلَام جب موت و قیامت کا ذکر کرتے تو اتنا روتے کہ جسمانی جوڑ اپنی جگہ سے ہَٹ جاتے پھر جب رَحمت ِ الٰہی کا ذکر کرتے تواپنی جگہ واپس آجاتے۔
{۳}تابعی بُزُرگ حضرت سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رَحْمَۃُ اللہِ علیہ روزانہ رات کے وقت علمائے کرام کو جمع کرتے پھرآپس میں مل کر قبر و آخِرت اور موت کے بارے میں گفتگو کرتے، پھر سب یوں روتے گویا ان کے سامنے جنازہ رکھا ہے۔
{۴}تابعی بُزُرگ حضرت سیِّدُنا کعبُ الْاَحْبار رَحْمَۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : جو شخص موت کو پہچان لیتا ہے اس پردنیا کی مصیبتیں اور غم ہلکے ہوجاتے ہیں ۔
{۵}حضرت سیِّدُناابراہیم تَیْمی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : دوچیزوں نے مجھ سے دنیا کی لذتیں چھڑادیں ، ایک موت کی یاد نے اوردوسرابارگاہِ الٰہی میں کھڑے ہونے (کے خیال) نے۔ (احیاء العلوم (اردو ) ج ۵ ص ۴۸۰)
{۶}حضرت سیِّدُنا محمدبن سیرین رَحْمَۃُ اللہِ علیہ کے سامنے جب موت کا ذکر کیاجاتا تو آپ کے جسم کا ہرحصہ سن ہو جاتا۔ (احیاء العلوم (اردو ) ج ۵ ص ۴۸۰)
زندہ شخص قَبر میں (حکایت)
حضرت سیِّدُنا ربیع بن خُثَیْم رَحْمَۃُ اللہِ علیہ نے اپنے گھر میں ایک قبر کھود ر کھی تھی۔ جب کبھی اپنے دل میں سختی پاتے اس میں لیٹ جاتے اور جب تک اللہ پاک چاہتا اس میں رہتے، پھر یہ آیتِ مُبارَکہ تلاوت فرماتے:
رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ(۹۹) لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ كَلَّاؕ (پ ۱۸، المؤمنون : ۹۹،۱۰۰)
ترجَمۂ کنزالایمان : اے میرے رب! مجھے واپس پھیر دیجئے شاید اب میں کچھ بھلائی کماؤں اس میں جو چھوڑ آیا ہوں ۔
اسے دُہراتے رہتے پھر اپنے آپ سے کہتے: اے ربیع! تیرے ربّ نے تجھے واپس بھیج دیا ہے، اب عمل کر۔
(احیاء العلوم ج ۵ص ۵۹۲)
زمین کا تعجُّب کرنا
حضرت سیِّدُنا احمد بن حرب نیشاپوریرَحْمَۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : زمین اُس شخص پر تعجب کرتی ہے جو اپنے لئے بستر بچھاتا اور اس کی سلوٹیں درست کرتاہے اور کہتی ہے: اے آدمی! میرے اندر لمبے عرصے تک گلنا سڑنا پڑے گا اِس کو یاد کیوں نہیں کرتا! اس وقت میرے اور تیرے درمیان کوئی چیز نہ ہوگی۔ (احیاء العلوم (اردو ) ج ۵ص ۵۹۳ )
لمبی اُمّید نیکیوں کی راہ میں رُکاوٹ ہے(حکایت)
سرکار غوثِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ علیہ کے مشائخِ کرام میں سے ایک مشہور بُزُرگ حضرتِ سیِّدُنا شیخ معروف کَرْخِی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ نے ایک مرتبہ (جماعت کیلئے) ’’اِقامت‘‘ کہی پھر ایک صاحب سے فرمایا: آگے بڑھئے اور ہمیں نماز پڑھایئے۔ انہوں نے عرض کیا:’’ میں آپ حضرات کو یہ نماز پڑھا تودوں گا مگر آیندہ نہیں پڑھاؤں گا۔‘‘ حضرتِ سیِّدُنا شیخ معروف کَرْخِی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا:(معلوم ہوتا ہے کہ ) آپ اپنے دل میں یہ منصوبہ بنارہے ہیں کہ دوسری نماز پڑھنے تک زندہ رہیں گے! ہم لمبی اُمّید سے اللہ پاک کی پناہ مانگتے ہیں ،کیونکہ ’’لمبی اُمید‘‘ عمل ِ خیر(یعنی نیکیوں ) سے روک دیتی ہے۔(قصر الامل مع موسوعہ امام ابن ابی دنیا ج ۳ص ۳۲۷ رقم ۱۰۲)
اے اللہ سے ڈرنے والے بندو! امام بننے والے صاحب نے جو یہ کہا کہ میں آپ کی بات مان کر صرف ایک بار نماز پڑھا دیتا ہوں اس پر ان کو فرمایا گیا کہ اچّھا آپ اپنی اِس نماز کو آخِری نماز تصور نہیں کر رہے مزید زندہ رہتے ہوئے اور نمازوں کا موقع بھی ملے گا، آپ یہ لمبی امّید لگائے اور موت کو بھلائے ہوئے ہیں !
مجھے جلدی ہے !(حکایت)
حضرت سیِّدُنا سُحَیْم رَحْمَۃُ اللہِ علیہ جوکہ بنوتمیم کے آزادکردہ غلام تھے، فرماتے ہیں : میں تابعی بزرگ حضرت سیِّدُنا عامر بن عبدُ اللّٰہ رَحْمَۃُ اللہِ علیہ کے پاس (گیا)تھا، وہ نماز پڑھ رہے تھے ، آپ مختصر نماز پڑھ کر میری جانب متوجِّہ ہوئے اور فرمایا: ’’مجھے جلدی ہے! فوراً اپنی ضرورت بیان کیجئے!‘‘ میں نے پوچھا: کس چیز کی جلدی ہے؟ فرمایا: ’’ اللہ پاک آپ پر رَحم فرمائے مجھے جلدی ہے! کہیں مَلَکُ الْمَوت عَلَیْہِ السَّلَام (روح قبض کرنے کیلئے)نہ آجائیں ۔‘‘ پھر میں وہاں سے اُٹھ گیا اور وہ دوبارہ نماز میں مشغول ہو گئے۔ (احیاء العلوم ج ۵ص ۵۰۶)
نہ جانے منہ کا لقمہ حلق سے اُترے گا بھی یا نہیں !
اے عاشقانِ اولیا! دیکھا آپ نے! اللّٰہ ربُّ الْعِزَّت کے مقبول بندے حضرت سیِّدُنا عامر بن عبداللّٰہ رَحْمَۃُ اللہِ علیہ ایک سانس بھی بغیر عبادت کے گزارنے کے حق میں نہیں تھے! اُن کا یہ ذہن بنا ہوا تھا کہ موت اب آئی کہ اب آئی!لہٰذا جتنا جلدہو سکے نیکیاں اکٹھی کر لی جا ئیں کہ انتقال کے بعد اِس کا موقع نہ مل سکے گا۔ ہمارے بخشے بخشائے مکی مدنی آقا صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا کوئی لمحہ ذِکْرُاللّٰہ سے خالی نہ گزرتا تھا ۔یاد رکھئے! طولِ اَمل یعنی ’’لمبی اُمید‘‘ آخرت کیلئے نقصان دِہ ہے، یہ خوش فہمی آدمی کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی کہ ابھی تو بہت زندگی پڑی ہے، فلاں فلاں نیکی بعد میں کر لیں گے! یقین مانئے ہماری زندگی وہی ہے جو ہم جی چکے، اب آیندہ ایک لمحہ بھی زندہ رہنے کی گارنٹی کسی کے پاس نہیں ۔ اِس بارے میں دعوتِ اسلامی کے مکتبۃُ المدینہ کی814 صفحات کی کتاب، ’’اِحیاء العلوم (اردو)‘‘ جلد5 صَفْحَہ 485 سے ایک انتہائی عبرت انگیز حدیثِ مبارَکہ سنئے: حضرتِ سیِّدُنا ابوسعید خُدر ی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیِّدُنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے حضرت سیِّدُنا زید بن ثا بت رضی اللہ عنہ سے ایک ماہ کے اُدھار پر 100دینار کے بدلے ایک کنیز خریدی تو میں نے پیارے آقا صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا: ’’کیا تمہیں اُسامہ پر حیرت نہیں ہوتی کہ انہوں نے ایک ماہ کا اُدھار کیا! بے شک انہوں نے لمبی اُمید باندھی ہے،قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضَۂ قدرت میں میری جان ہے! میں نے جب بھی پلکیں جھپکیں تو یہی گمان کیا کہ پلکوں کے ملنے سے پہلے ہی اللّٰہ پاک میری روح قبض فرمالے گا اور جب بھی نگاہ اُٹھائی تو یہی گمان کیا کہ نگاہ نیچی کرنے سے پہلے ہی روح قبض کر لی جائے گی اورجب بھی کوئی لقمہ اٹھایاتو میراگمان یہی رہا کہ نگلنے سے پہلے ہی موت آنے کی وجہ سے حلق میں پھنس کر رہ جائے گا۔ پھر ارشاد فرمایا: اے ابنِ آدم! (یعنی اے آدمی!)اگر تم عقل رکھتے ہوتواپنے آپ کو مردوں میں شمار کیا کرو، قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضَۂ قدرت میں میری جان ہے!بے شک جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے(1)وہ ضرور آنے والی ہے اور تم (اللّٰہ کو)عاجز نہیں کرسکتے۔‘‘
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے ! ہمارے پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کیسے پیارے انداز میں ہمیں ’’ لمبی امید‘‘ سے باز رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔یقیناً ؎
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کے ہیں پل کی خبر نہیں
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد
غفلت کی نیند سے بیدار اور ’’لمبی اُمید‘‘ کی آفت سے خبردار کرنے والی چند مزید روایات وحکایات سنئے اور اپنی آخِرت کی بھلائیاں سمیٹئے:
1 چاہے وہ قیامت ہو یا مرنے کے بعد اُٹھنا یا حساب یا ثواب و عذاب۔ ( تفسیرصراط الجنان ج ۳ص۲۱۴)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع