my page 30
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Faizan-e-Namaz (New) | فیضان نماز

book_icon
فیضان نماز
            

اعلیٰ حضرت کا نمازِ باجماعت کا جذبہ

اعلیٰ حضرت، امام اہلِ سنت، امام احمد رضا خان رَحْمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : مجھے بڑے بڑے سفر کرنے پڑے اور بِفَضلِہٖ تعالیٰ پنج وقتہ(یعنی پانچوں ٹائم ) نماز جماعت سے پڑھی۔ (ملفوظات اعلیٰ حضرت ص۷۵) فتاوٰی رضویہ شریف میں ایک مقام پر فرماتے ہیں : میں ربیع الاول شریف کی مجلس پڑھ کر شام ہی سے ایسا علیل(یعنی بیمار) ہوا کہ کبھی نہ ہوا تھا، میں نے وصیت نامہ بھی لکھوا دیاتھا، آج تک(بیماری اور کمزوری کے باعث) یہ حالت ہے کہ دروازے سے متصل (یعنی ملی ہوئی) مسجد ہے (پھر بھی باجماعت نماز کیلئے) چار آدمی کرسی پر بٹھا کر مسجد لے جاتے اور لاتے ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ ج۹ ص۵۴۷) خدا کی مَحَبَّت نبی کی مَحَبَّت کے پیکر ہیں بے شک مِرے اعلیٰ حضرت صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد

نَمازِ باجماعت کا عجیب جذبہ

پہلے کے مسلمانوں کو باجماعت نمازوں کا بے مثال جذبہ ہوا کرتا تھا، چنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا اِمام ابو حامد محمد بن محمد بن محمد غزالی رَحْمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : (پارہ18 سُوْرَۃُ النُوْرّ آیت نمبر 37 میں اللہ پاک کا فرمانِ عالی شان ہے :) رجَالٌۙ-لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءِ الزَّكٰوةِ ﭪ--یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْهِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُۗۙ(۳۷) ترجَمۂ کنزالایمان : وہ مرد جنہیں غافِل نہیں کرتا کوئی سودا اور نہ خریدو فروخت اللہ کی یاد اور نَماز برپا رکھنے اور زکوٰۃ دینے سے، ڈرتے ہیں اُس دن سے جس میں اُلَٹ جا ئیں گے دل اور آنکھیں ۔ اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ : یہ وہ لوگ تھے کہ ان میں جو لوہار ہوتا تھا وہ اگر ضرب(یعنی چوٹ) لگانے کے لئے ہتھوڑا اُوپر اٹھائے ہوئے ہوتا اور اذان کی آواز سنتا تو اب ہتھوڑا لوہے وغیرہ پر مارنے کے بجا ئے فوراً رکھ دیتا اور چمڑے کا کام کرنے والا چمڑے میں سُوئی ڈالے ہوئے ہوتا اور اذان کی آواز اُس کے کانوں میں پڑتی تو سُوئی باہَر نکالے بغیر چمڑا اورسُوئی وہیں چھوڑ کر باجماعت نماز کیلئے مسجد کی طرف چل پڑتا ۔ ( کیمیائے سعادت ج ۱ ص ۳۳۹)

حضرت عبدُاللہ بن عمر نے دیکھ کر۔۔۔ (حکایت)

حضرت سیِّدُنا عبدُ اللّٰہ اِبن عمر رضی اللہ عنہما بازار میں تھے، مسجد میں نماز کے لئے اِقامت کہی گئی، آپ نے دیکھا کہ بازار والے اُٹھے اور دکانیں بند کر کے مسجد میں داخل ہوگئے۔ تو فرمایا کہ آیت مبارکہ ’’ رِجَالٌۙ-لَّا تُلْهِیْهِمْ ۔۔۔‘‘ (یعنی وہ مرد جنہیں غافل نہیں کرتا ۔۔۔ ) ایسے ہی لوگوں کے حق میں ہے۔ ( خزائن العرفان پ ۱۸، تحت الآیۃ :۳۷)( تفسیر بغوی ج ۳ ص ۲۹۶) جماعت سے تو گر نمازیں پڑھے گا خدا تیرا دامن کرم سے بھرے گا صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد

5 نمازوں کی جماعت کی عظیم الشان فضیلت

سرکار مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت عثمان بن مَظعُون ( رضی اللہ عنہ ) سے فرمایا: جس نے فجر کی نماز با جماعت پڑھی، پھر بیٹھ کر اللہ پاک کا ذِکر کرتا رہا یہاں تک کہ سورج نکل آیا اس کے لئے جنت الفردَوس میں سَتَّر(70) دَرَجے ہوں گے، ہر دو دَرجوں کے درمیان اِتنا فاصلہ ہوگا جتنا ایک سدھایا ہوا (یعنی Trained) تیز رفتار عمدہ نسل کا گھوڑا سَتَّر(70) سال میں طے کرتا ہے، اور جس نے ظہرکی نماز باجماعت پڑھی اس کے لئے جناتِ عدن میں پچاس(50) دَرَجے ہوں گے ،ہر دو دَرَجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہوگا جتنا ایک سدھایا ہوا(یعنی Trained) تیز رفتار عمدہ نسل کا گھوڑا پچاس (50)سال میں طے کرتا ہے، اور جس نے عصرکی نماز با جماعت پڑھی اس کے لئے اَولادِ اِسماعیل میں سے ایسے آٹھ غلام آزاد کرنے کا ثواب ہوگا جو بَیْتُ اللّٰہ کی دیکھ بھال کرنے والے ہوں ، اور جس نے مغرب کی نماز با جماعت پڑھی اس کے لئے حجِ مبرورا ور مقبول عمرے کا ثواب ہوگا، اور جس نے عِشا کی نماز باجماعت پڑھی اس کے لیے لَیْلَۃُ الْقَدْر میں قیام (یعنی عبادت) کرنے کے برابر ثواب ہو گا۔ ( شعب الایمان ج ۷ ص ۱۳۷ حدیث ۹۷۶۱)

تذکِرۂ حضرت عثمان بن مَظعُون رضی اللّٰہ عنہ

اے عاشقانِ صحابہ واہل ِ بیت! ابھی آپ نے جو حدیث ِ پاک سنی اس کے راوِی (یعنی بیان کرنے والے) رسولِ کریم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جلیل القدر صحابی حضرتِ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ہیں ۔آپ کی کنیت ابُوالسَّائِب ہے، ( سیراعلام النبلاء ج ۳ ص ۹۹) آپ حضور نبی کریم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رِضاعی(یعنی دودھ کے رشتے) بھائی،( مراٰۃ المناجیح ج ۲ ص ۴۴۷) اُمُّ المؤمنین حضرت حفصہ بنت ِ عمر رضی اللہ عنہما کے ماموں جان(طبقاتِ ابن سعد ج ۸ ص ۶۵) اور حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا کے خاوند( مسند امام احمد ج ۱۰ ص ۲۹) نیز اصحابِ صفہ میں سے ایک، اور بدری صحابی تھے۔( مرقاۃ ج ۴ ص ۱۹۲) 13مردوں کے بعد اسلام قبول کرنے کی سعادت پائی۔( سیر اعلام النبلاء ج ۳ ص ۹۹) سرورِ دو عالم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کا نام اَلسَّلَفُ الصَّالِح (یعنی نیک بزرگ) رکھا۔( معرفۃ الصحابۃ ج ۳ ص ۳۶۴ )اپنے پیارے پیارے صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے بارے میں حضور نبی کریم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:’’میرے صحابہ میں سے جو کسی سَر زَمین میں فوت ہوگا تو قیامت کے دن اُن لوگوں کے لیے قائد اور نور بنا کر اٹھایا جائے گا۔‘‘( ترمذی ج ۵ ص ۴۶۴ حدیث ۳۸۹۱ ) شرحِ حدیث: یعنی جس سَرزَمین میں میرے کسی صحابی کی وفات و دَفن ہوں گے قیامت کے دن اس سَرزَمین کے سارے مسلمان ان صحابی کے جلو (یعنی ساتھ) میں محشر کی طرف چلیں گے اور یہ صحابی ان سب کے لیے روشن شمع ہوں گے،ان کی روشنی میں سارےلوگ قبروں سے محشر تک اور محشر سے جنت تک پُلْ صراط و غیرہ سے ہوتے ہوئے پہنچیں گے۔ ( مراٰۃ المنا جیح ج ۸ ص ۳۴۴ )

عبادت و ریاضت

حضرت سیدنا عثمان بن مَظعُون رضی اللہ عنہ عبادت و ریاضت کے نور سے اپنے اوقات کو روشن کیا کرتے تھے۔دن میں روزہ رکھتے اور رات بھر عبادت کیا کرتے۔( حلیۃ الاولیا ء ج ۱ ص ۱۵۱ رقم ۳۳۸ ) سادَگی کا عالم یہ تھا کہ ایک مرتبہ جابجا چمڑے کے پیوند لگی ہوئی پرانی چادر پہن کر مسجد میں داخل ہوئے جسے دیکھ کر نبی کریم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اورصحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔( حلیۃ الاولیا ء ج ۱ ص ۱۵۰ رقم ۳۳۵ ) آپ نے قبولِ اِسلام سے پہلے ہی اپنے اوپر شراب حرام کر رکھی تھی اور اِس بات کا عہدکر رکھا تھا کہ کبھی کوئی ایسی چیز نہ پیوں گا جس سے عقل جاتی رہے اور کم تر لوگ مذاق اڑائیں ۔( الاستیعاب ج ۳ ص ۱۶۶)

انتِقال مبارَک

ایک قول کے مطابق شعبانُ المعظم سن3ہجری میں آپ نے وفات پائی ۔ ( جامع الاصول ج ۱۴ ص ۳۱۴ ) وفات کے بعد مکی مدنی سرکار صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کے رُخسار (یعنی گال) کا بوسہ لیا اور رونے لگے یہاں تک کہ مبارک آنکھوں سے آنسو بہہ کر رخسار پر تشریف لانے لگے۔( ابن ماجہ ج ۲ ص ۱۹۸ حدیث ۱۴۵۶) یہ دیکھ کر صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان بھی اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے اور بے اختیار رونے لگے پھرغمگین دلوں کے چین صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا: اے ابوسائب! تم اس دنیا سے یوں چلے گئے کہ تم نے دنیا کی کسی چیز سے کچھ نہ لیا۔( حلیۃ الاولیا ء ج ۱ ص ۱۵۱ رقم ۳۳۷ ) آپ کی نمازِ جنازہ نبی رحمت، شفیع امت صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑھائی۔ ( ابن ماجہ ج ۲ ص ۲۰۰ حدیث ۱۵۰۲)

قَبْر پر نشانی لگائی

حضرت سیِّدُنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ جنت البقیع میں مدفون ہونے والے پہلے صحابیِ رسول ہیں ۔( مصنف ابن ابی شیبۃ ج ۸ ص ۳۵۷ رقم ۲۹۱) تدفین کے بعد پیارے آقا صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے رحمت بھرے ہاتھوں سے آپ کی قبر پر پتھر نصب فرمایا تاکہ قبر کی پہچان رہے اور خاندانِ نبوت سے انتقال فرمانے والے افرادکواس قبرکے قریب دَفن کیا جائے۔( ابو داوٗد ج ۳ ص ۲۸۵ حدیث ۳۲۰۶ ملخصًا ، مرقاۃ ج ۴ ص ۱۹۲ تحت الحدیث ۱۷۱۱) اس کے بعدرحمت ِ عالم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے فرزند حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم رضی اللہ عنہ اور صاحبزادی حضرت سیِّدتُنابی بی زینب رضی اللہ عنہا کو حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن مَظعُون رضی اللہ عنہ کے قریب دفن فرمایا۔ ( طبقاتِ ابن سعد ج ۱ ص ۱۱۳، مسند امام احمد ج ۱ ص ۵۱۱ حدیث ۲۱۲۷) مہاجر صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی کا انتقال ہوتا اور بارگاہِ رسالت میں عرض کی جاتی کہ ہم انہیں کہاں دفن کریں ؟ تو حکم ہوتا: ہمارے پیش رَو(یعنی آگے گزرنے والے) عثمان بن مظعون کے قریب۔( مستدرک ج ۴ ص ۱۹۱ حدیث ۴۹۱۹) حضرت سیِّدتنا اُمِّ علاء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے ہمارے گھرمیں وفات پائی۔انتقال کی رات میں نے خواب میں حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے لئے ایک چشمہ(Spring) دیکھا جس کا پانی رواں دواں تھا۔جب یہ بات میں نے رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بتائی تو ارشادفرمایا: ’’یہ ان کاعمل ہے۔‘‘( بخاری ج ۲ ص ۲۰۸ حدیث ۲۶۸۷) اللہ ربُّ الْعِزَّت کی ان سب پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نبی کے پیارے پیارے حضرتِ عثمان بن مظعون منور بخت والے حضرتِ عثمان بن مظعُون صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد

حجِّ مَبرُور و مقبول عُمرے کا ثواب

رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن مَظْعُون رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے عثمان! جو شخص فجر کی نماز باجماعت ادا کرے پھر طلوعِ آفتاب تک اللہ کا ذکر کرتا رہے اس کے لیے حجِ مبرور اورمقبول عمرہ کا ثواب ہے۔ ( شعب الایمان ج ۷ ص ۱۳۸ حدیث ۹۷۶۲)

حجِ مبرور کون سے حج کو کہتے ہیں ؟

اے عاشقانِ رسول! اِس حدیثِ پاک میں ’’ مبرور حج ‘‘ کا تذکرہ ہے۔ آیئے ! معلوم کرتے ہیں ’’ حج مبرور‘‘سے مراد کون سا حج ہے۔ چنانچہ حضرتِ علامہ عبد الرء وف مُناوی رَحْمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : ’’ حج مبرور‘‘ کا معنٰی ہے: حج مقبول یا وہ حج جس میں کوئی گناہ نہ کیاہو۔ ( ا لتیسیر ج ۲ ص ۱۵۸ ) حکیم الامت مفتی احمد یار خان رَحْمۃُ اللہِ علیہ ایک جگہ تحریر کرتے ہیں :حج مقبول و مبرور وہ ہے جو لڑائی جھگڑے گناہ و ریا سے خالی ہو اور صحیح ادا کیا جائے۔ ( مراٰۃ المناجیح ج ۴ ص ۸۷) ایک اور جگہ تحریر فرماتے ہیں : حج مبرور سے مراد وہ حج ہے جس میں گناہ سے بچا جائے یا وہ حج جس میں ریا و نام و نمود(یعنی دکھاوے) سے پرہیز ہو یا وہ حج جس کے بعد حاجی مرتے وقت تک گناہوں سے بچے،حج برباد کرنے والا کوئی عمل نہ کرے۔ خواجہ حسن بصری ( رَحْمۃُ اللہِ علیہ ) فرماتے ہیں کہ حج مقبول وہ ہے جس کے بعد حاجی دنیا میں زاہد (یعنی بے رغبت) آخرت میں راغب (یعنی مائل)رہے،یا حج مبرور وہ ہے جو حاجی کا دل نرم کردے کہ اس کے دل میں سوز، آنکھوں میں تری رہے۔ حج کرنا آسان ہے حج سنبھالنا مشکل ہے۔ ( مراٰۃ المناجیح ج ۵ ص ۴۴۱) خدا حج مبرور کی دے سعادت مدینے کی کرتا رہوں میں زیارت صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن