30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
ملے ان کے لئے حلال ہے ، انہیں زکوٰۃ دی تو ادا ہوجائے گی ۔(ماخوذ از فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجَہ، ج۱۰، ص۲۵۳)
اگر مدرسہ یا جامعہ اہلِ حق کا ہے بدمذہبوں کا نہیں تو اس میں مالِ زکوٰۃ اس شرط پر دیا جاسکتا ہے کہ مُہْتَمِم (ناظم) اس مال کو جدا رکھے اور محض تملیک ِ فقیر میں صرف کرے مثلاً طَلَبہ کو بطورِ امداد جو وظیفہ دیا جاتا ہے اس میں دے یا کتابیں یا کپڑے خرید کر طلبہ کو ان کا مالک بنا دے یا بیمار ہونے کی صورت میں دوائی خرید کر انہیں اس کا مالک بنا دے ۔ مدرسین یا دیگر عملے کی تنخواہ اس مال سے نہیں دی جاسکتی کیونکہ تنخواہ معاوضۂ عمل ہے اور زکوٰۃ خالصاً اللہ تعالیٰ کے لئے ہے ، اور نہ ہی تعمیرات وغیرہ میں استعمال کی جاسکتی ہے اور نہ ہی طلبہ کے لئے پکائے گئے کھانے میں استعمال ہوسکتی ہے کیونکہ یہ کھانا انہیں بطورِ اِباحت کھلایا جاتا ہے مالک نہیں بنایا جاتا ہے لیکن اگر کھانا دے کر انہیں مالک بنادیا جائے تو دُرُست ہے ۔ ہاں ! اگرزکوٰۃ کا روپیہ بنیت زکوٰۃ کسی مصرف ِ زکوٰۃ کو دے کر اسے اس کا مالک بنا دیں پھر وہ اپنی طرف سے مدرسہ یا جامعہ کو دے دے تو اب یہ رقم تنخواہِ مدرسین اور تعمیرات وغیرہ میں استعمال ہوسکتی ہے ۔ (ماخوذ از فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجَہ، ج۱۰، ص۲۵۴)
بہت سے اسلامی بھائی مالِ زکوٰۃ مدارس وجامعات میں بھیج دیتے ہیں ان کو چاہیے کہ مدرسہ کے مُتَوَلِّی کو اطلاع دیں کہ یہ مالِ زکوٰۃ ہے تاکہ متولّی اس مال کو جُدا رکھے اور مال میں نہ ملائے اور غریب طلبہ پر صَرف کرے ، کسی کام کی اُجرت میں نہ دے ورنہ زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔
ایک ہی شخص کو ساری زکوٰۃ دے دینا
زکوٰۃ دینے والے کو اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو مالِ زکوٰۃ تمام مصارفِ زکوٰۃ میں تھوڑا تھوڑا تقسیم کردے اور اگر چاہے تو کسی ایک کو ہی دے دے ۔اگربطورِ زکوٰۃ دیا جانے والا مال بقدرِنصاب نہ ہوتو ایک ہی شخص کو دے دینا افضل ہے اور اگر بقدرِ نصاب ہو تو ایک ہی شخص کو دے دینا مکروہ ہے لیکن زکوٰۃ بہرحال ادا ہوجائے گی ۔ ایک شخص کو بقدرِ نصاب دینا مکروہ اُس وقت ہے کہ وہ فقیر مدیُون نہ ہو اور مدیُون ہو تو اتنا دے دینا کہ دَین نکال کر کچھ نہ بچے یا نصاب سے کم بچے مکروہ نہیں۔ یونہی اگر وہ فقیر بال بچوں والا ہے کہ اگرچہ نصاب یا زیادہ ہے ، مگر اہل و عیال پر تقسیم کریں تو سب کو نصاب سے کم ملتا ہے تو اس صورت میں بھی حرج نہیں۔ (الفتاوی الھندیۃ، کتاب الزکوٰۃ، الباب السابع فی المصارف ، ج۱، ص۱۸۸، ملخصاً)
ایک شخص کو کتنی زکوٰۃدینا مستحب ہے
مستحب یہ ہے کہ ایک شخص کو اتنا دیں کہ اُس دن اُسے سوال کی حاجت نہ پڑے اور یہ اُس فقیر کی حالت کے اعتبار سے مختلف ہے ، اُس کے کھانے بال بچوں کی کثرت اور دیگر امور کا لحاظ کرکے دے ۔(الدرالمختار و’ردالمحتار، کتاب الزکاۃ، باب المصرف، مطلب في حوائج الأصلیۃ، ج۳، ص۳۵۸)
اگر بہن بھائی غریب ہوں تو پہلے ان کا حق ہے ، پھر ان کی اولاد کا پھر چچا اور پھوپھیوں کا ، پھر ان کی اولاد کا ، پھر ماموؤں اور خالاؤں کا ، پھر ان کی اولاد کا ، پھر ذَوِی الْاَرْحَام( وہ رشتہ دار جو ما ں ، بہن ، بیوی یالڑکیوں کی طرف سے منسوب ہوں ) کا ، پھر پڑوسیوں کا ، پھر اپنے اہل ِ پیشہ کا ، پھر اہل ِ شہر کا (یعنی جہاں اس کا مال ہو ) ۔
(الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب الزکوٰۃ ، الباب السابع فی المصارف ، ص۱۹۰)
زکوٰۃ قریبی رشتہ دار کو دینا افضل ہے مگر سید کس کو دے کیونکہ اس کا قریبی رشتہ دار بھی تو سید ہوگا ؟اس کا جواب دیتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن لکھتے ہیں : بے شک زکوٰۃ اور دیگر صدقات اپنے قریبی رشتہ داروں کو دینا افضل ہے اور اس میں دوگنا اجر ہے لیکن یہ اسی صورت میں ہے کہ وہ صدقہ قریبی رشتہ داروں کو دینا جائز بھی ہو ۔(فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجہ ، ج۱۰، ص۲۸۷)
کیابہت ساری کتابوں کا مالک زکوٰۃ لے سکتا ہے ؟
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع