my page 32
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Faizan-e-Namaz (New) | فیضان نماز

book_icon
فیضان نماز
            

ایک نابینا کی حکایت

حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں ایک نابینا شخص حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! میرے پاس کوئی ایسا نہیں جو مجھے مسجد تک لائے۔ انہوں نے حضورِ انور صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اجازت چاہی کہ انہیں اپنے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دیں ۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں اجازت دے دی۔ جب انہوں نے پیٹھ پھیری (یعنی جانے کے لئے پلٹے) تو بلایا اور فرمایا: کیا تم نماز کی اذان سنتے ہو؟ عرض کیا: ہاں ۔ فرمایا: تو قبول کرو۔ ( مسلم ص ۲۵۷ حدیث ۱۴۸۶) (مراٰۃ ج ۲ ص ۱۶۸)  

نابینا پر جماعت واجب نہیں

نابینا کیلئے بھی افضل یہی ہے کہ وہ مسجِد میں آ کر با جماعت نماز پڑھے تا ہم اُس پر مسجد میں آ کر جماعت سے نماز پڑھنا واجب نہیں ۔ جیسا کہ ’’بہارِ شریعت‘‘ جلد1 صفحہ 583تا 584 پر فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’ دُرِّمُخْتَار ‘‘ کے حوالے سے ترکِ جماعت کے20اَعذار(یعنی20مجبوریوں ) کا بیان ہے۔ ان میں عذر نمبر 6 ہے: اندھا اگرچِہ (یعنی چاہے) اندھے کیلئے کوئی ایسا ہو جو ہاتھ پکڑ کر مسجد تک پہنچا دے۔

ایک نابینا صَحابی کا سُوال(حکایت)

حضرت سیِّدُنا عبدُاللّٰہ بن اُمِّ مَکْتوم رضی اللہ عنہ ے بارگاہِ رِسالت میں عرض کی: یارَسُولَ اللہ مدینۂ منورَہ میں موذی جانور بکثرت ہیں اور میں نابینا ہوں تو کیا مجھے رُخصت ہے کہ گھر پر ہی نماز پڑھ لیا کروں ؟ فرمایا: ’’ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاح ‘‘ سنتے ہو؟ عرض کی: جی ہاں ! فرمایا: ’’تو (باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے) حاضر ہو۔‘‘( نَسائی ص ۱۴۸ حدیث ۸۴۸)

نابینا کیلئے نمازِ باجماعت افضل ہے

حضرت علامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت حاشیے میں ارشاد فرماتے ہیں : نابینا کہ اَٹکل (یعنی راستے کی پہچان) نہ رکھتا ہو، نہ کوئی لے جانے والا ہو، خصوصاً دَرِندوں (یعنی پھاڑ کھانے والے جانوروں ) کا خوف ہو تو اُسے ضرور رُخصت ہے مگر حضور صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں (یعنی حضرت عبدُاللّٰہ بن اُمّ مکتوم کو) اَفضل پر عمل کرنے کی ہدایت فرمائی کہ اور لوگ سبق لیں جو بلا عذر (یعنی بغیر مجبوری) گھر میں پڑھ لیتے ہیں ۔ (بہارِ شریعت ج۱حصہ ۳ ص۵۷۹)

مدینہ اب اکثر موذیات سے پاک ہو چکا ہے

حضرت مفتی احمد یار خان رَحْمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں : خیال رہے کہ حضور صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تشریف آوری سے پہلے، مدینۂ منورہ، وَباؤں اور بیماریوں کا گھر تھا، آپ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے   قدمِ پاک نے وہاں سے وَباؤں کو نکال کر وہاں کی مٹی کو بھی شفا بنادیا، لیکن اَوَّلًا (یعنی شروع میں )کچھ بچھو سانپ اور بھیڑیے وغیرہ رہے بعد میں اللہ (پاک) نے ان چیزوں سے زمین ِ مدینہ کو قریباً صاف کردیا یعنی یَثْرِب کو طَیْبَہ بنادیا۔ (مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں :) یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب وہاں یہ موذی چیزیں موجود تھیں ۔ ( مراٰۃ المناجیح ج ۲ ص ۱۷۸ مختصرًا )

چلو مل کے کرتے ہیں ذِکرِ مدینہ

اے عاشقانِ رسول! بیان کردہ شرح میں سلطانِ مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک قدموں کی برکت سے یَثْرِب کے طیبہ بن جانے کا تذکرہ ہے۔ یَثْرِب کیا ہے؟ یہ جاننے کیلئے ’’چلو مل کے کرتے ہیں ذِکر ِ مدینہ‘‘......... دعوتِ اسلامی کے مکتبۃُ المدینہ کی328 صفحات کی کتاب، ’’عاشقانِ رسول کی 130حکایات ‘‘ صَفْحَہ 252تا254پر دیئے ہوئے مضمون میں سے کچھ تبدیلی کے ساتھ عرض کیا جاتا ہے:

مدینہ لوگوں کو پاک و صا ف کرے گا

فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: ’’مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت)کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی (یعنی سب پر غالب آئے گی)، لوگ اسے ’’ یَثْرِب ‘‘ کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے،(یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔‘‘ ( بخاری ج ۱ ص ۶۱۷ حدیث ۱۸۷۱)

مدینہ کو یَثرِب کہنا گناہ ہے

مدینۃُ المنوَّرہ
کو ’’ یَثْرِب ‘‘ کہنے کی مُمانَعت کی گئی ہے۔ ’’فتاوٰی رضویہ‘‘ جلد21 صَفْحَہ 116 پر ہے: مدینۂ طیبہ کو یَثرِب کہنا ناجائز و ممنوع و گناہ ہے اور کہنے والا گناہ گار رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : ’’جو مدینہ کو ’’ یَثرِب ‘‘ کہے اُس پر توبہ واجب ہے، مدینہ طابہ ہے مدینہ طابہ ہے۔‘‘ علامہ مُناوی ’’ تَیْسِیرشَرْحِ جامعِ صغیر ‘‘ میں فرماتے ہیں :   اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدینۂ طیبہ کا یَثرِب نام رکھنا حرام ہے کہ یَثرِب کہنے سے توبہ کا حکم فرمایا اور توبہ گناہ ہی سے ہوتی ہے۔ ( التیسیر ج ۲ ص ۴۲۴)(فتاوٰی رضویہ ج۲۱ ص۱۱۶)

یَثرِب کہنا کیوں منع ہے

حضرتِ علامہ شیخ عبدالحق محدث دِہلوی رَحْمۃُ اللہِ علیہ اَشِعَّۃُ اللَّمعات شَرْحُ الْمِشْکٰوۃ میں فرماتے ہیں : آنحضرت صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہاں لوگوں کے رَہنے سَہنے اور جمع ہونے اوراس شہر سے مَحَبَّت کی وجہ سے اس کا نام ’’مدینہ‘‘ رکھا اور آپ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسے یَثرِب کہنے سے منع فرمایا، اِس لئے کہ یہ زمانۂ جاہلیت کانام ہے یا اِس لئے کہ یہ ’’ ثَرْبٌ ‘‘سے بنا ہے جس کے معنٰی ہلاکت اور فساد ہے اور تَثْرِیْبٌ بمعنٰی سرزَنش(یعنی بُرا بھلا کہنا) اور ملامت ہے یا اس وجہ سے کہ یَثرِب کسی بُت یا کسی جابر (یعنی ظالم) و سرکش بندے کانام تھا۔ امام بخاری ( رَحْمۃُ اللہِ علیہ )اپنی تاریخ میں ایک حدیث لائے ہیں کہ جو کوئی ’’ایک مرتبہ یَثْرِب ‘‘ کہہ دے تو اسے (کفارے میں ) ’’دس مرتبہ مدینہ‘‘ کہنا چاہئے۔ ( )قراٰنِ مجید میں جو ’’ یٰۤاَهْلَ یَثْرِبَ ‘‘ (یعنی اے یَثْرِب والو!) آیا ہے،وہ دَراصل منافِقین کا قول (یعنی کہی ہوئی بات) ہے کہ یَثْرِب کہہ کر وہ مدینۃُ المنوَّرہ کی توہین کا ارادہ رکھتے تھے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ یَثْرِب کہنے والا اللہ پاک سے اِستغفار(یعنی توبہ) کرے ( )اور مُعافی مانگے۔ اور بعض نے فرمایا ہے کہ مدینۃُ المنوَّرہ کو جو یَثْرِب کہے اُس کو سزا دینی چاہئے ۔ حیرت کی بات ہے کہ بعض بڑے لوگوں کی زَبان سے اَشعار میں لفظ ’’ یَثْرِب ‘‘ صادر ہوا ہے اور اللہ پاک خوب جانتا ہے اور عظمت و شان والے کا علم بالکل پختہ اورہر طرح سے مکمَّل ہے۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۱ص۱۱۹) زندگی کیا ہے! مدینے کے کسی کوچے میں موت موت پاک و ہند کے ظلمت کدے کی زندگی   صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد

جماعت مُعاف ہونے کی 20مجبوریاں

ان تمام وجوہات میں سے کسی بھی وجہ کی بنا پر جماعت چھوڑنے والا گناہ گار نہ ہوگا:{۱} مریض جسے مسجد تک جانے میں مَشَقَّت ہو {۲}اَپاہَج {۳}جس کا پاؤں کٹ گیا ہو {۴}جس پر فالج گرا ہو {۵}اتنا بوڑھا کہ مسجد تک جانے سے عاجز (یعنی مجبور) ہو {۶}اندھا اگرچِہ اندھے کے لئے کوئی ایسا ہو جو ہاتھ پکڑ کر مسجد تک پہنچا دے {۷} سخت بارش اور {۸} شدید کیچڑ کا حائل ہونا {۹} سخت سردی {۱۰} سخت تاریکی (یعنی سخت اندھیرا) {۱۱}آندھی {۱۲}مال یا کھانے کے تَلَف (یعنی ضائع) ہوجانے کا اندیشہ {۱۳} قرض خواہ(یعنی قرض مانگنے والے) کا خوف ہے اور یہ (یعنی نمازی) تنگ دست ہے {۱۴} ظالم کا خوف {۱۵} پاخانہ (یا) {۱۶}پیشاب (یا) {۱۷}رِیاح (Gas) کی حاجت شدید ہے {۱۸}کھانا حاضر ہے اور نفس کو اس کی خواہش ہو {۱۹}قافلہ چلے جانے کا اندیشہ (یعنی ڈر) ہے {۲۰}مریض کی تیمارداری (یعنی مریض کی دیکھ بھال کی ذمّے داری) کہ جماعت کے لیے جانے سے اُس (یعنی مریض) کو تکلیف ہوگی اور گھبرائے گا۔ یہ سب ترکِ جماعت کے لئے عذر ہیں ۔ ( دُرِّمختارج ۲ ص ۳۴۷ ۔ ۳۴۹،بہار شریعت ج۱حصہ۳ ص۵۸۳،۵۸۴)

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن