30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
جماعت کے جُدا جُدا 30 مسائل
جماعت کس پر واجِب ہے؟
{۱} ہر عاقل بالِغ قدرت رکھنے والے مرد مسلمان پر جماعت واجِب ہے ، شرعی مجبوری کے بغیر ایک بار بھی چھوڑنے والاگناہ گار وعذابِ نار کا حق دار ہے۔ کئی بار ترک کرنے والا فاسِق ہے اور وہ گواہی کے قابل نہیں رہتا، پڑوسیوں نے نہ سمجھایا تو وہ بھی گناہ گار ہوں گے۔
عورت پر جماعت واجب نہیں
{۲} عورتوں کو کسی نماز میں جماعت کی حاضری جائزنہیں ۔(بہار شریعت ج۱حصہ۳ ص۵۸۴)اور انہیں جماعت قائم کرنے یا جماعت میں شامل ہونے کی اجازت بھی نہیں ۔
{۳} جمعہ و عیدین میں جماعت شرط ہے ۔( جمعہ و عیدین کے اور بھی شرائط ہیں ) ( درمختارو ردالمحتار ج ۲ ص ۳۴۱ ۔ ۳۴۲)
عورت اور جُمعہ و عید کی نَماز
{۴}عورتیں جمعہ کی نماز نہیں پڑھیں گی، حسب معمول ظہر ہی پڑھیں ، عیدین کی نماز اُن پر نہیں ۔
تراویح و وتر کی جماعت کے مسائل
{۵} تراویح میں جماعت سنت کفایہ ہے کہ اگر مسجد کے سب لوگ چھوڑ دیں گے تو سب گناہ گار ہوں گے اور اگر کسی ایک نے گھر میں تنہا پڑھ لی تو گنہگار نہیں مگر جو شخص مقتدا (یعنی پیشوا Leader) ہو کہ اس کے ہونے سے جماعت بڑی ہوتی ہے اور چھوڑ دے گا تو لوگ کم ہو جائیں گے اُسے بلا عذر جماعت چھوڑنے کی اجازت نہیں ۔ ( عالمگیری ج ۱ ص ۱۱۶)
{۶} تراویح مسجد میں باجماعت پڑھنا افضل ہے اگر گھر میں جماعت سے پڑھی تو جماعت کے ترک کا گناہ نہ ہوا مگر وہ ثواب نہ ملے گا جو مسجد میں باجماعت پڑھنے کا تھا۔ ( عالمگیری ج ۱ ص ۱۱۶)
{۷}رَمَضان شریف میں وتر جماعت کے ساتھ پڑھنا افضل ہے خواہ اُسی امام کے پیچھے جس کے پیچھے عشا و تراویح پڑھی یا دوسرے کے پیچھے۔ ( درمختارو ردالمحتار ج ۲ ص ۶۰۶)
سورج اور چاند گہن کی نماز
{۸}سورج گہن کی نماز سُنَّتِ مُؤَکَّدہ ہے اور چاند گہن کی مستحب۔ سورج گہن کی نماز جماعت سے پڑھنی مستحب ہے اور تنہا تنہا بھی ہو سکتی ہے اور جماعت سے پڑھی جائے تو خطبے کے سوا تمام شرائط جمعہ اس کے لیے شرط ہیں ، وہی شخص اس کی جماعت قائم کر سکتا ہے جو جمعہ کی کر سکتا ہے، وہ نہ ہو تو تنہا تنہا پڑھیں ، گھر میں یا مسجد میں ۔
( درمختار و رد المحتار ج ۳ ص ۷۷ ۔ ۸۰ ملخّصاً )
تکبیرِ اُولیٰ کی فضیلت حاصل ہونے کی صورت
{۹} جماعت میں مشغول ہونا کہ اس کی کوئی رَکعت فوت نہ ہو ، وُضو میں تین تین بار اعضا دھونے سے بہتر ہے اور تین تین بار اعضا دھونا تکبیر اُولیٰ پانے سے بہتر یعنی اگر وُضو میں تین تین بار اعضا دھوتا ہے تو رَکعت جاتی رہے گی، تو افضل یہ ہے کہ تین تین بار نہ دھوئے اور رکعت نہ جانے دے اور اگر جانتا ہے کہ رَکعت تو مِل جائے گی مگر تکبیر اُولیٰ نہ ملے گی تو تین تین بار دھوئے۔ (بہار شریعت ج۱ ص۵۸۳)
{۱۰} اگر پہلی رَکْعَت کا رُکوع مل گیا تو (بعض علما کے نزدیک) تکبیر اُولیٰ کی فضیلت حاصل ہوجاتی ہے۔
( عالمگیری ج ۱ ص ۶۹)
{۱۱}جس کی جماعت جاتی رہے اس پر واجب نہیں کہ دوسری مسجدمیں جماعت تلاش کرکے پڑھے، ہاں مُسْتَحَب ہے۔ ( در مختار ج ۲ ص ۳۴۷ )
بچّوں کے صَف میں کھڑے ہونے کے مسائل
{۱۲} جب صفیں قائم کی جارہی ہوں اُس وقت اگر ایک (سمجھدار) نابالِغ بچہ ہو تو وہ کسی بھی صف حتی کہ پہلی صف میں بھی جہاں چاہے کھڑا ہوسکتا ہے۔ ( در مختار ج ۲ ص ۳۷۷ ماخوذاً )
{۱۳} اگر ایک سے زیادہ بچے ہوں تو اُن کی صف مردوں کی آخری صف کے پیچھے بنائی جائے۔
( در مختار ج ۲ ص ۳۷۷ ماخوذاً )
{۱۴} بعض لوگ بچوں کو صف کے کونے میں بھیج دیتے ہیں یہ طریقہ غلط ہے، کونا بھی صف میں شامل ہے، بچوں کی صف مردوں کی صفوں کے آخِر میں بنائی جائے۔
ہر صف اپنی پچھلی سے افضل ہے
{۱۵}مردوں کی پہلی صف کہ اِمام سے قریب ہے، دوسری سے اَفضل ہے اور دوسری تیسری سے وَعَلٰی ھٰذَا الْقِیَاس (یعنی اور اِسی طرح)۔ ( عا لمگیری ج ۱ ص ۸۹) مطلب یہ کہ ہر اگلی صف اپنی پچھلی صف سے اَفضل ہے۔
{۱۶} مقتدی کے لیے اَفضل جگہ یہ ہے کہ اِمام سے قریب ہو اور دونوں طرف برابر ہوں تو سیدھی طرف اَفضل ہے۔ ( عا لمگیری ج ۱ ص ۸۹)
{۱۷} صف مُقَدَّم(یعنی اگلی صف) کا اَفضل ہونا غیر جنازہ میں ہے اور جنازے میں آخر صف اَفضل ہے۔
( درمختار ج ۲ ص ۳۷۲ ۔ ۳۸۴)
{۱۸} پہلی صف میں جگہ ہو اور پچھلی صف بھر گئی ہو تواس کو چیر کر جائے اور خالی جگہ میں کھڑا ہو۔ ( عا لمگیری ج ۱ ص ۸۹) اس کے لئے حدیث میں فرمایا: ’’جو صف میں کشادَگی دیکھ کر اسے بند کردے اُس کی مغفرت ہوجائے گی۔‘‘ ( مجمع الزوائد ج ۲ ص ۲۵۱ حدیث ۲۵۰۳) اور یہ وہاں ہے، جہاں فتنہ و فساد کا احتمال(یعنی شک و شبہ) نہ ہو۔ (بہار شریعت ج ۱ ص ۵۸۶)
{۱۹}(جماعت ہو رہی ہو اُس وقت)صحن مسجد میں جگہ ہوتے ہوئے بالا خانہ(یعنی اوپری منزل) پر اقتدا کرنا(یعنی جماعت سے نماز پڑھنا) مکروہِ(تحریمی)ہے، یوہیں صف میں جگہ ہوتے ہوئے صف کے پیچھے کھڑا ہونا ممنوع ہے۔ ( درمختار ج ۲ ص ۳۷۴)
امام سے پہلے رکوع یا سجدے میں جانا
{۲۰} امام سے پہلے رکوع کیا مگر اس کے سر اٹھانے سے پہلے امام نے بھی رکوع کیا تو رکوع ہوگیا بشرطیکہ اس نے اُس وقت رکوع کیا ہو کہ امام بقدر فرض قراءَ ت کر چکا ہو ورنہ رکوع نہ ہوا اور اس صورت میں امام کے ساتھ یا بعد اگر دوبارہ رکوع کر لے گا ہو جائے گی ورنہ نماز جاتی رہی اور امام سے پہلے رکوع خواہ کوئی رکن ادا کرنے میں گنہگار بہرحال ہوگا۔
( در مختار و رد المحتار ج ۲ ص ۶۲۴)
{۲۱} اِمام سے پہلے مقتدی سجدے میں چلا گیا اور اس کے سر اُٹھانے سے پہلے اِمام بھی سجدے میں پہنچ گیا اس طرح سجدہ تو ہوگیا مگر مقتدی کو ایسا کرنا حرام ہے۔ (بہار شریعت ج ۱ ص ۵۹۴)
اپنی فرض شروع کردی کہ جماعت کھڑی ہو گئی!
{۲۲} تنہا فرض نماز شروع ہی کی تھی یعنی ابھی پہلی رَکْعَت کا سجدہ نہ کیا تھا کہ جماعت قائم ہوئی تو توڑ کر(یہ توڑنا مستحب ہے ) جماعت میں شامل ہوجائے۔ ( تنویر الابصار و در مختار ج ۲ ص ۶۰۶ ۔ ۶۱۰)
{۲۳} جماعت قائم ہونے سے مؤذن کا تکبیر کہنا مراد نہیں بلکہ جماعت شروع ہوجانا مراد ہے ، مؤذن کے تکبیر کہنے سے نماز نہیں توڑیں گے اگرچہ پہلی رَکْعَت کا ہنو ز( یعنی ابھی تک) سجدہ نہ کیا ہو۔ ( رد المحتار ج ۲ ص ۶۰۸)
{۲۴} نماز توڑنے کے لیے بیٹھنے کی بھی حاجت نہیں کھڑے کھڑے ایک طرف سلام پھیر کر توڑ دیں ۔
( عالمگیری ج ۱ ص ۱۱۹)
{۲۵} جماعت قائم ہونے پر نماز توڑنا اُس وقت ہے کہ جس مقام پر نماز پڑھتے ہوں وہیں جماعت قائم ہو ، اگر گھر میں نماز پڑھ رہے ہوں اور مسجد میں جماعت قائم ہوئی یا ایک مسجد میں پڑھ رہے ہیں اور دوسری مسجد میں جماعت قائم ہوئی تو توڑنے کا حکم نہیں اگرچہ پہلی رَکْعَت کا سجدہ نہ کیا ہو۔ ( رد المحتارج ۲ ص ۶۰۸)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع