30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
پیشانی کے دھبّے کے متعلق اعلیٰ حضرت کا’’ اَقُول‘‘
میرے آقااعلیٰ حضرت شاہ امام احمد رضاخان رَحْمۃُ اللہِ علیہ ’’فتاوٰی افریقہ ‘‘ میں سجدے کے نشان کے متعلق طویل بحث کرنے کے بعد صفحہ66 پر لکھتے ہیں : اَقول (یعنی میں کہتا ہوں ): اس بارے میں تحقیق حکم یہ ہے کہ دکھاوے کے لئے قصداً(یعنی جان بوجھ کر) یہ نشان پیدا کرنا حرام قطعی وگناہِ کبیرہ ہے اور وہ نشان مَعَاذَ اللہ اس کے استحقاقِ جہنم (یعنی دوزخ کی حقداری) کا نشان ہے جب تک توبہ نہ کرے۔ا ور اگر یہ نشان کثرتِ سجود (یعنی زیادہ سجدوں ) سے خود پڑگیا تو وہ سجدے اگر ریائی (یعنی دکھاوے کیلئے )تھے تو فا عل جہنمی اور یہ نشان اگر چِہ خود جرم نہیں مگر جرم سے پیدا ہوا۔ لہٰذا اِسی ناریت(یعنی دوزخی ہونے) کی نشانی۔ اور اگر وہ سجدے خالصاً لِوَجْہِ اللّٰہ (یعنی خالص اللہ پاک کیلئے) تھے مگر یہ نشان پڑنے سے خوش ہوا کہ لوگ مجھے عابد ساجد (عبادت کرنے والا سجدہ گزار) جانیں گے تو اب ریا آ گیا اور یہ نشان اس کے حق میں مذموم (یعنی قابلِ مذمت)ہو گیا۔ اور اگر اسے اس کی طرف کچھ التفات(دھیان) نہیں تو یہ نشان نشانِ محمود (لائق تعریف نشان )ہے۔ اور ایک جماعت کے نزدیک آیۂ کریمہ میں اس کی تعریف موجود ہے ۔ اُمّید ہے کہ قبر میں ملائکہ کے لیے اس کے ایمان و نماز کی نشانی ہو اور روزِقیامت یہ نشان آفتاب سے زیادہ نورانی ہو۔ (فتاوٰی افریقہ)
تہجُّد گزار کاچِہرہ نورانی ہو جاتا ہے
حضرت سیِّدُناحسن بصری رَحْمۃُ اللہِ علیہ سے پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے تہجُّد پڑھنے والوں کے چہرے حسین (یعنی نورانی )ہوتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ’’اس لئے کہ وہ اپنے پاک پروردگار کے لئے تنہائی اختیار کرتے ہیں تو اللہ پاک ان کو اپنے نور کا لباس پہنا دیتا ہے۔‘‘ (احیاء العلوم ج ۵ص ۱۴۷)(احیاء العلوم (اردو ) ج ۵ص ۳۷۴)
نیکی دل کا نور اور چہرے کی چمک
ایک بُزُرگ فرماتے ہیں : نیکی کرنے سے دل میں نور ،چہرے میں چمک ،رِزق میں فراخی (یعنی کشادگی ۔ زیادتی)اور لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے مَحَبَّت پیدا ہوجاتی ہے۔ امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے: ایک شخص کوئی کام چھپ کر بڑی رازداری سے کرتا ہے، اللہ پاک اس کے آثار اس کے چہرے اور اس کے کلام (یعنی گفتگو)میں نمایاں کردیتا ہے۔ (تفسیر القراٰن العظیم ج ۷ص ۳۳۷)
کراٹے کاکھلاڑی مبلغ کیسے بنا؟
سجدوں کی لذتیں پانے، تکبر سے جان چھڑانے اور خود کو عاجزی کا پیکر بنانے کیلئے عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک، ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کے مَدَنی قافلوں میں سفر کرتے کرواتے رہئے۔مَدَنی بہار: فیصل آبادمیں مقیم اسلامی بھائی دعوتِ اسلامی کے مدَنی ماحول سے وابستگی سے قبل بہت ہی بگڑے ہوئے کردار کے مالک تھے، جھوٹ، غیبت ،چغلی ،بدنگاہی اورلڑائی جھگڑا ان کے روزمرّہ کے معمولات میں شامل تھے۔انہوں نے مارشل آرٹس (یعنی کراٹے وغیرہ) سیکھا ہواتھا جس کے بل بوتے پر لوگوں سے خواہ مخواہ جھگڑامول لیتے۔ہرنئے فیشن کواپنانا ان کے مشاغل میں شامل تھا،افسوس! نمازوں سے اس قدر دُوری تھی کہ انہیں اتنابھی پتا نہ تھا کہ کون سی نمازکی کتنی رکعتیں ہوتی ہیں !آخرکار ان کی قسمت کاستارہ یوں چمکا کہ ان کی ملاقات اپنے ایک پُرانے دوست سے ہوئی جو دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو چکے تھے،انہوں نے انفرادی کوشش کرتے ہو ئے انہیں قافلے میں سفر کرنے کی دعوت دی، ان کی انفرادی کوشش کامیاب ہوئی اوریہ ہاتھوں ہاتھ تین دن کے مَدَنی قافلے کے مسافربن گئے۔ مَدَنی قافلے میں عاشقان رسول کی صحبت کی برکت سے انہیں اپنی زندگی کا مقصد معلوم ہوا اوریہ اپنے گناہوں پر نادم ہوئے کہ زندگی کا بہت بڑا حصہ میں نے غفلت میں گزار دیا، انہیں اس حد تک رقت نصیب ہوئی کہ جب بھی بیان سنتے آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے حتّٰی کہ مَدَنی قافلے سے واپسی پر بھی رونے لگے۔ اَلْحَمْدُ للہ اس دن کے بعد سے دعوتِ اسلامی کا دامن ان کے ہاتھوں میں رہا ،یہ ڈویژن سطح پر مَدَنی قافلہ ذمہ دار کی حیثیت سے مدنی کاموں کی دھومیں مچانے میں بھی مصر وفِ عمل رہے۔
الفت مصطَفٰے اور خوفِ خدا
چاہئے گر تمہیں قافلے میں چلو
(وسائلِ بخشش (مُرمَّم) ص ۶۶۹)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد
یاربَّ المصطَفٰے! ہمیں فرائض کے ساتھ ساتھ خوب نوافل پڑھنے اور کثرت کے ساتھ سجدے کرنے کی سعادت عنایت فرما۔
فرائض پڑھوں ، خوب نفلیں پڑھوں میں
کرم کر خدا!خوب سجدے کروں میں
اٰمِین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
خُشُوع وخُضُوع سے نَماز پڑھنے کے فَضائل
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
خُشُوع وخُضُوع سے نَماز پڑھنے کے فَضائل
اے اللہ !جوکوئی ’’خشوع و خضوع سے نماز پڑھنے کے فضائل‘‘ کے 139 صفحات
پڑھ یا سن لے اُس کو نمازوں میں خشوع و خضوع عطا فرما ، اس کی تمام
نمازیں قبول فرما کر اُسے دونوں جہانوں کی بھلائیوں سے مالا مال فرما۔ اٰمین۔
دُرُود شریف کا پرچہ کام آگیا (حکایت)
قیامت کے دن کسی مسلمان کی نیکیاں میزان(یعنی ترازو) میں ہلکی ہو جائیں گی تو گناہ گاروں کی شفاعت فرمانے والے پیارے آقا صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک پرچہ اپنے پاس سے نکال کرنیکیوں کے پلڑے میں رکھ دیں گے، تو اس سے نیکیوں کاپلڑا وَزنی ہو جائے گا۔ وہ عرض کرے گا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ کون ہیں ؟ حضور صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمائیں گے:’’ میں تیر ا نبی محمد(صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) ہوں اور یہ تیرا وہ دُرُود ہے جو تو نے مجھ پر بھیجا تھا۔‘‘ ( کتاب حسن الظن باللّٰہ مع موسوعہ ابن ابی دنیا ج ۱ص ۹۲حدیث ۷۹ ملخصًا )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد
خُشُوع کی تعریف
خشوع کے معنی ہیں :’’ دل کا فعل اور ظاہری اعضا(یعنی ہاتھ پاؤں )کا عمل۔‘‘ (تفسیر کبیر ج ۸ ص ۲۵۹) دل کا فعل یعنی اللہ پاک کی عظمت پیش ِنظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اورنماز میں دل لگا ہو۔اور ظاہری اعضاکا عمل یعنی سکون سے کھڑا رہے ، اِدھر اُدھر نہ دیکھے، اپنے جسم اور کپڑوں کے ساتھ نہ کھیلے اور کوئی عبث وبے کار کام نہ کرے۔
(ماخوذ از تفسیر کبیر ج ۸ ص ۲۵۹، مدارک ص ۷۵۱، صا وی ج ۴ص ۱۳۵۶)
نَمازمیں ’’خشوع ‘‘ مُسْتَحَب ہے
علامہ بدرالدین عینی رَحْمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : نماز میں خشوع مستحب ہے۔ (عمدۃ القاری ج ۴ ص ۳۹۱ تحتَ الحدیث ۷۴۱ ) میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : نماز کا کما ل ، نماز کا نور، نماز کی خوبی فہم وتدبر و حضورِ قلب(یعنی خشوع) پر ہے۔ (فتاوٰی رضویہ ج۶ص۲۰۵) مطلب یہ کہ اعلیٰ درجے کی نماز وہ ہے جو خشوع کے ساتھ ادا کی جائے۔
اللہ کریم پارہ 18سُوْرَۃُ الْمُؤْمِنُوْن کی آیت نمبر 1اور2 میں اِرشادفرماتاہے:
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)
ترجَمۂ کنزُالایمان :بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں ۔
’’ تفسیر صراط الجنان ‘‘جلد6صفحہ494پر ہے: اِس آیت میں ایمان والوں کو بشارت (یعنی خوش خبری )دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پاجائیں گے۔ (تفسیرکبیر ج ۸ ص ۲۵۸، روح البیان ج ۶ص ۶۶ ملتقطا ) مزید صفحہ496 پر ہے: ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ، اس وقت ان کے دلوں میں اللہ کریم کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اَعضا ساکن(یعنی ٹھہرے ہوئے پُر سکون) ہوتے ہیں ۔
آگ لگ گئی مگر نماز میں مشغول رہے!
تابعی بزرگ حضرت سیِّدُنا مسلم بن یسار رَحْمۃُ اللہِ علیہ اس قدر توجُّہ کے ساتھ نماز پڑھتے کہ اپنے آس پاس کی کچھ بھی خبرنہ ہوتی، ایک بار نماز میں مشغول تھے کہ قریب آگ بھڑک اٹھی لیکن آپ کو احساس تک نہ ہوا حتّٰی کہ آگ بجھادی گئی۔ (اللّٰہ والوں کی باتیں ج۲ ص ۴۴۷)
چار مختصر حکایات
حکایت {۱}: صحابیہاُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم سے اور ہم آپ سے گفتگو کررہے ہوتے لیکن جب نماز کا وقت ہوتا تو(ہم ایسے ہوجاتے) گویاآپ ہمیں نہیں پہچانتے اور ہم آپ کو نہیں پہچانتے ۔ (احیاء العلوم ج ۱ص ۲۰۵ ) حکایت {۲}: امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نماز میں ایسے ہوتے گویا (گڑی ہوئی) میخ(کُھونٹی) ہیں ۔ حکایت {۳}:بعض صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان رُکوع میں اتنے پُرسکون ہوتے کہ ان پر چڑیاں بیٹھ جاتیں گویا وہ جماد ات(یعنی بے جان چیزوں ) میں سے ہیں ۔ (احیاء العلوم ج ۱ص ۲۲۸،۲۲۹) حکایت {۴}:بعض صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان فرماتے ہیں :بروز قیامت لوگ نماز والی ہیئت (ہے۔اَت۔یعنی کیفیت) پر اٹھائے جائیں گے یعنی نماز میں جس کو جتنا اطمینان وسُکون حاصل ہوتا ہے اسی کے مطابق ان کا حشر (یعنی اٹھایا جانا)ہوگا۔ (ایضاً ج ۱ ص ۲۲۲)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع