30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
پریشان حال ہو کر صُبح کرنے والا کون؟
حضرت سیِّدُناعلّامہ علی قاری رَحْمۃُ اللہِ علیہ حدیثِ پاک کے حصّے:(پھر وہ خوش خوش اور تروتازہو کر صبح کرتا ہے)کے تحت فرماتے ہیں : کیونکہ وہ شیطان کی قید اور غفلت کی چادر سے چھٹکارا پاکر اللہ پاک کی خوشی پانے میں کامیاب ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کے اُلٹ جو شخص رات میں اٹھ کر نہ ذِکْرُاللّٰہ کرتا ہے اور نہ وُضو کرکے نَماز پڑھتا ہے بلکہ شیطان کی فرماں برداری کرتے ہوئے سویا رہتا ہے حتّٰی کہ اس کی فجر کی نماز تک نکل جاتی ہے، تو وہ غمگین دل اوربہت ساری فکروں کے ساتھ اور اپنے کام پورے کرنے کے تعلّق سے حیران وپریشان ہو کر صبح کرتا ہے اور جو کام بھی کرنے کا ارادہ کرتا ہے اُس میں ناکامیاب رہتا ہے کیونکہ وہ اللہ پاک کی نزدیکی سے دورہو کرشیطان کے دھوکے کے جال میں پھنس چکا ہوتا ہے۔ ( مرقاۃ المفاتیح ج ۳ ص ۲۹۵ تا ۲۹۶)
یاالٰہی! فجر میں اٹھنے کا ہم کو شوق دے
سب نمازیں ہم جماعت سے پڑھیں وہ ذوق دے
شیطان نے کان میں پیشاب کردیا ہے
حضرت سیِّدُنا عبدُاللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بارگاہِ رسالت میں ایک شخص کے متعلّق ذِکر کیا گیا کہ وہ صبح تک سوتا رہا اور نماز کے لیے نہ اٹھا توآپ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:’’اس شخص کے کان میں شیطان نے پیشاب کردیا ہے۔‘‘ ( بخاری ج ۱ ص ۳۸۸ حدیث ۱۱۴۴)
فجر کے لئے نہ جاگنا بڑی نحوست ہے
حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان رَحْمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کے حصّے: (نماز کے لیے نہ اٹھا)کے تحت فرماتے ہیں : (یعنی) نماز تہجُّد کے لیے یا نمازِ فجر کے لیے (نہ اٹھا) ، پہلے (یعنی تہجد میں نہ اٹھنے والے) معنی زیادہ مناسب ہیں کیونکہ صحابۂ کرام( عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ) فجر ہرگز قضا نہ کرتے تھے اور ممکن ہے (یہ) کسی منافِق کا واقِعہ ہو جو فجر میں نہ آتا تھا۔ معلوم ہوا کہ نماز ِفجر میں نہ جاگنا بڑی نحوست ہے، نیز کوتاہی کرنے والوں کی شکایت اِصلاح کی غرض سے کرنا جائز ہے، غیبت نہیں ۔ (مراٰۃ المناجیح ج۲ص۲۵۴)
شیطان واقِعی پیشاب کرتا ہے
حضرت علامہ محمد بن احمد انصاری قُرطُبی رَحْمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : یہ بات ثابت ہے کہ شیطان کھاتا، پیتا اور نکاح کرتا ہے تو اگر وہ پیشاب بھی کرلے تو اس میں کیا رُکاوٹ ہے! ( عمدۃ القاری ج ۵ ص ۴۸۳)
شیطان کو بھگائے گی اے بھائیو! نماز
فردوس میں بسائے گی اے بھائیو! نماز
شیطان کا سُرمہ وغیرہ
’’ قُوتُ الْقُلوب ‘‘ میں ہے: شیطان کے پاس سَعُوْط (ناک میں ڈالنے والی کوئی چیز)، لَعُوْق (چاٹنے والی کوئی چیز)اور ذَرُوْر (آنکھ میں ڈالنے والی کوئی چیز) ہے، جب وہ بندے کی ناک میں (سَعُوط) ڈالتا ہے تواس کے اخلاق بُرے ہوجاتے ہیں ،جب(لَعُوق) چٹاتا ہے تواُس کی زبان بُرا بولنے والی ہوجاتی ہے اور جب بندے کی آنکھ میں (ذَرُور) ڈالتا ہے تو رات بھر سویارہتا ہے یہاں تک کہ صُبح ہوجاتی ہے۔ ( قوت القلوب ج ۱ ص ۷۶) (قوت القلوب(اردو) ج۱ص۲۳۷)
فجر کا وقت ہوگیا اُٹھو!
اے غلامانِ مصطَفٰے اُٹھو!
(وسائلِ بخشش (مرمم) ص۶۶۶)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد
تہجُّد یا فَجر کے لئے اُٹھنے کا مَدَنی نُسْخَہ
نمازِ تہجُّد یا فجر میں اُٹھنے کے لئے سوتے وقت پارہ 16، سُوْرَۃُ الْکَھْف کی آخری 4 آیتیں پڑھ لیجئے:
انَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًاۙ(۱۰۷) خٰلِدِیْنَ فِیْهَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا(۱۰۸) قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا(۱۰۹) قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠(۱۱۰) (1)
اور نیّت کیجئے کہ ’’مجھے اِتنے بجے اُٹھنا ہے۔‘‘ اِنْ شَآءَاللہ آیاتِ مبارَکہ پڑھنے کی بَرَکت سے آنکھ کُھل جائے گی۔ اگر شُروع میں آنکھ نہ بھی کھلے تومایوس نہ ہوں ،وظیفہ جاری رکھئے۔ اِنْ شَآءَاللہ آہستہ آہستہ ترکیب بن جائے گی۔
جاگنے کیلئے اَلارمSetکر لیجئے
مقررہ وقت پربیدارہونے کاایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایک بلکہ تین گھڑیوں پر اَلارم (Alarm) لگاکر سوئیں تاکہ کسی وجہ سے ایک بند ہو جائے تو دو گھڑیاں جگانے کیلئے موجود رہیں ۔ موبائل فون میں بھی اَلارم کی سہولت ہوتی ہے۔ اگر رات دیر سے سونے کی وجہ سے نمازِفجر کے لئے آنکھ نہیں کھلتی اور نہ کوئی جگانے والا موجود ہے تو ضَروری ہے کہ جلدی سوئیں کہ فُقَہائے کرام رَحْمۃُ اللہِ علیہِم فرماتے ہیں : ’’جب یہ اَندیشہ ہو کہ صبح کی نماز جاتی رہے گی تو بِلاضَرورتِ شَرْعِیَّہ اسے رات دیر تک جاگنا ممنوع ہے۔‘‘ ( ردالمحتار ج ۲ ص ۳۳)
نیند میں کمی لانے کے طریقے
میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمۃُ اللہِ علیہ نمازِ ظہر کی جماعت سے قبل سونے والے کو مَدَنی پھول دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :’’اچھا ٹھیک دوپہر کے وقت سو ، مگر نہ اتنا کہ وقتِ جماعت آ جائے، تھوڑی سی دیر قیلولہ کافی ہے۔ اگر لمبی نیند سے خوف کرتا ہے تکیہ نہ رکھ، بچھونا نہ بچھا، کہ بے تکیہ وبے بستر سونا بھی مسنون(یعنی سنت) ہے۔ سوتے وقت دِل کو خیالِ جماعت سے خوب لگا ہوا رکھ کہ فکر (Tension) کی نیند غافِل نہیں ہونے دیتی، کھانا جس قدر ہو سکے صبح سویرے کھا کہ سونے کے وقت تک کھانے کے سبب اُٹھنے والی گرمی دور ہو جائے اور لمبی نیند کا سبب نہ بنے۔ سب سے بہتر علاج کم کھانا ہے۔ سوتے وقت اللہ پاک سے توفیق جماعت کی دعا اور اس پرسچا توکل (یعنی بھروسا) رکھ۔ اللہ کریم جب تیری اچھی نیت اورسچا ارادہ دیکھے گا (تو)ضرور تیری مدد فرمائے گا۔‘‘ ایک جگہ فرماتے ہیں : پیٹ بھر کر رات کی عبادت کا شوق رکھنا بانجھ (یعنی جو عورت بچہ نہیں جنتی اُس ) سے بچہ مانگنا ہے، جو بہت کھائے گا (وہ) بہت پئے گا، جو بہت پئے گا (وہ) بہت سوئے گا، جو بہت سوئے گا(وہ) آپ ہی یہ بھلائیاں اور برکتیں کھوئے گا۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۷ص۸۸تا۹۰ تسہیلاً )
اللہ ، اللہ کے نبی سے فریاد ہے نَفس کی بدی سے
شب بھر سونے ہی سے غرض تھی تاروں نے ہزار دانت پیسے
(حدائقِ بخشش ص۱۴۵)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد
گویا ساری رات عبادت کی
حضرتِ سیِّدُناعثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ا رشاد فرمایا:’’ جونمازِعشا جماعت سے پڑھے گویا(یعنی جیسے)اُس نے آدھی رات قیام کیا اور جو فجر جماعت سے پڑھے گویا (یعنی جیسے) اس نے پوری رات قیام کیا۔‘‘ ( مسلم ص ۲۵۸ حدیث ۱۴۹۱)
شرْحِ حدیثَ
حضرت مفتی احمد یار خان رَحْمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : اس کے دومطلب ہوسکتے ہیں : ایک یہ کہ عشا کی باجماعت نماز کا ثواب آدھی رات کی عبادت کے برابر ہے اورفجرکی باجماعت نمازکا ثواب باقی آدھی رات کی عبادت کے برابر،تو جو یہ دونوں نمازیں جماعت سے پڑھ لے اسے ساری رات عبادت کاثواب۔دوسرے یہ کہ عشا کی جماعت کا ثواب آدھی رات کے برابرہے اورفجرکی جماعت کا ثواب ساری رات عبادت کے برابر، کیونکہ یہ(یعنی فجر کی) جماعت عشا کی جماعت سے زیادہ بھاری (یعنی نفس پر بوجھ)ہے،پہلے معنیٰ زیادہ قوی (یعنی زیادہ مضبوط ) ہیں ۔ جماعت سے مراد تکبیر اولیٰ پاناہے جیسا کہ بعض عُلَما نے فرمایا۔(مراٰۃ المناجیح ج۱ص۳۹۶)بہارِ شریعت جلد اوّل صفحہ 509 پر ہے: پہلی رکعت کا رکوع مل گیا، تو تکبیر اولیٰ کی فضیلت پا گیا۔ ( عالمگیری ج ۱ ص ۶۹)
1 ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے فِردوس کے باغ اُن کی مہمانی ہے، وہ ہمیشہ اُن میں رہیں گے ان سے جگہ بدلنا نہ چاہیں گے۔ تم فرمادو! اگر سَمُندر میرے ربّ کی باتوں کے لیے سیاہی ہو توضَرور سَمُندر ختم ہو جائے گا اورمیرے ربّ کی باتیں ختم نہ ہوں گی، اگرچہ ہم ویسا ہی اوراس کی مدد کو لے آئیں۔ تم فرماؤ! ظاہر صورتِ بَشَری میں تومیں تم جیسا ہوں مجھے وحی آتی ہے، کہ تمہارامعبود ایک ہی معبود ہے۔ تو جسے اپنے ربّ سے ملنے کی اُمّید ہو اُسے چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے ربّ کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع