30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اگر زکوٰۃ دیتے وقت کوئی شرط لگا دی مثلاً یہاں رہوگے تو دیتا ہوں ورنہ نہیں ، یا اس شرط پر زکوٰۃ دیتا ہوں کہ فلاں کام مثلاً تعمیر مسجد یا مدرسہ میں صرف کرو تو لینے والے پر اس شرط کی پابندی ضروری نہیں زکوٰۃ ادا ہوجائے گی کیونکہ زکوٰۃ ایک صدقہ ہے اور صدقہ شرطِ فاسد سے فاسد نہیں ہوتا۔(ماخوذ از الدرالمختارو در المحتار ، کتاب الزکوٰۃ ، باب المصرف، ص۳، ص۳۴۳)
زکوٰۃ کی رقم تجارت میں لگاکر اس کا نفع غریبوں میں تقسیم کرنا کیسا؟
اگر سال پورا ہو چکا ہے تو زکوٰۃ کی رقم اس کے مستحق کو دینے کی بجائے تجارت میں لگانا حرام ہے ۔ ہاں اگر کوئی سال پورا ہونے سے پہلے اس نیت کے ساتھ اپنی زکوٰۃ کی رقم کاروبار میں لگائے کہ سال تمام ہونے پر یہ رقم اس کے منافع سمیت فقراء کو دے دوں گا تو یہ نیت بہت اچھی ہے ۔(فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجہ ، ج۱۰، ص۱۵۹ملخصاً)
مال ِ زکوٰۃ سے کوئی چیز خرید کر وقف نہیں کی جاسکتی اس لئے کہ مال ِ زکوٰۃ سے وقف ممکن نہیں کیونکہ وقف کسی کی ملکیت نہیں ہوتا اور زکوٰۃ ادا کرنے کے لئے مالک بنانا شرط ہے ۔ اس کی تدبیر، یوں کی جاسکتی ہے کہ کسی مصرف زکوٰۃ کو زکوٰۃ دیں پھر وہ اپنی طرف سے کتابیں وغیرہ خرید کر وقف کردے ۔ (فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجہ ، ج۱۰، ص۲۵۵)
اگر زکوٰۃ پیشگی ادا کرنی ہوتو دوسرے شہر بھیجنا مطلقاً جائز ہے اور اگر سال پورا ہوچکا ہے تو دوسرے شہر بھیجنا مکروہ ، ہاں اگر وہاں کو ئی رشتہ دارہو یاکوئی شخص زیادہ محتاج ہو یا کوئی نیک متقی شخص ہو یا وہاں بھیجنے میں مسلمانوں کا زیادہ فائدہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔درمختا ر میں ہے : ’’زکوٰۃ کو دوسری جگہ منتقل کرنا مکروہ ہے ، ہاں ایسی صورت میں مکروہ نہیں جب دوسری جگہ کوئی رشتہ دار ہو یا کوئی زیادہ محتاج ہو یا نیک متقی شخص ہو یا اس میں مسلمانوں کا زیادہ فائدہ ہو یا سال سے پہلے جلدی زکوٰۃ دینا چاہتا ہو۔‘‘(ماخوذاز الدرالمختارو در المحتار ، کتاب الزکوٰۃ ، باب المصرف مطلب فی الحوائج ج۳، ص۲۵۵)
بینک سے زکوٰۃ کی کٹوتی کی صورت میں ادائیگی زکوٰۃ کی شرائط پوری نہیں ہوپاتیں مثلاً مالک بنانا ، کہ زیادہ روپیہ ایسی جگہ خرچ کیا جاتا ہے جہاں کوئی مالک نہیں ہوتا، لہٰذا زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔(وقار الفتاویٰ ، ج۲، ص۴۱۴ ملخصاً) لہٰذا شرعی احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اپنی زکوٰۃ شریعت کے مطابق خُود ادا کی جائے ۔
امیرِ اہلسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنی کتاب ’’اسلامی بہنوں کی نماز ‘‘ صفحہ 166پر لکھتے ہیں : حیلۂ شَرعی کا جواز قرآن و حدیث اورفِقہِ حنفی کی مُعتَبر کُتُب میں موجود ہے ۔ چنانچہِ حضرتِ سیِّدُنا ایّوب عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی بیماری کے زمانے میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی زوجۂ محترمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ایک بار خدمتِ سراپا عظمت میں تاخیر سے حاضِر ہوئیں تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے قسم کھائی کہ ’’میں تندرست ہو کر 100 کوڑے ماروں گا‘‘ صِحت یاب ہونے پر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں 100 تِیلیوں کی جھاڑو مارنے کا حکم ارشاد فرمایا ۔ چُنانچہِ قرآنِ پاک میں ہے :
وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْؕ- (پ ۲۳، صٓ : ۴۴)
ترجَمۂ کنزالایمان : اور فرمایا کہ اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اِس سے مار دے اور قسم نہ توڑ۔
’’فتاوٰی عالمگیری ‘‘ میں حِیلوں کاایک مُستقِل باب ہے جس کا نام ’’کتابُ الحِیَل‘‘ ہے چُنانچِہ ’’ عالمگیری کتابُ الحِیَل‘‘ میں ہے ، ’’ جو حِیلہ کسی کا حق مارنے یا اس میں شُبہ پیدا کرنے یا باطِل سے فَریب دینے کیلئے کیا جائے وہ مکروہ ہے اور جوحِیلہ اس لئے کیا جائے کہ آدَمی حرام سے بچ جائے یا حلال کو حاصِل کر لے وہ اچّھا ہے ۔ اس قسم کے حیلوں کے جائز ہونے کی دلیل اللہعَزَّوَجَلَّ کا یہ فر مان ہے :
وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْؕ- (پ ۲۳، صٓ : ۴۴)
ترجَمۂ کنزالایمان : اور فرمایاکہ اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے مار دے اور قسم نہ توڑ۔ (الفتاوٰی الھندیۃ ، کتاب الحیل ، ج۶، ص۳۹۰)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع