30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
حضرت امیر معاویہ داتا حُضُور کی نظر میں
حضرت سیِّدُنا داتا گنج بخش علی ہجویریرَحْمَۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : حضرت سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو حضرت سیّدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ سے ایسی محبت تھی کہ آپ کو قیمتی نذرانے پیش کرنے کے باوجود ان سے معذرت چاہتے ہوئے فرمایا کرتے: ’’فی الحال میں آپرضی اللہ عنہ کی صحیح خدمت نہیں کرسکا، آیندہ مزید نذرانہ پیش کروں گا۔‘‘ (کشف المحجوب ص ۷۷ ماخوذاً )(فیضان امیر معاویہ ص ۱۹۳)
نذرانہ ان کا لیتے تھے حسنین شوق سے
دیتے تھے واپسی پہ سلامِ معاویہ
حضرت امیر معاویہ مجدد اَلفِ ثانی کی نظر میں
کروڑوں نقشبندیوں کے عظیم پیشوا،حضرت امام مجدد اَلف ِ ثانیرَحْمَۃُ اللہِ علیہ کا فرمانِ عالی ہے: حضرت سیّدنا امیرمعاوِیہرضی اللہ عنہ حُقُوقُ اللّٰہ (یعنیاللّٰہ پاک کے حق )اورحُقُوقُ الْعِباد (یعنی بندوں کے حق) ادا کرنے میں خلیفۂ عادِل ہیں ۔ (مکتوبات امام ربانی مکتوب دوصد وپنجاہ ویکم ج ۱ص ۵۸)(فیضان امیر معاویہ ص ۱۹۱)
حضرت امیر معاویہ امام نَووی کی نظر میں
شارِحِ مسلم،حضرت سیّدنا امام شرفُ الدین نووی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : حضرت سیّدناامیرمعاوِیہ رضی اللہ عنہ کا شمار عادِل (یعنی انصاف کرنے والے)، صاحب ِفضیلت اور ممتاز صفات کے حامل(یعنی نمایاں خوبیوں والے) صحابہ میں ہوتا ہے۔ (شرح مسلم للنووی ج ۸ جزء ۱۵ص ۱۴۹)(فیضان امیرِ معاویہ ص ۱۹۱)
حضرت امیر مُعاوِیہ ابراہیم بن مَیْسَرَہ کی نظر میں
حضرت سیّدنا ابراہیم بن مَیْسَرَہرَحْمَۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ حضرت سیّدنا عمر بن عبدالعزیزرَحْمَۃُ اللہِ علیہ نے اپنے دورِ حکومت میں حضرت سیّدنا امیر معاویہرضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے والے کے علاوہ کسی اور کو بھی کوڑے لگائے ہوں ۔ (شرح اصول اعتقاد اھل السنّۃ ج ۲ص ۱۰۸۴رقم ۲۳۸۵)(فیضان امیر معاویہ ص ۱۹۰)
حضرت امیر معاویہ شِہابُ الدّین خَفَاجی کی نظر میں
شارِح شِفا شریف حضرت علامہ شِہابُ الدین خفاجی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : جو حضرت سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے (یعنی بُرا بھلا کہے) وہ جہنَّم کے کتوں میں سے ایک کُتّا ہے ۔ (نسیم الریاض ج ۴ص ۵۲۵)
حضرت امیر معاویہ امامِ اہلسنّت کی نظر میں
اعلیٰ حضرت امام رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : بالجملہ ہم اہلِ حق کے نزدیک حضرت امام بخاری کو حضور پر نور امام اعظم سے وہی نسبت ہے جو حضرت امیر معاویہ کو حضور پر نور امیر المؤمنین مولی المسلمین سید نا و مولانا علی المرتضیٰکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے ہے، کہ ان میں فرقِ مراتب بے شمار اور حق بدست ِ حیدرِ کرار، مگر معاوِیہ بھی ہمارے سردار، طعن اُن پر بھی کارِ فجار۔ (فتاوٰی رضویہ ج۱۰ ص۲۰۱) خلاصہ یہ ہے کہ یقینا حضرت سیِّدُنا مولیٰ علی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم حضرت سیِّدُنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بہت زیادہ فضیلت رکھتے ہیں ، مگر حضرتِ معاوِیہ بھی ہمارے سردار ہیں ، لہٰذا ان کو برا بھلا کہنا بے حیا فاسق لوگوں کا کام ہے۔
یہ ہے رضاؔ کا فیض کہ راشدؔ کے ہاتھ میں
حب علی کی مے ہے تو جامِ معاویہ
حضرت امیر معاویہ صدرُ الشَّریعہ کی نظر میں
صَدْرالشریعہ مفتی محمد امجدعلی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اوّل ملوکِ اسلام (یعنی پہلے بادشاہِ اسلام) ہیں ، اسی کی طرف توراتِ مقدّس میں اشارہ ہے کہ:مَوْلِدُہٗ بِمَکَّۃَ وَمُھَاجَرُہٗ بِطَیْبَۃَ وَمُلْکُہٗ بِالشَّامِ ۔ یعنی’’وہ نبیِّ آخِرُ الزَّماں (یعنی آخری نبی صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) مکے میں پیدا ہوگا اور مدینے کو ہجرت فرمائے گا اور اس کی سلطنت(مُلکِ) شام میں ہوگی۔‘‘ تو امیرمُعاوِیہ کی بادشاہی اگرچِہ سلطنت ہے، مگر کس کی!مُحَمَّدٌ رَّسولُ اللّٰہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سلطنت ہے۔ (بہارشریعت ج۱ص۲۵۸)(فیضان امیر معاویہ ص ۱۹۸)
خائف ِ کبریا حضرتِ مُعاوِیہ عاشقِ مصطَفٰے حضرتِ مُعاوِیہ
زاہد و پارسا حضرتِ مُعاوِیہ صاحب ِ اِتِّقا حضرتِ مُعاوِیہ
ہو کر م ہو عطا حضرتِ مُعاوِیہ خاتِمہ ہو بھلا حضرتِ مُعاوِیہ
خوب رُو خوش ادا حضرتِ مُعاوِیہ خوش نما خوش لِقا حضرتِ مُعاوِیہ
مخلِص و باوفا حضرتِ مُعاوِیہ باعمل بے ریا حضرتِ مُعاوِیہ
ہم دمِ باوفا حضرتِ مُعاوِیہ باادب باحیا حضرتِ مُعاوِیہ
جنّتی بے شُبہ حضرتِ مُعاوِیہ باخدا باصَفا حضرتِ مُعاوِیہ
اللّٰہُ ربُّ الْعِزَّت کی ان پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔اٰمِین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ان کو بھی رونا آگیا
اے عاشقانِ رسول ! اسلامی معلومات بڑھانے، خوفِ خدا وعشقِ مصطَفٰے پانے، محبت صحابہ و اہلِ بیت سے دلوں کو چمکانے اور خود پر سنتوں کا مدنی رنگ چڑھانے کیلئے عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک، ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کے قافلوں میں سفر کیجئے۔ مَدَنی بہار: صوبہ خیبر پختون خواہ کے شہرڈیرہ اسماعیل خان کے مقیم اسلامی بھائی نے اپنی زندگی کا ایک بہت بڑاحصہ علم ِ دین سے دوری میں گزاردیا۔ ایک دن قریبی گاؤں سے ایک مبلغ دعوتِ اسلامی ان کے گاؤں میں تشریف لائے اوربعد ِمغرب انہوں نے سنتوں بھرا بیان کیا۔ بیان کے آخر میں دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی ترغیب بھی دلائی۔ انہوں نے اس وقت تو نیت کر لی مگر اجتماع میں شریک نہ ہوسکے کیونکہ دعوتِ اسلامی کامدنی مرکزان کے گاؤں سے کافی دور تھا اوران کے سا تھ کوئی دوسرا جانے والا بھی نہ تھا۔ اگلے ہفتے وہی مبلغ پھرتشریف لائے اور مغرب کی نماز پڑھ کر سنتوں بھرا بیان کیا۔ ایک ماہ یونہی گزر گیا لیکن یہ اجتماع میں شرکت نہ کرسکے۔اب کی بار وہی مبلغ دعوتِ اِسلامی مَدَنی قافلے کے ہمراہ ان کے گاؤں میں تشریف لائے اور انفرادی کوشش کے ذریعے ان سمیت تین چار اسلامی بھائیوں کو اجتماع کے لئے تیار کر لیا۔ اس مرتبہ انہوں نے اپنی نیت پر عمل کیا اورہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں جاپہنچے۔ سنتوں بھرے بیان کے بعد ذِکر و دُعا ہوئی دورانِ دُعا رقت انگیز منظردیکھنے کوملا کہ اجتماع کے شرکا روروکر دُعا مانگ رہے تھے۔ ــ’’صحبت اثر رکھتی ہے‘‘کے مصداق اس رقت انگیز منظر کودیکھ کران کو بھی رونا آگیا۔اجتماع کی برکات ہاتھوں ہاتھ ظاہر ہوئیں کہ ایک عاشقِ رسول کے ترغیب دلانے پرانہوں نے مَدَنی قافلے میں سفر کی نیت کر لی۔ کوئی ساتھ دینے والا نہیں ملا تواگلے ہفتہ وار اجتماع میں اکیلے ہی پہنچ گئے اوراگلی صبح مَدَنی قافلے کے مسافر بن گئے۔ مَدَنی قافلے میں سفر کرنے کی بر کت سے ان کی نماز،وضواور غسل میں پائی جانے والی بعض غلطیاں دورہوئیں اور انہوں نے کچھ دعائیں بھی سیکھ لیں ۔ مزید یہ کہ مَدَنی قافلے کی برکت سے گناہوں سے توبہ کرکے اپنے آپ کو مدنی رنگ میں رنگ لیا۔ جب یہ مَدَنی قافلے سے گھر پلٹے توان کے سر پر عمامے کا تاج جگمگارہاتھا۔ گاؤں کے لوگ یہ سب کچھ دیکھ کر حیران تھے کہ اتنی جلدی ان میں یہ تبدیلی کیسے آگئی! انہوں نے ہمت کرکے مسجد میں ’’فیضانِ سنت‘‘ کا درس بھی شروع کردیا۔
درسِ فیضانِ سنت کی برکت سے تین اوراسلامی بھائیوں نے بھی اپنے سَرپرسبزسبزعمامہ کاتاج سجالیااور ان کے گاؤں میں بھی مدنی کاموں کا سلسلہ چل پڑا ۔
چاہو گر بَرَکتیں قافِلے میں چلو
پاؤگے عظمتیں قافِلے میں چلو
(وسائلِ بخشش (مُرَمَّم)ص ۶۶۹)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب صلَّی اللہُ علٰی محمَّد
{۳۸}جاگتے رہنے کے عجیب نُسخے
تابعی بُزرگ حضرتِ سیِّدُناصَفْوَان بن سُلَیْم رَحْمَۃُ اللہِ علیہ کی پنڈلیاں (Calves) نماز میں زیادہ دیر تک کھڑے رہنے کی وجہ سے سوج گئی تھیں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ علیہ کی عبادت کی کثرت کا عالم یہ تھا کہ اگر آپ سے کہہ دیا جاتا کہ کل قِیامت ہے(اس لئے عبادت مزید بڑھا دیجئے) تب بھی کچھ بڑھا نہ سکتے (کیوں کہ آپ کے پاس عبادت بڑھانے کے لئے وقت کی گنجائش ہی نہ تھی)۔ جب سردی کا موسِم آتا تو مکان کی چھت پرنماز پڑھتے تاکہ سردی جگائے رکھے اورجب گرمیوں کا موسِم آتا تو کمرے کے اندرنماز پڑھتے تاکہ گرمی اورتکلیف کے سبب سونہ سکیں اور ساری رات عبادت میں گزار دیتے۔ آپ کا انتقالِ باکمال بھی سجدے کی حالت ہی میں ہوا۔ آپ دعا کیا کرتے تھے: ’’اےاللّٰہ پاک! میں تیری ملاقات کو پسند کرتا ہوں توبھی میری ملاقات کو پسند فرمانا۔‘‘ (احیاء العلوم ج ۵ص ۱۴۷)(احیاء العلوم (اردو )ج ۵ص ۳۷۳)
{۳۹}پانی میں غوطے کے ذریعے نیند کا علاج
حضرت ابراہیم بن حاکم رَحْمَۃُ اللہِ علیہ کا قول ہے: میرے والد محترم کو جب نیند آنے لگتی تو وہ دریا کے اندر تشریف لے جاتے اوراللّٰہ کی تسبیح کرنے لگتے جسے سن کر دریا کی مچھلیاں اکٹھی ہوجاتیں اور وہ بھی تسبیح کرنے لگتیں۔ (مکاشفۃ القلوب (اردو )ص ۸۴)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع